حضرت مولانا محمد قاسم مظاہری سہارنپوری

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولانا محمد قاسم مظاہری سہارنپوریؒ
ناصر الدین مظاہری
ہندوستان جنت نشان کاایک لعل بدخشاں،علم وروحانیت اور سلوک ومعرفت کا کوہ ہمالہ،تفسیروحدیث اوراحسان وعزیمت کاحسین وجمیل سنگم،اپنی زرخیزی وشادابی،اپنی رعنائی وزیبائی،اپنی دلفریبی وجاذبیت میں ممتازمقام کا حامل تعلیمی وتربیتی ادارہ مظاہرعلوم سہارنپورنے نہ جانے کتنے لعل وگہرپیداکئے،کتنے ہی اکابراہل اللہ دئے،کتنے ہی مفسرین قرآن اور محدثین عظام پیداکئے،رجال سازی اور مردان کارکی اس فیکٹری نے دنیاکو وہ سب کچھ دیا جس کی اس نے توقع اور امیدباندھی،واعظین ومناظرین،محدثین ومفسرین،مقررین ومصنفین، مدرسین ومبلغین ہرفن اور ہر میدان کے ماہرین سے امت کو مالامال کیا۔
رجال سازی کی اس فیکٹری نے کبھی بھی خراب اور خام مال پیدانہیں کیا،دنیاکو جب کسی متخصص کی ضرورت پڑی اس نے اپنے فرزندحاضر کردئے،جب کبھی کو ئی نیافتنہ پیداہوااس کے فضلاء اور فارغین نے اس کا فوراً تعاقب کیا،اسلام دشمن تحریکات اٹھیں تو علماء مظاہرعلوم کو اپنے مقابلہ کیلئے پہلے سے تیارپایا،کبھی کسی دشمن اسلام نے اپنی ناپاک زبان سے اسلام اور شارع اسلام کو غلط طریقہ سے یادکیاتواس آسمان علم وفضل کے بادل پوری قوت وطاقت سے برسے چنانچہ آج برصغیرہندوپاک میں اسلام کی جو شبیہ محفوظ ہے اور مسلمانوںکو جو امتیازوتشخص حاصل ہے بلا شبہ اس میں اس ادارہ کا بڑااہم رول اورنمایاں کردارہے۔
اس ادارہ کا یہ ایک وطیرہ اور امتیاز رہا ہے کہ یہاں سے اپنی خدمات کی پبلسٹی اور اس کا تعارف بہت کم کرایاگیاہے اور تعارف ان کے پیش نظررہابھی نہیں،سادگی اورخلوص کے ساتھ اپنے کام میں لگے رہنا اور کام کو مکمل کرناہی ان کی دھن اور ان کا مرکزومحوررہاہے،انہوں نے گرجنے سے زیادہ برسنے پر اپنی توجہات مرکوز کیں اور عنداللہ یہی چیز مطلو ب بھی ہے۔
مظاہرعلوم سہارنپورکے اساتذہ ومحرکین اور اس کی جڑوں کو اپنے خون اور فکرسے پروان چڑھانے والوں میں ایک بڑی تعدادہے جن کو دنیاجانتی تک نہیں کہ یہ کون تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہی حضرات اس ادارہ کے عروج واستحکام میں ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوئے ،انھیں کے اخلاص کی برکت سے آج یہ ادارہ پوری شان اور مکمل آن بان سے قائم ہے،ایسے لوگوں کی طویل فہرست ہے۔
جن میں
خودبانی مظاہرعلوم حضرت مولاناسعادت علی فقیہ سہارنپوریؒ،اولین استاذ حضرت مولاناسخاوت علی انبہٹویؒ،اولین طالب علم حضرت حافظ قمرالدین اور حضرت مولاناعنایت الٰہیؒ، روحانی بزرگ حضرت مولاناامیربازخان سہارنپوریؒ،حضرت قاضی فضل الرحمن سہارنپوریؒ،حضرت حافظ فضل حق سہارنپوریؒ،حضرت مولاناجمعیت علی پورقاضویؒ، حضرت مولاناعبداللطیف پورقاضویؒ،حضرت مولاناسیدصدیق احمدکشمیریؒ، حضرت مولاناقاری محمدسلیمان دیوبندیؒ،حضرت مولاناسیدظریف احمدپورقاضویؒ، حضرت مولاناسیدظہورالحق دیوبندی ؒ، حضرت مولانامنظوراحمدخان سہارنپوریؒ، حضرت مولاناسیدظہورالحسن کسولویؒ، حضرت مولانامفتی سعیداحمد اجراڑویؒ، حضرت مولاناعلامہ محمدیامین سہارنپوریؒ ۔
یہ وہ ہستیاں ہیں جن کے وجودباجود اوران کے فکروعمل کی خوشبوسے ٓاج اس ادارہ کو چاردانگ عالم میں قبولیت وشہرت حاصل ہوئی ہے لیکن ان حضرات کی نہ تو سوانح حیات لکھی گئیں نہ ان کے علمی وعملی کارناموں کو قلمبندکیاگیا،نہ ان ستودہ شخصیات پر خصوصی کانفرنسیں منعقدکی گئیں اور نہ ہی ان حضرات نے کبھی اس سلسلہ میں توجہ کی،یہی وجہ ہے کہ یہ حضرات آج عظیم الشان علمی جلالتوں اور روحانی بلندیوں کے باوجودگمنامی میں چلے گئے۔
یہ دنیابڑی بے رحم ہے یہاں دوام اور استمرارتو خیرکسی کو حاصل نہیں ہوسکتا، موت اور فنائیت تو سبھی پر طاری ہونی ہے لیکن بعض اموات دل ودماغ پر اپنے گہرے اثرات اور نقوش چھوڑجاتی ہیں،زمانہ اتنی سرعت اور برق رفتاری سے رواں دواں ہے کہ محسوس ہی نہیں ہوتاکب سال گیا،کب مہینہ گزرا،کب ہفتہ آیا اور کب دن گیا،کب رات آئی،کب سورج ٹوبااورکب رات آئی؟وقت کی اسی بے برکتی اورسرعت وتیزی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قیامت قائم نہ ہوگی جب تک زمانے آپس میں قریب نہ ہوجائیں۔پس سال مہینہ کے برابرہوجائے گا،اور مہینہ جمعہ(یعنی ہفتہ)کے برابراور ہفتہ ایک دن کے برابراور دن اس وقت ایک گھنٹہ کے برابر ہوگا۔اورگھنٹہ شعلہ اٹھنے کے برابر(یعنی آگ کی چمک جو فوراً بجھ جائے)‘‘۔(مشکوٰۃ)
لگتاہے ابھی کل کی بات ہے راقم الحروف مدرسہ مظاہرعلوم میں زیرتعلیم ہے ، اکابراہل اللہ کا ایک کارواں موجودہے،چاروں طرف روح اور روحانیت کا بول بالاہے ۔
حضرت مولاناعلامہ رفیق احمدبھینسانویؒ کے علوم ومعارف،ان کی تقریر وصلاحیت اور ان کے کرداروگفتارکے چرچے زبان زدہیں۔
حضرت مولاناعلامہ عشیق احمدؒاپنی عربی دانی،عربی تحریرکی عمدگی،منطق وفلسفہ،بلاغت وبدیع،ہیئت واقلیدس اورتفسیروحدیث جیسے خشک موضوعات پرمکمل درک اور بصیرت کے ساتھ مسندحدیث پر جلوہ افروزہیں۔
شرح جامی اور سلم العلوم کو اس کے مزاج اور معیارکے مطابق اگر مظاہرعلوم میں مقبولیت حاصل ہے، دارالعلوم سے بھی بہت سے طلبہ ان کتابوں میں حاضری اور استفادہ کو اپنی خوش بختی اور سعادت مندی سمجھتے ہیں تو بلاکسی مبالغہ کے یہ حضرت مولاناعلامہ محمدیامینؒ کے فکروسوزاور کتابی لیاقت وصلاحیت پردال ہے۔
(جاری)
 
Last edited by a moderator:

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولانامحمدقاسم سہارنپوری​
ناصرالدین مظاہری
ایک اور شخصیت بھی اپنی طرف متوجہ کررہی ہے انھیں بھی اپنے فن میں ماہراور یکتاکہاجائے تو بے جانہ ہوگا،تعبیرات کاعلم بھی رکھتے ہیں،تاریخی نام نکالنے میں بھی مہارت ہے،نہ کو ئی بیٹاہے نہ بیٹی،نہ کوئی گھر ہے نہ در،بلکہ سرے سے شادی ہی نہیں کی،کوئی عزیز وقریب بھی نظرنہیں آتا،مدرسہ ہی ان کا گھر ہے اور مدرسہ ہی ان کادربار،فراغت کے بعدسے اسی چہاردیواری میں پڑھانا شروع کیا اور یہ بابرکت سلسلہ اس وقت تک رہاکہ زندگی ہی سے فارغ ہوگئے،فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفرحسینؒ کے رفیق درس بھی ہیں،خاموش اور سادگی پسند بھی،طلبہ کے لئے نہایت نرم اور اصول کے معاملہ میں اچھے خاصے گرم،حضرت مفتی مظفرحسینؒ جیساعلم وفن کا شناورجس کے آگے اچھے اچھوں کی بولتی بندہوجاتی تھی،جن کے رعب سے مرعوب ہوکر ہم طلبہ اپنی درخواست اور اس کا مفہوم ہی بھول جاتے تھے،جن کے ابرکرم اور نظرگرم کودیکھنے کی تاب بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے لیکن عجیب بات ہے وہی مفتی صاحبؒ جو کسی کاہدیہ لینے میں حددرجہ محتاط نظرآتے ہیں،بڑے بڑے لوگ لفافوں اور مٹھائیوں کے ڈبے واپس لے جاتے دیکھے گئے لیکن یہاں تو پانسہ ہی پلٹ چکاتھامفتی صاحب جب اس ہستی کے حجرے میں تشریف لے جاتے توخودہی چائے کی فرمائش کرتے اور زبردستی کی یہ چائے پی کرمفتی صاحب قلبی خوشی محسوس کرتے تھے اس عظیم شخصیت کو حافظ فضل الرحمن کہا جاتاہے جو باقاعدہ عالم وفاضل تھے لیکن ام الکتاب سے غایت تعلق اورکثرت تلاوت نے ان کو’’ حافظ‘‘ کا تمغہ دیدیاتھا۔
بہت سی ہستیاں ہیں جن پر بہت کچھ لکھاجاسکتاہے اور انشاء اللہ ان شخصیتوں کاتفصیلی تذکرہ اپنی کتاب ’’نقش ونقوش‘‘میں تحریرکرنے کی کوشش کررہاہوں،ان سطورمیں اور آج کی اس نشست میں اپنے استاذمکرم حضرت مولانامحمدقاسم مظاہری سہارنپوریؒ کا ذکرخیرکرنے کی سعادت حاصل کررہاہوں۔
یہی ہے وقت روش نذرکرمتاع سکوں
خوشا!وہ زلف پریشاں کچھ اور برہم ہے
حضرت الاستاذمولانامحمدقاسمؒمظاہری احقرکے استاذہیں،۱۹۹۳ء میں راقم الحروف جب مظاہرعلوم میں داخل ہوااور مشکوٰۃ شریف میں داخلہ لیاتو ہدایہ جلدثالث کا سبق حضرت مولاناہی سے متعلق تھا،مولاناکی بہت سی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی تھی کہ ان کو اس فقہی کتاب سے پوری مناسبت تھی،وہ جس طرح بیع وشراء کے ابواب ہمیں پڑھاتے تھے اور مشکل ہونے کے باوجود جس طرح ہم لوگ مولاناکی تقریرکوسمجھ لیتے تھے اس سے اندازہ ہوتاہے کہ مولاناکو اللہ تعالیٰ نے افہام اور تفہیم کا اچھا ذوق بخشاتھا۔
حضرت مولانامحمدقاسم مظاہری ۷؍ربیع الاول ۱۳۸۳ھ مطابق ۱۸؍جولائی ۱۹۶۴ء کو مظاہر علوم کے درجہ ابتدائی فارسی میںداخلہ لے کر مکمل تعلیم اسی چہاردیواری میں حاصل کرکے ۱۳۹۴ھ میں فارغ ہوئے تھے ۔
دورۂ حدیث شریف کے خصوصی رفقاء میںمولانا عبد الرزاق آسامی ،مولانا احمدمرتضیٰ ،مولانا عبد الودود حیدرآبادی ، مولانا سید نجم الحسن تھانوی ،مولانا محمد انورگنگوہی اورمولانا محمد یونس (صاحبزادہ مولانا محمد عمر پالن پوری ) اورحضرت مولانا رئیس الدین بجنوری استاذحدیث مظاہرعلوم خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔
مولاناکامعمول تھا کہ وہ سبق میں ذراتاخیرسے پہنچتے تھے اور ہم لوگوں کو مولاناکی یہ تاخیراس لئے بھی گراں نہیں گزرتی تھی کہ ہم لوگ ہی کون سے بہت زیادہ محنتی تھے،سہل پسندی کے اس دورمیں اسباق سے طلبہ عموماًجی چراتے ہیںسو ہم بھی یہی چاہتے تھے کہ دیرہی بھلی ہے،اور شاید یہی وجہ ہے کہ طلبہ آج تک انتظامیہ سے استاذ کی تاخیرکی شکایت نہیں کرتے۔مولاناکی یہ تاخیرہمیں یوں بھی محسوس اورگرانبارنہیں ہوتی تھی کیونکہ مولاناجس قدربھی پڑھاتے تھے بہت ہی محنت ،تیقظ،بیدارمغزی اورمکمل بصیرت مندی کے ساتھ پڑھاتے تھے۔
حضرت مولاناکی زبان بھی حضرت علامہ محمدیامینؒ کی طرح خالص سہارنپوری تھی(سہارنپوروالے عموماًالفاط وحروف کو مشدداستعمال کرتے ہیں)ان کے اس طرزتکلم اورعلاقائی تعبیرات سے ہمیں بہت ہی حظ محسوس ہوتاتھا،وہ کتاب اور اس کے جملہ مباحث پر سیرحاصل گفتگوکرتے تھے، تقریر نہایت ہی سادہ،عام فہم اور مختصر ہوتی تھی،وہ جب سبق ختم کرکے کتاب بندکرتے تو نہایت ہی دلنوازمسکراہٹ ان کے چہرے بشرے سے ہویداہوتی تھی۔
درس میں وہ کسی کی غیبت نہیں کرتے تھے،کسی بھی فقیہ اوراصولی شخصیت کی شان میں کوئی نازیباالفاظ بھی نہیں بولتے تھے، اکابرعلماء کانام ہمیشہ ادب واحترام اور مکمل عظمت کے ساتھ لیتے تھے۔
ایک دن راقم الحروف نے پوچھاکہ حضرت یہ درس نظامی کیاچیزہے؟تو فرمایاکہ یہ ملانظام الدین سہالویؒ نے وضع فرمایاتھااس لئے ان کی طرف منسوب کیاجاتاہے،میں نے پوچھاکہ سہالی کہاں ہے؟فرمایاتواسی علاقہ کا ہے اور تجھے سہالی کا علم نہیں ہے؟پھرفرمایاکہ سہالی بارہ بنکی کاایک گاؤں ہے جوکسی زمانہ میں علم دین کا مرکزرہاہے اس کی تفصیل مولاناگیلانی کی ’’نظام تعلیم وتربیت‘‘میں مل جائے گی۔​
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولانامحمدقاسم سہارنپوری​
ایک بارخدمت اقدس میں حاضرہواتومولاناادب کی مشہورکتاب’ ’مقامات حریری‘‘کا مطالعہ فرمارہے تھے،میں نے اپنی عادت کے مطابق مولانا سے پوچھ لیاکہ حضرت یہ کتاب آپ کو کیسی لگی؟ گھورکردیکھا پھر مسکراکرکہنے لگے کسی نے معلوم کرایاہے؟میں نے کہانہیں،میں خودمعلوم کررہاہوں! فرمانے لگے کہ ہمارے اس درس نظامی میں جوکتابیں شامل ہیں وہ ایک خاص وقت اور خاص ملکی حالات کے تناظرمیں لکھی گئی ہیں،لیکن اب نہ تو وہ حالات رہے ہیں،نہ وہ طبیعتیں رہی ہیںاب طلبہ کا ذہن اتناپختہ نہیں رہاکہ شروع ہی سے صرف ونحوکی مشکل ترین کتابیں،گردانیں اور مباحث یادرہ جائیں بلکہ اچانک ایک طالب علم کو جب ان کتابوں سے واسطہ پڑتاہے اور ہروقت طوطے کی طرح رٹنااوریادکرناپڑتاہے تو عموماطلبہ اس فن اور اس نظام سے خائف ہوکراپنی تعلیمی ڈگربدل دیتے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے طلبہ کو ان چیزوں سے مانوس کرایاجائے پھردھیرے دھیرے ان کو اس لائن پر لایاجائے مثال کے طورپر یہی کتاب ہے صرف اور نحوکے بعدیہ کتاب طلبہ کے ہاتھوں میں تھمادی جاتی ہے ، اسی طرح کی اوربھی کتابیں سبعہ معلقہ،دیوان متنبی اوردیوان حماسہ وغیرہ بھی طالب علم کو دیدی جاتی ہیں حالانکہ اس وقت تک طالب علم کی ذہنی حالت ان کتابوں سے نامانوس ہوتی ہے نتیجہ یہ ہوتاہے کہ طالب علم اپنے تازہ تازہ ذہن ودماغ کی وجہ سے اگررٹ کریادکرلیتاہے تو آگے چل کر بھول جاتاہے،اس سلسلہ میں اگرپہلے ہی سے بنیادی کتابیں جو ادب عربی سے مانوس کرنے والی ہیں پڑھائی جائیں تو آگے چل کر ان کتابوں سے فائدہ ہوسکتاہے ورنہ نہیں،حضرت مولانانے اپنی بات اور اپنے دلائل کو مزیدشفاف کرتے ہوئے فرمایاکہ ادبی ذوق مقامات حریری جیسی کتابوں سے نہیں پیداہوسکتا،اس کتاب میں صرف لفاظی ہے،مکررات ہیں،صنائع اور بدائع کی بھرمارہے،پرتکلف عبارتوں کی فراوانی ہے،مشکل اسلوب اور دقیق وپیچیدہ تراکیب ہیں،اسی طرح مکروفریب،دجل اور دسیسہ کاری،بہروپئے پن اورعیاری ومکاری کے ان گنت واقعات سے اس کتاب کومزین کردیاگیاہے،خودہی بتلاؤمن گھڑت قصوں اوردیومالائی کہانیوں سے تمہیں کیاعبرت حاصل ہوسکتی ہے؟میں نے پوچھاکہ حضرت! کیا آپ کی نظرمیں اس کا کوئی متبادل موجود ہے؟ فرمایاہاں،ہمارے بڑوں کی چیزیں اس سلسلہ میں بھی موجودہیں اور بہت ہی عمدہ ہیں مثلاً ابن خلدون کے چاروں مقالوں کواگرشامل درس نظامی کرلیاجائے تواس سے زیادہ فائدہ ہوگا،میاں !شخصیت سازی میں مصنف کی للہیت بھی بڑااہم کرداراداکرتی ہے،جیسامصنف ہوگا ویسے ہی پڑھنے والے پراثرات مرتب ہوں گے،اسی لئے ہمارے اکابر نے نیک علماء کی کتابیں پڑھنے کا مشورہ دیاہے اور برے لوگوں کی کتابیں بڑھنے سے منع کیاہے۔
فقہ :مولاناکااصل موضوع رہا،فقہ حنفی پر مولاناکو بڑادرک اور رسوخ حاصل تھا،فقہ حنفی کی کلیات ہی نہیں جزئیات پر بھی مولاناگہری بصیرت رکھتے تھے،اسی طرح فقہ کی تقریباً تمام کتابوں کے پڑھانے کا مولاناکو موقع ملااور ہزاروں طلبہ نے مولاناسے فقہ حنفی میں زانوے تلمذتہہ کیا۔چنانچہ ایک دفعہ حضرت مولانانے ہدایہ جلداول میں کتاب الصلوٰۃ کی ایک ذیلی بحث رفع یدین پرسیرحاصل گفتگوفرمائی،احناف کے دلائل سے غیرمقلدیت کے قلعہ کو زمیں بوس کردیااتفاق سے اس سال اس جماعت میں عبیداللہ اورابوالکلام نامی طلبہ بھی شریک جماعت تھے یہ دونوں طا لب علم اہل حدیث تھے اور مولاناکو علم تھا کہ یہ دونوں طالب علم اہل حدیث ہیں مولانانے رفع یدین پر اپنی تقریرمکمل کرکے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ غیرمقلدطلبہ سے فرمایاکہ آپ لوگوں کو اب بھی اگرکوئی اشکال ہوتوکھڑے ہوکربتلائیں،چنانچہ ایک طالب علم نے کھڑے ہوکراپنے دلائل پیش کئے ، مولانانے پھر اپنی تقریر شروع کی اور تقریباًایک گھنٹہ تک اس مسلک کے اثبات،مسلک اہل حدیث کے ردوابطال میں زوردار تقریرکی چنانچہ وہ طالب علم دوبارہ اٹھااور مولاناکی تقریرپر اپنے اطمینان کا اظہارکیا۔
فقہ حنفی میں کتاب البیوع ایساہی مشکل ہے جیساکہ نحومیں تنازع فعلان کی بحث لیکن مولانا کو اللہ تعالیٰ نے عجیب دماغ عطافرمایا تھا وہ بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ اس پیچیدہ بحث کوحل کرتے تھے کہ طلبہ سوچنے پر مجبورہوجاتے کہ پھر یہ بحث مشکل کیوں مشہورہوگئی ہے؟
طالب علمی کا زمانہ بڑا عجیب وغریب ہوتاہے،اس دور میں طلبہ عموماًاپنے اساتذہ کا ادب واحترام محض دکھاوے کیلئے کرتے ہیں،بہت ہی کم اساتذہ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے کردار وعمل سے طلبہ کو قائل کرلیتے ہیں کہ وہ واقعی ادب اور احترام کے لائق ہیں،ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا،ششماہی کے امتحان میں مشکوٰۃ شریف کا پرچہ تھامیں نے حضرت مولاناعبدالخالق صاحب مظاہری مدظلہ سے مشکوۃ شریف پڑھی ہے اس سال ششماہی تک اس کتاب کے صرف ۷۵صفحات ہوئے تھے اور مولاناجس پیارے اسلوب وانداز میں کتاب پڑھاتے تھے اس سے کتاب کا سبق وہیں یادہوجاتاتھاچنانچہ سوالات کا پرچہ ملاتو تینوں ہی سوالات مانوس تھے فوراً لکھ کراپنا کام ختم کرلیا(اس زمانہ میں ہوتایہ تھا کہ دفتر کی طرف سے سوالات کا پرچہ امتحان گاہ میں باقاعدہ املاء کرایا جاتاتھاجس سے ایک بڑافائدہ طلبہ کو یہ ہوتاتھا کہ دوران املاء طلبہ ایک دوسرے سے معلوم بھی کرلیاکرتے تھے)میرے پہلو میں مجھ سے جونیریعنی درجہ ششم کا ایک طالب علم محمدحسین نامی مقامات حریری کاامتحان دے رہاتھا اس نے اشاروں اور کنایوں میں مجھ سے بار بار اپنے سوالات حل کرانے کی کوشش کی تو میں نے کہا ابھی چند منٹ بعدمیراپرچہ مکمل ہوجائے گااس وقت تک تم بیٹھے رہوچنانچہ اپنا پرچہ لکھ کرمیں نے مدرسہ کے قانون کے خلاف اس کا پرچہ بھی لکھدیا،امتحان گاہ میں نگرانی پر جو حضرات مامورتھے ان میں مولانامحمدقاسم صاحبؒ بھی تھے مولانااپنی فراست سے کچھ نہ کچھ سمجھ ضرورگئے کہ دال میں کالاہے لیکن کہا کچھ نہیں اتفاق سے مقامات حریری کا امتحان بھی مولاناہی کے پاس تھا اس لئے اس طالب علم کو بلاکرکہا کہ یہ پرچہ تمہارالکھاہوانہیں ہے،طالب علم نے نہایت جسارت بلکہ ڈھٹائی سے کہا کہ نہیں میراپرچہ ہے، مولانانے اسی طالب علم کے ذریعہ مجھے بلوایامیں مولاناکے پاس یوں حاضر ہواجیسے منیٰ میں قربانی کے جانورحاضرہوتے ہیں ،گھورکر دیکھا اور فرمایاکہ جوکچھ پوچھوں گا سچ بولوگے!عرض کیاحضرت میں نے یہ پڑھا ہے کہ سچ ہی میں نجات ہے اس لئے کم ازکم ایسے موقع پر جھوٹ کا سہارالیناغلط ہوگا،مسکرانے لگے اور فرمایاکہ اس کا پرچہ کس نے لکھا ؟عرض کیاحضرت اس نے باربارخوشامدکی تو مجبوراً میں نے لکھدیافرمایاجاؤمعاف کیا،میں اس کوفیل کرناچاہ رہاتھا۔​
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولانامحمدقاسم سہارنپوری​
ناصرالدین مظاہری
اسی طرح کا ایک اور واقعہ بھی احقرسے سرزدہوچکاہے اور اپنے ایک دوست جوبنگال کا رہنے والا تھاغالباً خیرالانام اس کانام تھا اس کامشکوٰۃ کاپرچہ بھی میں نے ہی لکھاتھا (اللہ میری غلطیوں کو معاف فرمائے)
امتحان گاہ میں بعض اساتذہ بہت زیادہ سخت تھے مثلاً حضرت مولاناعلامہ محمدیامین ؒ،حضرت مولانا اطہرحسین ؒ، حضرت مولانا عبدالخالق مظاہری،حضرت مولانامحمدریاض الحسن مظاہری، مولاناقاری محمدادریس مظاہری اور حضرت مولانارئیس الدین مظاہری ان حضرات کی جہاں نگرانی ہوتی تھی طلبہ عموماً وہاں جانے اور بیٹھنے سے کتراتے تھے (اس وقت تک بیٹھنے کی باقاعدہ کوئی ترتیب نہیں تھی) لیکن جہاں حضرت مولاناعلامہ محمدعثمان غنی مدظلہ،حضرت حافظ فضل الرحمنؒ، حضرت مولانامحمدطہٰ صاحب،حضرت مولانا محمدقاسم صاحبؒ،حضرت مولانامحمد ظفر نیرانویؒوغیرہ کی نگرانی ہوتی وہاں طلبہ کی بھیڑاس قدرہوتی تھی کہ جگہ کم ہوجاتی تھی۔
دراصل حضرت مولانامحمدقاسم صاحبؒ بہت ہی نرم دل تھے ،کہیں کو ئی خلجان یاکوئی اشکال محسوس ہوتا تو بتلادیتے تھے ان کی اسی خوبی کی وجہ سے طلبہ خاص طورپر مولاناکی زیرنگرانی امتحان دیناپسندکرتے تھے۔
مولانامحمدقاسمؒ کو فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ سے زیادہ حضرت مولانااطہرحسینؒ سے طبعی مناسبت تھی اور یہ کوئی عجوبہ سے کم بات نہ تھی کیونکہ مولانااطہرحسینؒ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے،اچھے اچھوں کو دومنٹ میں لاجواب کردیتے تھے ،ان کے مزاج سے مناسبت وہم آہنگی بہت ہی کم بلکہ چندہی خوش نصیب لوگوںکوحاصل ہوئی تھی لیکن مولانا محمدقاسم صاحبؒ سے ان کی طالب علمی کے زمانہ ہی سے مانوس تھے ، مولانانے کبھی کسی کی کوئی سفارش نہیں کی ،یہ ان کااپنامزاج تھا لیکن ایک واقعہ ایساہواکہ لوگ مولانااطہرحسینؒ کی اس خلاف عادت سفارش سے حیران رہ گئے۔
ہوایہ کہ ۱۳۹۴ھ میں مولانا فارغ ہوئے اسی سال مولاناکے ایک رفیق (درس جو حکیم خاندان سے تھے) نے تدریس کے لئے درخواست دی(پتہ نہیں خود دی تھی یادلوائی گئی تھی)بہرحال اس کی اطلاع جب مولانااطہرحسینؒ کو ملی تو فوراً مولانامحمدقاسم صاحبؒ سے بھی تدریس کے لئے درخواست دلوادی،اول الذکرکی درخواست منظوری کے مرحلہ میں تھی کہ مولانااطہرحسینؒ نے شوریٰ میں آوازبلندفرمائی کہ تدریس کے لئے اگر معیارقابلیت اور کتابی صلاحیت ہے تو مولوی محمدقاسم کی لیاقت سے میں مطمئن ہوں اور اگر عزیزداری شرط ہے تو کوئی بات نہیں،چنانچہ دونوں حضرات کاتقررہوگیااور اللہ تعالیٰ نے دونوں حضرات سے اپنے دین کا بڑا کا م لیا۔
ماومجنوں ہم سبق بودیم در دیوان عشق
او بصحرا رفت وما در کوچہا رسوا شدیم
مظاہرعلوم میں مولاناکاتقرر۱۳؍محرم ۱۳۹۵ھ کو تقرر ہوا،یکم رمضان ۱۳۹۵ھ کومستقل ملازم ہوگئے، ۱۴؍ربیع الاول ۱۳۹۷ھ کو محرراول بنائے گئے، ۲۵؍ربیع الاول ۱۳۹۸ھ کومحافظ کتب خانہ منتخب ہوئے، ۶؍رمضان ۱۴۰۰ھ ؁ کومدرس عربی تجویزکئے گئے اور۴؍ربیع الاول ۱۴۰۴ھ کو مدرس وسطیٰ تجویز بنائے گئے اورپھر ۱۴۲۲ھ میںحضرات ارباب حل وعقد نے مدرس علیا تجویز فرمایا۔
آپ نے مظاہر علوم میںتقریباً۲۹؍سال تک تدریسی خدمات انجام دیں ،اس درمیان ابتدائی عربی وفارسی کے علاوہ بیضاوی، مشکوۃ ،جلالین ،ہدایہ ،کنز الدقائق ، شرح عقائد نسفی ،نورالانوارجیسی اہم کتابوں کے اسباق آپ سے متعلق رہے ۔
ایک دفعہ احقر سے پوچھنے لگے کہ تم بہت اچھالکھتے ہوکیاکبھی ندوۃ العلماء میں تعلیم حاصل کی ہے؟میں نے عرض کیا کہ حضرت ندوہ میں تو کبھی تعلیم حاصل نہیں کی اور نہ ہی کوشش کی البتہ خواہش اور تمناضروری رہی ہے،فرمایا بڑی خوشی ہوتی تمہاری تحریریں دیکھ کر ، تمہارااداریہ تو ضرورہی پڑھتاہوں،اللہ تعالیٰ مزیدترقی عطافرمائے۔
مولاناذکرواذکارکے بھی بہت پابندتھے،درودشریف پڑھنے کا تومستقل معمول تھا،جس طرح درودشریف پڑھناایک عمل ہے اورکارثواب ہے اسی طرح اس کا لکھنابھی کارثواب اورایک مستقل عمل ہے حضرت مولانامحمدقاسم صاحبؒ کا یہ معمول بہت قدیم تھا کہ وہ اپنی کاپی میں درودشریف لکھتے بھی تھے چنانچہ ان کے پاس اس طرح کی کئی کاپیاں بھری ہوئی تھیں۔
مظاہرعلوم میں چندسال پہلے تک طلبہ کی علاقائی ،صوبائی اور ضلعی انجمنوں کا رواج نہیں تھا صرف ایک انجمن ’’ہدایت الرشید‘‘تھی جس کے اصول اورشرائط کی وجہ سے طلبہ عموماً استفادہ نہیں کرپارہے تھے،راقم کی شروع ہی سے یہ کوشش وخواہش رہی ہے کہ طلبہ کی خودکفیل انجمنیں وجود میں آجائیں اس سے طلبہ کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس بھی ہوگا،انجمن کو فروغ دینے میں جن صلاحیتوں کی ضرورت پڑتی ہے ان صلاحیتوں کو استعمال کرکے انتظامی صفات پیداہوں گی،کتابوں کے حصول میں اور حصول کی راہوں پر انہیں باربارسوچناہوگا اور جو کتاب مکمل محنت وکوشش کے بعد حاصل ہوگی اس کی قدرومنزلت بھی پیداہوگی،اس سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے،اسی طرح الماریوں کا انتظام،تقریری پرگرام،تحریری دلچسپیاں اور مختلف خوبیاں اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔
اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ فضل واحسان ہے کہ احقر کی خواہش وکوشش اور تمنااحقر کے زمانۂ تعلیم میں تو پوری نہیں ہوئی لیکن تین سال قبل ناظم مظاہرعلوم حضرت مولانامحمدسعیدی مدظلہ نے علاقائی وضلعی انجمنوں کے قیام کی منظوری دیدی،بلکہ انجمنوں کے اغراض ومقاصد،انجمن ہدایت الرشیدکی مرکزیت اور اس کے طریق کارپرمشتمل اصول وآئین جو احقرہی نے مرتب کئے تھے انہیں بھی صاد کردیاگیا۔فللّٰہ الحمد
ان سطورکے لکھنے کا مقصدیہ ہے کہ حضرت مولانامحمدقاسم صاحبؒ کو طلبہ کی زبانی جب اس نئے نظام کی اطلاع ملی توبلاکرشاباشی دی ،حوصلہ افزائی کے چندکلمات ارشادفرمائے اور پھرکہنے لگے کہ آئے دن طلبہ اپنے پرگراموں میں مجھے بھی بلاتے رہتے ہیں،ظاہرسی بات ہے جب بلائیں گے،ضیافت کریں گے تو تقریربھی کرائیں گے،مجھے تقریرکی عادت نہیں رہی ہے لیکن طلبہ کے اصرارپر کچھ نہ کچھ بولناہی پڑتاہے،مجھے اس نئے تقریری نظام سے بڑافائدہ یہ ہواکہ تقریرکرنی آگئی ہے،پھر مسکراکرکہنے لگے کہ سبق میں چاہے جس موضوع پر تقریرکرالولیکن اسٹیج پر تقریرکے دوران سارامضمون ہی غائب ہوجاتا تھا اب تو الحمدللہ بات شروع کرتے ہی قسم قسم کے مضامین پروانہ وارذہن میں آنے لگتے ہیں۔
مسجدمیں امام آج ہوا، آکے کہاں سے
کل تک تو یہی میر، خرابات نشیں تھا​
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولانامحمدقاسم سہارنپوری​
ناصرالدین مظاہری
میں سمجھتاہوں کہ حضرت نے اپنے تواضع کی وجہ سے تقریرنہ کرپانے کی بات فرمائی تھی ورنہ کم ازکم دوواقعات کا تو خود احقر عینی شاہد ہے کہ مولانانے زوردارتقریرمجمع عام میں فرمائی تھی۔
۱۹۹۴ء میں راقم الحروف دورۂ حدیث میں زیرتعلیم تھا اوراحقر کو مادرعلمی مدرسہ امدادالعلوم زیدپوربارہ بنکی کے روح پروربلکہ علم پر ورماحول کے باعث تقریرکرنی آگئی تھی اور مولانانے انجمن ہدایت الرشیدکے ایک اجتماعی پروگرام میں احقر کی تقریرسنی بھی تھی چنانچہ اسی سال شب برات کے موقع پر بلوایااور فرمایاکہ اسلامیہ انٹرکالج کے پاس ایک مسجد میں تقریرکیلئے چلناہے،تیاری کرلو!میں نے عرض کیا کہ حضرت تیاری کیسی میں تو آپ کا مصاحب بن کر اتراتاپھروں گاکہنے لگے نہیں پہلے تم تقریرکرنا پھر میں کچھ بول دوں گا۔چنانچہ پہلے مجھ سے تقریرکرائی پھرآپ نے تقریرشروع کی تو قرآن وحدیث سے شب برات کے موضوع پر اس قدرروایات پیش کیں کہ مزہ آگیا۔
اسی طرح کا ایک اور موقع تھا سہارنپورکے ایک محلہ نوربستی کی مسجد میں مولانانے بڑی عمدہ تقریرکی تھی اور بے تکان کی تھی،ان کی تقریرصنائع اور بدائع،مقفع مسجع عبارات،نامانوس جملوں اورمن گھڑت قصوں سے پاک رہتی تھی۔اللہ مغفرت فرمائے۔
مولاناکو مضمون نگاری نہیں آتی تھی جس کا بارہااحقرسے اظہاربھی فرمایالیکن جب حضرت مولانااطہرحسینؒ کے حالات اور کمالات پر ’’شیخ الادب نمبر‘‘شائع کرنے کا فیصلہ ہوااورمدرسہ کے چیدہ وچنیدہ افراد دفتراہتمام میں مشورہ کے لئے جمع ہوئے تو میں نے گزارش کی کہ آپ حضرات کا ایک ایک مضمون بھی رسالہ کو مطلوب ہے احقر کی اس درخواست پر سب سے پہلے جس شخصیت نے لبیک وسعدیک کہا وہ یہی مولانامحمدقاسمؒ تھے اور حسب وعدہ مختصرہی سہی ایک مضمون راقم کو عنایت فرمایا۔
وہ اپنی سادگی وتواضع میں بھی پکے مظاہری تھے،گاڑی،رکشہ،ٹیپ پاپ،تصنع، بناوٹ، بیجااصراف کچھ بھی تو نہیں تھا،اخیرعمر تک پیدل چلنے کامزاج رہا،حتیٰ کہ کبھی کبھی کسی سائیکل وغیرہ کے پیچھے بیٹھنے میں بھی باک محسوس نہیں کیا۔سچ ہے من تواضع للّٰہ رفعہ اللّٰہ۔
عام مسلمانوں اور مومنین کی طرححضرت مولاناکی بھی خواہش تھی کہ حج بیت اللہ کی ادائیگی اور بیت اللہ شریف کا دیدارہوجائے چنانچہ انھوں نے مقدوربھر کوشش بھی کی،حج کمیٹی کی قرعہ اندازی میں نام بھی آگیالیکن ہوتا وہی ہے جوتقدیرمیں لکھاجاچکاہے مولانااپنے جیتے جی حج کی سعادت سے مشرف نہ ہوسکے لیکن ان کے انتقال کے بعدان ہی کے ایک لائق فائق شاگردحضرت اقدس مولانامحمدسعیدی صاحب مدظلہ ناظم مظاہرعلوم وقف سہارنپورنے ۲۰۰۸ء میں مولاناکی طرف سے حج بدل اداکیاہے جس سے یقیناًمولاناکی روح مسرورہوئی ہوگی۔
ہرسال کی طرح اس سال بھی رمضان المبارک کے موقع پر شہرگلستاں تشریف لے گئے،طبیعت بگڑنے پر اہل بنگلورنے آپ کو سہارنپوربھیج دیا،یہاں پہنچ کر ماہرڈاکٹروں سے رجوع کیالیکن
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوانے کام کیا
دیکھا اس بیماریٔ دل نے آخرکام تمام کیا
خزاں کے موسم میں بہارکاانتظارتو سبھی کو ہوتاہے لیکن بہارکے موسم میں خزاں کا انتظارکسی کونہیں ہوتا، زندگی بھی اللہ نے کیا چیز بنائی ہے، مستقبل کا مردہ اورحال کا زندہ انسان اپنی عقبیٰ سے کس قدربے فکرہوتاہے اس کا اندازہ صاحبان فکرودانش ہی کرسکتے ہیں۔
موت جیسی اٹل سچائی جوہرکسی کوآنی ہے اورجس سے کوئی بھی بچ نہیں سکتا،اس حقیقت کے باوجودانسان موت سے نہ تو پیار کرتاہے اورنہ ہی موت سے پہلے موت کی تیاری۔
دنیامیں بعض لوگوں کی موت سے انسانیت چین وسکون کاسانس لیتی ہے تو بعض کی موت پرپوری انسانیت چیخ اٹھتی ہے،جس شخص کے ہزاروں تلامذہ ہوں،سیکڑوں متعلقین اورلاتعدادچاہنے والے ہوں،جو علم وبصیرت کا پیکرمجسم اورخلق واخلاق کا دلنواز وجود ہو تو ایسی شخصیت کی جدائی پر اشک افشانی اوراشک شوئی ایک فطری چیزبن جاتی ہے۔
مولاناکودل کا پہلا دورہ پڑنے کے بعد غالباً یقین ہوگیاتھا کہ اب آخری وقت آپہنچاہے چنانچہ انہوں نے ایک تفصیلی وصیت نامہ بھی اپنے قلم سے تحریرکیاجس کی شروعات درودشریف،کلمۂ طیبہ اور اذکارمسنونہ سے کرکے مدرسہ کا حساب ، آمدخرچ، رسیدات کی تفصیلات،وغیرہ لکھیں ،وصیت نامہ پڑھ کر اندازہ ہوتاہے کہ گویا حضرت مولاناموت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔
نئی نئی بیماریایوں کوبھی سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے علامات قیامت میں شمار فرمایا ہے چنانچہ آج ٹی بی، بلڈپریشر،برین ہیمریج،شوگراور ہاٹ اٹیک جیسی نئی بیماریاں وجود میں آکر زبان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کر رہی ہیں ۔
حضرت مولانامحمدقاسم ؒجو بہت زیادہ بوڑھے بھی نہیں تھے اور ان کی صحت وتندرستی سے بظاہر امید تھی کم ابھی حضر ت مولانااپنے علوم ومعارف سے ہمیں مزیدسیراب وفیضیاب فرمائیں گے لیکن قول حق برحق ہے اذا جاء اجلہم لا یستاخرون ساعۃ ولایستقدمون۔
۱۲؍شوال المکرم ۱۴۲۹ھ مطابق ۱۳؍اکتوبر۲۰۰۸ء دوشنبہ کے دن حضرت مولانامحمدقاسم صاحبؒ مولائے حقیقی سے جاملے۔انا اللّٰہ وانا الیہ راجعون۔
راقم الحروف کی زندگی کا یہ افسوسناک واقعہ ہے کہ میرے اساتذہ میں سے جب کسی استاذکا انتقال ہوااس وقت اتفاق سے میں سفریاوطن میں رہاچنانچہ حضرت مولاناعلامہ محمدیامین صاحبؒ،حضرت مولاناعلامہ محمدعشیق صاحبؒ،حضرت مولانامفتی محمد اشتیاق صاحبؒ،حضرت مولانااطہرحسینؒ صاحب (انتقال کے دن راقم بجنور کے دعوتی سفرپرتھالیکن جنازہ میں شرکت ہوگئی تھی)،حضرت مولانامفتی محمدامین صاحبؒ،حضرت مولانامحمدظفر نیرانوی صاحب ؒ،حضرت مولاناحافظ فضل الرحمن صاحب ،فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ (انتقال کے دن دہلی میں تھا ۔لیکن اطلاع ملتے ہی سہارنپورحاضری ہوگئی تھی اس لئے دیدارتو نہیں ہوسکا البتہ جنازہ میں شرکت کی سعادت مل گئی تھی)جناب الحاج بابومحمدعبداللہ صاحبؒ، حضرت مولانامحمدقاسم صاحبؒ، ان تمام حضرات کے انتقال پرملال کے موقع پر اپنی حرماں نصیبی کہئے یانوشتۂ تقدیرکہ احقرسہارنپورمیں نہیںتھا۔
چنانچہ ۱۳؍اکتوبر۲۰۰۸ء دوشنبہ کے دن رفیق محترم مولوی محمدسلمان مظاہری ( خادم کتب خانہ مظاہرعلوم) نے فون پر اس افسوسناک اطلاع کی خبرکلفت اثربہم پہنچائی ۔فاناللّٰہ واناالیہ راجعون۔
نماز جنازہ حسب وصیت جناب قاری محمدارشدگوراصاحب نے دارالطلبہ قدیم کے صحن میںپڑھائی اور تدفین قبرستان حاجی شاہ کمال الدینؒ میںہوئی، جہاں مظاہرعلوم کی سینکڑوں نامی گرامی ہستیاں محواستراحت ہیں۔​
 
Top