عربی زبان کی وسعت واہمیت
شیخ الادب حضرت مولانااطہرحسین ؒ
شیخ الادب حضرت مولانااطہرحسین ؒ
سورج کی تعریف اورچاندکی توصیف کون کرتاہے؟ہمالہ کی بلندیوں اور آسمان کی رفعتوں کو کون ناپتا ہے؟ زمین کی وسعتوں اورسمندرکی گہرائیوں کاکون معترف نہیں ہے؟شیخ الادب حضرت مولانا اطہرحسینؒ کی علمی،دینی ، فقہی،ادبی،اصلاحی اورسلوک واحسان وغیرہ کے سلسلہ میں خدمات اتنی ہمہ گیر، وسعت پذیر اور متنوع معیاری ہیں کہ ان کا احاطہ اورمکمل تعارف ان صفحات میں نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے ۔
آپ کی ہمہ جہت شخصیت اور مختلف علوم وفنون میں علمی مہارت کے ثبوت وشواہدپیش کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ ثبوت وشواہداور تعریف وتعارف ان کا کرایاجاتاہے جو اس کے محتاج ہوں،حضرت الاستاذ مولانااطہرحسین صاحب کی صلاحیت اور لیاقت،ان کی استعداداورعلمی پختگی کا تعارف اسلئے ضروری نہیں ہے کہ ان کی خدمات روزروشن کی طرح عیاں ہیں اور’’عیاں راچہ بیاں‘‘کا قانون اور دستورمسلم ہے۔
آپ کو مختلف علوم وفنون کے علاوہ عربی ادب پر کیسی دسترس حاصل تھی اس کا اندازہ آپ کے مندرجہ ذیل مضمون سے کیا جاسکتا ہے جو ’’حریری اورمقامات ‘‘کے شروع میں ’’پیش لفظ ‘‘کے عنوان سے موجود ہے ۔ (ناصرالدین مظاہری)
آپ کی ہمہ جہت شخصیت اور مختلف علوم وفنون میں علمی مہارت کے ثبوت وشواہدپیش کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ ثبوت وشواہداور تعریف وتعارف ان کا کرایاجاتاہے جو اس کے محتاج ہوں،حضرت الاستاذ مولانااطہرحسین صاحب کی صلاحیت اور لیاقت،ان کی استعداداورعلمی پختگی کا تعارف اسلئے ضروری نہیں ہے کہ ان کی خدمات روزروشن کی طرح عیاں ہیں اور’’عیاں راچہ بیاں‘‘کا قانون اور دستورمسلم ہے۔
آپ کو مختلف علوم وفنون کے علاوہ عربی ادب پر کیسی دسترس حاصل تھی اس کا اندازہ آپ کے مندرجہ ذیل مضمون سے کیا جاسکتا ہے جو ’’حریری اورمقامات ‘‘کے شروع میں ’’پیش لفظ ‘‘کے عنوان سے موجود ہے ۔ (ناصرالدین مظاہری)
نحمد ہ ٗ ونصلی علی رسولہ الکریم !اما بعد
یو ں تو اس کارخانہ عالم کی سب ہی چیزیں قدرت کی کرشمہ سازیو ں اورگلکاریوں کے ناطق مجسمے ، اسرارورموزکے زبردست گنجینے اوراپنے خالق حقیقی اورقادر مطلق کے وجود باجود کے عمیق وجلی نقوش اورواضح نشانات ہیں جو سعادت مند روحوں کے لئے عبرت وموعظت کے گرامی قدر سرمایہ اورنظر وفکر کے عظیم الشان ابواب ہیں لیکن بعض چیزوں کو اس سلسلہ میں خصوصی اہمیت اورشان مظہریت عطا کی گئی ہے ۔
ان ہی میں سے زبانوں کی رنگارنگی اورلغات کی بو قلمونی بھی ہے ،قرآن پاک میں خدا وند ی نشانیوں کو بتاتے ہوئے جہاں دن اوررات کا اختلاف ،شکل وصورت کا تنو ع زمین وآسمان کا تقابل مذکور ہے اسی کے ساتھ زبانوں اورلغات کے تفاوت کو بھی ذکر کیا ہے ۔ارشاد باری ہے ‘‘۔
وَمِنْ آیَاتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِکُمْ وَاَلْوَانِکُمْ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَآیَاتٍ لِّلْعٰلَمِیْنَ۔(سورہ روم پ: ۲۱ع:۳)
خداکی نشانیوںسے آسمان وزمین کی پیدائش اور زبانوں اوررنگوںکا اختلاف ہے اس میں اہل علم کیلئے نشانیاں ہیں ۔
زبان خدا کی اہم نعمت اوربڑی نشانیوں میں سے ہے ،عقل ومذہب اوراخلاق وعادات پر اس کا بڑا گہراثر ہے ،ابن قیم تحریر فرماتے ہیں ۔
ان اعتباراللغۃ مؤثر فی العقل والخُلُق والدین تاثیرا بیناً۔(اقتضائ)
بلاشبہ عقل ودانش ،عادات اوردین ومذہب میں زبان کی کھلی تاثیر ہے ۔
زبان ہی انسانی مقاصد واحساسات اورقلبی رجحانات وجذبات کے اظہار کا واحد ذریعہ ہے ،حکومتوں اورسلطنتوں،انجمنوںاوراداروں کے جملہ نظام زبان ہی سے تکمیل پاتے ہیں ،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دین ودنیا کا ماہر بڑا چھوٹا انفرادی اوراجتماعی عمل زبان ہی کا مرہونِ منت ہے جس طرح تجارت وزراعت اورصنعت وحرفت کے لئے زبان کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح عبادت وقربت اوراحکام دینیہ کی نشر واشاعت میں بھی زبان کی حاجت ہے ،اسی لئے ہر نبی نے اپنی اپنی قوم کی زبان میں دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دیا اوربھٹکے ہوئے انسانوں تک خدا کا پیغام پہنچایا ،ارشاد خدا وندی ہے ۔
وما أرسلنامن رسول إلا بلسان قومہ۔(ابراھیم پ :۳ ع:۱)
ہم نے ہر رسول کو اس کی قوم کی زبان میں بھیجا ہے۔
دنیا کی مختلف زبانوں میں خدا کا پیغام آیا لیکن اس کا آخری پیام اورآخری ہدایت نامہ سعادت کا آخری اورمستحکم قانون علوم وفنون کا مکمل اورجامع ترین صحیفہ یعنی قرآن مجید عربی زبان میں نازل ہوا ۔
اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ قُرْآناًعَرَبِیاً لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ۔
(پ: ۱۲ع :۱۰)
بے شک ہم نے قرآن کوعربی میں نازل کیا تاکہ تم سمجھ لو ۔
زبانیں اگر چہ بے شمار تھیں لیکن اس قوانین خدا وندی کے آخری مجموعہ کے لئے صرف عربی زبان کو اختیار کیا گیا کہ یہ ان متنوع خصوصیات اورگوناگوںفضائل ومناقب کو محیط ہے جو دوسری زبانوں میں نہ تھے اسی لئے اس کو اسلام کی سرکاری زبان قرار دیا گیا ۔
(جاری)یو ں تو اس کارخانہ عالم کی سب ہی چیزیں قدرت کی کرشمہ سازیو ں اورگلکاریوں کے ناطق مجسمے ، اسرارورموزکے زبردست گنجینے اوراپنے خالق حقیقی اورقادر مطلق کے وجود باجود کے عمیق وجلی نقوش اورواضح نشانات ہیں جو سعادت مند روحوں کے لئے عبرت وموعظت کے گرامی قدر سرمایہ اورنظر وفکر کے عظیم الشان ابواب ہیں لیکن بعض چیزوں کو اس سلسلہ میں خصوصی اہمیت اورشان مظہریت عطا کی گئی ہے ۔
ان ہی میں سے زبانوں کی رنگارنگی اورلغات کی بو قلمونی بھی ہے ،قرآن پاک میں خدا وند ی نشانیوں کو بتاتے ہوئے جہاں دن اوررات کا اختلاف ،شکل وصورت کا تنو ع زمین وآسمان کا تقابل مذکور ہے اسی کے ساتھ زبانوں اورلغات کے تفاوت کو بھی ذکر کیا ہے ۔ارشاد باری ہے ‘‘۔
وَمِنْ آیَاتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِکُمْ وَاَلْوَانِکُمْ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَآیَاتٍ لِّلْعٰلَمِیْنَ۔(سورہ روم پ: ۲۱ع:۳)
خداکی نشانیوںسے آسمان وزمین کی پیدائش اور زبانوں اوررنگوںکا اختلاف ہے اس میں اہل علم کیلئے نشانیاں ہیں ۔
زبان خدا کی اہم نعمت اوربڑی نشانیوں میں سے ہے ،عقل ومذہب اوراخلاق وعادات پر اس کا بڑا گہراثر ہے ،ابن قیم تحریر فرماتے ہیں ۔
ان اعتباراللغۃ مؤثر فی العقل والخُلُق والدین تاثیرا بیناً۔(اقتضائ)
بلاشبہ عقل ودانش ،عادات اوردین ومذہب میں زبان کی کھلی تاثیر ہے ۔
زبان ہی انسانی مقاصد واحساسات اورقلبی رجحانات وجذبات کے اظہار کا واحد ذریعہ ہے ،حکومتوں اورسلطنتوں،انجمنوںاوراداروں کے جملہ نظام زبان ہی سے تکمیل پاتے ہیں ،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دین ودنیا کا ماہر بڑا چھوٹا انفرادی اوراجتماعی عمل زبان ہی کا مرہونِ منت ہے جس طرح تجارت وزراعت اورصنعت وحرفت کے لئے زبان کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح عبادت وقربت اوراحکام دینیہ کی نشر واشاعت میں بھی زبان کی حاجت ہے ،اسی لئے ہر نبی نے اپنی اپنی قوم کی زبان میں دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دیا اوربھٹکے ہوئے انسانوں تک خدا کا پیغام پہنچایا ،ارشاد خدا وندی ہے ۔
وما أرسلنامن رسول إلا بلسان قومہ۔(ابراھیم پ :۳ ع:۱)
ہم نے ہر رسول کو اس کی قوم کی زبان میں بھیجا ہے۔
دنیا کی مختلف زبانوں میں خدا کا پیغام آیا لیکن اس کا آخری پیام اورآخری ہدایت نامہ سعادت کا آخری اورمستحکم قانون علوم وفنون کا مکمل اورجامع ترین صحیفہ یعنی قرآن مجید عربی زبان میں نازل ہوا ۔
اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ قُرْآناًعَرَبِیاً لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ۔
(پ: ۱۲ع :۱۰)
بے شک ہم نے قرآن کوعربی میں نازل کیا تاکہ تم سمجھ لو ۔
زبانیں اگر چہ بے شمار تھیں لیکن اس قوانین خدا وندی کے آخری مجموعہ کے لئے صرف عربی زبان کو اختیار کیا گیا کہ یہ ان متنوع خصوصیات اورگوناگوںفضائل ومناقب کو محیط ہے جو دوسری زبانوں میں نہ تھے اسی لئے اس کو اسلام کی سرکاری زبان قرار دیا گیا ۔