عربی زبان کی وسعت واہمیت

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
عربی زبان کی وسعت واہمیت
شیخ الادب حضرت مولانااطہرحسین ؒ
سورج کی تعریف اورچاندکی توصیف کون کرتاہے؟ہمالہ کی بلندیوں اور آسمان کی رفعتوں کو کون ناپتا ہے؟ زمین کی وسعتوں اورسمندرکی گہرائیوں کاکون معترف نہیں ہے؟شیخ الادب حضرت مولانا اطہرحسینؒ کی علمی،دینی ، فقہی،ادبی،اصلاحی اورسلوک واحسان وغیرہ کے سلسلہ میں خدمات اتنی ہمہ گیر، وسعت پذیر اور متنوع معیاری ہیں کہ ان کا احاطہ اورمکمل تعارف ان صفحات میں نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے ۔
آپ کی ہمہ جہت شخصیت اور مختلف علوم وفنون میں علمی مہارت کے ثبوت وشواہدپیش کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ ثبوت وشواہداور تعریف وتعارف ان کا کرایاجاتاہے جو اس کے محتاج ہوں،حضرت الاستاذ مولانااطہرحسین صاحب کی صلاحیت اور لیاقت،ان کی استعداداورعلمی پختگی کا تعارف اسلئے ضروری نہیں ہے کہ ان کی خدمات روزروشن کی طرح عیاں ہیں اور’’عیاں راچہ بیاں‘‘کا قانون اور دستورمسلم ہے۔
آپ کو مختلف علوم وفنون کے علاوہ عربی ادب پر کیسی دسترس حاصل تھی اس کا اندازہ آپ کے مندرجہ ذیل مضمون سے کیا جاسکتا ہے جو ’’حریری اورمقامات ‘‘کے شروع میں ’’پیش لفظ ‘‘کے عنوان سے موجود ہے ۔ (ناصرالدین مظاہری)

نحمد ہ ٗ ونصلی علی رسولہ الکریم !اما بعد
یو ں تو اس کارخانہ عالم کی سب ہی چیزیں قدرت کی کرشمہ سازیو ں اورگلکاریوں کے ناطق مجسمے ، اسرارورموزکے زبردست گنجینے اوراپنے خالق حقیقی اورقادر مطلق کے وجود باجود کے عمیق وجلی نقوش اورواضح نشانات ہیں جو سعادت مند روحوں کے لئے عبرت وموعظت کے گرامی قدر سرمایہ اورنظر وفکر کے عظیم الشان ابواب ہیں لیکن بعض چیزوں کو اس سلسلہ میں خصوصی اہمیت اورشان مظہریت عطا کی گئی ہے ۔
ان ہی میں سے زبانوں کی رنگارنگی اورلغات کی بو قلمونی بھی ہے ،قرآن پاک میں خدا وند ی نشانیوں کو بتاتے ہوئے جہاں دن اوررات کا اختلاف ،شکل وصورت کا تنو ع زمین وآسمان کا تقابل مذکور ہے اسی کے ساتھ زبانوں اورلغات کے تفاوت کو بھی ذکر کیا ہے ۔ارشاد باری ہے ‘‘۔
وَمِنْ آیَاتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِکُمْ وَاَلْوَانِکُمْ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَآیَاتٍ لِّلْعٰلَمِیْنَ۔(سورہ روم پ: ۲۱ع:۳)
خداکی نشانیوںسے آسمان وزمین کی پیدائش اور زبانوں اوررنگوںکا اختلاف ہے اس میں اہل علم کیلئے نشانیاں ہیں ۔
زبان خدا کی اہم نعمت اوربڑی نشانیوں میں سے ہے ،عقل ومذہب اوراخلاق وعادات پر اس کا بڑا گہراثر ہے ،ابن قیم تحریر فرماتے ہیں ۔
ان اعتباراللغۃ مؤثر فی العقل والخُلُق والدین تاثیرا بیناً۔(اقتضائ)
بلاشبہ عقل ودانش ،عادات اوردین ومذہب میں زبان کی کھلی تاثیر ہے ۔
زبان ہی انسانی مقاصد واحساسات اورقلبی رجحانات وجذبات کے اظہار کا واحد ذریعہ ہے ،حکومتوں اورسلطنتوں،انجمنوںاوراداروں کے جملہ نظام زبان ہی سے تکمیل پاتے ہیں ،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دین ودنیا کا ماہر بڑا چھوٹا انفرادی اوراجتماعی عمل زبان ہی کا مرہونِ منت ہے جس طرح تجارت وزراعت اورصنعت وحرفت کے لئے زبان کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح عبادت وقربت اوراحکام دینیہ کی نشر واشاعت میں بھی زبان کی حاجت ہے ،اسی لئے ہر نبی نے اپنی اپنی قوم کی زبان میں دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دیا اوربھٹکے ہوئے انسانوں تک خدا کا پیغام پہنچایا ،ارشاد خدا وندی ہے ۔
وما أرسلنامن رسول إلا بلسان قومہ۔(ابراھیم پ :۳ ع:۱)
ہم نے ہر رسول کو اس کی قوم کی زبان میں بھیجا ہے۔
دنیا کی مختلف زبانوں میں خدا کا پیغام آیا لیکن اس کا آخری پیام اورآخری ہدایت نامہ سعادت کا آخری اورمستحکم قانون علوم وفنون کا مکمل اورجامع ترین صحیفہ یعنی قرآن مجید عربی زبان میں نازل ہوا ۔
اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ قُرْآناًعَرَبِیاً لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ۔
(پ: ۱۲ع :۱۰)
بے شک ہم نے قرآن کوعربی میں نازل کیا تاکہ تم سمجھ لو ۔
زبانیں اگر چہ بے شمار تھیں لیکن اس قوانین خدا وندی کے آخری مجموعہ کے لئے صرف عربی زبان کو اختیار کیا گیا کہ یہ ان متنوع خصوصیات اورگوناگوںفضائل ومناقب کو محیط ہے جو دوسری زبانوں میں نہ تھے اسی لئے اس کو اسلام کی سرکاری زبان قرار دیا گیا ۔
(جاری)
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
عربی کی فضیلت
(2)
عربی زبان دنیا کی تمام زبانوں میں اعلیٰ ومنتخب اوریگانہ ٔ روزگار ہے اگراس کو بے پناہ جامعیت ومعنویت اورلامتناہی وسعت کے سبب ’’ام الألسنۃ ‘‘کے لقب سے نوازا جائے تو بیجانہ ہوگا ،فضل وشرف کی ضامن اورمناقب ومحاسن کو جامع ہے ،مختلف نوعیتوں اورمتعدداسالیب سے اس کی خوبیاں ظاہرہیں ۔
(۱) قرآن پاک کی آیات سے عربی کے افضل واشرف ہونے پرروشنی پڑتی ہے ،ارشاد باری
لِسَانُ الَّذِیْ یُلْحِدُوْنَ اِلَیْہِ اَعْجَمِیٌ وَّھٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌ مُّبِیْنٌ۔ (پ: ۱۴ع :۲)
جس کی طرف تعریض کرتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے اوریہ قرآن پاک زبان عربی ہے صاف
دوسری جگہ ارشاد ہے
وانہ لتنزیل رب العالمین نزل بہ الروح الأمین علی قلبک لتکون من المنذرین بلسان عربی مبین۔ (پ: ۱۴ع :۲)
اوربے شک یہ قرآن شریف اللہ رب العالمین کی طرف سے نازل شد ہ ہے آپ کے قلب پر روح الامین اسے لے کر اترے عربی زبان میں جو واضح زبان ہے تاکہ آپ ڈرانے والوں میں ہوں ،
ابن فارس کہتا ہے
’’عربی کی فضیلت اوربرتری اس سے معلوم ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ شانہٗ نے (ان آیات میں) عربی کو ’’بیان ‘‘ کی صفت کے ساتھ موصوف کیا ،جو کلام کی صفات محمودہ ہیں انتہائی ارفع اورابلغ ہے ، اسی لئے آیت ’’خلق الانسان علمہ البیان ‘‘میں صفت بیان کو ان تمام چیزوں پر مقدم کیا ہے جن کی خلقت وآفرینش میں حق جل مجدہٗ وعلا کی ذات متوحدومنفرد ہے ۔‘‘(بلغتہ)
(۲) نبی کریم ا نے بھی اپنی زبان گوہر فشاںسے مختلف احادیث میں عربی زبان کے تکلم وتعلم کا امر فرماکر عربی کے مجدو شرف کو اجاگر فرمایا ہے ،ارشا د عالی ہے۔
’’جو شخص اچھی طرح عربی بول سکتا ہو اس کو چاہیے کہ وہ عجمی زبان میں بات چیت نہ کرے کیونکہ عجمی زبان نفاق پیدا کرتی ہے ۔‘‘
دوسرے موقع پر ارشاد فرمایا
’’عربی زبان تین وجہ سے مرکزمحبت بننے کی مستحق ہے ،سب سے پہلے تویہ کہ میں عربی ہوں ، دوسرے خدا کے کلام پاک کی زبان عربی ہے ،تیسرے یہ کہ تمام جنتیوںکی زبان عربی ہوگی ‘‘۔
عمر بن زید کہتے ہیں کہ
’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضر ت ابو موسیٰ اشعری ؓ کو لکھا کہ تم سنت اورعربیت میں تفقہ حاصل کرو ۔‘‘
حضرت سعد بن وقاص ؓ نے ایک مرتبہ ایک جماعت کو فارسی زبان میں گفتگو کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا
’’ملت اسلامیہ کے بعد آتش پرستی کی کیا ضرورت ہے ‘‘یعنی عربی زبان کو چھوڑکرمجوسی زبان (فارسی میں گفتگوکرنا مناسب نہیں )۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے
’’عربی زبان سیکھوکیونکہ یہ اموردین میں سے ہے ‘‘۔
(۳) مذہب اسلام نے خدا وندی نشانیوں یعنی زبانوں کے احترام کوباقی رکھتے ہوئے اپنے لئے عربی کو منتخب کیا،اوراپنے بنیادی عقائد اوراخلاق کی تلقین کا حکم عربی زبان میں دیا ،توحید ورسالت کا دل میں راسخ اورمضبوط کرنا اصل ایمان ہے مگر اس کا اظہار عربی الفاظ کے ذریعہ ہوتا ہے ۔
ایمان کے بعد نماز جو اسلام کے اہم اوربنیادی امور میں سے ہے اورتما م عبادات اورقربتوں کا خلاصہ اورنچوڑہے اس کے ارکان کی ادائیگی کے لئے عربی کلمات کو تکبیرات وتلاوت وغیرہ میں ضروری قرار دیا گیا ، عربی زبان چھوڑکر اگر قرآن پاک کی تلاوت کسی دوسری زبان میں کی جائے تو ثواب موعود حاصل نہیں ہوتا ،اسی طرح شریعت نے تمام اوراد واذکارکی اسی زبان کے ذریعے تعلیم فرمادی ۔
(۴) جس طرح ہر حکومت اورسلطنت کی ایک مخصوص زبان ہوتی ہے جس میں ملکی آئین وقوانین مرتب ہوتے ہیں اورحکومت کے ہر شعبہ اورمحکمہ میں یہ ہی زبان جاری وساری ہوتی ہے ،دفتروں اورکچہریوںمیں اس کا استعمال ہوتا ہے ،بالکل اسی طرح حق تعالیٰ جل شانہ ٗ نے عربی زبان کو مملکتِ الٰہیہ اورمخلوقات سماویہ کے لئے متعین فرماکر آسمانی زبان ہونے کا شرف عطا فرمایا ،چنانچہ روایات کثیر ہ سے آسمان والوں کی زبان کا عربی ہونا معلوم ہوتا ہے ،جملہ آسمانی صحیفے اورکتابیں اسی زبان میں لکھے جاتے ہیں ۔
قرآن مجید جنت برزخ اور انسانیت کے مورثِ اعلیٰ حضرت آدم علیہ السلام کی زبان بھی یہی ہے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
’’حضرت آدم علیہ السلام کی زبان جنت میں عربی تھی ،خطا سرزد ہونے پر عربی چھین کر سریانی زبان دیدی گئی اورجب آپ تو بہ کرچکے تو پھر عربی واپس کردی گئی ‘‘۔
ابن حبیب کا قول ہے کہ
’’کہ سب سے پہلے زبان جس کو حضرت آدم علیہ السلام جنت سے لے کر دنیا میں تشریف لائے عربی ہے ،طول زمان اورمرور ایام کی بناء پر تحریف ہوتے ہوتے سریانی بن گئی ،اسی لئے دونوں زبانوں کے الفاظ میں نمایا ں طور پر مشابہت نظر آتی ہے ‘‘۔
(۵) قرآن پاک سے لوح محفوظ کی زبان کابھی عربی ہونا معلوم ہوتا ہے ،ارشاد باری ہے
بل ھو قرآن مجید فی لوح محفوظ
۔ (پ: ۳۰ع :۱)
بلکہ قرآن لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے ۔
یہ ظاہر ہے کہ قرآن الفاظ اورمعنی کے مجموعہ کا نام ہے اورحسب مقتضائے آیت قرآن کے لوح محفوظ میں ہونے سے لازم آتا ہے کہ قرآن کے معنی کے ساتھ اس کے موجودہ الفاظ بھی لوح محفوظ میں ضروری طورپرموجود ہوں ،اسی مقام سے ان لوگوں کی بھی تائید ہوتی ہے جنہوں نے ہر نبی پر وحی کا نزول عربی زبان میں تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر نبی نے آمدہ وحی کا جو کہ عربی تھی اپنی قوم کی زبان میں ترجمہ کیا ہے ۔
علامہ سیوطیؒ نے تفسیراتقان میں اس قول کو ذکر کرنے کے بعدارقام فرمایا ہے کہ آیت وماأرسلنا من رسول إلابلسان قومہ سے اس کی جانب اشارہ مفہوم ہوتا ہے کیونکہ وماأنزلنا من کتاب کے بجائے وماأنزلنافرمایا گیا ہے ،اس سے انبیاء کرام کی وحی کا عربی زبان میں آنا اورپھر ان کا اپنی قوم کی زبان میں ترجمہ کرنا بالکل عیاں ہے ۔
(۶) عربی زبان دینی معارف وحقائق اورقرآن وحدیث کے نکتوں اوردقیقوںاورروحانی معارف کی کلید ہے اوردیگر علوم عقلیہ ونقلیہ کے لئے ممد ومعاون ہے اسی بناء پر عربی لغت کا سیکھنا علماء امت کے نزدیک بالاجماع فرض کفایہ ہے ۔
امام رازی نے تفسیر کبیر میں اورسیوطی نے اقتراح میں اس کی تصریح کی ہے ۔مزہرمیں لکھا ہے ’’علم لغت بلاشبہ امور دین میں سے ہے کیونکہ فرض کفایہ ہے اس کے ذریعہ قرآن وحدیث کے الفاظ کی شناخت ہوتی ہے ۔
صحاحؔ جوہریؔ میں ہے
’’اس (عربی )زبان کو اللہ جل شانہ نے اشرف ترین درجہ عطا فرمایا ہے، دین ودنیا کا علم اس کی معرفت سے وابستہ ہے ‘‘۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
’’عربی جاننے والوں کے علاوہ کوئی شخص قرآن مجید کی تعلیم نہ دے ‘‘۔
حضرت ابن عباس کا قول ہے
’’جب تم سے قرآن کے نادر وغریب لغت کے بارے میں سوال کیا جائے تو اس کو عربی اشعارمیں تلاش کروکیونکہ شعرعرب کادیوان ہے ‘‘۔
امالی ثعلب میں ہے
’’فقیہ لغت (عربی)کا زیادہ محتاج ہے ‘‘۔
(۷) اگر عربی زبان کو عام بو ل چال اورگفتگو کے لئے منتخب کر لیا جائے اورانسان اسی زبان کا عادی بن جائے تو دو بڑے فائدے حاصل ہوتے ہیں جو عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان سے نہیں ہوسکتے ،انتہائی اہم اورپہلا فائدہ تو یہ ہے کہ متکلم کو ملائکہ ،اہل جنت اوربالخصوص سروردوعالم ا سے مشابہت حاصل ہوجاتی ہے جو ایک مؤمن کے لئے نہایت ہی وقیع اورقابل قدر ہے ،اس سے بڑھ کر شرف وبزرگی اورمحبت وعقیدت کا کوئی سامان نہیں ہوسکتا در حقیقت مؤمن کیلئے اس میں فلاح وبہبود ہے ،دوسرافائدہ یہ ہے کہ جب انسان عربی میں گفتگو کرنے کا عادی ہوگا تو تشبہ کی بناء پر عرب کے وہ مخصوص فضائل اورمناقب بھی اس کو حاصل ہوں گے جو متعدد احادیث وروایات میں وارد ہیں ۔
نبی کریم اکا ارشاد ہے اے لوگو! رب ایک ہے باپ ایک ہے دین ایک ہے اورعربیت تم میں سے کسی کیلئے ماں باپ سے نہیں بلکہ وہ ایک زبان ہے جس نے اس میں بات چیت کی وہ عربی ہے (رواہ ابن عساکر)
ایک اورروایت میں ہے ’’عرب کی محبت ایمان ہے اوران کا بغض نفاق ہے ‘‘۔(مستدرک)
حضرت عثمان سے روایت ہے
’’جس نے عرب کو دھوکہ دیا وہ میری شفاعت میں داخل نہ ہوگا اورنہ اس کو میری محبت حاصل ہوگی ‘‘۔(ترمذی)
اس کے علاوہ متعددروایات میںعرب کے فضائل ومناقب وارد ہوئے ہیں جو اپنے مقام پر مذکورہیں ،وہ سب ہی عربی زبان میں جدوجہد کرنے والے کو حاصل ہوسکتے ہیں ۔
(۸) دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں عربی زبان سے زیادہ قدیم اورزندہ زبان روئے زمین پر اس وقت نہیں ملتی جو قرناً بعد قرن مختلف جماعتوں اورطبقوں میں تربیت پاتی اورترقی کرتی ہوئی چلی آرہی ہے گو اس زبان نے قومی اورملکی لحاظ سے بیشماررنگ بدلے لیکن اصلیت کے لحاظ سے اپنی جگہ قائم رہی ،لباس بدلتا رہا ،ذات نہ بدلی بلکہ مورخین کے ایک قول کے مطابق یہ دنیا کی زبانوں میں سب سے پہلی زبان ہے ۔
(۹) عربی زبان دنیا کی تمام زبانوں کے لحاظ سے انتہائی جامع اورمکمل اوروسیع ہے اس کے مختصرجملے اورموجزفقر ے معنیٰ اورمفہوم کی جن اعلیٰ اورعظیم ترین وسعتوں کوسمیٹ کرجس خوش اسلوبی اوراکمل طریق کے ساتھ ذہن انسانی تک پہنچاسکتے ہیں دوسری زبانوں کے طول طویل جملے اورمفصل فقرے بھی ذہن کو وہاں تک نہیں پہنچاسکتے ،اس کی بے پناہ وسعت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ مرادفات کثیرہ کے علاوہ شیریں اورخوش کن استعارات وکنایات کثرت کے ساتھ موجود ہیں ،حسن ادائیگی اورطرق تعبیرکی فراوانی ہے ،ایک ایک لفظ کے کئی کئی معنی ہیں مثلاً لفظ عین عربی زبان میں سترمعنی میں مستعمل ہے ، لفظ عجوزکے ساٹھ سے کچھ اوپر معنی ہیں ، اسی طرح ایک ایک معنی کے لئے کئی کئی الفاظ ہیں ،شہدؔ ہی کو لے لیجئے کہ اس کے لئے عربی کے خزانے میں ۸۰ الفاظ ملتے ہیں جن کے بارے میں مجد الدین شیرازی کی ایک تصنیف بھی پائی جاتی ہے ،سانپ کے لئے دو سو اونٹ اورتلوار کے لئے ایک ہزار اورمصیبت کے لئے چار ہزار الفاظ ہیں ،شیر ؔ کے پانچ سو نام اورصفات کے علاوہ بیشمار کنیتیںاورالقاب بھی ہیں ،اسی طرح ایک ایک جانور کے لئے کتنے نام اورکتنے القاب وکنیتیں ہیں ۔
اس سے عربی کی وسعت اورہمہ گیری کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے، انگریزی جو کوتاہ نظر و ں کے لئے اعجوبہ بنی ہوئی ہے اور جس کو وسعت کے ساتھ موصوف کیا جاتا ہے وہ عربی جیسی بے پناہ وسعت اورمحاسن سے قطعاً عاری ہے ،متذکرہ بالا فضائل میں سے نہ کوئی فضیلت اس میں ہے اورنہ ہی اس قسم کی وسعت ،عربی کی ایک بہت معمولی خوبی یہ ہے کہ واحد وتثنیہ اورجمع کے لئے الگ الگ صیغے ہیں لیکن انگریزی اس سے بھی محروم ہے ،اس میں واحد کے علاوہ تثنیہ وجمع کیلئے ایک ہی صیغہ استعمال ہوتا ہے اسی طرح اگر انگریزی کی ہر ایک چیز کا عربی سے موازنہ کرکے دیکھا جائے تو دونوں میںبین فرق نکلے گا اورعربی کے سامنے انگریزی کافراخ دامن بھی تنگ نظر آئے گا ،ذیل میں ہم ہندوستان کے ایک مشہورمؤلف کاوسعت عربی کے بارے میں ایک پر مغزاورمفید مضمون قدرے تصرف کے ساتھ سپردقلم کرتے ہیں تاکہ ناظرین کو پورے طریقہ پر عربی کی وسعت اورکشادگی کا حال معلوم ہوسکے ۔
(جاری)
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
عربی کی وسعت
3
وسعت تو بعض دوسری زبانوں میں بھی پائی جاتی ہے لیکن عربی کو جس درجہ بے پناہ وسعت اورفراخی حاصل ہے وہ کسی دوسری زبان کو نہیں وہ وضع وایجادکے کسی موڑپر بھی دوسری زبان کی طرف دست سوال دراز نہیں کرتی ،ہم قدرے تفصیل سے بتاتے ہیں کہ عربی زبان کا دامن کتنا وسیع ہے اوراس کی خصوصیات کیا ہیں ‘‘۔
(۱) ترادف :عربی میں ایک بڑی وسعت اس سے ظاہر ہوتی ہے کہ ہر معنی کے ادا کرنے کے لئے اس میںکم ازکم دس الفاظ موجود ہیں ،فصیح عرب ہر ایک مطلب کو بیسیوںقالب میں ڈھال سکتا ہے ،پہلی صدی میں سحبان وائلی اس میدان کامشہورشہ سوار ہے ،جس نے اپنے خطبہ میں کبھی ایک لفظ کو دوبارہ نہیںبولا ،عبد الرحمن ہمدانی متوفی ۳۲۰ھ نے ’’الفاظ الکتابۃ‘‘کے نام سے اس موضوع پر کتاب لکھی جس میں ایک معنی کو بیس بیس الفاظ اورجملوں میں دکھایا ہے ،مجدالدین فیروزآبادی نے ’’الروض المسلون فیما لہ اسمان الی الاُلوف ‘‘نام کی ایک کتاب لکھی جس میں ان الفاظ کو جمع کیا ہے جن کے دو سے لے کر ایک ہزارتک نام ہیں ، ابن خالویہ ہمدانی نے ایک رسالہ صرف شیر اورسانپ کے نامو ں کے لئے لکھا ہے ۔
(۱) اشتراک :عربی کی دوسری وسعت یہ ہے کہ ایک لفظ کے بیسیوںمعنی ہوتے ہیں ،ہرلفظ تقریباً پانچ چھ معنی رکھتا ہے ،عبارت کے اسباب وآرائش میں تجنیس ایک بڑی صفت ہے مگر یہ اسی زبان میں پیدا ہوسکتی ہے جس میں ایک لفظ کے کثرت سے معنی ہوں ،عربی میںایسے الفاظ بکثرت پائے جاتے ہیں ،اسی لئے عربی ادب میں تجنیس کی بہتات ہے یہی وجہ ہے کہ حریر ی اپنی کتاب ’’مقامات ‘‘میں ہر جگہ تجنیس کا استعمال کرتا ہے ،مثال کے طورپرہم صرف ایک لفظ کی تشریح کرتے ہیںعینؔ (۱)سونا(۲)نقد(۳) بارش (۴)آنکھ (۵)کنویں کا دہانہ (۶)نیزہ(۷)فوارہ (۸)قبلہ کا داہنا پہلو(۹)ترازوکے پلوں کا برابر نہ ہونا (۱۰)نفس شے (۱۱)گھُٹنا (۱۲)جاسوس (۱۳)ابر (۱۴)نظرلگنا (۱۵)چشم آب سو د (۱۶)مشکیزہ کا دہانہ (۱۷)داد (خارشت ) (۱۸)منتخب چیز(۱۹)صاحب خانہ (۲۰)مال پیش نظر(۲۱)ایک پرندہ کا نام (۲۲)کوہان (۲۳)ماموں (۲۴)ویرانہ (۲۵)تل (۲۶)غرور(۲۷)ایک قسم کی لمبی چادر (۲۸)غوک (۲۹)سخی (۳۰)پہاڑی (۳۱)تنہا (۳۲)زانو کاایک حصہ (۳۳)شخص (۳۴)کوڑے کی شکن ۔
(۳)أضداد:یعنی ایک لفظ کے دو متضاد معنی ہونا ،عربی میں بہت سے الفاظ ہیں جن کے معنی میں رات دن کا اختلاف ہے غالباً اس قسم کے الفاظ عربی ہی لغت پائے جاتے ہیں ،یہ الفاظ صنائع ،بدائع میں بہت کام آتے ہیں ،مثال کے طورپر تین لفظ لکھے جاتے ہیں ،جلل ،چھوٹا،بڑا ،مولی ،آقا ،غلام ،صارخ ،فریادرس ،فریاد خواہ ، رہوۃ ،بلندی،پستی ،اہما د ،چلنا ،ٹھہرنا ،ان تینوں مذکورہ بالا قسموں کے الفاظ’’فقہ اللغۃ ‘‘ لابن فارس المزہر للسیوطی میں بکثرت ملتے ہیں ،ابن جنی کی کتاب ’’الخصائص ‘‘میں بھی کہیں کہیں ایسے الفاظ نظر آتے ہیں ۔
(۴)اسم آلہ:عربی میں اسم فاعل اوراسم مفعول کی طرح اسم آلہ بھی ہے ، جس کا وزن مِفْعَلْ ،مِفْعَالْ ، مِفْعَلۃ ہے یعنی جو اس وزن پر پایا جائے گا وہ آلہ کے معنی پیدا کرے گا مثلاً
مصدر
معنی
اسم آلہ
معنی
فتح
کھولنا
مفتاح
کھولنے کا آلہ یعنی کنجی
صبح
روشنی
مصباح
روشنی کاآلہ یعنی چراغ
یورپ اگر اپنی تمام کوشش آلات کی ایجاد میں صرف کردیں تو عربی پراس کا کچھ اثرنہیں پڑے گا کیونکہ اسم آلہ کاقالب ہمیشہ ان کے لئے نئے نئے الفاظ ڈھالتا جائے گا ،آج جدید تمدن نے جو نئے نئے آلات پیدا کردئے ہیں دیکھو عربی نے ا ن کے لئے اسم آلہ کی مد دسے کیسے خوب صورت الفاظ پیدا کئے ہیں ۔
پریس - مطبعۃ
پمپ - محراج
ریڈیو- مذیاع
تھر ما میٹر- مقیاس
توپ -مدفع
استری -مکواۃ
(۵)اسم ظرف : عربی کی ایک عجیب خصوصیت اسم ظرف ہے جس کاوز ن مَفْعَل مَفْعِل مُفْعُل مَفْعِلَۃ ہے ،ابواب مزید کے مفعول بھی کبھی اس کام میں آتے ہیں، ان اوزان پر جو الفاظ آئیں گے وہ جگہ کے معنی بتائیں گے ،فارسی اردو میں اسم ظرف لفظ خانہ یا گاہ کی ترکیب سے بناتے ہیں جیسے کتب خانہ ،کارخانہ ،درس گاہ ، عربی صرف حرکات سے اسم ظرف پیدا کرلیتی ہے ۔
مصدر
معنی
اسم ظرف
معنی
مرور
گذرنا
ممر
گذرگاہ
کحل
سرمہ لگانا
مکحل
سرمہ دانی
غروب
ڈوبنا
مغرب
جائے غروب
ملح
نمک
مملح
نمک دان
جدید ترقی وتہذیب نے جونئے مقامات پیدا کردئے ہیں عربی نے اسم ظرف کی بدولت ان کے لئے کیسے اچھے مفرد الفاظ بنائے ہیں ۔
تھیٹر
اسٹیشن
ہوائی اڈہ
ہیڈکوارٹر
بنک
ملھی
محطۃ
مطار
مقر،مرکز
مصرف
اسم آلہ اوراسم ظرف یہ دونوں غالباً عربیت کے خزانے کے سوا اورکسی زبان میں نہیں ملتے ،ان دونوں کی وساطت سے آلات ومقامات کے نام کتنے چھوٹے مفرد لفظ میں ادا ہوجاتے ہیں ۔
(۶)أبواب:عربی کے مصادر میںایک بہت بڑا اضافہ ابواب سے ہوتاہے ،اصلی مادہ میں ایک دوحرف کی زیادتی سے نیا باب بنتا ہے ،ایک ہی لفظ ابواب کے مختلف برجوں سے طلوع ہوکر نئی نئی صورت میں ظاہر ہوتا ہے مثلاً لفظ کبر مختلف بابوں سے حسب ذیل شکلوں میں نمودار ہوگا ۔کبر،اکبار،استکبار،تکبر،تکبیر ، مکابرۃ، قبل ایک لفظ ہے جو نئی نئی ہیئت میںبیسیوں دریچوں سے سر نکالتا ہے ،قبل ،اقبال، اقتبال، استقبال، تقبل،تقبیل،مقابلۃ، تقابل،اس وسعت سے دنیا کی اورزبانیں بالکل محروم ہیں اور عربی زبان کامصدر ابواب میں چکر لگاتا ہے ۔
(۷)خاصیت أبواب :عربی مصادر کے ہر باب کی چند خاصیتیں ہیں مثلاً افعال کی خاصیت یہ ہے کہ فعل لازم کو متعدی کردے گا ،استفعال کا اثر یہ ہے کہ جب کوئی مصدر اس باب سے استعمال کیاجائے گا تو اس میں طلب کے معنی پیدا ہوجائیں گے ،ایک ہی مصدر ابواب کی خصوصیتو ں سے متاثر ہوکر ہر جگہ نئے معنی پیدا کرتاہے، عربی کی یہ خصوصیت بھی کسی دوسری زبان میں نہ ملے گی ،ذیل میں دو مثالیں پیش کی جاتی ہیں ۔
قطع
اقطاع
تقطع
تقطیع
قبل
کاٹنا
علیحدہ کرنا
پاش پاش ہوجانا
پارہ پارہ کردینا
سامنے
اقبال
اقتبال
استقبال
مقابلۃ
تقابل
سامنے آنا
متوجہ ہونا
آئندہ آنا،قبلہ رخ ہونا
سامنے کرنا
آمنے سامنے آنا
(۸)صِلات :عربی زبان میں ایک بڑا کھیل صلات کا ہے ،صلات سے وہ حروف مراد ہیں جو افعال کو اسماء سے ربط دیتے ہیں ،ان صلات سے بھی عربی زبان میں بہت زیادہ وسعت پیدا ہوگئی ہے ،اکثر فعل کے چند صلے آتے ہیں لیکن وہی ایک فعل ہر صلہ کے ساتھ ایک نئے معنی پیدا کرتا ہے ،اس خصوصیت میںعربی کے ساتھ کچھ اورزبانیں بھی شامل ہیں ،ضربتہ (میں نے اس کو مارا )ضربت لہ (میں نے اس سے کہاوت بیان کی)ضربت عنہ (میں نے اس سے منھ پھیرلیا )ضربت فی الارض (میں نے سفرکیا )رغبت عنہ (میں نے اس سے اعراض کیا )رغبت فیہ (میں نے اس کی خواہش کی )۔
(۹)ضرب الامثال :ضرب الامثال ہر زبان میں پائی جاتی ہیں لیکن کسی میں کم کسی میں زیادہ ، عربی زبان میں ضرب الامثال بے انتہاء ہیں جن کی کثرت کا اندازہ اس سے کرو کہ ابوالفضل احمد بن محمدمیدانی متوفی ۵۱۸ نے صرف امثال عرب کو دو ضخیم جلدوںمیں جمع کیا ہے ، یہ کتاب حروف ہجاء کے اعتبار سے ہے ،الف سے لیکر یاء تک کے امثال کو جامع ہے ،کتاب الامثال نام ہے ۔
ان ضرب الامثال کی کثرت ہی عربی کیلئے باعث امتیاز نہیں بلکہ ان میں چندخصوصیتیںایسی ہیں جو اور زبانوں کی ضرب الامثال میں بہت کم پائی جاتی ہیں ان خصوصیات کے لئے چندصفحات الگ درکار ہیں ۔
(۱۰)تدریج : عربی زبان کی ایک بڑی وسعت اس سے معلوم ہوتی ہے کہ ایک شئے کو ادنی سے اعلیٰ تک پہنچانے کے لئے جتنے مدارج طے کرنے ہوتے ہیں ان کے لئے عربی میں الگ الگ نام ہیں ،مثلاً صبح سے شام اور شام سے صبح تک پہنچنے کے لئے زمانہ کو وقت کے بیسیوںمرحلے طے کرنے پڑتے ہیں ،دنیا کی کل زبانوں میں ان کے لئے صرف صبح ،شام ،دن ،رات دوپہر یا ایک دو اور الفاظ ہوں گے ،مگر عربی زبان شب وروزکے ہر گھنٹے کے لئے ایک نیا لفظ رکھتی ہے جن کو ہم علی الترتیب ذکر کرتے ہیں یہ الفاظ علی الترتیب صبح سے شام اورشام سے صبح تک کے اوقات کے لئے ہیں ۔
(صبح ) صباح ، بکور،غداۃ ، ضحی، اشراق ، ضحائ،شروق ، زوال ، ہاجرۃ ،ظہیرۃ، رواح، اصیل ،مسائ، عصر ، طفل ، عشینہ۔
(شام ) شفق ،عشاء ،عتمۃ،سحرۃ ،فلنس ،بلجۃ ،تنویر،صبح ۔
اسی طرح بچپن سے لے کر پیری تک کے ہر مرحلہ کے لئے نیا لفظ ہے ،شاید اس قسم کی تفصیل اورکسی زبان میں موجود نہ ہوگی اوراس پر مزید یہ ہے کہ مردوں کے منازل زندگی کے لئے الگ الفاظ اورعورتوں کے لئے الگ ،رونا ،ہنسنا ،بارش ہر ایک کی تدریج کے لئے علیحدہ الفاظ ہیں ۔
(۱۱)تفصیل :عربی میںایک بڑی وسعت یہ ہے کہ ہر ایک چیز کی تفصیل ہے اوراس کے لئے جد ا جداالفاظ ہیں مثلاً ہم ہر چیز کی کثرت بہت اوروافر سے ادا کرتے ہیں یعنی ایک ہی لفظ ہر چیز کی کثرت کو بتاتا ہے مگر فصیح عرب ہر قسم کی بہتات کے لئے کثرت سے الفاظ رکھتا ہے ۔
مال کی کثرت الدثر،چیونٹی کی کثرت ویلم،پانی کی کثرت الغمر،بارش کی کثرت جفال،فوج کی کثرت مجر،درخت کی کثرت غیظل ،اونٹ کی کثرت عرج ،گھاس کی کثرت کیسوم،اولاد کی کثرت خشیلۃ ،جماعت کی کثرت قبصٌ۔
مگر ہرقسم کی کشادگی کے لئے صرف ایک دو لفظ رکھتے ہیں، عربی ڈکشنری ہر چیز کی وسعت مختلف الفاظ سے بیان کرتی ہے ،زمین کی وسعت کے لئے،صبح سے شام اورشام سے صبح تک کے جملے اورسفر کرنے کو ہم صرف ایک ہی دولفظ سے بیان کرتے ہیں مگرعربی شب وروزکے ہر گھنٹے کی مسافرت کے لئے الگ الگ الفاظ رکھتی ہیں جس کو تدریج اورتفصیل سے واقفیت حاصل کرنے کاشوق ہو وہ ثعالبیؔ کی فقہ اللغۃ کی طرف رجوع کرے ۔
(۱۲)قانون معنی :عربی زبان کی ایک عجیب وغریب خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اکثر ا لفا ظ کے معنی علم الا شتقا ق کے ما ہرمحض حروف کی صورت دیکھ کر بتاسکتے ہیں مثلاً اگر کوئی اس کے سامنے ایسا لفظ پیش کیاجائے جس میں ’’ج ‘‘اور’’ن‘‘جمع ہوں تو وہ فوراً کہہ دے گا کہ اس لفظ کے معنی میں چھپنے کالحاظ ضروری ہے جس لفظ میں’’الف ‘‘اور’’ر‘‘ہوں گے اس کے معنی میں تنگی کااثر ضرور پایا جائے گا اورجو لفظ ’’الف ‘‘اور’’س ‘‘کا جامع ہوگا وہ ثبوت کے معنی ظاہر کرے گا اگر کسی لفظ میں ’’الف ‘‘اور’’ب‘‘کا اجتماع ہوگا تو انقطاع کے معنی پیدا کریگا وغیرہ ۔اس قسم کی تفصیل علم الاشتقاق کے عام رسالوں میں مل جائیگی یہ قوانین معنی کلی نہیں مگر اکثری ضرورہیں غالباً دنیا کی اورزبانیںاس فیض سے محروم ہیں۔
(۱۳)مختصر گوئی :مشرقی زبان عموماً مغرب کی زبان سے مختصر ہوتی ہے مگر عربی خصوصیت کے ساتھ تمام زبانوں میں سب سے زیادہ مختصر ہے ،کسی زبان سے جب عربی میں ترجمہ کروگے تو عربی کا کالم ہمیشہ اس سے چھوٹا ہوگا ،عربی مختصرگوئی میں حسب ذیل صورتیں ہیں ۔
(۱) عربی جملے دوسری زبانو ں کے جملوں سے ہمیشہ چھوٹے ہوں گے جس مفہوم کو کوئی دوسری زبان پانچ الفاظ میں ادا کرے گی ،عربی اسے کم سے کم الفاظ میں ادا کرے گی ۔
(۲) اسم جامد سے فعل نہیں بنتا اس لئے جب کوئی جملہ اسم جامدکی ترکیب سے بنایا جائے گا تو وہ تین لفظ سے کم میں تمام نہ ہوگا ،عربی کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ اسم جامد کے ساتھ بھی اسم جامد سے فعل بناکر ایک لفظ میں جملہ کامل کردیتی ہے ۔
أ عرق :وہ عراق پہنچا،أشأم :وہ شام پہنچا ،أیمن :وہ یمن پہنچا،أنجد:وہ نجدمیں پہنچا ،تفرعَنَ :وہ فرعون بن گیا ،تَشَیْطَنَ :وہ شیطان بن گیا ۔
(۳) (پورا جملہ صرف ایک لفظ میں ادا ہوجاتا ہے)
استرجع : اس نے انا للّٰہ وانا الیہ راجعون کہا۔
تھلل : اس نے لاالہ الا اللّٰہ کہا ۔
حیعل : اس نے لا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ پڑھا ۔
صبح : اس نے صبح کے وقت کسی کو لوٹ لیا ۔
صفن : گھوڑازمین پر تین پاؤں سے کھڑاہوا اورچوتھاپاؤںآہستہ سے اس نے زمین پررکھا۔
ھدف : وہ شاخ جو شام کے وقت درخت سے لٹک کر کمر کی شکل کی طرح ہوگئی ہو۔
(جاری)
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
علوم وفنون :
4
عربی کی وسعت دامنی کا اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے متمدن اورعلمی زبان نہ ہونے کے باوجود کل زبانوں کے علوم وفنون کو اپنی آغوش میں لیا اوران کے ایک لفظ کا بھی باراحسان نہ اٹھاسکی ، تہذیب وتمدن اورشائستگی کیلئے الفاظ کا ایک بے پناہ ذخیرہ دس بیس کے علاوہ اپنے یہاںسے فراہم کیا ، علوم عقلیہ عموماً دوسری زبان سے منتقل ہوکرعربی میں آئے لیکن عربی نے سب کیلئے اصطلاحات ، ترکیبیں،اپنے گھر سے دیں۔
فلسفۂ ارسطوکے انتہائی بڑے ذخیرے کے لئے الفاظ کے دفتر کھول دئے ،اقلیدس ،ہندسہ ،ہیئت ، موسیقی ، طب یونانی اور دیگرمختلف لا تعداد علوم وفنون ،دوسری زبانوں سے ترجمے ہوکر عربی زبان میںآئے اوروقتاً فوقتاً ان پر اضافات بھی ہوتے رہے مگر اصطلاحات کیلئے عربی کو کسی دوسری زبان کی طرف دست سوال دراز کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی ۔
خود عربی زبان میں صرف ؔ و نحوؔ،بیان وعروض ،حدیث وتفسیر،تاریخ وغیرہ بیسیوںعلوم وفنون پیدا ہوئے اوران کی تراکیب اوراصطلاحات کے لئے الفاظ وحروف کی کفالت عربی ہی نے کی ۔
عربی زبان کے علوم
یوں تو عربی میں بے شمار علوم ہیں ،لیکن ان میں سے اہم چار ہیں ۔(۱)لغت (۲)نحو(۳) علم بیان (۴)علم ادب
اہل شریعت کے لئے ان کاجانناضروری ہے ،کیونکہ شرعی احکام کا ماخذقرآن وحدیث عربی میں ہے اوراس کے راوی صحابہ ؓ اورتابعین بھی عرب ہیں اورا س کے مشکلات کی شرح انہیںکی زبان کی مددسے ہوسکتی ہے اس لئے اس زبان سے وابستہ علوم کاجاننا علم شریعت حاصل کرنے والوں کے لئے لازمی ہے ،یہ علوم اہمیت میں اسی ترتیب پر ہیں جس طرح وہ مقصود کلام ادا کرنے میں متفاوت ہیں ۔
مقصد یہ ہے کہ سب سے اہم اورمقدم علم نحو ہے کہ اس سے کلام کی اصلیت معلوم ہوتی ہے یہی فاعل ، مفعول اورمبتداء وخبر میں امتیاز کا ذریعہ ہے اگر علم نحو نہ ہوتا تو افادۂ مخاطب غیر معلوم رہ جاتا،تقدم کاحق اگر چہ لغت کو حاصل تھا مگر اکثر کلمات کی ظاہری حالت اپنی اصلی شکل میں ہے لیکن اعراب جس سے مسند ومسند الیہ کی تعیین ہوتی ہے اصلی حالت پر نہ رہا بلکہ اس میں تغیر وتبدل پیدا ہوا اوراس کا نشان تک باقی نہ رہا ،بنابریں علم نحوعلم لغت سے زیادہ اہم ہوا اس لئے اس کے نہ جاننے سے باہمی مفاہمت میں بڑی خامی آجائے گی مگرلغت کا یہ حال نہیں ۔
علم نحو:
عرف میں اس عبارت کو کہتے ہیں جو ادائے مطلب کیلئے متکلم بولتا ہے چونکہ یہ عبارت زبان کا فعل ہے اس لئے ملکہ کا متکلم کی زبان میں راسخ ہونا ضروری تھا ، عربوں کویہ ملکہ حاصل تھا اوردوسری قوموں کے ملکات سے کہیں بہتر اورادائے مطلب کیلئے بہت واضح تھا مگر جب اسلام کا آغاز ہوا اورعرب حکومت وسلطنت کی جستجو میں حجازسے نکلے اورعجمیوںسے خلط ہوا تو یہ ملکہ بگڑچلا اورمتعرب عجمیوں کی خصوصیات اس میں داخل ہوگئیں،جس کی بناء پر اہل علم کو اندیشہ ہوا کہ یہ ملکہ کہیں بالکل ہی ضائع نہ ہوجائے اورآنے والی نسلیںاس سے ناآشنا ہوکرقرآن وحدیث کے سمجھنے سے قاصر نہ ہوجائیں چنانچہ انہوں نے کلام عرب کے اطلاقات کومدنظررکھ کر رواں دواں قواعد کلیہ بنائے ،مثلاً فاعل مرفوع ہوتا ہے ،مفعول ،منصوب ،مبتدا مرفوع ، پھر چونکہ حرکات کے تغیر سے معنی بھی متغیر ہوجاتے ہیں اس لئے اس کو اعراب اوراس تغیر کے سبب کو عامل کے نام سے موسوم کیا اوراسی طرح اوراصطلاحات بھی مقررہوکر قلم بندہوئیں اوران کو مخصوص صنعت قرار دے کر علم نحو کہنے لگے ۔
سب سے پہلے اس صنعت میں ابوالاسوددوئلی نے جو بنی کنانہ میں سے تھا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مشورہ سے ایک کتاب لکھی ،اس کے بعد دوسرے لوگوں نے بھی تصنیفیںکیں حتی کہ ہارون رشید کے عہدِ خلافت میں جب لوگ اس علم کے سخت ضرورت مند ہوئے تو خلیل ابن احمد فراہیدی نے اس فن میں کاٹ چھانٹ کرکے اس کے ابواب کی تکمیل کی پھرسیبویہ نے اس سے یہ فن سیکھ کر تفریعات فن کو پورا کیا اوردلائل بھی دئیے اوراس میں اپنی مشہورتصنیف الکتاب لکھی ،جو بعد میں سب کتابوں کی پیشوا بنی ،ابو علی فارسی اور ابو القاسم زجاجی نے طلبہ کے لئے مختصرکتابیںتصنیف کیں جن میں وہ امام کی الکتاب کے قدم بہ قدم چلتے رہے پھر اس فن میں باتیں بڑھتی گئیں اورکوفہ وبصرہ کے علماء میں اختلافات پیدا ہوگئے اورباہمی دلائل خیزی اوربحثا بحثی بڑھ گئی ،متاخرین اپنے معروضہ طریقہ کے مطابق اختصارپر آمادہ ہوگئے اوران طول وطویل کتابوں کو تمام منقولہ خلافیات کے استیفاء کے ساتھ مختصرکرنے لگے جس طرح ابن مالک نے التسھیل الفوائدمیں کیا،یا صرف اہم مسائل پر اکتفاء کرنے لگے جس طرح زمخشری نے المفصَّل فی الاعراب میں اورابن حاجب نے الکافیہ میں کیا بارہا نظم بھی کرتے رہے ۔جیسے ابن مالک نے اپنے بڑے اورچھوٹے ’’الفیہ ‘‘میں اورابن المعطی نے ’’الدرالالفیہ‘‘ میں کیا خلاصہ یہ کہ اس فن کی تصانیف بے شمار ہیںاورحد ِاحصاء سے خارج ہیں ۔
علم لغت :اس علم سے موضوعات لغویہ معلوم ہوتے ہیں اصل یہ ہے کہ جب عربی زبان کاملکہ حرکات جس کو علم نحو کی اصطلاح میں اعراب کہتے ہیں،بگڑنے لگا ،تو عجمیوںکے میل جول اوراختلا ط سے یہ فساد اوربھی پھیلتا گیا حتی کہ موضوعات الفاظ تک سرایت کرآیا اورعرب کا بیشترکلام متعربین کے اس نقص کی پیروی سے جو صریحاً عربی کے خلاف تھا ’’غیرماوضع لہ ‘‘میں استعمال ہونے لگاتو اس وقت موضوعات لغویہ کی حفظ وتدوین کی ضرورت محسوس ہوئی اوراس موضوع پر متعدد کتابیں لکھی گئیں ۔
خلیل:جو اس میدان کاشہ سوار ہے اس نے کتاب ’’العین ‘‘تصنیف کی جس میں حروف تہجی کی تمام صورتوں کا حصر کیا اورترتیب ابواب میں مخارج حروف کا لحاظ کرتے ہوئے پہلے حروف حلق کو لایا اورآخر میں حروف علت کو ذکر کیا ،حروف حلق کو عین سے شروع کیا اس لئے کتاب کا نام ’’العین ‘‘رکھا پھر زبیدی نے ہشام ابن حکم کے لئے چوتھی صدی میں مختصرکتاب ’’العین ‘‘لکھی جس میں اختصارکے ساتھ استیعاب کا بھی لحاظ رکھا اورانتہائی تہذیب وتنقیح سے کام لیا ۔
اھل مشرق :میں سے جوہری نے حروف ہجاء کی معلومہ ترتیب کے مطابق کتاب’’ الصحاح‘‘ لکھی، ہمزہ سے شروع کی اورکلمہ کے آخر کو مد نظر رکھ کر حرف آخر ہی کو باب قرار دیا اورخلیل کے طرز پر لغت کو محصورکردیا ۔
پھر اہل اندلس میں سے ابن سبدہ نے جو شہر دانیہ کا باشندہ تھا ،علی بن مجاہدکے عہد حکومت میں ’’کتاب المحکم والمحیط الأعظم ‘‘کتاب العین کے طریقہ اورترتیب پر استیفاء کے ساتھ لکھی بلکہ کلمات کے اشتقاق اورگردانوں کی بحث کااضافہ کردیا اورمحمدبن الحسین مصاحب مستنصرباللہ نے اس کو مخلص کیا اوراس کی موجودہ ترتیب کو بدل کر کتاب الصحاح کے طرز پر لے آیا ،یہ لغت کی اصل کتابیںہیں اس کے علاوہ کچھ مختصرکتابیںایسی بھی ہیں جو کسی خاص قسم کے کلمات کے لئے مخصوص ہیں اوربعض یا سب ابواب کو بالاستیعاب لیتی ہیں مگران کا طریق حصر ظاہر نہیںاوران کا بلحاظ ترکیب ظاہر ہے جیسے زمخشری کی اساس البلاغۃ کو اس کتاب میں وہ سارے الفاظ ومعانی بیان کئے ہیںجن کو عربو ں نے مجازی معنی میں استعمال کیا ہے یہ کتاب اچھی اورمفید ہے پھر چونکہ عرب کسی عام معنی کیلئے کوئی لفظ وضع کرتے ہیںاورپھر خاص خاص مواقع میں وہ لفظ استعمال کرتے ہیں جو انہیںکیلئے مخصوص ہوتا ہے جس کی بناء پر ہمارے یہاںوضع اوراستعمال میں فرق ہوگیا،اورلغت میں وسیع المادۃ تفقہ کی ضرورت ہوئی اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ابو منصورثعالبی نے فقہ اللغۃ نامی کتاب لکھی جو ایک لغوی کیلئے نہایت اہم اورضروری ہے اس کے یاد کرنے سے محاورات عرب میں تحریف واقع نہیں ہوسکتی۔
مختصرکتابوں میں جن میں روزانہ کے استعمال ہونے والے الفاظ خصوصی طورپربیان کئے گئے بہت ہیں لیکن ان میں سے کتاب الالفاظ لابن سکیت اورکتاب ’’الفصیح لثعلب‘‘ قابل ذکر ہیں۔
(جاری)
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
علم بیان
یہ علم علوم لسان سے ہے ،اسلام میں اس کی ایجادعلوم عربیہ اورلغت کے بعد ہوئی اس کی تین قسمیں ہیں پہلی قسم میں ان ہیأت اورحالتوںسے بحث ہوتی ہے جو لفظ کو تمام مقتضیات کے مطابق بنادیتی ہیںاس کو علم البلاغۃ اورعلم المعانی کہتے ہیں ۔
دوسری قسم میں لفظ کے لازم وملزوم سے بحث کی جاتی ہے اس کو علم البیان کہتے ہیں لوگوں نے ان دونوں قسموں کے ساتھ ایک اورقسم یعنی کلام کی تزئین وتحسین کااضافہ کیا جس سے ایک طرح کی گلکاری پیدا ہوجائے مثلاً ’’سجع ‘‘جس سے جملے الگ الگ ہوجائیں یا تجنیس جو الفاظ کو باہم دگر مناسب کردے یا ’’ترصیع‘‘ جس سے وزن کے ٹکڑے ہوجائیں یا معنی مقصودکو چھپاکر ایک نہایت خفی معنی کا دھوکہ دیاجائے کہ لفظ دونوں معنی میں مشترک ہے، اسی طرح کی کچھ اورصنعتیںبھی اس کو علم البدیع کہاجاتا ہے ،متاخرین تینوںقسموںپر لفظ بیان کا اطلاق کردیتے ہیں ورنہ در حقیقت قسم دوم ہی کا نام ہے ،متقدمین نے اولاً اس علم میں بحث کی بعد میں اس پر یکے بعد دیگرے اضافے ہوتے رہے ۔
اس علم میں جعفر بن یحییٰ ،جاحظ اورقدامۃ بن جعفرنے نامکمل تصنیفیںکیں پھر اس کے مسائل کی تدریجی طورپر تکمیل ہوتی رہی ،یہاں تک سکاکی نے اس کا خلاصہ کیا اورمفتاح العلوم تصنیف کی اوراس علم کو اس کا ایک حصہ قرار دیا اوراسی سے ابن مالک نے المصباح اورجلال الدین قزوینی نے الایضاح اورالتلخیص جیسے متون ملخص کئے ۔
اس علم کا فائدہ یہ ہے کہ اعجازقرآن سمجھا جائے کہ اس کا اعجاز اسی میں ہے کہ سارے مقتضیات احوال پر دلالت ہو ،خواہ وہ بولنے سے معلوم ہوتے ہوں یا صرف نظم کلام کے سمجھنے سے ،یہ کلام کا انتہائی مرتبہ ہے بالخصوص جب کہ الفاظ بھی چیدہ اورچست ہوں یہی وہ اعجاز ہے جس کے ادراک سے عقلیںقاصر ہیں ،اس علم کی زیادہ ضرورت مفسرین کو ہے مگر اکثر متقدمین کی تفسیریںاس سے بالکل خالی ہیں البتہ زمخشری نے اپنے زمانہ میں تفسیرکشاف لکھ کر اس کمی کو پورا کیا اوراس کی بنا اسی فن پر رکھی د ر حقیقت وہ اسی فن کی کتاب ہے ۔
علم ادب
اس فن کے ذریعے عربی نظم ونثر پر قدرت کاملہ حاصل ہوتی ہے اورعربوں کے طرزوطریق پرکلام کرنے کی مہارت اورملکہ بہم پہنچتاہے ،اس کی صورت یہ ہے کہ ادباء عرب کے بلندپایہ طبقہ کے اشعاراورمسجع عبارات سے واقفیت پیدا کرکے ان کو یکجا جمع کیاجائے اوراسی اثناء میں نحو ولغت کے مسائل پر بھی نظر ڈالی جائے تاکہ عربی قوانین کی ایک بڑی تعداد سامنے آجائے ،عربوں کے معرکہائے رزم اورانساب کا تذکرہ بھی ہوجس سے اس قسم کے اشعارسمجھنے میں آسانی ہوجائے ،مقصدان تمام باتوں کا یہ ہے کہ ناظرکو کلام عرب کے اسلو ب اوران کے طریق بلاغت سے پوری پوری شناسائی حاصل ہوجائے کیونکہ بغیر سمجھے محض یاد کرنے سے ملکہ کا حصول ناممکن ہے اس لئے پہلے ان چیزوں کا جاننا جن پر کلام عرب کا سمجھنا موقوف اور ضروری ہے ،ادب کے لغوی معنی بلانے کے ہیں اوراس کی دو قسمیں ہیں ادب نفسی ،ادب کسبی ۔ادب نفسی ان محاسن اورفضائل کا نام ہے جو انسان کے کریم الطبع ہونے کو بتاتے ہیں اوریہ خدا کی توفیق سے حاصل ہوتا ہے اس میں کسب انسانی کو دخل نہیں ،ادب کسبی جس میں انسان کے کسب کو دخل ہو۔
مغرب میں ہے کہ ادب وہ ریاضت محمودہ ہے جس کے ذریعے آدمی اپنے اندر کمالات حسنہ پیدا کرسکے ، علم ادب،زمخشری اورجرجانی کے قول کے مطابق وہ علم ہے جس کے ذریعہ عربی زبان کی ہر قسم کی غلطی سے حفاظت ہوسکے خواہ وہ غلطی لفظی ہو یا کتابت کی ۔
شریشی نے کہا کہ علم ادب عرب کے ا شعار واخبار کی معرفت کا نام ہے ۔
ابن خلدون نے لکھا کہ علم ادب عربوں کے اشعار واخباراز بر کرنے اورہر علم سے خواہ وہ علوم لسانیہ سے ہو یاعلوم شرعیہ سے ضروری معلومات یاد کرلینے کا نام ہے ،علوم شرعیہ میں قرآن وحدیث کو زیادہ اہمیت حاصل ہے، یہ تعریف متقدمین کے نزدیک ہے ،متاخرین اصطلاحات صنائع وبدائع مع سند یاد کرلینے کو بھی ادب کی تعریف میں داخل کرتے ہیں آغازاسلام میں راگ بھی اس کا جزء تھا اسی لئے عہد عباسی کے انشاء پر دازعموماً راگ سے واقف ہوتے تھے ۔
بعض کہتے ہیں کہ علم ادب بارہ فنون کے مجموعہ کا نام ہے جن میں سے لغت ،صرف ،نحو ،اشتقاق ،معانی ، بیان ، عروض ،قافیہ ،یہ آٹھ اصول ہیں اوررسم الخط ،قرض الشعر ،انشاء خطب ورسائل ،تاریخ، یہ چاروں فروع کہلاتے ہیں ۔
مفتاح السعادۃ میں ہے کہ علم ادب وہ علم ہے جس کے ذریعہ عربی زبان میں لفظی اورانشائی غلطی ہونے سے حفاظت ہواورمخارج ،وضع ،اشتقاق ،صرف ،نحو،معانی ،بیان ،بدیع ،عروض ،قوافی ،قرض الشعر ،مبادی شعر، انشاء ،مبادی انشاء ،محاضرہ ،تواریخ ،یہ تمام علوم اس کے فروعات سے ہیں ۔
اس فن کا کوئی خاص امر موضوع نہیں جس کے ذاتی عوارض کے ثبوت وسلب سے اس فن میں بحث کی جاسکے البتہ اس کا ثمرہ اورغرض یہ ہے کہ اس فن کے ذریعہ انسان کو عربی نظم ونثر پرپوری قدرت حاصل ہوجاتی ہے ۔
بعض نے قرآن وحدیث کے معانی کی معرفت کو اس کی غرض بتایا ہے اورظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر ایک مسلمان کے لئے اور کیا مقصود ہوسکتا ہے ؟۔
اس فن کی چار کتابیں اہم اوراصل بتائی جاتی ہیں ’’ادب الکاتب لابن قتیبۃ‘‘’’الکامل للمبرد‘‘ ’’البیان والتبیین للجاحظ ‘‘’’النوادرلابی علی القادری ‘‘ان کے علاوہ بھی متقدمین ومتاخرین کی مختلف موضوعات پر بیشمارتصنیفیںہیں لیکن سب ان ہی کی خوشہ چین ہیں ۔
نوٹ:
یہ مضمون استاذمحترم حضرت شیخ الادب مولانااطہرحسین علیہ الرحمۃ والرضوان کے نایاب وکم یاب مضامین میں سے ہے،جن صاحبان کوپسندآئے وہ حضرت موصوف کے لئے دعامغفرت اورترقی درجات کی دعاضرورفرمائیں۔
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
جزاک اللہ خیرا۔
اللہ تعالیٰ حضرت سے خوش ہو، اپنی رضا نصیب فرمائے اور ہمیں اپنے اکابر سے کامل مستفید ہونے کی توفیق بخشے۔
 

پیامبر

وفقہ اللہ
رکن
یہ مقالہ بہت اچھا لکھا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ راقم کی مغفرت فرمائیں۔ آمین
میں نے اس کا پی ڈی ایف تیار کیا ہے۔ نیٹ کی سپیڈ کچھ بہتر ہوتو شیئر کرتا ہوں۔
جزاکم اللہ خیرا!
 
Top