دیوبند علماء پر امام ترمذی کے حوالے سے ایک اعتراض

محمد نعمان

وفقہ اللہ
رکن
السلام علیکم !

حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ پر درج ذیل اعتراض کا جواب درکار ہے۔


2u5ywjn.jpg
 

محمد نعمان

وفقہ اللہ
رکن
حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور ننھے زبیر کے شبہات
مفتی شبیر احمد حنفی حفظہ اللہ

رئیس المناظرین، حجۃ اللہ فی الارض، حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑی رحمہ اللہ نے ایک روایت نقل فرمائی:

” حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ میں تم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم جیسی نماز پڑھاؤں؟ اس کے بعد انہوں نے نماز پڑھائی اور پہلی مرتبہ کے علاوہ کسی جگہ رفع یدین نہ کی۔

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بہت سے اہل علم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کا یہی مذہب ہے اور حضرت سفیان ثوری رضی اللہ عنہ اور اہل کوفہ کا بھی یہی مسلک ہے۔“ (ترمذی ج 1ص35)
تجلیات صفدر: ج ص۳۵۳، ۳۵۴

قافلہ حق جلد 6 شمارہ3 میں غیر مقلدین کے زبیر زئی صاحب کی طرف سے رفع یدین نہ کرنے کے دلائل پر وارد کیے گئے بودے اعتراضات کا خوب جائزہ لے کر انہیں خاموش کرادیا گیا تھا۔ ان دلائل میں مذکورہ حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھی تھی جس پر وارد شدہ شبہات کا شافی جواب دے دیا گیا تھا۔

اب ماہنامہ ”الحدیث“ کے ننھے زبیر نے پھر اسی حدیث پر چند شبہات وارد کیے ہیں۔موصوف کے اعتراضات اور خود صاحب اعتراض علمی دنیا میں کوئی وقعت نہیں رکھتے، لیکن ہم جواب اس لیے دے رہے ہیں تاکہ سادہ لوح مسلمان ان کے دجل و فریب سے بچ سکیں۔
شبہ نمبر1:

حضرت اوکاڑوی رحمہ اللہ نے حدیث نقل کرکے امام ترمذی اور علامہ ابن حزم کی تحسین و تصحیح نقل فرمائی ہے۔ اس پر ننھے زبیر نے لکھا:

”۔۔۔جبکہ آل دیوبند نہ تو امام ترمذی رحمہ اللہ کی تحسین کو مانتے ہیں اور نہ تصحیح کو اور نہ امام ترمذی رحمہ اللہ کے ان اقوال کو جو وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں فرماتے ہیں ۔۔۔ مثلاً فاتحہ خلف الامام کی حدیث جس کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن کہا ہے۔۔۔ سرفراز صفدر دیوبندی کے نزدیک اس حدیث کا وجود اور عدم وجود برابر ہے“
الحدیث ش 95 ص 28ص29

ننھے زبیر نے مزید لکھا: اسی طرح سیدنا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی حدیث ۔۔۔ اس میں چار مقامات پر رفع یدین کاثبوت بھی ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن بھی کہا اور صحیح بھی کہاہے۔۔۔ لیکن اس کے باوجود ماسٹر امین اکاڑوی نے اس حدیث کو ضعیف کہا ۔
ص27
جواب:

حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے راوی یہ ہیں:
1: هناد بن السری:

آپ سے امام بخاری نے”خلق افعال العباد“ میں ، امام مسلم نے اپنی صحیح میں اور اصحاب سنن اربعہ نے روایت لی ہے۔ ثقہ و صدوق ہیں۔
تذکرۃ الحفاظ للذہبی:ج۲ ص۷۰، تہذیب التہذیب لابن حجر
2: وكيع بن الجراح:

صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔آپ ثقہ، حافظ اور عادل ہیں۔ ثقہ بالاجماع ہیں۔
تقریب التہذیب: ج۲ ص۶۴۶ وغیرہ
3: سفیان الثوری:

صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔ائمہ نے آپ کو ”الامام، شیخ الاسلام، سید الحفاظ [حفاظ حدیث کے سردار]، فقیہ، کان سفیان بحراً [آپ علم کا سمندر تھے]، ثقۃ حافظ امام حجۃ امیر المؤمنین فی الحدیث [حدیث میں امیر المؤمنین ہیں]“ جیسے القابات سے نواز کر آپ کے توثیق و تعدیل کی ہے۔ آپ ثقہ بالاجماع ہیں۔
تذکرۃ الحفاظ للذہبی: ج۱ ص ۱۵۱ تا ۱۵۳، تقریب التہذیب: ج۱ ص۲۱۶
4: عاصم بن كليب :

صحیح بخاری معلقاً، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔ آپ کو ائمہ نے ثقۃ، صدوق، مامون قرار دیا ہے۔
تاریخ الثقات للعجلی: ص۲۴۲، کتاب الثقات لابن جبان: ص۷ ص۲۵۶، تہذیب التہذیب لابن حجر: ج۳ ص۴۰، ۴۱

زبیر علی زئی نے ایک مقام پر لکھا:

یہ صحیح مسلم کے راوی ہیں۔ [نماز میں ہاتھ: ص۱۳]
5:عبد الرحمن بن الأسود:

آپ صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔ آپ کو الفقیہ، الامام بن الامام، ثقۃ من خیار الناس کہا گیا ہے۔ بالاتفاق ثقہ ہیں۔
سیر اعلام النبلاء للذہبی: ج۵ ص۷، تہذیب التہذیب لابن حجر:ج۳ ص۳۳۹
6:علقمہ بن قیس الکوفی:

صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔ آپ فقیہ، ثقۃ اور ثبت تھے۔
تذکرۃ الحفاظ للذہبی: ج۱ ص۳۹، تقریب التہذیب لابن حجر: ج۱ ص۴۰۸
7: عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ:

مشہور صحابی ہیں ، آپ کا لقب فقیہ الامۃ ہے۔
تاریخ الصحابہ لابن حبان: ص۱۴۹، تقریب التہذیب لابن حجر: ج۱ ص۳۱۳

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ صحیح علی شرط مسلم ہے۔ اس کی صحت صر ف امام ترمذی رحمہ اللہ کے حسن فرمانے پر موقوف نہیں جیسا کہ ننھے زبیر کو مغالطہ لگا ہے ۔

یہ بھی واضح رہے کہ محدثین کی ایک جماعت نے اس حدیث کو صحیح یا حسن فرمایاہے:
1: امام الدار قطنی م385ھ: اسنادہ صحیح [اس کی سند صحیح ہے]
(کتاب العلل للدارقطنی ج5ص172سوال804)
2: امام ابن القطان الفاسی م 628ھ: والحديث عندي - لعدالة رواته - أقرب إلى الصحة [یعنی یہ حدیث راویوں کی عدالت کی وجہ سے صحیح ہے۔]
(بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام للفاسی ج5 ص367 )
3: امام زیلعی م 762ھ: و الرجوع الی صحۃ الحدیث لورودہ عن الثقات [یعنی ثقہ راویوں سے مروی ہونے کی وجہ سے صحیح ہے۔]
( نصب الرایۃ للزیلعی ج1 ص396)
4: امام العینی م855ھ: قد صح [یہ صحیح حدیث ہے۔]
( شرح سنن ابی داود ج2 ص346)
5: امام انور شاہ الکشمیری م 1350ھ: رواہ الثلاثۃ و ہو حدیث صحیح۔ [اس حدیث کو امام ترمذی، امام نسائی اور امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور یہ صحیح حدیث ہے۔]
(نیل الفرقدین ص56)

حتی کہ خود غیر مقلد ین نے بھی اس کے صحیح ہونے کی تصریح کی ہے:
احمد شاکر المصری غیر مقلد: الحق انہ حدیث صحیح و اسنادہ صحیح علی شرط مسلم
( شرح الترمذی ج2 ص43)

کہ حق بات یہ ہے کہ یہ صحیح ہے اور اس کی سند مسلم کی شرط کے مطابق ہے۔
ناصر الدین البانی :والحق انہ حدیث صحیح و اسنادہ صحیح علی شرط مسلم
(مشکوۃ المصابیح بتحقیق الالبانی ج1ص254)

یعنی حق بات یہ ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس کی سند مسلم کی شرط کے مطابق ہے۔

مندرجہ بالا تصریحات ننھے زبیر کو چپ کرانے کے لیے کافی ہیں۔

2: ننھے زبیر نے مغالطہ آمیزی سے کام لیتے ہوئے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ امام اہل السنۃ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ و دیگر احناف ،فاتحہ خلف الامام کی حدیث کو صرف اس لیے ضعیف قرار دیتے ہیں کہ انہیں امام ترمذی رحمہ اللہ وغیرہ کی تحسین پر اعتماد نہیں ہے۔

عرض ہے کہ حوالہ نقل کرتے وقت دیانت شرط ہے۔ امام اہل السنۃ رحمہ اللہ نے تفصیل سے اس روایت پر گفتگو فرمائی ہے اور جن وجوہ سے غیر مقلدین کا استدلال باطل ہے وہ درج فرمائیں؛ چنانچہ فرماتے ہیں :

” ہم جو باتیں اس حدیث کے سلسلے میں عرض کرنی ہیں وہ یہ ہوں گی :

1 محمد بن اسحاق پر کلام [یعنی یہ ضعیف ہے]

2 مکحول رحمہ اللہ کا معیاری ثقہ نہ ہونا اور نیز اس کا مدلس ہونا اور یہ کہ نہ تو اس سے کسی صحیح سند تحدیث ثابت ہے اور نہ کوئ ثقہ متابع موجود ہے جس کی سند بھی صحیح ہو۔

3 نافع بن محمود رحمہ اللہ مجہول ہے۔

4 روایت میں اضطراب موجود ہے۔

5 یہ روایت موقوف ہے ،مرفوع نہیں ہے۔

6 ”الابام القرآن“ کی استثنا ضعیف ہے۔

7 لفظ ”خلف الامام“ درج ہے۔

8 بنا بر صحت ”خلف الامام“ کا کیا معنی ہے“
احسن الکلام ج2ص77

اس صراحت کے باوجود امام اہل السنۃ پر الزام ننھے زبیر جیسے لوگوں کا ہی کام ہو سکتا ہے

3: ننھے زبیر نے سیدنا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی روایت کا بھی ذکر کیا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ اس کی تحسین کرتے ہیں لیکن حضرت اوکاڑوی نے ضعیف کہا۔

عرض ہے کہ اس میں ایک روای عبدا لحمید بن جعفر ہےجو کہ ضعیف،خطار کار اور قدری ہے ائمہ نے اس پر کلام کیا ہے۔امام نسائی،امام ابوحاتم،امام سفیان ثوری،امام یحییٰ بن سعید القطان،امام یحییٰ بن معین،امام ابن حبان،امام ترمذی،امام طحاوی رحمہم اللہ تعالیٰ وغیرہ نے اس پر جرح کی ہے۔۔نیز یہ روایت منقطع بھی ہے کہ محمد بن عمرو بن عطاء کا سماع حضرت ابوقتادہ سے نہیں اور سنداً متنًابھی یہ روایت مضطرب ہے۔
نور الصباح: ج 1 ص203تا210

اس ضعیف روایت کے بر خلاف صحیح بخاری میں انہی صحابی سیدنا حمید ساعدی رضی اللہ سے مروی حدیث میں شروع نماز والے رفع یدین کا ذکر ہے، بعد والی رفع یدین کا ذکر نہیں ہے ،وجہ اس کی یہ ہے کہ صحیح بخاری کی اس روایت میں یہ ضعیف قدری راوی نہیں اس لیے یہ رفع یدین بھی اس میں نہیں ۔ لیکن ننھے زبیر نے اس کو ذکر نہیں کیا۔

ننھے زبیر کو چاہیے کہ دیانت کا دامن نہ چھوڑا کریں، اور اپنے ممدوح زئی صاحب کے نقش قدم پر نہ چلیں۔
شبہ نمبر2:

ننھے زبیر نے لکھا: امام ترمذی رحمہ اللہ کا بلا سند صحابہ کرام رضی اللہ کے بارے میں قول بھی آل دیوبند کی نزدیک حجت نہیں ۔
الحدیث ش95ص29

ممکن ہے ننھا زبیر اپنے حواریوں کے درمیاں پھولے نہ سماتے ہوں کہ انہوں نے یہ شبہ ڈال کر قلعہ فتح کرلیا ہے کہ جب امام ترمذی رحمہ اللہ کاقول احناف کثر اللہ سوادھم کےہاں حجت نہیں تو امام ترمذی رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ” بہت سے اہل علم صحابہ کرام رضی اللہ اور تابعین کا یہی مذہب ہے اور حضرت سفیان ثوری رضی اللہ اور اہل کوفہ کا بھی یہی مسلک“ کیونکر حجت ہوگا؟
جواب:

امام ترمذی رحمہ اللہ حضرت صحابہ کرام رضی اللہ کے بارے میں جو قول نقل فرماتے ہیں اگر یہ دلائل صحیحہ سے ثابت ہو جائیں تو ہمیں ان کے حجت ہونے میں کیا اشکال ہو سکتا ہے؟ ترک رفع یدین کے متعلق امام ترمذی رحمہ اللہ کا یہ فرمان: وبہ یقول غیر واحد من اہل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم والتابعین وھو قول سفیان واہل الکوفہ
ترمذی ج1ص59

دلائل سے ثابت ہے، اختصاراً ہم حوالہ جات ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:

حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما:
(مسندابی یعلی ص 922 رقم الحدیث 5036، کتاب المعجم لابی بکر اسماعیلی ج2ص692،693رقم154 ، الکامل لابن عدی ج7ص337 رقم الترجمۃ 1646)

حضرت علی رضی اللہ عنہ:
(موطا امام محمد ص94باب افتتاح الصلوۃ ،کتاب الحجۃ للامام محمد ج1ص76باب افتتاح الصلوۃ و ترک الجہر ، المدونۃ الکبری ج1ص166 باب فی رفع الیدین فی الرکوع والاحرام)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ:
(مسند ابی حنیفۃ بروایۃ الحارثی ج2 ص502 رقم الحدیث 801 ،جامع المسانید بروایۃ الخوارزمی ج1ص355رقم1867 ، ،مختصر خلافیات البیہقی لاحمد بن فرح ج2ص77)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما:
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج1ص268رقم13باب من کان یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لا یعود، سنن الطحاوی ج1ص163باب التکبیر للرکوع والتکبیر للسجود)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ:
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج1ص 267،268 رقم الحدیث 11باب من کان یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لایعود ،)

1500صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ترک رفع الیدین:

کوفہ وہ اسلامی شہر ہے جسے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دارالخلافہ بنایا تھا۔ اس میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بہت بڑی تعداد آکر قیام پذیر ہوئی۔ مورخین نے اس کی تعداد 1500 بیان کی ہے۔

امام احمد بن عبد اللہ بن صالح العجلی الکوفی م 261ھ فرماتے ہیں: نزل الکوفۃ الف وخمس مائۃ من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،(تاریخ الثقات للعجلی ص517باب فیمن نزل الکوفۃ وغیرھا من الصحابۃ)

اور کوفہ میں قیام پذیر تمام حضرات نے شروع نماز کے علاوہ رفع یدین چھوڑ دیا تھا، جیسا کہ علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ کی تصریح سے واضح ہوتا ہے:
(التمہید لابن عبدالبر ج4ص187،الاستذکار لابن عبدالبر ج1ص408باب افتتاح الصلوۃ)

حضرات تابعین کرام رحمہم اللہ:

امام شعبی رحمہ اللہ:
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج1ص267باب من کان یرفع یدیہ فی اول التکبیرۃ ثم لایعود، سنن الطحاوی ج1ص164باب التکبیرللرکوع والتکبیر للسجود)

امام قیس بن ابی حازم رحمہ اللہ:
( مصنف ابن ابی شیبۃ ج1ص267باب من کان یرفع یدیہ فی اول التکبیرۃ ثم لایعود،رقم10)

امام ابراہیم النخعی رحمہ اللہ :
(موطاالامام محمد ص92باب افتتاح الصلوۃ، مصنف ابن ابی شیبہ ج1ص267باب من کان یرفع یدیہ فی اول التکبیرۃ ثم لایعود)

امام ابن ابی لیلیٰ رحمہ اللہ:
( مصنف ابن ابی شیبۃ ج1ص268باب من کان یرفع یدیہ فی اول التکبیرۃ ثم لایعود)

شاگردان حضرت علی و حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما وعنہم:
( مصنف ابن ابی شیبۃ ج1ص267باب من کان یرفع یدیہ فی اول التکبیرۃ ثم لایعود،،الاوسط فی السنن لابن المنذر ج3ص148،149،رقم الحدیث 1391باب ذکررفع الیدین عندالرکوع وعندالرفع)

امام اعظم ابو حنیفہ التابعی رحمہ اللہ:
(کتاب الحجۃ للامام محمد ج1ص74 باب افتتاح الصلوۃ و ترک الجہر ببسم اللہ ،سنن الطحاوی ج1ص165باب التکبیر للرکوع و التکبیر للسجود الخ)

اہل کوفہ اورر ترک رفع یدین:
(التمہید لابن عبدالبر ج4ص187،الاستذکار لابن عبدالبر ج1ص408باب افتتاح الصلوۃ، الاستذکار لابن عبدالبر ج1ص408 باب افتتاح الصلوۃ ،التمہید لابن عبدالبر ج4ص187)

امام سفیان الثوری رحمہ اللہ:
فقہ سفیان الثوری ص560

امید ہے یہ حوالہ جات لا علم لوگوں کے پروپیگنڈہ کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہوں گے۔
شبہ نمبر3:

ننھے زبیر نے لکھا:

ماسٹر امین اوکاڑوی نے ابن حزم کے حوالے سے لکھا” یہ حدیث صحیح ہے“ اور ابن حزم کے متعلق ماسٹر امین اوکاڑوی نے علانیہ کہا تھا کہ ابن حزم جھوٹا ہے۔
الحدیث ش95ص31
جواب:

حدیث ابن مسعود رضی اللہ کی صحت کامدار اس کے روات کی ثقاہت پر ہے جو بحمد اللہ ہم نے باحوالہ نقل کردی ہے،ابن حزم کا حوالہ آپ جیسے لوگوں کو آئینہ دکھایا ہے جو ان کے گن گاتے نہیں تھکتے۔
شبہ نمبر4:

ننھے زبیر نے لکھا: اس روایت کی سند ایک راوی سفیان ثوری رحمہ اللہ ہیں اور وہ مدلس تھے ۔
الحدیث ش95ص32
جواب:

ننھے زبیر صاحب! اگر کوئی نئی بات ہو تو فرمائیں ، اس کا جواب آپ کے ممدوح زبیر زئی صاحب کو دیا جا چکاہے کہ

۱: امام سفیان بن سعید بن مسروق الثوری رحمہ اللہ(م161ھ)خیر القرون کے محدث ہیں اور احناف کےنزدیک خیر القرون کی تدلیس صحتِ حدیث کے منافی نہیں۔

۲: محدثین کی ایک جماعت نے انہیں طبقہ ثانیہ میں شمار کیا ہے۔ جن کی تدلیس صحت حدیث کے منافی نہیں ہے۔
تفصیل دیکھیے قافلہ حق جلد6شمارہ3صفحہ33

مزیدعرض ہے آپ کے زبیر زئی صاحب کے استاذ بدیع الدین غیر مقلد نے اما م سفیان بن سعید کو طبقہ ثانیہ میں شمار ہے۔ (جزء منظوم ص89)

ممکن ہے آپ یہ کمال کردکھائیں کہ بدیع الدین صاحب کوبھی دائرہ اہلحدیث سے باہر نکال دیں۔

پس جناب کا شبہ باطل ہے۔
شبہ نمبر5:

ننھے زبیر نے لکھا: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب زیر بحث روایت کے صحیح ہونے پر محدثین کا اتفاق نہیں ،جب کہ رفع یدین کی احادیث بخاری و مسلم میں موجود ہیں جن کے صحیح ہونے پر اتفاق ہے۔
الحدیث ش95ص32
جواب:

زبیر صاحب مغالطہ آمیزی سے باز رہیے، حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے روات کے حالات گزر چکے ہیں کہ یہ بخاری ومسلم (تغلیباً) کے راوی ہیں۔ ان کی ثقاہت بھی بیان ہوچکی ہے،پھر اسے غیر اتفاقی کہہ کر جان چھڑانا مشکل ہے۔

باقی آپ کا”فرمان“ کہ: رفع یدین کی احادیث بخاری ومسلم میں موجود ہیں جن کے صحیح ہونے پر اتفاق ہے۔

تو عرض ہے کہ خود غیر مقلدین یہ بات نہیں مانتے اور بلا ججھک اس بات کی خلاف ورزی کے درپے ہیں۔ مثلاً۔۔۔

صحیح مسلم میں روایت موجود ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وإذا قرأ فأنصتوا
صحیح مسلم ج1ص134

کہ جب امام قراءت کرے تو تم خاموش رہو ۔

یہ حدیث امام کے پیچھے قرات کے منع پر واضح دلیل ہے، لیکن غیر مقلدین اس حدیث کو باوجود صحیح مسلم کی ہونے کے ،ضعیف قرار دیتے ہیں ۔
توضیح الکلام از ارشاد اثری غیر مقلدص663

آل حدیث کے مبشر ربانی نے تو کمال ہی کردیا بلکہ کمال کی ٹانگ توڑ دی اور کہا:

اس روایت میں اذا قر ء فانصتوا کے الفاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔
احکام و مسائل از مبشر غیر مقلد ج1ص276

ع جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

لہذا بات کرنے سے پہلے گھر کی خبر ضرور لے لیا کریں۔
تنبیہ:

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ پر کیے جانے والے شبہات کے جوابات کےلیے ملاحظہ ہو نور الصباح از مولانا حبیب احمد ڈیروی صاحب ،نیز صحیحین کی روایات غیر مقلدین کے دعویٰ پر قطعاً دلیل نہیں تفصیل کے لیے دیکھیے نورالصباح۔

قارئین کرام! آپ نے ننھے زبیر کے ان شبہات کو ملاحظہ فرما لیا اور ن کی حقیقت بھی جان لی، موصوف کےباقی شبہات بھی اسی طرح ہیں۔ اہل انصاف کے لیے یہی کافی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ان لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے جو سینوں میں وسوسہ ڈالتے ہیں۔ آمین
 
Top