مولانامحمداجتباء ندوی

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
گاہے گاہے باخواں:
مولانامحمداجتباء ندوی
رنج وغم زندگی کا حصہ ہے ،ہر خوشی کے بعد پریشانی یقینی ہے، حیات، ممات کا پیش خیمہ ہے ،نورکے بعد ظلمت،ظلمت کے بعدروشنی،خوشیوں کے ساتھ آنسواورآنسوکے ساتھ خوشی ومسرت کے قہقہے یہی توزندگی ہے اور اسی زندگی کے خاتمہ کانام ’’موت‘‘ہے،تسلیم کہ دنیاچل چلاؤکانام ہے ،یہ بھی حقیقت ہے کہ دوام اورقرارتوصرف اللہ تعالیٰ کوحاصل ہے ،اوریہ بھی معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے سواہرچیزپرفنائیت طاری ہوگی کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ،لیکن کیاکیجئے انسانی طبیعت کاکہ اسے جب بھی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تواس کا دل روتاہے ،یہ جاننے کے باوجودکہ سفرکتناہی آرام دہ کیوں نہ ہواس کی ایک منزل یقینی ہے،اس یقین کے باوجودکہ جس شخص نے خدائی اسٹیشن سے جہاں کا اورجتنے کا ٹکٹ حاصل کیاہے اس منزل کے آتے ہی ٹکٹ اپنی حیثیت کھودیتاہے۔
سفرکے دوران بعض مسافراپنے کرداروعمل سے ایسی چھاپ اوراپنی شخصیت کاایسااثرچھوڑجاتے ہیں کہ ان کی جدائی سے دل کوکرب کااحساس ہوتاہے لیکن وفورمحبت میں کوئی بھی مسافرایسانہیں ہوتاجوخلیق وملنساراورنیک طینت مسافرکے ساتھ اپنے سفراوراپنی منزل کے آنے سے پہلے اترجائے،ہرشخص کواپنی زندگی کے آخری سانس تک جینا ہے اورہرکسی کواپنی منزل تک پہنچ کرسواری سے اترناہے ۔
خداجانے ان آنکھوں کوکرب وبلاکے کتنے مناظردیکھنے مقدرہیں،افکاروحوادث کے کتنے سین دیکھ چکا،لیکن زندگی میں جب بھی کوئی ایسالمحہ آیاجب کسی برگزیدہ شخصیت نے اپنابوریہ سمیٹااوربسترلپیٹا،دنیااوردنیاوی چیزوں سے رخ موڑاتو احساس زیاں کی چنگاریوں نے نہاں خانۂ دل کوبے چین وبے کل کردیا۔
مفکراسلام مولاناسیدابوالحسن علی حسنی ندویؒ،عارف باللہ مولاناقاری سیدصدیق احمدباندویؒ،مجاہدملت مولاناقاضی مجاہدالاسلام قاسمیؒ،فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسین مظاہریؒ ،محی السنۃ مولاناشاہ ابرارالحق ہردوئی ؒ ، مولاناعبداللہ عباس ندویؒ،مولانااطہرحسین مظاہری ؒ اورمولاناسیدانظرشاہ کشمیریؒیہ شخصیات اپنی اپنی ذات میں آفتاب وماہتاب تھیں ،ان کے وجودکی خوشبواوران کے افکارکی روشنی سے دنیاء دنی میں چمک تھی لیکن ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانوں کی طرح یہ شخصیات ایک ایک کرکے جس انداز میں داغ مفارقت دے گئیں اس کے پیش نظرکہاجاسکتاہے ؎
ضرورت جتنی جتنی بڑھ رہی ہے صبح روشن کی
اندھیرا اور گہرا اور گہرا ہوتا جاتا ہے​
حضرت مولانامحمداجتباء ندویؒ نے اپنی عمرطبعی گزارکرتقریباً۷۶؍سال کی عمرمیں۱۵؍جمادی الاخریٰ ۱۴۲۹ھ جمعہ کے دن دارالحکومت دہلی میںہمیشہ کے لئے آنکھیں موندلیں۔اناللّٰہ واناالیہ راجعون۔
حضرت مولانامحمداجتباء ندویؒ ۱۹۳۲ء کواپنے وطن مجھوامیرنامی گاؤں میں آنکھیں کھولیں ، آپ کے والدماجدمحمد مصطفیٰ اورپوراگھرانہ چونکہ دینی ومذہبی تھا ،اس لئے دین کی جو چھاپ اوراسلامی تعلیمات کا جو رنگ اس خانوادہ پر ہوسکتا تھا وہ پورے طورپر جلوہ فگن تھا ،آپ نے اپنے خاندانی مدرسہ جعفریہ ہدایت العلوم کرہی بستی سے تعلیمی سلسلہ شروع کیا پھر ندوۃ العلماء پہنچے (جہاں آپ کے برادر اکبر حضرت مولانا محمد مرتضیٰ بستوی جو مظاہرعلوم سہارنپورکے نامورفضلاء میں سے تھے اورندوۃ العلماء لکھنؤکے ناظم کتب خانہ تھے ) ندوہ کے دروبام ، ندوہ کے اساتذہ واسلاف،ندوہ کا نظام تعلیم وتربیت اورندوۃ العلماء کی روحانی وعرفانی شخصیات سے مولانا نے اکتساب فیض کیا بالخصوص مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی سے تلمذاوران کی با فیض صحبت کیمیا اثر سے مالا مال ہوئے ،حضرت مولانا علی میاں ؒ کی سرگرم شخصیت ، ان کی فعالیت ،شبانہ روز ان کی علمی وتصنیفی ، تدریسی ودعوتی اورروحانی وعرفانی مصروفیات سے مولانامحمد اجتبا ء ندوی نے بہت کچھ سیکھا ۔ندوہ سے فراغت حاصل کرکے دمشق یونیورسٹی پہنچے جہاں کلیۃ الشریعہ سے اختصاص فی الشریعہ کا کورس کیا ، عربی زبان وادب میں پی ایچ ڈی کے لئے مسلم یونیورسٹی علی گڈھ میں داخلہ لیا ، مولانا اجتباء ندوی اردو ،عربی ،فارسی اور انگریزی زبانوں کے ساتھ فرنچ پر بھی بخوبی قادر تھے انہیں ان زبانوںکے بولنے اورلکھنے پر مکمل دسترس تھی ، عربی زبان میں لکھے گئے ان کے علمی وتحقیقی مقالات ومضامین ،انگریزی اورفرنچ زبانوںمیں ان کی قیمتی تحریریں کسی طرح مادری زبان اردو سے کم نہیں ہیں ،وہ اپنی تحریرات کو آیات قرآنیہ ، احادیث نبویہ،آثار سلف اورفرامین اکابر سے اس طرح مبرہن کرتے تھے کہ آپ کی تحریرسامی ’’گلہائے رنگارنگ ‘‘ کا بیش قیمت وبیش بہا مجموعہ بن جاتی تھی۔
آپ نے ’’دینی دعوت اوراسلامی تحریکیں‘‘کے عنوان سے ماہنامہ ارمغان پھلت (مظفرنگر)کے حضوصی شمارہ ’’دعوت اسلام نمبر‘‘کیلئے ایک وقیع مقالہ تحریر فرمایا اس کی ابتداء میں دعوت کی اہمیت ،طریق کار ،دعوتی امورمیں پیش آمدہ مشکلات اوران کا حل ، بر صغیر میں دعوتی کاموں کی اہمیت ، باطل مذاہب وادیان کے ذریعہ پھیلائی جانے والی لادینیت اورمنصوبہ بندیوں پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالنے کے بعد ہندوستان میں اولو العزم دعوتی شخصیات کا والہانہ تذکر ہ کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں چل رہی دعوتی کوششوں ،سرگرمیوں ،تنظیموں اور شخصیتوںکااچھوتے اورنرالے اندازمیں ذکر خیر فرمایا ، اس سلسلے میں مولانا نے حقائق کے اعتراف اورسچائی کے بیان کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا چنانچہ سنوسی تحریک(شمالی افریقہ ) اخوان المسلمین (مصر وشام )جماعت نور(ترکی)جماعت عباد الرحمن (لبنان ) تحریک مہدی (سوڈان ) رفاہ پارٹی (ترکی )حزب التحریر(فلسطین ،اردن ،شام لبنان)انجمن شباب مسلمین (مصر) حزب اسلامی ماشومی (انڈونیشیا)فرائضی تحریک (بنگلہ دیش ) اورتحریک تبلیغی جماعت (ہندوستان)ان جماعتوں اورتحریکات کے بانیان کرام کا تفصیل سے ذکر فرمایا اس طرح ہندوستان میں تحریک ندوۃ العلماء ، جمعیۃ العلماء ،جمعیۃ اہل حدیث اورجماعت اسلامی کی خدمات اوران کے حلقہ اثر پر بھی روشنی ڈالی ،تحریک تبلیغی جماعت کی خدمات،کارناموںاوربانیان سلسلۂ تبلیغ کا والہانہ ذکر خیر کرکے اپنا مقالہ مکمل کیا ۔
یہ تو ان کے صرف ایک مقالہ کی مثال ہے ورنہ ان کا ہر مقالہ اوران کی ہر تحریر مآخذ ومصادر کا درجہ رکھتی ہے ، معلومات کی وسعت ،تاریخ ،تمدن ،سیاست ،لسانیات ، فقہ ،حدیث اورعصری علوم پر ان کی مہارت کااندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن ندوی کو آپ کی صلاحیتوں اورلیاقتوں پر پورا اعتماد تھا ۔
حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی کے عاشق زار تھے ، اپنی گفتگو ،اپنی تحریرات اوراپنی تقاریر میں حضرت مولانا کاباربار حوالہ جس اندازمیں دیتے تھے اس سے اندازہ یہ ہوتا تھا کہ مولانا اجتباء ندوی نے حضرت مولانا کی تعلیمات اورتصنیفات کو پورے طورپر پی لیا تھا،غالباً مولانااجتباء ندوی ؒہی نے عربی زبان میںحضرت مولانا سیدابوالحسن علی حسنی ندویؒ کی حیات اورخدمات پرسب سے پہلے کتاب لکھ کرحق شاگردی ونیازمندی اداکرنے کی کوشش فرمائی۔
مولانا نے چند سال ندوۃ العلماء میں تدریس سے وابستگی کے بعد جامعہ ملیہ دہلی میں تعلیم دی وہ سعودی عرب ریڈیو سے بھی منسلک رہے اورریاض یونیورسٹی ،جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں بھی تدریس سے وابستہ رہے اسی طرح کشمیریونیورسٹی اورالہ آباد یونیورسٹی کو اپنی خدمات سے توانائی بخشی ۔
مولانا کا قلم ان کی زبان کی طرح بہت ہی رواں دواں تھا ،وہ شستہ اورشگفتہ گفتگو فرماتے تھے ،ہندوستان میں’’البلاغ بمبئی ‘‘اور’’ تعمیر حیات لکھنؤ‘‘میںان کے مضامین بکثرت شائع ہوتے تھے اس کے علاوہ مولانا موصوف اپنے وطن ہندوستان سے کہیں زیادہ عرب ممالک میں شہرت ومقبولیت رکھتے تھے ان کی عربی تحریریں عرب ممالک میں بڑے ذوق اور شوق سے پڑھی جاتی تھیں اورعرب علماء وشیوخ سے ان کے گہرے مراسم تھے ۔
اسی طرح ہندوستان میں تقریباً سبھی اکابر واسلاف سے انہیںعقیدت ومحبت تھی اوریہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ مولانامحمد اجتباء ندوی اوران کا خانوادہ ندو ۃ العلماء سے پورے طور پرمنسلک ہونے کے باوجود مظاہر اوراکابر مظاہر سے والہانہ عقیدت رکھتا تھا چنانچہ ایک مرتبہ راقم السطورتکونہ پارک اوکھلا نئی دہلی مظاہر علوم کے ایک ہمدرد سے ملاقات کیلئے پہنچا تو مولانا محمد اجتباء ندوی سے پہلی بار اچانک ملاقات ہوگئی ،بڑی خوش اخلاقی کے ساتھ ملاقات فرمائی ،چائے اورپھل سے ضیافت کے دوران مظاہر علوم کے حالات معلوم کرتے رہے ، دیرتک شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجرمدنی ،فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین اورشیخ الادب حضرت مولانا اطہر حسین رحمہم اللہ کا تذکرہ کرتے رہے ،مؤخرالذکر حضرت مولانا اطہر حسین کی ادبی صلاحیتوں کے بہت ہی معترف تھے چنانچہ چند سال پہلے حضرت مولانا اطہر حسین ؒ کا مرتب کردہ عربی کتابچہ ’’عقد النجوم فی جید دارالعلوم ‘‘بڑے اہتمام سے منگوایا ۔
مولانا اپنی اخیر عمر میں جن اکابر سے بہت زیادہ قریب رہے ان میں مظاہر علوم کے نامورفاضل گرامی اورجامعہ عربیہ ہتھورا باندہ کے بانی مبانی حضرت مولاناقاری صدیق احمد صاحب باندویؒ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں ، مولانا محمد اجتباء ندوی حضرت باندوی کی خدمت میں مستقل حاضر ہوتے تھے یہی وجہ ہے کہ جامعہ عربیہ ہتھورا باندہ کے تعارف اور حالات وخدمات پر مشتمل عربی زبان میں سب سے پہلا تعارفی کتابچہ مولانا نے ہی مرتب فرمایا تھا ۔
مولانا دینی وعصری علوم کے فاضل تھے لیکن اپنے اسلاف کی راہ سے سر مو انحراف نہیں کیا وہ مسلک دیوبند کے ترجمان ،تعلیمات ولی اللہی کے مبلغ اوراکابر علماء دیوبند کے زبردست مداح تھے ،آپ نے حضرت مولانا شاہ وصی اللہ کی مجلسوں میں شرکت بھی کی اورحضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوری ؒ کے ہاتھوں پر بیعت بھی ہوئے ۔
آپ نے مختلف علمی ،فکری ،فقہی ،تحقیقی موضوعات پر اپنے قلم کے بعض ایسے جلی نقوش بھی ثبت فرمائے جو قیامت تک انشاء اللہ علماء اوراہل علم کے دلوں میں منقوش رہیں گے۔ ؎
زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیم
بجھ تو جاؤں گا مگر صبحِنو کر جاؤں گا
چندوقیع کتابوں کے نام درج ذیل ہیں۔
(۱) المحادثہ والتعبیر (عربی)
(۲) احمدبن عبدالرحیم شاہ ولی اللّٰہ الدہلوی (عربی)
(۳) الامیرصدیق حسن خان وماٰثرہ علمیۃ (عربی)
(۴) ابوالحسن الندوی الداعی،المربی،الحکیم (عربی)
(۵) نقوش تابندہ (جدہ ریڈیوسے نشرکئے گئے مختلف مضامین کامجموعہ،اردو اورہندی )
(۶) تاریخ فکراسلامی (مفکرین اورداعیان اسلام کاتذکرہ)
(۷) انسانی حقوق (اسلامی شریعت کے تناظرمیں)
(۸) عظمت کے مینار (البلاغ بمبئی کے سوانحی مضامین کا مجموعہ )
(۹) عورت اسلام کی نظر میں
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے علو م وافکار کے بے حد قدرشناس تھے اوراس موضوع پر عربی زبان میں پی ایچ ڈی بھی کی تھی اورعربی زبان وادب میں صدرجمہوریہ ایوارڈبھی ملاتھا۔
آپ مختلف ملکی وغیر ملکی جامعات ،مدارس ،تنظیمات اورتحریکات کے رکن رکین اورذمہ دار تھے خود اپنی مادر علمی ندوۃ العلماء لکھنؤ کے رکن شوریٰ اورعالمی رابطہ ادب اسلامی کے ذمہ دار تھے ، آپ کی شخصیت اورآپ کی ہمہ جہت خدمات کا لوہا آپ کے معاصرین بھی مانتے تھے ۔
آپ نے جواہرلعل نہرویونیورسٹی ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد،دمشق یونیورسٹی،جامع ازہریو نیورسٹی، مراکش یونیورسٹی،اردن اورکویت کی یونیورسٹیوں میں کلیدی لیکچر پیش کرکے دادتحسین حاصل کی۔
بہرحال:حضرت مولانامحمداجتباء ندوی علیہ الرحمۃ اپنے کارناموں اورخدمات کے باعث زندہ رہیں گے،ان کے قلم کی تابانیاں،ان کی فکرکی روشنیاں،ان کے کرداروعمل کی کرنیں اورملک وملت کے لئے ان کی فکرمندیاں آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوں گی۔
کئی ماہ مسلسل بیماریوں اورعوارض واسقام کے گرفتارہوکر۱۵؍جمادی الاخریٰ ۱۴۲۹ھ بروزجمعہ صبح تقریباً ۹؍بجے دہلی کے ایک اسپتال میں یہ کہتے ہوئے مولائے حقیقی سے جاملے ؎
قریب منزل آخرہے الفراق جگر
سفر تمام ہوا نیند آئی جاتی ہے
مولاناکے انتقال پرملال کی اطلاع ندوۃ العلماء لکھنؤسے حضرت مولانامحمدرابع حسنی ندوی مدظلہ نے حضرت مولانامحمدسعیدی حفظہ اللہ ناظم ومتولی مظاہرعلوم (وقف ) کوفون کے ذریعہ دی،یہ خبرکلفت اثرسن کرناظم صاحب نے اپنے رنج وغم کا اظہارکرتے ہوئے فرمایاکہ
’’قحط الرجال کے اس دورمیں مولاناموصوف جیسی شخصیات کا وجودایساہی ہے جیساکہ سیاہ راتوں اورگھنگھورگھٹاؤں میں روشنی ،انہوں نے کہا کہ مولاناندوی صرف ایک عالم دین ہی نہیں تھے بلکہ وہ بہترین اسکالر،بلندپایہ محقق،نامورمصنف،عصری علوم کے ماہر،اردو،عربی، فارسی، انگریزی اورفرنچ جیسی زبانوں پرمکمل درک رکھتے تھے،انہوں نے حضرت مولاناعلی میاں ندوی سے بہت کچھ سیکھا اورپھراپنے جہدوعمل سے حضرت مولاناکے دست وبازوبن گئے ، مولاناعلی میاں ندوی کو آپ کی ذات اورصلاحیتوںپربہت زیادہ اعتمادتھا، مولاناکے علمی کمالات کے سلسلہ میں ان کی لازوال خدمات انشاء اللہ تاقیامت باقی رہیں گی‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے مولانااجتباء ندوی کو ذوقِ سلیم اورطبع مستقیم سے نواز ا تھا ، خردوں کی رہنمائی اورحوصلہ افزائی ان کی گھٹی میں شامل تھی ۔[/size]
 
Last edited by a moderator:

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
قحط الرجال کے اس دورمیں مولاناموصوف جیسی شخصیات کا وجودایساہی ہے جیساکہ سیاہ راتوں اورگھنگھورگھٹاؤں میں روشنی ،انہوں نے کہا کہ مولاناندوی صرف ایک عالم دین ہی نہیں تھے بلکہ وہ بہترین اسکالر،بلندپایہ محقق،نامورمصنف،عصری علوم کے ماہر،اردو،عربی، فارسی، انگریزی اورفرنچ جیسی زبانوں پرمکمل درک رکھتے تھے،
اللہ کریم مولانامحمداجتباء ندوی کی مغفرت پرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب فرمائے آمین
 
Top