حضرت مولاناعبدالکریم مظاہری

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولاناعبدالکریم مظاہری
یہ دنیافانی ہے ہمیں اس کایقین کامل ہے کیونکہ کل من علیہافان ارشادربانی ہے۔ہمیں اس کابھی یقین ہے کہ ہرذی روح کوموت کامزہ چکھناہے کیونکہ ارشادربانی ہے کل نفس ذائقۃ الموت،ہمیں اس کابھی یقین ہے کہ موت اورفنائیت کاایک وقت مقررہے کیونکہ ارشادربانی ہے اذاجاء اجلہم لایستاخرون ساعۃ ولایستقدمون۔
مگرکیاکیجئے موت :وہ بھی کسی عالم کی تودل خون کے آنسورونے پرمجبورہوجاتاہے اوربات جب عالم باعمل کی ہو،بات جب ایک عالم اجل کی ہو،بات جب بزرگ ومتدین عالم ربانی کی ہوتویقین کیجئے آنکھوں سے آنسوؤں کی جگہ خون کے آنسورونے کودل کرتاہے،میرے آقاومولیٰ نے سچ فرمایاہے کہ عالم کی موت عالَم کی موت ہے موت العالم موت العالم ۔
میں کیابتاؤں کہ مظاہرعلوم کے ایک عظیم فرزند،سرزمین بجنورہی نہیں ہندوستان کے عظیم خاموش مربی ورہنما،عظیم بزرگوں سے اکتساب فیض کرنے والے خوش قسمت وخوش نصیب شخصیت حضرت مولاناعبدالکریم مظاہری بجنوری علیہ الرحمہ بھی اسی رمضان المبارک میں اللہ کوپیارے ہوگئے۔ان للہ مااخذولہ مااعطی وکل شئی عندہ لاجل مسمیٰ فلنصبروالتحتسب۔
غالباً ۷؍اپریل ۲۰۱۱ء کی تاریخ تھی مجھے رائے پورضلع بجنورکے مدرسہ شیخ الاسلام کے سالانہ اجتماع میں شرکت کے لئے جاناتھا،حسب پروگرام اجلاس میں شرکت کے بعد معمرمظاہری عالم دین حضرت مولاناعبدالکریم مظاہری دامت برکاتہم کی زیارت اورشرف ملاقات کے لئے اُن کے گھرافضل گڑھ (ضلع بجنور)حاضری ہوئی۔
حضرت مولاناعبدالکریم صاحب مظاہری ان خوش نصیب افرادمیں سے تھے جنہوں نے فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ کوگودمیں کھلایاتھا۔ایک زمانہ تک سہسپورضلع بجنورمیں تعلیم دی،کاشی پورضلع ادھم سنگھ نگرمیں تعلیم دی،آپ کے شاگردوں کی طویل فہرست ہے جوان شاء اللہ باقیات الصالحات کامصداق ہوں گے۔
افضل گڑھ پہنچ کرسب سے پہلے اپنے مدرسہ کے افتاء کے طالب علم مفتی محمدعرفان مظاہری کے دولت کدہ پرحاضری ہوئی جہاں موصوف کے بڑے بھائی محترم عبدالرحیم وفااوران کے والدماجدسے ملاقات ہوئی دوپہرکاکھانابھی وہیں طے تھا۔وہاں سے کچھ دیرکے لئے حضرت مولاناعبدالکریم صاحب ؒ کے دولت کدہ پرحاضری کاشرف حاصل ہواجہاں مولاناموصوف ایک قدیم وضع کے حجرہ میں قدیم طرزکے بسترپرمحواستراحت تھے۔
مفتی محمدعرفان صاحب نے حضرت مولاناسے میری ملاقات کرائی اوراحقرکا تعارف بھی کرایا۔مولانانے برجستہ نہ صرف ماہنامہ آئینۂ مظاہرعلوم کاتذکرہ فرمایابلکہ پسندیدگی کااظہاربھی فرمایا۔
حضرت والانے اپنی پیرانہ سالی،ضعف ونقاہت اورمعذوری کے باوجودالحمدللہ نہ صرف مکمل ہوش وحواس کے ساتھ بصیرت افروزگفتگوفرمائی بلکہ اکابرکے اس قدرتذکرے فرمائے کہ پوری تاریخ مظاہرنظروں کے سامنے گھومنے لگی۔
بہت دیرتک صاحب معلم الحجاج حضرت مولانامفتی سعیداحمداجراڑویؒ کاذکرخیرکرتے رہے اور مفتی صاحبؒ کی شان میں بلندوبالاکلمات ارشاد فرماکرآبدیدہ ہوگئے اورفرمایاکہ حضرت مفتی سعیداحمد اجراڑویؒ کی مثال نہ توان کے زمانے میں تھی اوران کے بعدتوامکان ہی نہیں ہے۔فرمایاکہ میں نے حضرت مفتی سعیداحمدؒ کی کئی سال تک خدمت کی ہے،اپنے استاذزادے اوراپنے محترم بزرگ حضرت مفتی مظفرحسینؒ کومیں نے اپنے ان ہاتھوں میں اپنے بچوں کی طرح گودکھلایاہے۔
احقرنے پوچھاکہ آپ نے مظاہرعلوم میں کن اساتذہ سے کیاکتابیں پڑھیں تھیں؟ توفرمایاکہ میں نے ترمذی شریف اوربخاری کاکچھ حصہ حضرت مفتی سعیداحمداجراویؒسے،مسلم شریف حضرت مولانامنظوراحمدخانؒ سے،بخاری شریف کاا کثرحصہ حضرت مولاناشیخ محمدزکریااورحضرت مولاناعبداللطیف ؒسے پڑھنے کاشرف حاصل کیاہے۔
مولانابہت دیرتک مظاہرعلوم،اساتذۂ مظاہرعلوم اورزمانۂ طالب علمی میں دارقدیم کے جس حجرہ میں قیام فرما تھے اس اوراپنے رفقاء کاوالہانہ اندازمیں تذکرہ کرتے رہے۔
ملاقات کے وقت مولاناکی تقریباًسوسال کی عمرہوچکی تھی ،جسم نہایت نحیف اورلاغرہوچکاتھا،بینائی بھی ختم ہوچکی تھی، لیکن آپ کاذہن ودماغ نوجوانوں کی طرح تروتازہ تھا،جوغالباً آپ کے اساتذہ کی دعاؤں اوران کی خدمات کاثمرہ ہے۔
مولاناخوبیوں کامجموعہ تھے،ان کانام عبدالکریم تھااس لئے کرم اورمہربانی ان کی عادت بلکہ طبیعت بن چکی تھی،ان سے جوشخص ایک بارمل لیتاتوہمیشہ ان ہی کاہوکررہ جاتا،نمازباجماعت کی انھیں ایسی عادت تھی کہ اذان ہوتے ہی مسجدپہنچنے کے لئے بے چین ہوجاتے تھے،میرے خیال سے مولاناکی کل زندگی کاپیشترحصہ مسجدمیں ہی گزراہے جواللہ نے چاہاتواعتکاف ہی میں شمارہوگا۔
قرآن کی تلاوت سے بھی مولاناکوعشق تھا،جب بھی فرصت پاتے توقرآن کریم کی تلاوت شروع کردیتے،بعض لوگوں نے عجیب بات بتائی کہ مولاناعموماًایک قرآن کریم یومیہ پڑھ لیاکرتے تھے اورکبھی کبھی عبادات کی بہارمیں مزیدبہارآجایاکرتی تھی۔
جب تک ممکن ہوسکاباقاعدہ وضوکرکے نمازاداکرتے رہے اورجب پانی سے وضومشکل ہوگیاتوتیمم شروع کردیا۔پاکی کوبہت پسندکرتے تھے،نمازکے لئے مستقل الگ لنگی رکھتے تھے۔
کیابتاؤں مولاناکی حیات پرتفصیل کے ساتھ لکھنے کوجی چاہتاہے لیکن اس کے لئے افضل گڑھ کاسفرکرناناگزیرہے۔کاش کوئی اللہ کابندہ اورحضرت کاعاشق صادق مولاناکے شخصی نقوش مرتب یاغیرمرتب شکل میں مجھے بھیج دیتاتوشایدمولاناکی عظیم شخصیت پربہت کچھ لکھناممکن ہوسکتاہے۔
تقریباًایک گھنٹہ تک حضرت والاسے ملاقات کے بعدروانگی کی اجازت لی توفرمایاکہ جی تویہی چاہتاہے کہ کچھ دیراوربیٹھواورمیری طالب علمی کے زمانے کے عجیب وغریب قصے سن کرانھیں دستاویزی شکل بناسکو۔
اب یہ سوچ کرہوک سی اٹھتی ہے،کلیجہ منہ کوآتاہے کہ میں نے اس وقت توحضرت سے وعدہ کرلیاتھاکہ حضرت پھروقت نکال کرآؤں گالیکن آہ!اب وہاں جاکرکیاملے گا؟خوشنماعمارات،آبادسڑکیں،چلتی پھرتی گاڑیاں،آتے جاتے لوگ یہی توسب ملے گالیکن وہاں کی حقیقی روح اورحقیقی زندگی جومولاناکے دم قدم سے آبادتھی وہ کہاں مل سکتی ہے۔

 
Last edited by a moderator:
Top