لیجئے شروعات میں ہی کر دیتا ہوں۔ کلام برائے اصلاح و تنقید۔
غزل
(مزمل شیخ بسملؔ)
دیتے ہیں روز دعوتِ فکر و نظر مجھے
یہ پھول یہ ستارے سمجھ کر بشر مجھے
چڑھ کر نظرپہ تیری ملا یہ ثمر مجھے
آنکھوں میں اپنی رکھتے ہیں اہلِ نظرمجھے
مت چھیڑزخمِ دل کو نہ پہنچا ضرر مجھے
رہنے دے میرے حال پہ اے چارہ گرمجھے
ہنستے ہیں زخمِ دل بھی تو اب دیکھ کر مجھے
میرا جو حال ہے وہ نہ آیا نظر مجھے
جرَاح تیری عقل کے قربان جائیے
دکھلا رہا ہے میرا ہی دل چیر کر مجھے
قاتل کی کم سنی سے ہے جینا مجھے گراں
کرنے دو اپنی زندگی یونہی بسر مجھے
لاؤں کہاں سے تاب میں گرمئ حسن کی
آتا نظر ہے حسن کا شعلہ شرر مجھے
پردے لرزتے یوں ہیں حریمِ جمال کے
لینا ہے انتقامِ فریبِ نظر مجھے
ہے امتزاجِ حسن و محبت عجب فریب
میری خبر انھیں ہے نہ انکی خبر مجھے
پھر کیوں کسی کے در کی جبیں سائی میں کروں
قسمت نے جب پھرا ہی دیا در بدر مجھے
بسملؔ اثریہ تیری ہی دیوانگی کا ہے
کھانے کو دوڑتا ہے یونہی گھر کا گھر مجھے
(مزمل شیخ بسملؔ)
دیتے ہیں روز دعوتِ فکر و نظر مجھے
یہ پھول یہ ستارے سمجھ کر بشر مجھے
چڑھ کر نظرپہ تیری ملا یہ ثمر مجھے
آنکھوں میں اپنی رکھتے ہیں اہلِ نظرمجھے
مت چھیڑزخمِ دل کو نہ پہنچا ضرر مجھے
رہنے دے میرے حال پہ اے چارہ گرمجھے
ہنستے ہیں زخمِ دل بھی تو اب دیکھ کر مجھے
میرا جو حال ہے وہ نہ آیا نظر مجھے
جرَاح تیری عقل کے قربان جائیے
دکھلا رہا ہے میرا ہی دل چیر کر مجھے
قاتل کی کم سنی سے ہے جینا مجھے گراں
کرنے دو اپنی زندگی یونہی بسر مجھے
لاؤں کہاں سے تاب میں گرمئ حسن کی
آتا نظر ہے حسن کا شعلہ شرر مجھے
پردے لرزتے یوں ہیں حریمِ جمال کے
لینا ہے انتقامِ فریبِ نظر مجھے
ہے امتزاجِ حسن و محبت عجب فریب
میری خبر انھیں ہے نہ انکی خبر مجھے
پھر کیوں کسی کے در کی جبیں سائی میں کروں
قسمت نے جب پھرا ہی دیا در بدر مجھے
بسملؔ اثریہ تیری ہی دیوانگی کا ہے
کھانے کو دوڑتا ہے یونہی گھر کا گھر مجھے