الغزالی پر پہلا کلام برائے تنقید و اصلاح۔

مزمل شیخ بسمل

وفقہ اللہ
رکن
لیجئے شروعات میں ہی کر دیتا ہوں۔ کلام برائے اصلاح و تنقید۔

غزل
(مزمل شیخ بسملؔ)

دیتے ہیں روز دعوتِ فکر و نظر مجھے
یہ پھول یہ ستارے سمجھ کر بشر مجھے

چڑھ کر نظرپہ تیری ملا یہ ثمر مجھے
آنکھوں میں اپنی رکھتے ہیں اہلِ نظرمجھے

مت چھیڑزخمِ دل کو نہ پہنچا ضرر مجھے
رہنے دے میرے حال پہ اے چارہ گرمجھے

ہنستے ہیں زخمِ دل بھی تو اب دیکھ کر مجھے
میرا جو حال ہے وہ نہ آیا نظر مجھے

جرَاح تیری عقل کے قربان جائیے
دکھلا رہا ہے میرا ہی دل چیر کر مجھے

قاتل کی کم سنی سے ہے جینا مجھے گراں
کرنے دو اپنی زندگی یونہی بسر مجھے

لاؤں کہاں سے تاب میں گرمئ حسن کی
آتا نظر ہے حسن کا شعلہ شرر مجھے

پردے لرزتے یوں ہیں حریمِ جمال کے
لینا ہے انتقامِ فریبِ نظر مجھے

ہے امتزاجِ حسن و محبت عجب فریب
میری خبر انھیں ہے نہ انکی خبر مجھے

پھر کیوں کسی کے در کی جبیں سائی میں کروں
قسمت نے جب پھرا ہی دیا در بدر مجھے

بسملؔ اثریہ تیری ہی دیوانگی کا ہے
کھانے کو دوڑتا ہے یونہی گھر کا گھر مجھے
 

ذیشان نصر

وفقہ اللہ
رکن
مزمل بہت ہی خوب ۔۔۔۔۔! ہماری کیا مجال جناب آپ کے کلام کی اصلاح کریں ۔۔۔!
بلکہ آپ کو ہماری اور اس فورم پر موجود نو آموز شعراء کے کلام کی اصلاح کرنا ہے ۔۔۔۔!
اس لئے تیار رہئے گا۔۔۔۔۔!
 

مزمل شیخ بسمل

وفقہ اللہ
رکن
ذیشان بھائی میری اتنی اوقات نہ اتنا علم کہ اتنی بڑی ذمہ داری اپنے سر لے لوں۔ بہر حال اپنے علم کے مطابق ہر خدمت کے لئے حاضر۔ اور علم میرا وہی ہے جو ایک ادنی سے طفل مکتب کا ہو سکتا ہے۔ سو۔۔۔
ویسے اصلاح سخن کا سلسلہ ایک اچھا اقدام ہے۔ بہت مبارک باد۔
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
’’ کلام برائے اصلاح و تنقید‘‘کیایارکیوں شعرائے کرام کوشرمندہ کررہے ہو۔اتنابلندکلام ہے اس کی اصلاح کون کرے گا۔اب توآپ خودکومصلح خیال کرکے چھوٹوں کی اصلاح کابیڑہ اٹھائیں آپ کے لئے حضرت مولانامحمداسعداللہ ناظم مظاہرعلوم سہارنپورکاایک شعرپیش خدمت ہے۔
میں وہ ہوں عقل ونقل کادریاکہیں جسے
ہرفن میں صاحب یدطولیٰ کہیں جسے
 

مزمل شیخ بسمل

وفقہ اللہ
رکن
مفتی ناصرمظاہری نے کہا ہے:
’’ کلام برائے اصلاح و تنقید‘‘کیایارکیوں شعرائے کرام کوشرمندہ کررہے ہو۔اتنابلندکلام ہے اس کی اصلاح کون کرے گا۔اب توآپ خودکومصلح خیال کرکے چھوٹوں کی اصلاح کابیڑہ اٹھائیں آپ کے لئے حضرت مولانامحمداسعداللہ ناظم مظاہرعلوم سہارنپورکاایک شعرپیش خدمت ہے۔
میں وہ ہوں عقل ونقل کادریاکہیں جسے
ہرفن میں صاحب یدطولیٰ کہیں جسے

بہت ہی عمدہ۔ کیا بات ہے جناب۔ سبحان اللہ۔ ید طولی کہیں!! سواد آگیا۔
کلام کی پسندیدگی کے لئے شکر گذار۔
 

عمرانکمال

وفقہ اللہ
رکن
اسلام علیکم !ایک غزل اصلاح کی غرض سےآپکی خدمت میں پیش ھے۔


چا هتوں کا يوں سلسله رکھا
اپنے ساتھ اس نے قافله رکھا

فرقتوں ميں بھي پاس هے ميرے
قر بتوں ميں بھي فاصله رکھا

درد سے آشنا کيا تو نے
گھر ميں سب نے تھا لاڈ له رکھا

حسن پے جب کيا غرور اس نے
سامنے هم نے بلبله رکھا

رات کا سا گماں هوا هم کو
زلف کو اس نے جب کھلا رکھا

عشق کے کھيل کھيلتا وه رها
مخبوب اس نے يه مشغله رکھا

حسن نے عشق ميں مرے دل کو
زندگي ساري مبتلا رکھا

مے کشي بے حساب کي هم نے
خشک پھر بھي مگر گله رکھا
 

پیامبر

وفقہ اللہ
رکن
ہنستے ہیں زخمِ دل بھی تو اب دیکھ کر مجھے
میرا جو حال ہے وہ نہ آیا نظر مجھے
عروض سے تو بالکل کورا ہوں، البتہ گنگناتے ہوئے وزن کا احساس ہوجاتا ہے۔ بلکہ عروض تو آپ کے بارے میں آپ ہی کے کچھ مضامین پڑھے ہیں۔ یا محفل میں کچھ دیکھا ہے۔ اور یعقوب آسی صاحب کے ساتھ عروض پر آپ کی گفتگو بھی زیر نظر رہتی ہے۔ اس لیے میرا یہاں کچھ لکھنا محض ایک طالبعلمانہ جستجو ہے، ایسا طالبعلم جو مزید سیکھنے کو استاد پر اعتراض کرتا ہے۔

اس شعر کے دوسرا مصرع گنگناتے ہوئے زبان لڑکھڑائی، آپ کیا کہتے ہیں؟ تفصیل یوں کہہ لیں!
جھول یہاں محسوس ہوا: وہ نہ آیا = ایک صفر ایک صفر ایک صفر ایک صفر
جب کہ پڑھا جارہا ہے: وُ نَ آیا = ایک ایک - ایک صفر ایک صفر

مصرع یوں ہوتا تو شاید موزوں ہوتا۔ صرف موزوں، معنی نہ سہی :پ
میرا جو حال ہے، نہیں آیا نظر مجھے
نہیں =(نہی) ایک ایک صفر


امید ہے میری ضرور اصلاح فرمائیں گے۔ جزاک اللہ
 
Top