غزل بغرض اصلاح و تنقید ۔۔۔۔تمہیں معلوم کیا جاناں کہ الفت اس کو کہتے ہیں

ذیشان نصر

وفقہ اللہ
رکن
تمام اراکین الغزالی خصوصا مزمل شیخ بسمل بھائی سے مری اس کاوش پر اصلاح و تنقید درکار ہے ۔۔۔۔!

غزل۔۔تمہیں معلوم کیا جاناں؟کہ الفت اُس کو کہتے ہیں

تمہیں معلوم کیا جاناں؟کہ الفت اُس کو کہتے ہیں
کسی پہ مر مٹو جانو، محبت اس کو کہتے ہیں

محبت اک حقیقت ہے ، ہزاروں رنگ ہیں اس میں
جو ہیں راہی وفا کے وہ ، تو چاہت اس کو کہتے ہیں

جو بندوں سے خدا کی ہو،تو رحمت ہے سراسر یہ
جو کی جائے خدا سے تو، عبادت اس کو کہتے ہیں

کرے محکوم حاکم سے ، اطاعت ہے یہ کہلاتی
رعایا سے کرے شہ تو، عدالت اس کو کہتے ہیں

جو ہو اولاد سے ماں کی ، تو شفقت ہے سرا سر یہ
جو ہو یاروں میں باہم تو ، رفاقت اس کو کہتے ہیں

کرے گر علم سے طالب ، تو محنت نام ہے اس کا
غلاموں کی ہو آقا سے تو مدحت اس کو کہتے ہیں

جو ہو گم راہ کو رہ سے ہدایت ہے یہ کہلاتی
کرے گر کام سے کوئی مشقت اس کو کہتے ہیں

جو حق پر جان تک اپنی لٹا دیں پر نہ خم ہو سر
صداقت نام ہے اس کا ، شجاعت اس کو کہتے ہیں

کبھی خلوت کبھی جلوت، عجب ہی ڈھنگ ہیں اس کے
محبت یوں ہی ہوتی ہے ، محبت اس کو کہتے ہیں

محمد ذیشان نصر​
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
ع
وہ باوفااپناعہدالفت نبھابھی سکتاہے۔
ذیشان بھائی! آپ کی غزل سے وہی لوگ مستفیدومستفیض ہوسکتے ہیں جن کے یہاں’’الفت ‘‘ہو۔
تاہم کسی کاشعرہے کہ
غمِ الفت مرے چہرے سے عیاں کیوں نہ ہوا ،
آگ جب دل میں سلگتی تھی، دھواں کیوں نہ ہوا.
اورایک شعراوریادآیاکیچ کریں۔
قصے میری الفت کے جو مرقوم ہیں سارے ،
آ دیکھ تیرے نام سے موسوم ہیں سارے .
چلتے چلتے الفت ہی کے تعلق سے ایک خوبصورت شعراوریادآیاوہ بھی کیچ کیجئے۔
جو تیرے دل میں ہے الفت مدینے والے کی
بنا لے سیرت و صورت مدینے والے کی
مجھے دنیااوردنیاداروں سے الفت نہیں اللہ اوراللہ والوں سے الفت ہے۔



 

مزمل شیخ بسمل

وفقہ اللہ
رکن
اس قابل تو نہیں بہتر حال چند جسارتیں کر رہا ہوں۔ قبول و رد مکمل آپ کا حق ہے۔

تمہیں معلوم کیا جاناں؟کہ الفت اُس کو کہتے ہیں
کسی پہ مر مٹو جانو، محبت اس کو کہتے ہیں
÷÷ پہلی ردیف میں ”اُس“ ہے دوسرے مصرعے میں ”اُس“ کا محل نہیں بنتا۔ بلکہ ”اِس“ کا محل بھی نہیں۔ استفہامیہ ”کس“ میں واضح ہوجاتا ہے۔ اور خیال کو تقویت بھی ملتی ہے۔ نیز یہ لفظ ”جاناں“ یہاں محض وزن پورا کرنے کے لئے بھرتی کا ہے
بہر حال دیف کی قید ہے تو یوں بہتر ہوگا:
سنو اے اہلِ دنیا ہم تو الفت اِس کو کہتے ہیں
کسی پر مر کے مٹ جاؤ، ”محبت“ اس کو کہتے ہیں

محبت اک حقیقت ہے ، ہزاروں رنگ ہیں اس میں
جو ہیں راہی وفا کے وہ ، تو چاہت اس کو کہتے ہیں
÷۔ درست شعر مگر دوسرا مصرع تعوید لفظی کا شکار ہے۔ یوں کہیں تو رواں ہو:
”جو راہی ہیں وفا کے وہ تو چاہت اس کو کہتے ہیں“

جو بندوں سے خدا کی ہو،تو رحمت ہے سراسر یہ
جو کی جائے خدا سے تو، عبادت اس کو کہتے ہیں
÷÷ یہ شعر بھی روانی مانگتا ہے:
اگر مخلوق سے خالق کرے تو ایک رحمت ہے
جو یہ خالق سے ہوتو پھر عبادت اس کو کہتے ہیں

کرے محکوم حاکم سے ، اطاعت ہے یہ کہلاتی
رعایا سے کرے شہ تو، عدالت اس کو کہتے ہیں
÷÷درست ہے

جو ہو اولاد سے ماں کی ، تو شفقت ہے سرا سر یہ
جو ہو یاروں میں باہم تو ، رفاقت اس کو کہتے ہیں
÷÷ درست

کرے گر علم سے طالب ، تو محنت نام ہے اس کا
غلاموں کی ہو آقا سے تو مدحت اس کو کہتے ہیں
÷÷ انفرادی لفظ ”طالب“ کا محل نہیں یہاں۔ اور محنت کی جگہ عظمت بہتر ہے۔
کرے گر علم سے کوئی تو عظمت نام ہے اس کا

جو ہو گم راہ کو رہ سے ہدایت ہے یہ کہلاتی
کرے گر کام سے کوئی مشقت اس کو کہتے ہیں
÷÷
جو ہو گمراہ کو ”حق“ سے تو یوں یہ اک ”ہدایت“ ہے
(ویسے اگر یہ میرا شعر ہوتا تو اسے قلم زد کر دیتا۔) :)

جو حق پر جان تک اپنی لٹا دیں پر نہ خم ہو سر
صداقت نام ہے اس کا ، شجاعت اس کو کہتے ہیں
÷ ”پر نہ ہو سر خم“
دوسرا مصرع یوں کرلیں:
کرامت ہے محبت کی، شجاعت اس کو کہتے ہیں

کبھی خلوت کبھی جلوت، عجب ہی ڈھنگ ہیں اس کے
محبت یوں ہی ہوتی ہے ، محبت اس کو کہتے ہیں
÷÷ درست ہے شعر۔ مگر اس طرح کہیں تو اختتام کا لطف دوبالا ہوجائے:
محبت ایسے ہوتی ہے، محبت اس کو کہتے ہیں

محمد ذیشان نصر

آخر میں یہ بتاؤں کہ یہ نظم ہے۔ غزل نہیں ہے۔ :)
خوش رہیں۔ لکھتے رہیں۔ :)
 

ذیشان نصر

وفقہ اللہ
رکن
بہت شکریہ مزمل بھائی آپ کے مشورہ جات قابلِ قدر ہیں ان کی مدد سے اس نظم کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہوں ۔۔۔!
 
Top