ائمہ احناف کے احسانات امام بخاری پر

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
ائمہ احناف کے احسانات امام بخاری پر
پہلا احسان​
ہمیں کہا جاتا ہے حنفی لوگ امام بخاری کو نہیں مانتے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اکثر کہتا رہتا ہوں احناف تو امام بخاری کے محسنین میں سے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مثال کے طور پر آپ ذرا غور فر مائیں بخاری کی اعلی ترین وہ روایات کہلاتی ہیں ۔۔۔۔ جو ثلاثیات ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثلاثی وہ روایت کہلاتی ہے جس میں حضور صل اللہ علیہ وسلم اور امام بخاری کے در میان صرف تین واسطے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔۔۔۔۔۔تبع تابعی
2۔۔۔۔۔ تابعی
3۔۔۔۔۔ صحابی
اس قسم کی روایات کو اعلی شمار کیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بخاری میں کل 22 ثلا ثیات ہیں جن میں سے
11روایات۔۔۔۔۔مکی بن ابراہیم سے
6۔۔روایات امام ابوعاصم النبیل سے
3۔۔۔۔ محمد بن عبد اللہ الانصاری سے
1۔۔۔۔ خلاد بن یحیی الکوفی سے
1۔۔۔عصام بن خالد الحمصی سے
ان بزرگوں میں مکی بن ابراہیم ۔۔۔۔۔۔۔ اور امام ابو عاصم النبیل دونوں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے شاگرد ہیں اور شر کاء تدوین فقہ حنفی میں سے ہیں اور دونوں کا امام بخاری کے کبار مشائخ میں شمار ہو تا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تیسرے بزرگ محمد بن عبد اللہ الا نصاری بھی امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے شاگرد ہیں
اس لحاظ سے بخاری شریف کی بیس ثلا ثیات کے راوی حنفی ہیں
دوسرا احسان​
امام بخاری کے وہ اساتذہ جن سے آپ نے بخاری شریف میں براہ راست روایت لی ہے تقریبا 310 ہیں جن میں سے پو نے دوسو کے قریب عراقی ۔۔۔۔۔۔۔ پھر عراقیوں میں سے تقریبا 45 کوفی ( غیر مقدین کے لئے لمحہ فکریہ ہے جو ابو حنیفہ کوفی کہ کے کوفے اور حضرت امام پر تبرا کرتے ہیں انہیں سو چنا چاھئے 45 کوفی بھی ہیں )اور 85 بصری ہیں باقی دیگر شہروں کے ۔۔۔۔۔۔۔ حضرت امام بخاری کے اساتذہ میں سے بہت سارے ایسے بھی ہیں جو براہ راست امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے شاگرد ہیں یا آپ کے شاگردوں کے شاگرد چند نام ملاحظہ فر مائیں
1۔۔۔۔ امام احمدبن حنبل۔ شاگرد ہیں قاضی امام ابو یوسف کے

2۔۔۔۔۔۔ سعید بن ربیع ابو زید الھروی۔۔۔ شاگرد ہیں قاضی امام ابو یوسف کے۔۔۔۔۔۔۔۔
3۔۔۔۔ضحاک بن مخلد ابو عاصم النبیل ۔۔۔ شاگرد امام ابو حنیفہ
4۔۔۔۔۔عباس بن ولید ۔۔۔شاگرد ہیں قاضی امام ابو یوسف کے
5۔۔۔۔عبد اللہ بن یزید العدوی البصری المکی شاگرد امام اعظم
6۔۔۔۔۔۔ عبید بن موسی الکوفی شاگرد امام اعظم

7۔۔۔مکی بن ابراہیم شاگرد امام اعظم
8۔۔۔۔۔ ہشام بن عبد الملک باہلی شاگرد امام محمد
9۔۔۔۔۔۔۔۔ یحیی بن صالح الوحاظی شاگرد امام محمد
10 یحیی بن معین شاگرد امام ابو یوسف وامام محمد
یہ چند نام ہیں جو ذکر کئےہیں جن نے ائمہ احناف سے فیض حاصل کر کے اسے امام بخاری تک پہنچایا
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
بہت عمدہ موضوع ہے۔ ماشآء اللہ
اللہ تعالیٰ ان اسلاف کی قبروں کو انوارات سے بھر دے، اور ہمیں ان کی سچی محبت نصیب فرمائے کیونکہ اس میں خاتمہ بالایمان کی دولت بھی ہے (بف ی ض۔م ر ش د)۔
 

شکاری

وفقہ اللہ
رکن
جناب “مختلف فورم سے بار با ر مطالبہ کیا جارہا ہے کہ شر کاء تدوین فقہ حنفی کی مکمل فہرست پیش کریں ۔اب تک کوئی حنفی نہ پیش کر سکا ۔؟
واقعی اگر اس کمیٹی کا وجود تھا تو مکمل فہرست آپ ہی پیش کردیں کہ حنفیوں کی طرف سے کفارہ ادا ہو جائے؟
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار تم سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں​
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حسن خان صاحب بہت خوب ۔کاش ان ثلاثیات کا متن بھی الغزالی پر شیئر کردیا جاتا۔بہر حال اتنا بھی کافی ہے۔ع :آئنہ ہم نے دکھایا تو برا مان گئےلو شکاری صاحب اپنے ہی جال میں الجھتے نظر آرہے ہیں Ha Ha Ha
 

مزمل شیخ بسمل

وفقہ اللہ
رکن
پہلے تو حسن صاحب کو مبارک باد اتنے خوب مضمون کے لئے۔ :)
اور قاسمی صاحب میرے دھاگے میں کہیں کسی نے کیا ہی سچ کہا تھا کہ شور مچائینگے مگر جواب نہ لائینگے۔ جو مسلک خود کو اہل حدیث بتائے، پھر اس میں اسلام کا اہم ترین رکن نماز ہی حدیث سے ثابت نہ کر سکے اس سے بقیہ کیا امید رکھی جاسکتی ہے؟ میں تو پوچھتا ہوں کہ بتاؤ حدیث پر عمل کرنا کس صحابی، تابعی، تبع تابعی، ائمہ، محدثین، مجتہدین اور اولیاء میں سے کس کی سنت ہے؟ سنت اور جماعت پر عمل ہر کسی کا رہا ہے۔ اس لئے ہم اہلسنت والجماعت ہیں۔

اور حنفی فقہ پر شکاری صاحب نے جو اعتراض اٹھایا تو میں ان سے پوچھونگا کہ صحاح ستہ بلکہ چھوٹی سی بخاری شریف کو اٹھاؤ اور ایمان سے بتاؤ کہ کیا اس میں صرف احادیث ہی ہیں؟ کیا اس میں امام بخاری کی تعلیقات نہیں؟
کیا آپ مجھے صرف ایک ہی حدیث کی کتاب لا کر دکھا سکتے ہیں جس میں سوائے حدیث کے کسی کی تعلیقات و اقوال نہ ہوں؟ صرف حدیثیں ہوں؟
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حق احناف نے کہا ہے:
پہلے تو حسن صاحب کو مبارک باد اتنے خوب مضمون کے لئے۔ :)
اور قاسمی صاحب میرے دھاگے میں کہیں کسی نے کیا ہی سچ کہا تھا کہ شور مچائینگے مگر جواب نہ لائینگے۔ جو مسلک خود کو اہل حدیث بتائے، پھر اس میں اسلام کا اہم ترین رکن نماز ہی حدیث سے ثابت نہ کر سکے اس سے بقیہ کیا امید رکھی جاسکتی ہے؟ میں تو پوچھتا ہوں کہ بتاؤ حدیث پر عمل کرنا کس صحابی، تابعی، تبع تابعی، ائمہ، محدثین، مجتہدین اور اولیاء میں سے کس کی سنت ہے؟ سنت اور جماعت پر عمل ہر کسی کا رہا ہے۔ اس لئے ہم اہلسنت والجماعت ہیں۔

اور حنفی فقہ پر شکاری صاحب نے جو اعتراض اٹھایا
تو میں ان سے پوچھونگا کہ صحاح ستہ بلکہ چھوٹی سی بخاری شریف کو اٹھاؤ اور ایمان سے بتاؤ ک کیا اس میں صرف احادیث ہی ہیں؟ کیا اس میں امام بخاری کی تعلیقات نہیں؟ہ
کیا آپ مجھے صرف ایک ہی حدیث کی کتاب لا کر دکھاسکتے ہیں جس میں سوائے حدیث کے کسی کی تعلیقات و اقوال نہ ہوں؟ صرف حدیثیں ہوں؟
بڑا اہم نقطہ “امام بخاری کی تعلیقات نہیں؟“ جزا ک اللہ خیرا۔
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
اگرنیت میں اصلاحی پہلوشامل ہوگاتوان شااللہ آپ کی منشاکوبہت جلدپوراکیاجائے گا۔ہماراتواس پریقین ہے کہ بغاوت،غباوت،عدوات ان چیزوں کواپنی ذات سے دورپھینک کراللہ تعالیٰ سے دعاکرکے کہ اللہ ہمیں سیدھی راہ دکھائے پھراستخارہ کرے کہ غیرمقلدیت حق ہے یانہیں؟اگرمعاملہ اللہ کے سپرکردیاجائے جومیرادعویٰ ہے کہ زمین پرکوئی بھی غیرمقلدنہیں بچے گاتوغیرمقلدیت سے تائب نہ ہوجائے۔حق وہی ہوتاہے جس کی سبھی مخالفت کریں چنانچہ مذاہب میں سب سے زیادہ اسلام کی مخالفت کی جاتی ہے ،مسالک میں سب سے زیادہ احناف کی مخالفت کی جاتی ہے،اوراحناف کے پیروکاروں میں سب سے زیادہ دیوبندیوں کی مخالفت کی جاتی ہے ہمارے حق اورسچ ہونے کی یہی ایک دلیل ہے جوکورچشموں کے لئے کافی ہے سوچو،غورکرواورحق کی طرف بڑھوکیونکہ اسی میں فلاح مضمرہے۔
 

مزمل شیخ بسمل

وفقہ اللہ
رکن
قاسمی صاحب یہ تو سیدھی اور منطقی بات ہے نا۔ دیکھو حدیث کی کچھ کتابیں سند والی اور کچھ بنا سند کی ہیں۔ اسی طرح حنفی فقہ میں بھی چند کتابیں سند والی اور کچھ بنا سند کے۔ مثلاً بخاری شریف میں حدیث سند کے ساتھ ہے۔ مگر مشکوۃ شریف میں سند نہیں۔ تو کیا مشکوۃ شریف جھوٹی اور من گھڑت ہوئی؟ اسی طرح سمجھ لیں کہ کتاب الآثار اور جامع صغیر وغیرہ سند والی اور ہدایہ اور قدوری بغیر سند کے ہیں۔ لیکن اس بات کا یہ کہاں مطلب ہے کہ یہ سب کتابیں جو بغیر سند کی ہیں وہ جھوٹی ہیں؟
مسئلہ اتنا ہے کہ فقہ فقہ ہے، اور حدیث حدیث ہے۔ فقہ کی کتاب کو کوئی جاہل حدیث کے ترازو پر تولے اور کہے کہ اس میں مسئلے کی حدیث نہیں تو وہ جاہل کہلائے گا۔ پھر سند پیش نہ کرنا سند کی عدم موجودگی کی تو علامت نہیں ہے نا؟ دیکھیں سب سے زیادہ ہدایہ پر اعتراض کیا جاتا ہے اس میں سند نہیں مگر اس کی تخریج پر جو مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں مثلاً الکفایہ، الدرایہ، نصب الرایہ اور العنایہ وغیرہ وہ نظر نہیں آتی کسی کو؟ اسی طرح اب بخاری شریف کی تعلیقات کو دیکھیں تو وہاں بھی یہی سلسلہ ہے۔ اب بتائیں کہ کیا بخاری شریف کی تمام تعلیقات کی تخریج ہوچکی ہے؟ کیا فتح الباری میں بخاری شریف کی تمام تعلیقات سند کے ساتھ آچکی ہیں؟ یا کسی اور محدث کا نام بتائیں جس نے بخاری شریف کی تمام تعلیقات کی تخریج کرلی ہو؟
اگر ایسا نہیں ہے تو کیا آپ مان لینگے کہ امام بخاری نے ان تعلیقات میں جھوٹ بولا؟ (نعوذ باللہ) یہی اصول فقہ کی کتابوں کا بھی ہے۔ فتاوی ہندیہ تک کوئی بھی فقہ کی کتاب ایسی نہیں جس میں مسئلے کے ساتھ حدیث یا قران کی آیت پیش ہوتی۔ بلکہ ایک فقہ کی کتاب اپنے سے پیشتر دوسری فقہ کی کتاب کا حوالہ دیتی ہے۔ مگر جیسے بخاری شریف کی تعلیقات ہیں اسی طرح فقہ کی کتابوں کی بھی تخریج کا مسئلہ ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ ساری من گھڑت باتیں ہیں۔ جن کی کوئی دلیل موجود ہی نہیں۔
اعتدال اختیار کریں۔ نہ حد سے اتنا باہر نکل جائیں کہ حرام چیزوں کو بھی حلال کر ڈالیں۔ جیسے یہود نے کیا تھا۔ اور نہ اتنی حدود میں آئیں کہ حلال چیزوں کو بھی حرام کر ڈالیں۔ جیسے عیسائیوں نے کیا تھا۔ آج کے دور میں اسلام میں بھی الگ الگ مسالک کا یہی مسئلہ ہے، ایک کہتا ہے نبی علیہ السلام اپنی قبر میں حیات ہی نہیں، دوسرا کہتا ہے کہ حیات ہی نہیں بلکہ حاضر ناظر بھی ہیں مدد بھی کرتے ہیں اور گلی محلوں میں پڑھے جانے والے سلام کو سنتے بھی ہیں۔ ایک تو اتنا حدود سے باہر ہے کہ من گھڑت حدیثیں بنا کر غوث پاک اور نبی کا نیاز بلکہ اللہ کا نیاز دینا (نعوذ باللہ) ثابت کرنے کی کوششیں کرتا ہے، دوسرا کہتا ہے کہ ہم صحابی و تابعی یا فقہ کو نہیں بلکہ صرف حدیث کو مانینگے۔ لیکن یہ اعتدال نہیں۔ ہر گز نہیں ہے۔
اگر سندیں اور دلیلیں مانگنا ہی حق ہے تو منکرین حدیث تو سب سے اونچے مرتبے پر ہوئے کہ وہ قران کا محفوظ ہونا قران سے ثابت کر سکتے ہیں۔ قران و حدیث سے کوئی دکھا سکتا ہے کہ حدیث بھی قران کی طرح محفوظ ہے؟
یقیناً نہیں۔ اعتدال اختیار کریں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور ہمیں راہ ہدایت پر رکھے۔ آمین۔
 

محمد عثمان غنی

طالب علم
Staff member
ناظم اعلی
ماشاء اللہ مکرمی ۔۔ اللہ آپ کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائیں۔ آج ثلاثیات کو دیکھتے دیکھتے یہ خوبصورت لڑی نظر سےگزری اور دل کو بھا گئی ۔ واقعی علماء احناف کے محدثین حضرات ٌپر ان گنت احسانات ہیں۔ا للہ پاک ہمیں ان کو تعصب کی چادر اتار کر سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
ماشاء اللہ مکرمی ۔۔ اللہ آپ کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائیں۔ آج ثلاثیات کو دیکھتے دیکھتے یہ خوبصورت لڑی نظر سےگزری اور دل کو بھا گئی ۔ واقعی علماء احناف کے محدثین حضرات ٌپر ان گنت احسانات ہیں۔ا للہ پاک ہمیں ان کو تعصب کی چادر اتار کر سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
جزاک اللہ خیرا
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ائمہ احناف کے احسانات امام بخاری پر
پہلا احسان
ہمیں کہا جاتا ہے حنفی لوگ امام بخاری کو نہیں مانتے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اکثر کہتا رہتا ہوں احناف تو امام بخاری کے محسنین میں سے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مثال کے طور پر آپ ذرا غور فر مائیں بخاری کی اعلی ترین وہ روایات کہلاتی ہیں ۔۔۔۔ جو ثلاثیات ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثلاثی وہ روایت کہلاتی ہے جس میں حضور صل اللہ علیہ وسلم اور امام بخاری کے در میان صرف تین واسطے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔۔۔۔۔۔تبع تابعی
2۔۔۔۔۔ تابعی
3۔۔۔۔۔ صحابی
اس قسم کی روایات کو اعلی شمار کیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بخاری میں کل 22 ثلا ثیات ہیں جن میں سے
11روایات۔۔۔۔۔مکی بن ابراہیم سے
6۔۔روایات امام ابوعاصم النبیل سے
3۔۔۔۔ محمد بن عبد اللہ الانصاری سے
1۔۔۔۔ خلاد بن یحیی الکوفی سے
1۔۔۔عصام بن خالد الحمصی سے
ان بزرگوں میں مکی بن ابراہیم ۔۔۔۔۔۔۔ اور امام ابو عاصم النبیل دونوں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے شاگرد ہیں اور شر کاء تدوین فقہ حنفی میں سے ہیں اور دونوں کا امام بخاری کے کبار مشائخ میں شمار ہو تا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تیسرے بزرگ محمد بن عبد اللہ الا نصاری بھی امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے شاگرد ہیں
اس لحاظ سے بخاری شریف کی بیس ثلا ثیات کے راوی حنفی ہیں

دوسرا احسان
امام بخاری کے وہ اساتذہ جن سے آپ نے بخاری شریف میں براہ راست روایت لی ہے تقریبا 310 ہیں جن میں سے پو نے دوسو کے قریب عراقی ۔۔۔۔۔۔۔ پھر عراقیوں میں سے تقریبا 45 کوفی ( غیر مقدین کے لئے لمحہ فکریہ ہے جو ابو حنیفہ کوفی کہ کے کوفے اور حضرت امام پر تبرا کرتے ہیں انہیں سو چنا چاھئے 45 کوفی بھی ہیں )اور 85 بصری ہیں باقی دیگر شہروں کے ۔۔۔۔۔۔۔ حضرت امام بخاری کے اساتذہ میں سے بہت سارے ایسے بھی ہیں جو براہ راست امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے شاگرد ہیں یا آپ کے شاگردوں کے شاگرد چند نام ملاحظہ فر مائیں
1۔۔۔۔ امام احمدبن حنبل۔ شاگرد ہیں قاضی امام ابو یوسف کے

2۔۔۔۔۔۔ سعید بن ربیع ابو زید الھروی۔۔۔ شاگرد ہیں قاضی امام ابو یوسف کے۔۔۔۔۔۔۔۔
3۔۔۔۔ضحاک بن مخلد ابو عاصم النبیل ۔۔۔ شاگرد امام ابو حنیفہ
4۔۔۔۔۔عباس بن ولید ۔۔۔شاگرد ہیں قاضی امام ابو یوسف کے
5۔۔۔۔عبد اللہ بن یزید العدوی البصری المکی شاگرد امام اعظم
6۔۔۔۔۔۔ عبید بن موسی الکوفی شاگرد امام اعظم

7۔۔۔مکی بن ابراہیم شاگرد امام اعظم
8۔۔۔۔۔ ہشام بن عبد الملک باہلی شاگرد امام محمد
9۔۔۔۔۔۔۔۔ یحیی بن صالح الوحاظی شاگرد امام محمد
10 یحیی بن معین شاگرد امام ابو یوسف وامام محمد
یہ چند نام ہیں جو ذکر کئےہیں جن نے ائمہ احناف سے فیض حاصل کر کے اسے امام بخاری تک پہنچایا
ماشا ء اللہ

عمدہ معلوماتی لڑی
 

ضرار خان

وفقہ اللہ
رکن
جناب “مختلف فورم سے بار با ر مطالبہ کیا جارہا ہے کہ شر کاء تدوین فقہ حنفی کی مکمل فہرست پیش کریں ۔اب تک کوئی حنفی نہ پیش کر سکا ۔؟
واقعی اگر اس کمیٹی کا وجود تھا تو مکمل فہرست آپ ہی پیش کردیں کہ حنفیوں کی طرف سے کفارہ ادا ہو جائے؟


نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار تم سے

یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
ارکانِ شوریٰ:

امام اعظم ؒ نے دستور اسلامی کی مجلس تدوین میں جن جن عظیم المرتبت اشخاص کا انتخاب کیا تھا، فقہ اسلامی کے ماہرین اورامام صاحب کے تذکرہ نگاروں نے ان کی تعداد چالیس بیان کی ہے، امام طحاوی ؒ نے اپنی مسند سے نقل کیاہے کہ امام صاحب کے چالیس ممتاز اور ماہر فن تلامذہ تدوین فقہ اور کارِ اجتہاد میں ان کے شریک ومعاون تھے، اگرچہ امام طحاوی نے چند ناموں پراکتفاء کیاہے؛ لیکن بعض دیگر موٴرخین نے تمام اسماء کو شمار کرایا ہے، جو حسب ذیل ہیں:

(۱) امام زفر م ۱۵۸ھ (۲) امام مالک ؒ بن مغول م ۱۵۹ھ (۳) امام داؤد طائی م ۱۶۰ھ (۴) امام مندل بن علی م ۱۶۸ھ (۵) امام نضر بن عبدالکریم م ۱۶۹ھ (۶) امام عمرو بن میمون م ۱۷۱ھ (۷) امام حبان بن علی م ۱۷۳ھ (۸) امام ابوعصمہ م ۱۷۳ھ (۹) امام زُہیر بن معاویہ م ۱۷۳ (۱۰) امام قاسم بن معن م ۱۷۵ھ (۱۱) امام حماد بن الامام الاعظم م ۱۷۶ھ (۱۲) امام ہیاج بن بسطام م ۱۷۷ھ (۱۳) امام شریک بن عبداللہ م ۱۷۸ (۱۴) عافیہ بن یزید م ۱۸۰ھ (۱۵) امام عبداللہ بن مبارک م ۱۸۱ھ (۱۶) امام ابویوسف م ۱۸۲ھ (۱۷) امام محمد بن نوح م ۱۸۲ھ (۱۸) مام ہشیم بن بشیر السلمی م ۱۸۳ھ (۱۹) ابوسعید یحییٰ بن زکریا م ۱۸۴ھ (۲۰) امام فضیل بن عیاض م ۱۸۷ھ (۲۱) امام اسد بن عمر م ۱۸۸ھ (۲۲) امام محمد بن الحسن م ۱۸۹ھ (۲۳) امام یوسف بن خالد م ۱۸۹ھ (۲۴) امام علی بن مسہر م ۱۸۹ھ (۲۵) امام عبداللہ بن ادریس م ۱۹۲ھ (۲۶) امام فضل بن موسیٰ م ۱۹۲ھ (۲۷) امام علی بن طبیان م ۱۹۲ھ (۲۸) امام حفص بن غیاث م ۱۹۴ھ (۲۹) وکیع بن جراح م ۱۹۷ھ (۳۰) امام ہشام بن یوسف م ۱۹۷ھ (۳۱) امام یحییٰ بن سعید القطان م ۱۹۸ھ (۳۲) امام شعیب بن اسحاق م ۱۹۸ھ (۳۳) امام حفص بن عبدالرحمن م ۱۹۹ھ (۳۴) ابومطیع بلخی م ۱۹۹ھ (۳۵) امام خالد بن سلیمان م ۱۹۹ھ (۳۶) امام عبدالحمید م ۲۰۳ھ (۳۷) امام حسن بن زیاد م ۲۰۴ھ (۳۸) امام ابوعاصم النبیل م ۲۱۲ھ (۳۹) امام مکی بن ابراہیم م ۲۱۵ھ (۴۰) امام حماد بن دلیل م ۲۱۵ھ (الجواہر المضیئہ:۱/۱۴، بحوالہ امام اعظم ابوحنیفہ،ص:۱۷۸)
 
Top