فٹ پاتھ ۔۔منظرعباس

  • موضوع کا آغاز کرنے والا قاسمی
  • تاریخ آغاز
ق

قاسمی

خوش آمدید
مہمان گرامی
p-101.jpg

فٹ پاتھ پر زندگی گزارنے والے بھی عجیب و غریب ہوتے ہیں۔ رضوان بھی اس فٹ پاتھ پر زندگی گزارنے والا ایک انسان تھا۔ رضوان دن بھر رکشہ چلاتا اور رات میں فٹ پاتھ پر آکر ایسی نیند سوتا کہ اسے کسی طرح کا ہوش و حواس نہیں رہتا۔ بس لمبی لمبی سانسیں لیتا ہے۔ دیکھنے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ کافی تھکا ہوا انسان ہے۔ دن بھر رکشہ چلانا محنت کرنا اس کا کام تھا۔ وہ صرف اس لیے کرتاکہ اس کے پورے گھر کی ذمہ داری اسی پر تھی۔ ماں تھی ،ایک بہن، زوجہ اور دو بچے تھے۔ ان تمام لوگوں کا خرچ رضوان کے ذمہ تھا۔ وہ رکشہ چلا کر پیسہ جمع کرتا اور کھانے سے جو بچتا اسے اپنے گھر والوں کو روانہ کردیتا۔ پیسہ بچانے کی خاطر وہ فٹ پاتھ پر اپنی زندگی بیس برسوں سے گزار رہا تھا۔ فٹ پاتھ پر بھی ایک گنجان آبادی تھی۔ جہاں بیٹھنے اور سونے کی بہت کم جگہ تھی۔ کسمپرسی کا ماحول تھا۔ اب تو فٹ پاتھ پر بھی جگہ نہیں ملتی۔ دن کی دھوپ میں رکشہ چلاتا اور رات کی شبنم میں فٹ پاتھ پر سوتا۔ یہی اس کی زندگی کا معمول بن چکا تھا۔
جب صبح کی سفیدی نمودار ہوتی اس کی آنکھیں کھل جاتی تھیں اور اسے پھر نیند نہیں آتی۔ اس لیے کہ ایک شور شرابے کا ماحول گاڑی کی آوازیں اسے پوری نیند بھی چین سے نہیں سونے دیتیں۔ وہ جاگ جاتا اور اسے پھر کہاں نیند آتی؟ پھر وہ اٹھ جاتا۔،منہ دھو کر کچھ کھاتا پھر رکشہ نکال کر چلانا شروع کردیتا، دھوپ کی شدت بڑھتی جاتی، گرمی کی تپش میں تیزی آتی جاتی۔ لو کی شدت ہو یا پھر زبردست گرمی کا موسم یا برسات کا موسم یا پھر جاڑے کی ٹھنڈی ٹھنڈی لہریں، ہر موسم میں اس کو رکشہ چلانا پڑتا ہے۔ اس غریب پر نہ گرمی کا اثر تھا نہ برسات کا اثر اورنہ ٹھنڈک کا اثر تھا۔ اس پر تو ایک جنون سوار تھا کہ مجھ غریب کو اپنیکنبے والوں کاپیٹ پالنے کے لیے ہر حالت میں رکشہ چلانا ہے، نہیں تو میرا کنبہ میری ماں، بہن، میری زوجہ میرے بچے بھوکے رہ جائیںگے۔ میں بھی بھوک سے مرجاؤں گا، میری کون مدد کرے گا، غریب کو کون پوچھتا ہے۔ ہائے میں بھی کیسی تقدیر کا خراب انسان ہوں، نہ پیٹ بھر کھانا نصیب ہوتا ہے، نہ میرے بچوں کو پیٹ بھر کھانا ملتا ہے اور نہ ان کی اچھی تعلیم کا انتظام ہوتا ہے اور نہ وہ اچھا لباس زیب تن کرتے ہیں۔ اتنے کم پیسے میں کیسے ہر ارمان کو پورا کیا جاسکتا ہے؟ تمام خواہشات کہاں پوری ہونگی۔ غریبی رسوا کردیتی ہے، ذلیل و خوار کردیتی ہے، سکون و چین سب چھین لیتی ہے۔
رضوان صبح سویرے رکشہ نکالتا اور رات کے 8 بجے تک چلاتا۔ رکشہ چلاکر جو کمائی ہوتی اسے کسی آدمی کے ذریعہ اپنے گھروالوں کو روانہ کر دیتا ۔
اور جب وقت کافی ہونے لگتا دل اپنے گھر جانے کے لیے بے چین ہوجاتا۔ اپنی ماں بہن اور زوجہ اور بچوں کے دیدار کو ترسنے لگتا۔ گھر کی یاد تڑپانے لگتی تھی۔ کبھی کبھی آنکھوں میں آنسو بھی آجاتے۔ ایسی حالت میں دل یہی چاہتا کہ اس فٹ پاتھ سے کسی طرح اڑ کر اپنے وطن چلا جاؤں اور اپنے بچوں کا دیدار کرلوں، اپنی ماں بہن سے ملاقات کرلوں۔ زوجہ کو ایک نظر جی بھر کر دیکھ لوں، لیکن فرصت کہاں ملتی تھی؟ ایک ایک دن میرے لیے بہت قیمتی ہے۔ ایک ایک دن کی کمائی میرے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ میری زندگی کی گاڑی اسی پر چلتی ہے، میں اس کام کو کیسے چھوڑ کر چلاجاؤں؟
دل بے چین ہونے کے بعد رضوان نے ارادہ کرلیا کہ اب دل کافی گھبرا رہا ہے۔ والدہ ، بہن اور اپنے پیارے پیارے بچوں کو دیکھے بغیر اب نہیں رہوںگا۔ ان کی جدائی مجھے نہیں رہنے دے گی۔ دل ان کے لیے ہمیشہ گھبراتا ہے۔ آنکھیں ہمیشہ روتی ہیں اور دل پر بوجھ محسوس ہوتا ہے۔
قریب ایک سال سے وہ اپنے وطن نہیں گیا تھا لیکن آج اس نے ارادہ کرلیا تھا کہ رکشہ جمع کرکے وہ اپنے وطن جائے گا۔ اپنی ماں بہن سے اپنے بچوں سے ملاقات کرے گا اور جیسا رضوان نے سوچا ویسا ہی کیا۔
وہ اپنے وطن عزیز کے لیے روانہ ہوگیا۔ اس سے قبل کچھ تحائف گھروالوں کے لیے خریدے تھے، انہیں بھی ساتھ لے کر روانہ ہوا اور بس کے ذریعہ اپنے گائوں میں پہنچ گیا۔ گھر میں سب لوگ بے چین تھے۔ اس کا انتظار کر رہے تھے۔ اس نے ایک آدمی کی معرفت اپنے گھر آنے کی خبر کردی تھی۔ تبھی تو گھروالے اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے،ماں نے سینے سے لگایا، بہن نے بھی سینے سے لگایا، بچوں نے بھی اپنے والد کو گلے لگایا اور زوجہ بھی خوشی کے آنسو بہارہی تھی۔
آج رضوان کے گھر میں خوشی کا ماحول تھا، گھر کا ہر فرد خوشی منا رہا تھا۔ اس لیے کہ رضوان ایک مدت کے بعد اپنے گھر آیا تھا۔ یہاں اسے اب فٹ پاتھ نہیںبلکہ چارپائی ملے گی اور کچھ دنوں کے لیے گھر کا پکا ہوا کھانا ملے گا، وہ بھی زوجہ کے ہاتھ کا۔ بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزارنے کا موقع ملے گا اب ہروقت اس کا دل یہی چاہتا ہے کہ اپنے کنبے کو چھوڑ کر نہ جاؤں اور اب یہیں رہوں اپنے بچوں کے درمیان ، لیکن مسائل بہت تھے،روزی روٹی کا مسئلہ تھا، ایک بہن تھی اس کی شادی کا مسئلہ تھا، کوئی دوسرا سہارا بھی نہ تھا، کوئی ایسا مدد گار بھی نہ تھا، جو اسے گھر پر ہی کار و بار کرنے کے لیے کچھ رقم دے دے۔ وہ ہر وقت اسی سوچ میں گم رہتا کہ میں اپنی بہن کی شادی کیسے کروںگا؟ اسی فکر میں وہ گلا جارہا تھا، ایک تو اتنی محنت کا کام، اپنا خون جلا کر وہ رکشہ چلا تااور اس سے جو پیسہ اکٹھا ہوتا اسے جمع کرتا ،اس کے بس دو ہی مقصد تھے کہ بہن کی شادی اچھی طرح ہوجائے، ماں کو کوئی تکلیف نہ ہو اور بچوں کی پرورش اچھی طرح ہو۔
وقت تیزی سے گزرتا جارہا تھا۔ گھر سے جانے کو دل نہیں چاہتا، بس دل یہی چاہتا ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ اپنی بستی میں رہوں اور اب کہیں نہیں جاؤں، لیکن مجبوری تھی ، چونکہ غربت جو تھی۔اے دن رضوان نے سوچا جب میں یہاں آیا ہوں تو اپنی بہن کی شادی کے لیے رشتہ بھی طے کردوں۔
کئی رشتے ملے،ان میں ایک رشتہ اسے پسند آگیا۔ لڑکے کی پان اور چائے کی دکان تھی، اس لڑکے کی کوئی مانگ نہیں تھی، اسی لیے وہ رشتہ اسے پسند آگیا اور اس نے ہر طرح سے اس رشتہ کا پتہ لگایا۔ معلوم ہوا رشتہ بہت اچھا ہے اور پھر اس نے اپنی بہن کی شادی طے کردی اور کئی دوستوں و عزیزوں سے قرض لے کر اپنی بہن کی شادی کا سارا انتظام کیا، لیکن پھر بھی ساری تیاریاں نہیں ہو پارہی تھیں، اس لیے رضوان نے سوچا کہ شہر جا کر کچھ دن کمالیتا ہوں۔ پھر آکر ساری کمیاں پوری کر کے بہن کی شادی دھوم دھام سے کروںگا۔ اس لیے اس نے بہن کے سسرال والوں سے شادی کی تاریخ آگے بڑھوالی۔ پھر واپس جانے کا فیصلہ کرلیا اورپھر آکر فٹ پاتھ کی زندگی شروع کردی۔ رضوان پر کافی قرض کا بوجھ تھا۔ اسے بھی رکشہ چلا کر ادا کرنا تھا اور پھر بہن کی شادی کی پوری ذمہ داری تھی کہ بہن کی شادی اچھی طرح سے ہوجائے کسی چیز کی کمی نہ ہو۔ یہی فکر رضوان کو کھائے جارہی تھی۔ اب اس کے کام میں مزید تیزی آگئی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ جلد سے جلد زیادہ سے زیادہ پیسہ کمالوں اور بہن کی شادی کردوں اور اپنے بچوں کی اچھی طرح سے پرورش کرسکوں۔ انہیں اچھی تعلیم دے سکوں تاکہ وہ میری طرح فٹ پاتھ پر زندگی بسر نہ کریں۔
ایک دن اسے خبر ملی کہ اس کی زوجہ کی طبیعت بہت خراب ہے اور اسے ولادت ہونے والی ہے۔ پھردوسرے روز خبر آئی کہ اس کی زوجہ ٹھیک ہے اور اسے بیٹا ہوا ہے۔ اب رضوان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ اس کے بعد اسے خبر ملی کہ اس کی ماں سخت بیمار ہے۔ وہ ماں کو دیکھنے جانے والا ہی تھا اور اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسا بھی ہوگا۔
حالات نے ایسی کروٹ لی جس کا کسی کواندازہ نہیں تھا۔ رضوان ایک رات فٹ پاتھ پر بے ہوشی کی نیند سویا ہوا تھا کہ ایک تیز رفتار گاڑی جس کے بریک فیل ہوگئے تھے فٹ پاتھ پر چڑھ گئی اور رضوان کے جسم پر وہ گاڑی چڑھ گئی۔ ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔ رضوان کو اسپتال میں داخل کرایا گیا، اس کے جسم سے بہت خون نکل چکا تھا اور جسم کے کئی عضو ٹوٹ چکے تھے، جس کی وجہ سے رضوان کی جان نہیں بچ سکی اور آج فٹ پاتھ نے رضوان کی جان لے لی۔
آج رضوان کے گھر میں کہرام تھا۔ بیمار ماں رضوان کے اس غم کو برداشت نہ کرسکی اور وہ اس دنیا کو چھوڑ کر چلی گئی۔ زوجہ خون کے آنسو بہا رہی ہے۔ بچے یتیم ہوچکے ہیں اور بہن کے ہاتھوں میں مہندی لگتے لگتے رہ گئی۔ رضوان کے دل کا ارمان دل میں ہی رہ گیا ،اس کی بہن کی شادی نہیں ہوپائی۔ زوجہ اور بہنبے ہوشی کے عالم میں تھیں ۔ بس فضا میں ایک ہی آواز تھی فٹ پاتھ نے سب کچھ ختم کردیا۔ فٹ پاتھ سے کچھ نہیں ملا۔
بشکریہ چوتھی دنیا
 
Top