لبوں پہ ان کے تبسم ہے یا کہ خندۂ گل
بہاربن کے وہ دل میں سمائے جاتے ہیں
اندھیری رات میں جیسے چمک ہوبجلی کی
تہہ نقاب وہ یوں مسکرائے جاتے ہیں
اسی اَدا نے ضمیر حزیں کو لوٹ لیا
نظر ملاتے نہیں مسکرائے جاتے ہیں
حضرت مولانامحمدایوب ضمیربارہ بنکوی کے کلام’’ضمیرکی آواز‘‘(غیرمطبوعہ)سے ماخوذبہاربن کے وہ دل میں سمائے جاتے ہیں
اندھیری رات میں جیسے چمک ہوبجلی کی
تہہ نقاب وہ یوں مسکرائے جاتے ہیں
اسی اَدا نے ضمیر حزیں کو لوٹ لیا
نظر ملاتے نہیں مسکرائے جاتے ہیں