مشائخ کا معمولات کا اہتمام

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
مشائخ کا معمولات کا اہتمام
شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریامہاجرمدنی کی کتاب ’’آپ بیتی‘‘سے چنداقتباسات


حضرت کانظام الاوقات یہ تھا کہ رات کے پچھلے حصہ میں بالعموم سب ہی جاگ جاتے اورطہارت اور وضو سے فارغ ہو کر نوافل میں مشغول ہو جاتے ، بعض لوگ مسجد چلے جاتے ، اکثر وہیں چٹائیوں اور چارپائیوں پر نوافل ادا کر تے پھر ذکر جہر میں یا مراقبہ میں مشغول ہو جاتے ، اس وقت رات کے اس سناٹے میں اور جنگل کی اس خاموش فضا میں خانقاہ اللہ کے نام کی صداؤں اورذکر کی آوازوں سے گونج جاتی ، اور حسب استعداد وتوفیق لوگ اس فضائے سے مکیف ہو تے اور سرور ومستی کی ایک عام کیفیت ہو تی ــ، نماز صبح کے بعد پابندی سے سیر کو تشریف لے جاتے ، بالعموم نہر کی پٹری پر تشریف لے جایا کر تے تھے ، واپسی پر مزار پر کچھ دیر بیٹھتے ، بعد میں یہ معمول جا تا رہا ، کچھ دیر موسم کے مطابق باہر تشریف رکھتے پھر اندر تشریف لے جاتے۔ کوئی موسم ہو، مہمان کم ہو ں یا زیادہ حضرت باہر تشریف لا تے او رساڑھے دس بجے یا گیارہ بجے تک کھانا آجاتا اور یہی وقت سہارنپور سے مہمانوں کے پہنچے کا ہو تا ، او رقرب و جوار کے دیہات سے آنے والوں کا عموماً وقت بھی یہی ہو تا تھا جن کا پہلے سے کوئی اندازہ نہ ہو تا تھا مگر حاجی ظفر الدین صاحب ناظم مطبخ اور ان کی اہلیہ اللہ ان کو بہت ہی جزائے خیر عطا فر ما ئے مجھے تو ہمیشہ دیکھ کر بڑی حیرت ہو تی تھی کہ پہلے سے چالیس ،پچاس مہمان ہو تے تھے لیکن دستر خوان کے وقت سو ڈیڑھ سو ہو جاتے تھے مگر ذرا سی تاخیر بھی کھانے میں نہیں ہو تی تھی ، سالن تو زیادہ مقدار میں پہلے سے ہو تا تھا،ـ عین وقت پر حاجی ظفر کی اہلیہ اس سرعت سے روٹیاں پکاتی کہ تار نہیں ٹوٹتا تھا ، ایک جماعت کھانے سے اٹھتی فوراً دوسری جماعت بیٹھتی۔ اس کے بعد علی میاں لکھتے ہیں کہ کھا ناعموماً سادہ بالعموم دال روٹی ہو تی تھی ، جب تک حضرت کی صحت اجازت دیتی رہی مہمانوں کے ساتھ ہی کھانا تناول فر ما تے ، کھانے کے بعد تھوڑی دیر مجلس ہو تی ، جس کا کوئی خاص موضوع نہ ہو تا تھا۔ کبھی اکابر میں سے کسی کا قصہ چھڑ گیا کبھی کوئی اور مضمون ،بارہ بجے کے قریب مجلس ختم ہو جاتی اور حضرت آرام فر ماتے ۔
ظہر کی اذان کے بعد سب اٹھ جاتے اور مسجد میں جمع ہو تے رہتے ، صحت کے زمانہ میں تو حضرت مسجد ہی میں تشریف لے جاتے تھے ـ، نماز ظہر کے بعد حضرت تخلیہ میں تشریف لے جاتے اور کواڑ بند ہو جاتا ، سفر وحضر میں یہ قدیمی اور دائمی معمول تھا ، البتہ اخیر زمانہ شدت مرض میں اس کی پابندی نہیں رہی ۔ اس تخلیہ میں عموما صلوۃ التسبیح اور ذکر بالجہر کا معمول تھا (از زکریا ) جہر بہت ہلکی آواز سے ہو تا جو حجرہ کی باہر کی سہ دری سے آگے نہیں نکلتا تھا اور ہیبت سے اس سہ دری میں بھی لوگوں کی جانے کی ہمت نہ ہو تی ،زکر یا کی چار پائی حجرہ شریف کے دروازہ کے بالکل متصل چونکہ حکماً رہتی تھی اس لئے مجھے اس خفیف جہر کی آواز سننے کی بہت کثرت سے نوبت آتی ، اس تخلیہ کا بہت اہتمام ہو تا تھا ۔ تخلیہ سے باہر آ نے کے وقت چہرہ پر اتنا جلال اور انوار کا زور ہو تا تھا کہ چہرۂ مبارک پر نگاہ ڈالنی مشکل ہو تی تھی اور تھوڑی دیر تک حضرت نو ر اللہ مرقدہ پر بھی کچھ استغراقی کیفیت کا ایسا غلبہ ہو تا تھا کہ خادم خاص بھائی الطاف کو بھی نہ پہچانتے ، فرماتے تو کون ہے؟ اس منظر کو اس ناکارہ نے بھی بہت دیکھا ۔ میں تو حجرہ کے کواڑ کھلنے کے وقت اپنی چارپائی سے اٹھ کر باہر آجاتا تھا ،مگر چند منٹ بعد یہ منظر ختم ہو جاتا ، باہر تشریف لانے کے بعد چائے اور اخبار آ جاتے اور راؤ فضل الرحمن صاحب اخبار کی خاص خاص خبروںپر سرخیاں لگا کر لاتے او رسناتے اور خصوصی ڈاک بھی سنائی جاتی ، عصر تک یہ سلسلہ رہتا ۔
 
Top