مشائخ کا معمولات کا اہتمام

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
مشائخ کا معمولات کا اہتمام
شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریامہاجرمدنی کی کتاب ’’آپ بیتی‘‘سے چنداقتباسات


مولانا علی میاں رائے پور کے نظام الاوقات کے عنوان کے تحت تحریر فر ما تے ہیں کہ حضرت اقدس رائے پوری کے مجاہدات بغیر رمضان کے بھی ابتدائے زمانہ میں بہت سخت گزر ے ہیں، متفرق احوال وقتا ًفوقتاً میری آپ بیتی میںجسے کشکول کہنا بھی غلط نہیں ہے کہ چلتے پھر تے وقتا ًفوقتاً اکابر کا جو واقعہ یاد آیا لَقَدْ کَانَ فِیْ قَصَصِھِمْ عِبْرَۃٌ لِاُوْلِی الْاَبْصَارِ۔ (سورۂ یوسف) لکھواتا رہا کہ اول تو اہل اللہ کے قصے نزول رحمت کا بھی سبب ہیں اور مجھے بچپن ہی سے اپنے اکابر کے قصوں میں بہت ہی لطف آیا، علی میاں حضرت شاہ عبد القادر صاحب نور اللہ مرقدہ کے مجاہدات میں تحریر فرماتے ہیں ، رائے پور کے قیام میں آ پ نے ا س عالی ہمتی جفا کشی اور مجاہدہ سے کا م لیاجن کے واقعات اب صر ف اولیائے متقدمین کے تذکروں اور تاریخوں میں ملتے ہیں او رجو انھیں لوگوں کا حصہ ہے جن کی استعداد اور جوہر نہایت عالی عزم وارادہ نہایت قوی اور طلب نہایت صادق ہو تی ہے، جن کے ضمیر میں روز اول سے عشق کا مادہ ہو تا ہے اور اللہ تعالیٰ کو انھیں اس راہ کے اعلیٰ ترین مقامات اور کمالات پر پہنچا کر ان سے ہدایت اور تر تیب خلق کا کام لینا ہو تا ہے ۔ حضرت نے فر ما یا کہ میں رائے پور پہنچ کر سا رادن باغ میں پھر تا رہاکہ میں کس درخت کے پتے کھاکر گزارا کر سکتا ہوں، آپ نے بعض اوقات کسی درخت کا نام بھی لیا کہ اس کو منتخب کیا تھا، کبھی آپ کی باتوں سے یہ بھی معلوم ہو تا کہ آپ نے شہتوت کے پتے کھائے ہیں ـ ــ،فر ماتے تھے کہ الحمدللہ اس کی بہت کم نوبت آئی ، کیونکہ حضرت نے اپنے خادم میانجی معز الدین سے فر ما دیا تھا کہ ان کے کھانے وغیرہ کا خیال رکھنا ، رائے پور کا وہ دور بڑے مجاہدے اور جفا کشی کا تھا اور یہ سب ان لوگوں کی تکمیل حال کے لئے تھا جن کی ترقی اور پختگی اللہ تعالیٰ کو منظور تھی لنگر کی روٹی اتنی موٹی اور کچی ہو تی تھی کہ بغیر پانی یا چھاچھ کے حلق سے نہیں اتر تی (چونکہ رائے پوری خانقاہ میں پنجابی حضرات کی کثرت تھی، ان کے معدے اچھے تھے اور قوی ہو تے تھے ان کے لئے چھاچھ کے ایک پیالہ کے ساتھ ایک روٹی کھالینے میں کوئی اشکال نہیں تھا) اخیر زمانہ میں اکثر فر ماتے تھے کہ یہ ریاح کا مرض او رضعف معدہ اسی وقت سے ہے۔ فرماتے تھے کہ ایک روز روٹی جلی ہوئی تھی،حاجی جانی مطبخ کے مہتمم تھے ۔ میں نے کہا حاجی جی روٹی جلی ہوئی ہے کہا کہ اچھا کل جلی ہوئی نہ ہو گی ۔ اگلے روز ایک طرف جلی ہوئی اور د وسری طرف کچی تھی ، حاجی جانی سے جب دوسری مرتبہ کہا کہ روٹی کچی ہے تو حاجی نے کہا کہ میاں اگر روٹی کھانے آیا ہے تو کہیں اور چلا جا۔مجھے ڈر ہوا کہ کہیں یہ حضرت سے نہ کہہ دے ، میں نے اپنے کو بڑی ملامت کی اور دل میں کہا کہ ارے آیا تو ہے تو اپنے نفع کی خاطر اور پھر نخرے کر تا ہے اوریہ عہد کیا کہ آئندہ کبھی کچھ نہ کہوں گا ۔ پھر کبھی شکایت نہیں کی ، چودہ سال تک کبھی باسی کبھی کچی ، کبھی سوکھی روٹی کھائی اور نام نہیں لیا ، مولانامنظور صاحب نعمانی نے خود حضرت کے حوالے سے لکھاہے کہ فر ماتے تھے کہ مسلسل دس سال گزر ے ہیں کہ ہم لوگوں کو جو طالبین کی حیثیت سے خانقاہ میں رہتے تھے ایک دن میں صرف ایک روٹی مکئی کی ملتی تھی اور وہ درمیان سے بالکل کچی ہو تی تھی۔ جو صاحب پکانے والے تھے انہیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ روٹی سکی یا نہیں سکی، سالن یا دال ترکاری کا کوئی سوال ہی نہ تھا ۔ گاؤں سے کسی دن چھاچھ آجاتی توکھانے پینے کے لحاظ سے ہم خانقاہ والوں کے لئے گویا عید کا دن ہو ۔تا فر ماتے تھے اس علاقہ (یوپی) کے ہمارے ساتھی تو وہی ایک روٹی آدھی آدھی کر کے دونوں وقت کھاتے تھے لیکن میں پنجاب کا رہنے والا ، اس لئے ایک ہی وقت میں کھا لیتا تھا اور دوسرے وقت بس اللہ کا نام۔ فر مایا کہ سوکھی روٹی کھانے کی وجہ سے میرے پیٹ میں دردرہنے لگا اورگڑگڑاہٹ ہو تی تھی ۔خیال آیا کہ حضرت سے عرض کروںگا کہ خادم سے فر ما دیا جائے کہ روٹی اچھی طرح سینک لیا کرے، پھر خیال آیا کہ اگر حضرت نے فر ما یا کہ مولوی صاحب ! جہاں پکی ہوئی روٹی ملتی ہو وہاں چلے جاؤ تو پھر کیا ہوگا۔
خود بخود دل میں خیال آیا تو سونٹھ پیس کر استعمال کی ، استعمال کے بعد جب ایک مر تبہ استنجاء کیا تو ایک بڑا سا جونک جیسا کیڑا نکلا ـ، میرا خیال ہوا کہ شاید آنت باہر آگئی مگر دیکھا تو کیڑا تھا، اس وقت ڈر گیا بعد میں مفردات میں دیکھا تو معلوم ہوا کہ سونٹھ کی ایسی ہی خاصیت ہے ۔ حضرت کبھی شفقتاً اپنے دستر خوان پر جب کبھی شیخ الہند ؒیا حضرت مولانا خلیل احمد صاحب ؒ سہارنپوری نو راللہ مرقدھما تشریف لا تے تو بلا تے کہ تم بھی کھانا کھالو۔میں اپنے وقت پر جو کچھ مجھے باسی مل جا تا کھالیتا تھا اور سختی سے معذرت کرتا تھا ، حضرت شدت سے اصرار کر تے اور فر ماتے کہ مولانا میں آپ کے نفع کے لئے کہہ رہاہوں، حضرت کی تعمیل ارشاد میں ان حضرات کے ساتھ بیٹھ کر کچھ کھالیتا ۔ اسی طرح جب چائے کی پتی بچ جاتی تو میں اس کو سکھا لیتا جو گڑ رکھے رکھے پرانا اور خراب ہو جاتا اس کا شربت پکا کر اس کا شیرہ چائے میں ڈال کر اس سے روٹی کھالیتا تاکہ جلدی لیٹ جاؤ ں اور حضرت کے اٹھنے سے پہلے ایک بجے حاضر ہو جاؤں ۔ رہائش کے لئے حافظ یوسف علی صاحب کے چھپر میں جہاں ان کی گھوڑی بندھتی تھی ان کی ا جازت سے ایک طرف صاف کر کے اس پر اپنا بستر لگادیا۔ از زکر یا۔ حافظ یوسف علی صاحب اعلیٰ حضرت رائے پوری قدس سرہ کے زمانہ میں قرآن پاک کے مکتب کے حافظ تھے ، بہت ہی بزرگ تھے ، بہت ہی صاحب کرامت تھے ، میں نے بھی زیارت کی ہے بلکہ مرحوم بہت ہی شفقت فر ما یا کر تے مگر ٹانگوں سے بالکل معذور تھے ۔ استنجاء وغیرہ نماز کے لئے تو کوئی شاگرد کمر پر بٹھا کر لے جاتا ، لیکن قرب و جوار کے دیہات میں کبھی جانا ہو تا تو اس گھوڑی پر تشریف لے جایا کر تے تھے ) علی میاں لکھتے ہیں کہ حضرت نے فر ما یا کہ ایک کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر ایک پھٹا ہوا کمبل ملا تھا اس کو دھوکر وہاں بچھا دیا ، اس کو اتنی تہیں دیں کہ ا سکے سوراخ بند ہو گئے ۔ چودہ سال تک یہ بستر رہا یہی جائے نماز ، خانقاہ میں اس وقت ایک ہی لالٹین تھی وہ حضرت کے حجرہ میں رہتی ،دوسری لالٹین تھی ہی نہیں۔ رائے پور میں سانپوں اوربچھوؤں اور حشرات الارض کی کثرت ہے۔ فر ماتے تھے کہ میں نے ایک ٹوٹا ہوا بانس اٹھالیا ، وقتا ًفوقتاً اس کو بجا تا رہتا کہ کوئی کیڑا یا سانپ نہ آئے، الحمد للہ کہ سوائے ایک مر تبہ کے کہ ایک کنکھجورا آیا، کبھی کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ۔ اس کے بعد علی میاں نے حضرت نور اللہ مرقدہ کا لحاف والا قصہ لکھا کہ سر دی میںکوئی کپڑا سردی سے بچاؤ کا نہیں تھا ، جب تک مسجد کے کواڑ کھلے رہتے ہم حمام کے سامنے بیٹھے ہوئے آگ تانپتے رہتے۔
اس کو میں تفصیل سے آپ بیتی میں اپنے بچوں کی شا دی کے سلسلہ میں مفصل لکھواچکاہوں اور حضرت رائے پوری قدس سرہ کے بہت سے مجاہدات کے قصے آپ بیتی نمبر۱ میں بھی گزرچکے ہیں ، حضرت کا بار بار ارشاد تھا کہ طالب علموں کو اسٹرائک کے ہنگاموں کے ذمہ دار اہل مدارس ہیں ، دونوں وقت پکی پکائی مل جاتی ہے ،خالی بیٹھے لغویات ہی سوجھتی ہیں، ہمیں اپنی طالب علمی کے زمانہ میں اسباق سے فارغ ہو نے کے بعد روٹی پکانے کا فکر ہو تا ۔ جلدی جلدی کچی پکی کھاکر دوسرے سبق کا وقت آ جاتا تھا ، لغویات کے سو چنے کا وقت ہی نہیں آتا تھا ۔
اس کے بعد علی میاں لکھتے ہیں کہ ذکر میں شدت سے انہماک تھا، رات میں بہت کم سونے کی نوبت آتی ، فر ماتے تھے کہ نز لہ کے زور کی وجہ سے ایک رومال رکھ لیتا اورذکر شروع کر تا ، رطوبت کی وجہ سے وہ تر ہو جاتا۔ (سوانح حضرت رائے پوری ص۶۴)
ایک دفعہ حضرت مولانا عبد القادر صاحب نور اللہ مرقدہ حضرت تھانوی کے یہاں حاضرے ہوئے تو حضرت حکیم الامت نے فر مایا کہ میںتو رائے پور حضرت رائے پوری نو راللہ مرقدہ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں آپ مجھے یادنہیں ـ ، حضرت رائے پوری نے عرض کیا حضرت میں آپ کو کیا یاد رہتا ، میری وہاں کوئی حیثیت اور امتیازنہیں تھا ،شاید آپ کو یاد ہو کہ حضرت کی خدمت میں ایک خادم بار بار آتا تھا ، بدن پر ایک کمری ہو تی تھی اور تہبند باندھے ہوئے۔ فرمایا، ہاں کچھ یاد تو آتا ہے، عر ض کیا کہ میں وہی ہوں۔ (سوانح حضرت رائے پوری صفحہ ۶۹)
(ماخوذازآپ بیتی حضرت شیخ)
 
Top