لوٹ آ اپنے رَب کی طرف! وہ تجھ سے بہت محبت کرتا ہے

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
سردیوں کی رات، فضاء میں ہر طرف دھند سی چھائی ہوئی، ہلکی ہلکی سی ہوا کے بگولے بھی گزر رہےاور جسم میں سرایت کرتے جا رہے تھے۔ کمرے میں روشنی کے پاس بیٹھا ایک ضروری کام میں مگن کہ اچانک آنکھو ں کو ہیبت ناک سیاہ اندھیرا محسوس ہوااَور ہر طرف خوف ناک سناٹا چھا گیا۔ روشنی ایسے غائب ہوئی جیسے کبھی تھی ہی نہیں، ایسی تلخ تاریکی میں ایک انسان کا گھبرا جانا بالکل عیاں ہے۔ اگلے ہی لمحے ذہن چونکا کہ اعلان تو کیا گیا تھا کہ یہ سہولت ایک مقرر وقت کے لیے چھین لی جائے گی، مگر کب؟ یہ وقت نہ بتایا گیا تھا۔کوئی ضروری کام ادھورا رَہ جائے تو کتنی کلفت ہوتی ہے، سب جانتے ہیں۔ مگر کامیابی اسی کے قدم چومتی ہے جو ثابت قدم ہو اور متحمل مزاج رکھتا ہو اور خطرات سے گھبرانا بزدلی جانتا ہو۔
اللہ تعالیٰ اپنے محبوبین و عاشقین کی برکت سے ان سے تعلق رکھنے والوں پر بھی اپنا خاص فضل و کرم فرماتا ہے، کچھ ایسا مظہر یہاں بھی دیکھنے میں آیا ، وہ کیسے؟ قلب میں یہ بات آئی کہ دیکھ اے نفس! موت بھی ایسے ہی آئے گی کہ ہر کارِ دُنیا کا ادھورا چھوڑ کر جانا پڑے گا۔ موت کا آنا برحق ہے ، خالقِ کائنات نے اس کا اعلان اپنے خاص بندوں جن کو ہم پیغمبر کہتے ہیں کے ذریعہ ہم تک پہنچا دیا ہے کہ تم کو یہ سب چھوڑنا پڑے گا، ہر چیز کو فنائیت ہے کچھ بھی باقی رہنے والا نہیں، صرف میری ذات ہی باقی ہے۔ ہاں! جو مجھ کو راضی کر لیتا ہے تو میں اُس کو بھی راضی کر دیتا ہوں، ورنہ کفِ افسوس کے سوا کچھ نہیں ملتا۔دُنیا آخرت کی کھیتی ہے، جو بوؤ گے وہی کاٹو گے۔ موت ضرور آئے گی مگر کب؟ اس کا وقت نہیں دیا تاکہ تم غفلت سے بچے رہو اور ہر دم اس فکر میں رہو کہ۔۔۔۔۔۔۔ع
ناجانے بُلا لے پیا کس گھڑی​
دیکھ اے نفس! وہی رَبّا تو تجھے اتنی پُر لطف زندگی دے رہا ہے اور تو اسی کی نافرمانی کیے جا رہا ہے، کیوں؟تو مسلسل بے شرمی کا لبادہ اوڑھے نافرمانی کیے جا رہا ہے اور اپنے مالکِ حقیقی سے دُور ہوتا جا رہا ہے، کبھی کوئی اپنے اصل سے دُور ہو کر بھی اطمینان میں رہا ہے؟ایک پردیسی کا قالب ضرور پردیس میں رہتا ہے مگر قلب اُس کا بھی اپنے دیس میں ہی بستا ہے، اور تیرا قلب و قالب دونوں ہی احسان فراموشی کی دولت سمیٹے مشغولِ بغاوت ہیں، کیوں؟ تو بھی جانتا ہے کہ سب چھوڑنا پڑے گا اور جواب دہی بھی ہو گی، کیا اس وقت کی شرمندگی تجھے خوابِ غفلت سے جگانے کے لیے کافی نہیں؟۔۔۔۔۔۔۔
ظالم ابھی ہے فرصتِ توبہ نہ دیر کر
وہ ابھی گِرا نہیں جو گِرا پھر سنبھل گیا​
لوٹ آ اپنے رَب کی طرف! وہ تجھ سے بہت محبت کرتا ہے، تو جس حال میں بھی ہے لوٹ آ۔ دُنیائے بے ثبات میں تو واپس لوٹنے پر لعن طعن سننے کو ملا کرتی ہے، مگر قربان جا اپنے اللہ پر کہ وہ کبھی تجھے محسوس بھی نہ ہونے دے گا کہ تو مجرم ہے۔ تو اپنے مالک کو ویسا ہی پائے گا جیسا محبوبِ خدا ﷺ نے ہمیں بتلایا ہے۔۔۔۔۔۔۔
آرزوئیں خون ہوں یا حسرتیں پامال ہوں
اب تو اس دِل کو ترے قابل بنانا ہے مجھے​
‘‘ الست بربکم ’’ کی ندا تجھے کیوں نہیں جھنجھوڑ رہی؟جامِ محبت ذاتِ حق تعالیٰ سے مخمو ر ہوئی نہ جانے کتنی ارواح مشغولِ حق ہیں، آہ! کیا اُن کی بالطف حیات بھی تجھے واپس لوٹنے پر مجبور نہیں کرتی؟۔۔۔۔۔۔۔ لوٹ آ جلد اپنے رَبّ کی طرف! دیکھ! دُنیا میں تو باغی اور سخت نافرمان اعلانِ معافی سے محروم رہتے ہیں، مگر قربان جا اپنے کریم مولیٰ پر کہ اگر تو اپنی غفلتوں، خطاؤں اور بغاوت پر ایک ہی اشکِ ندامت بہا دے تو فوراً مغضوب سے محبوب بن جائے گا، مقہورین سے مقبولین کی جماعت میں داخلہ نصیب ہو جائے گا، اور بندگانِ خدا کی نظر میں بھی مجرم سے مکرم بن جائے گا کیونکہ قلوبِ بندگان اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔تیری آہ و فغاں سے تیرے رَبّ کو تجھ پر بہت پیار آئےگا کہ دیکھو! میرا بندہ میرے لیے ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہا ہے اور اپنے کیے پرشرمندہ ہو کر مجھے منانے میں لگا ہوا ہے۔ تیرے اس اعترافِ جرم و طلبِ مغفرت سے بحرِ رحمتِ الٰہیہ میں جوش آ جائے گا اور کریم مولیٰ جماعت ملائکہ سے کہیں گے کہ جاؤ! میرے اس بندے کے قلب کی ڈھارس بندھاؤ کہ بس کر تیرے رونے سے عرشِ اعظم بھی حرکت میں آ گیا ہے، تو خوش ہو جا، تجھ سے تیرا رَبّ راضی ہو گیا ہے۔ سبحان اللہ، الحمدللہ، اللہ اکبر
اُمید ہے دردِ دِل کا یہ آبِ رحمت میدانِ قلب کی آبیاری کر کے ویرانی کو رشکِ گلستان بنائے گا جہاں گلِ عشقِ مولیٰ کی خوشبو مہکے گی اور سارے جہان کو مہکائے گی۔یہ سب باتیں تجھ کو معلوم ہیں مگر ان کو معمول بنا اور یہ بھی یا د رکھ کہ۔۔۔۔۔۔۔
نہ کتابوں سے، نہ وعظوں سے، نہ زر سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا​
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
سردیوں کی رات، فضاء میں ہر طرف دھند سی چھائی ہوئی، ہلکی ہلکی سی ہوا کے بگولے بھی گزر رہےاور جسم میں سرایت کرتے جا رہے تھے۔ کمرے میں روشنی کے پاس بیٹھا ایک ضروری کام میں مگن کہ اچانک آنکھو ں کو ہیبت ناک سیاہ اندھیرا محسوس ہوااَور ہر طرف خوف ناک سناٹا چھا گیا۔ روشنی ایسے غائب ہوئی جیسے کبھی تھی ہی نہیں، ایسی تلخ تاریکی میں ایک انسان کا گھبرا جانا بالکل عیاں ہے۔ اگلے ہی لمحے ذہن چونکا کہ اعلان تو کیا گیا تھا کہ یہ سہولت ایک مقرر وقت کے لیے چھین لی جائے گی، مگر کب؟ یہ وقت نہ بتایا گیا تھا۔کوئی ضروری کام ادھورا رَہ جائے تو کتنی کلفت ہوتی ہے، سب جانتے ہیں۔ مگر کامیابی اسی کے قدم چومتی ہے جو ثابت قدم ہو اور متحمل مزاج رکھتا ہو اور خطرات سے گھبرانا بزدلی جانتا ہو۔
ارمغان صاحب!آپ کاطرزتحریربتارہاہے کہ آپ شریعت اورطریقت کے علاوہ قرطاس وسلم کے بھی شہ سواربلکہ شناورہیں۔اللہ کرے زورقلم اورزیادہ
 

سیفی خان

وفقہ اللہ
رکن
نہ کتابوں سے، نہ وعظوں سے، نہ زر سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا

جزاک اللہ خیرا
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
سبحان اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا زبردست تحریر ہے کیا لفاظی ہے جیسے علم کے سمندر میں غوطے لگ رہے ہیں

کیا ہی خوب فرمایا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

نہ کتابوں سے، نہ وعظوں سے، نہ زر سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا

اللہ آپ کو جزائے خیر دے آمین
 
Top