کفن

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
جھونپڑے کے دروازے پر باپ اور بیٹا دونوں ایک بجھے ہوئے الاؤ کے سامنے خاموش بیٹھے ہوئے تھے ۔ اور اندر بیٹے کی نوجوان بیوی بدھیا دردِ زہ سے پچھاڑیں کھا رہی تھی ۔ اور رہ رہ کر اس کے منہ سے ایسی دل خراش صدا نکلتی تھی کہ دونوں کلیجہ تھام لیتے تھے _ جاڑوں کی رات تھی ، فضا سنّاٹے میں غرق۔ سارا گاؤں تاریکی میں جذب ہو گیا تھا ۔
گھیسو نے کہا ، " معلوم ہوتا ہے بچیگی نہیں ۔ سارا دن تڑپتے ہو گیا ۔ جا ، دیکھ تو آ۔"
مادھو دردناک لہجے میں بولا ، " مرنا ہی ہے تو جلدی مر کیوں نہیں جاتی ۔ دیکھ کر کیا کروں "
" تو بڑا بیدرد ہے بے ۔ سال بھر جس کے ساتھ جندگانی کا سکھ بھوگا اسی کے ساتھ اتنی بیوپھائی ۔"
" تو مجھ سے تو اس کا تڑپنا اور ہاتھ پاؤں پٹکنا نہیں دیکھا جاتا ۔"
چماروں کا کنبہ تھا اور سارے گاؤں میں بدنام ۔ گھیسو اک دن کام کرتا تو تین دن آرام ۔ مادھو اتنا کام چور تھا کہ گھنٹہ بھر کام کرتا تو گھنٹے بھر چلم پیتا ۔ اسلئے انہیں کوئی رکھتا ہی نہ تھا ۔ گھر میں مٹّھی بھر اناج بھی موجود ہو تو ان کے لیے کام کرنے کی قسم تھی ۔ جب دو ایک فاقے ہو جاتے تو گھیسو درختوں پر چڑھ کر لکڑیاں توڑ لاتا اور مادھو بازار سے بیچ لاتا ۔ اور جب تک وہ پیسے رہتے دونوں ادھر ادھر مارے مارے پھرتے ۔ جب فاقے کی نوبت آ جاتی تو پھر لکڑیاں توڑتے ، یا کوئی مزدوری تلاش کرتے ۔ گاؤں میں کام کی کمی نہ تھی _ کاشتکاروں کا گاؤں تھا ۔ محنتی آدمی کے لئے پچاس کام تھے _ مگر ان دونوں کو لوگ اسی وقت بلاتے جب دو آدمیوں سے ایک کا کام پا کر بھی قناعت کر لینے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہوتا ۔
کاش دونوں سادھو ہوتے تو انہیں قناعت اور توکّل کے لئے ضبطِ نفس کی مطلق ضرورت نہ ہوتی ۔ یہ ان کی خلقی صفت تھی ۔ عجیب زندگی تھی ان کی ۔ گھر میں مٹّی کے دو چار برتنوں کے سوا کوئی اثاثہ نہیں ۔ پھٹے چیتھڑوں سے اپنی عریانی ڈھانکے ہوئے ، دنیا کی فکروں سے آزاد ۔ قرض سے لدے ہوئے ۔ گالیاں بھی کھاتے ، مار بھی کھاتے ، مگر کوئی غم نہیں ۔ مسکین اتنے کہ وصولی کی مطلق امّید نہ ہونے پر بھی لوگ انہیں کچھ نہ کچھ قرض دے دیتے تھے ۔ مٹر یا آلو کی فصل میں کھیتوں سے مٹر یا آلو اکھاڑ لاتے اور بھون بھون کر کھا لیتے ۔ یا دس پانچ اوکھ توڑ لاتے اور رات کو چوستے ۔ گھیسو نے اسی زاہدانہ انداز سے ساٹھ سال کی عمر کاٹ دی ۔ اور مادھو بھی سعادتمند بیٹے کی طرح باپ کے نقشِ قدم پر چل رہا تھا ۔ بلکہ اس کا نام اور بھی روشن کر رہا تھا۔ اس وقت بھی دونوں الاؤ کے سامنے بیٹھے آلو بھون رہے تھے جو کسی کے کھیت سے کھود لائے تھے ۔ گھیسو کی بیوی کا تو مدّت ہوئی انتقال ہو گیا تھا ۔ مادھو کی شادی پچھلے سال ہوئی تھی ۔ جب سے یہ عورت آئی تھی اس نے اس خاندان میں تمدّن کی بنیاد ڈالی تھی ۔ پسائی کر کے ، گھاس چھیل کر ، وہ سیر بھر آٹے کا انتظام کر لیتی تھی ۔ اور ان دونوں بے غیرتوں کا دوزخ بھرتی رہتی تھی ۔ جب سے وہ آئی یہ دونوں اور بھی آرام طلب اور آلسی ہو گئے تھے۔ بلکہ کچھ اکڑنے بھی لگے تھے ۔ کوئی کام کرنے کو بلاتا تو بے نیازی کی شان سے دوگنی مزدوری مانگتے ۔ وہی عورت آج صبح سے دردِ زہ سے مر رہی تھی ۔ اور یہ دونوں شاید اسی انتظار میں تھے کہ وہ مر جائے تو آرام سے سوئیں ۔
گھیسو نے آلو نکال کر چھیلتے ہوئے کہا ، " جا کر دیکھ تو کیا حالت ہے اس کی ۔ چڑیل کا پھساد ہوگا اور کیا ۔ یہاں تو اوجھا بھی ایک روپیہ مانگتا ہے ۔کس کے گھر سے آئے ۔"

مادھو کو اندیشہ تھا کہ وہ کوٹھری میں گیا تو گھیسو آلوؤں کا بڑا حصّہ صاف کر دیگا ۔ بولا ، " مجھے وہاں ڈر لگتا ہے ۔،،

" ڈر کس بات کا ہے ۔ میں تو یہاں ہوں ہی ۔،،

" تو تمہیں جا کر دیکھو نہ ۔"

" میری عورت جب مری تھی تو میں تین دن اس کے پاس سے ہلا بھی نہیں _ اور پھر مجھ سے لجائیگی کہ نہیں ۔ کبھی اس کا منہ نہیں دیکھا ، آج اس کا اگھڑا ہوا بدن دیکھوں ! اسے تن کی سدھ بھی تو نہ ہوگی _ مجھے دیکھ لیگی تو کھل کر ہاتھ پاؤں بھی نہ پٹک سکےگی _"

" میں سوچتا ہوں کوئی بال بچّہ ہو گیا تو کیا ہوگا _ سونٹھ ، گڑ ، تیل ، کچھ بھی تو نہیں ہے گھر میں ۔،،

" سب کچھ آ جائیگا ۔ بھگوان بچّہ دیں تو ۔ جو لوگ ابھی ایک پیسہ نہیں دے رہے ہیں وہی تب بلا کر دینگے ۔ میرے نو لڑکے ہوئے ۔ گھر میں کبھی کچھ نہ تھا۔ مگر اسی طرح ہر بار کام چل گیا۔"
جس سماج میں رات دن محنت کرنے والوں کی حالت ان کی حالت سے کچھ بہت اچّھی نہ تھی ، اور کسانوں کے مقابلے میں وہ لوگ جو کسانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا جانتے تھے ، کہیں زیادہ فارغ البال تھے ، وہاں اس قسم کی ذہنیت کا پیدا ہو جانا کوئی تعجّب کی بات نہ تھی _ ہم تو کہینگے گھیسو کسانوں کے مقابلے میں زیادہ باریک بین تھا _ اور کسانوں کی تہی دماغ جمعیت میں شامل ہونے کے بدلے شاطروں کی فتنہ پرداز جماعت میں شامل ہو گیا تھا _ ہاں اس میں یہ صلاحیت نہ تھی کہ شاطروں کے آئین و آداب کی پابندی بھی کرتا _ اسلئے جہاں اس کی جماعت کے اور لوگ گاؤں کے سرغنہ اور مکھیا بنے ہوئے تھے ، اس پر سارا گاؤں انگشت نمائی کرتا تھا _ پھر بھی اسے یہ تسکین تو تھی ہی کہ اگر وہ خستہ حال ہے تو کم سے کم اسے کسانوں کی سی جگر توڑ محنت تو نہیں کرنی پڑتی _ اور اس کی سادگی اور بے زبانی سے دوسرے بے جا فائدہ تو نہیں اٹھاتے _
دونوں آلو نکال نکال کر جلتے جلتے کھانے لگے ۔ کل سے کچھ نہیں کھایا تھا ۔ اتنا صبر نہ تھا کہ انہیں ٹھنڈا ہو جانے دیں ۔ کئی بار دونوں کی زبانیں جل گئیں ۔ چھل جانے پر آلو کا بیرونی حصّہ تو بہت زیادہ گرم نہ معلوم ہوتا ۔ لیکن دانتوں کے تلے پڑتے ہی اندر کا حصّہ زبان اور حلق اور تالو کو جلا دیتا تھا ۔ اور اس انگارے کو منہ میں رکھنے سے زیادہ خیریت اسی میں تھی کہ وہ اندر پہنچ جائے _ وہاں اسے ٹھنڈا کرنے کے لئے کافی سامان تھے ۔ اسلئے دونوں جلد جلد نگل جاتے ۔ حالانکہ اس کوشش میں ان کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے۔
گھیسو کو اس وقت ٹھاکر کی برات یاد آئی جس میں بیس سال پہلے وہ گیا تھا ۔ اس دعوت میں اسے جو سیری نصیب ہوئی تھی وہ اس کی زندگی میں ایک یادگار واقعہ تھی ۔ اور آج بھی اس کی یاد تازہ تھی ۔ بولا ، " وہ بھوج نہیں بھولتا ۔ تب سے پھر اس طرح کا کھانا اور بھر پیٹ نہیں ملا ۔ لڑکی والوں نے سب کو پوڑیاں کھلائی تھیں سب کو ۔ چھوٹے بڑے ، سب نے پوڑیاں کھائیں ، اور اصلی گھی کی ۔ چٹنی ، رائتہ ، تین طرح کے سوکھے ساگ ۔ ایک رسیدار ترکاری ، دہی ، چٹنی ، مٹھائی ۔ اب کیا بتاؤں کہ اس بھوج میں کتنا سواد ملا ۔ کوئی روک نہیں تھی ۔ جو چیز چاہو مانگو ۔ اور جتنا چاہو کھاؤ ۔ لوگوں نے ایسا کھایا ، ایسا کھایا ، کہ کسی سے پانی نہ پیا گیا ۔ مگر پروسنے ولے ہیں کہ سامنے گرم گرم ، گول گول ، مہکتی ہوئی کچوریاں ڈالے دیتے ہیں ۔ منع کرتے ہیں کہ نہیں چاہئے _ پتّل کو ہاتھ سے روکے ہوئے ہیں ۔ مگر وہ ہیں کہ دئے جاتے ہیں ۔ اور جب سب نے منہ دھو لیا تو ایک ایک بیڑا پان بھی ملا۔ مگر مجھے پان لینے کی کہاں سدھ تھی ۔ کھڑا نہ ہوا جاتا تھا۔ چٹ پٹ جا کر اپنے کمبل پر لیٹ گیا ۔ ایسا دریا دل تھا وہ ٹھاکر ۔"
 
Top