علم

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
مولانا شاہ عبد العزیز صاحب ؒکے سامنے سوال آیا کہ
’’ تحصیل علم منطق وہ انگریزی مثلاً اشتغال آں دارد ،برجواز وعدم آں چہ حکم است ‘‘آپ نے اس کا جواب اس اصول کی روشنی میں دیا کہ لِلْاٰلَۃِ حُکْمُ ذِی لْاٰلَۃِ یعنی علم منطق کی حیثیت ایک اعلی کی ہے اور جو چیز اعلی کی حیثیت رکھتی ہو اس کی حلت وحرمت کا حکم اس کو استعمال کرنے ولے کے اعتبار سے ہوتاہے چنانچہ آپ نے لکھا کہ علم منطق کو اگر دین ک تقویت کے لئے استعمال کیاجائے تو عین جائز ہے اور دین کے خلاف استعمال کیاجائے تو حرام ہے اسی طرح انگریزی زبان سیکھنے کے بارے میں آپ نے لکھا
تعلم انگریزی یعنی آئین خط وکتابت ولغت واصطلاح اینہارا دانستن باکے ندارد اگر بہ بنیت مباح باشد زیراکہ درحدیث دارد است کہ زید بن ثابت بحکم آں حضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم روش خط وکتابت یہودو نصریٰ ولغت آنہارا آموختہ بود برائے ایں غرض کہ اگر برائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطے بایں لغت درسم خط برسد جواب آں تواند نوشت وہ اگر بمجرد خوش آمد آنہاوہ واختلاط بانہاتعلیم ایں لغت نماید وہ بایں وسیلہ پیش آنہا تقرب جوید پس البتہ حرمت وکراہت دارد (مجموعہ فتویٰ عزیزی جلد دوم صفحۃ ۱۹۵ )
ترجمہ:انگریزی تعلیم یعنی اس کے لکھنے کا طریقہ جاننا اس کی زبان اور اصطلاح کو سمجھنا کوئی حرج نہیں رکھتا بشرطیکہ صرف مباح کی نیت سے ایسا کرے کیوںکہ حدیث میں آیا ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق زید بن ثابت نے یہودونصری ٰ کا خط وکتابت کا طریقہ اور ان کی زبان سیکھی تھی تاکہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس زبان اور رسم الخط میں کوئی مراسلہ آئے تو اس کا جواب لکھ سکیں اور اگر صر ف ان کو خوش کرنے کی غرض سے اور ان سے اختلاط رکھنے کیلئے اس زبان کو سیکھے اور اس ذریعہ سے ان کے یہاں تقرب حاصل کرنا چاہیں تو البتہ اس میں حرمت وکراہت ہے ۔
(ماخوذ)
 
Top