دعوت فکروعمل

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
ہرتہذیب اپنے مخصوص تصورات کو اپنی زبان میں بھردیتی ہے اور طویل مدت کے عمل سے یہ تصور ات اس طرح ا س میں رچ بس جاتے ہیں کہ الگ سے انہیں دیکھنا مشکل ہوجاتاہے اور آدمی بے سوچے سمجھے ان کو اپنے ذہن میں اتارتا چلاجاتاہے ۔آدمی شعوری طور پر واقف نہیں ہوتاکہ اس نے فلاں لفظ ترکیب کے ساتھ فلاں عقیدے کوبھی اپنے اندر نگل لیاہے مگر ذہن کی زمین بہر حال نئے تصورات کے لئے ہموار ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ وہ نئی زمین بن جاتی ہے اور اس کے باوجود آدمی اس غلط فہمی میں مبتلا رہتاہے کہ اس کا ذہن وہی ہے جوپہلے تھا ۔
تہذیب کا یہ طرز فکر جو الفاظ اور ترکیبوں میں ظاہرہوتاہے وہی زیادہ واضح شکل میں خود علوم کی مختلف شاخوں میں نمایا ہوتاہے موجودہ زمانہ کا ہروہ علم اس کی مثال ہے جو بے خداتہذیب کے زیر سایہ پرورش پاکر نکلاہے ایسے تمام علوم اپنے آغاز سے لیکر انجام تک اس طرح سفر کرتے ہیں کہ کہیں ادنیٰ شائبہ بھی اس کا نہیں جھلکتا کہ یہاں کوئی خداہے یا کوئی دوسری زندگی ہے یا کوئی علم بذریعہ الہام بھی انسان کے اوپر القاء ہواہے اس قسم کے تمام حقائق کو موجودہ علوم اس طرح نظر انداز کرتے ہوئے گزرجاتے ہیں جیسے کوئی میل ٹرین اپنی تیزی میں چھوٹے چھوٹے اسٹیشنوں کو چھوڑتی چلی جارہی ہو گویاکہ اسٹیشن اسٹیشن نہیں ہے بلکہ محض فرضی گھروندے ہیں اور ٹرین کو انہیں تسلیم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔
 
Top