عاشق کاجنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفرحسین ناظم مطاہرعلوم سہارنپورکے جنازہ کاآنکھوں دیکھاحال
عاشق کاجنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
(اپنے ایک طویل مضمون بلکہ زیرترتیب کتاب سے ماخوذ)
جنازہ رات نو بجے کے قریب قبرستان کے لئے روانہ ہو ا لیکن ہجوم اس قدر تھا کہ کسی کو اپنی خبر تک نہ تھی جنازہ کو کند ھا دینے کے لئے بڑی بڑی بَلِّیَاں چارپائی کے ساتھ باندھی گئی تھیں،لیکن اژدحام اس قدر تھا کہ ہزاروں افرادکے جوتے چپل چادریں موبائل سیٹ ،گھڑیاں ،رومال وغیرہ ضائع ہوگئے ۔
حضرت فقیہ الاسلام ؒکے جنازہ میں ہجوم کی کثرت کو دیکھ کر تھوڑی دیر کیلئے میرا ذہن تاریخ میں گم ہوکر رہ گیا ۔
حضرت امام طاؤس ؒ کے متعلق تاریخ میں مرقوم ہے کہ جب آپ کا جنازہ اٹھایا گیا تو لوگوں کا ہجوم اس قدر تھا کہ جنازہ کسی طرح نہ نکل سکا مجبوراً حاکم وقت نے فوج بھیجی تب اس کی مد د سے جنازہ نکلا ۔ حضرت عبد اللہ ابن حسن ؒ بھی اس جنازہ کو اٹھائے ہوئے تھے لوگوں کی کشمکش سے ان کا لباس بھی پارہ پارہ ہوگیا تھا ۔
حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کے جناز ہ میں تقریباً پچیس لاکھ افراد نے شرکت فرمائی تھی ۔
حضرت علامہ شامی ؒ کی نماز جنازہ میںبھی خلقت کااس قدر ہجوم تھا کہ فوج طلب کرنی پڑی تھی۔
حضرت امام الحرمین کی وفات پر نیشاپورکے تمام بازار ماتم کدہ بن گئے اورجس منبر پر موصوف خطبہ دیا کرتے تھے عقیدت مندوں نے فرط عقیدت میں اس منبر کو بھی توڑدیا تھا ۔
حضرت امام ابو یعلیٰ موصلیؒ کا جب انتقال ہوا تو شہر کے اکثر بازار بند کردئے گئے ۔
حضرت امام ابو جعفر طبری ؒ کی قبر پر کئی مہینے تک شب وروز نماز جنازہ پڑھی گئی ۔
حضرت امام ابودرداء ؒ کی جنازہ کی نماز۸۰ دفعہ ادا کی گئی اورنمازیو ں کا تخمینہ تین لا کھ تک لگایا گیا ۔
حضرت عباد بن عوام ؒ کہتے ہیں جب امام منصورتابعی کاجنازہ اٹھایا گیا تو میں نے دیکھا کہ مسلمانوں کے علاوہ یہود اورنصاریٰ بھی جنازہ کے ساتھ ساتھ تھے ۔
حضرت فقیہ الاسلامؒ کے جنازہ میں بھیڑکا وہی حال تھا جو اسلاف کے جنازوں میں ہوا ۔
جنازہ خراماںخراماںاورکشاں کشاںرواں دواںتھا ہر شخص کندھا لگانے کے لئے بے چین تھا اس کشمکش میں کئی افرادتو گرپڑے اوربڑی مشکل سے دوبارہ کھڑے ہوسکے ،خداجانے رضاکاروںکی فوج کہاں سے پہنچ جاتی تھی جو بیہوش افراد کومجمع سے کنارے پہنچاتی ،گری پڑی اشیاء کو سمیٹ کر دارالطلبہ قدیم کے سامنے چوک پر جمع کرتے جاتے تھے ۔
قبرستان حاجی شاہ کمال الدینؒ کے راستے میں غیر مسلم حضرات کے محلے ہیں ان کو بھی داد دینی پڑے گی جنہوں نے سخت سردی کے باوجود رات کے سناٹے میں اپنے آرام وراحت کو چھوڑکرپانی پلانے کا جگہ جگہ معقول نظم کررکھا تھا ان کے گھر کی عورتیںاوربچے پانی لاتے رہے اورمرد حضرات لوگوںکو پلاتے رہے کیونکہ بھیڑکی کثرت اورہماہمی میں متعددافرادکے کلیجے خشک ہوگئے تھے ،احقر نے سنا ہے کہ حضرت فقیہ الاسلام ؒ کے مرشد گرامی حضرت حجۃ الاسلام ؒکی وفات پر بھی برادران وطن نے پانی پلانے کا ایسا ہی نظم کررکھا تھا ۔
مدرسہ سے قبرستان کا فاصلہ بمشکل دس منٹ کا ہے لیکن کثرت اژدحام کی وجہ سے تقریباً تین گھنٹے میں جنازہ قبرستان حاجی شاہ کمال الدین پہنچاجہاں پوراگراؤنڈگھنٹوںپہلے بھر چکا تھا اورجب جنازہ میدان میں پہنچاتو تل رکھنے کی جگہ نہیں تھی ۔ٹھیک اسی وقت ایک پولس افسروائرلیس سے اپنے ہیڈکوارٹرکو اطلاع دے رہا تھا کہ مجمع ڈھائی لاکھ سے اوپر پہنچ رہا ہے اورلوگوںکا اب بھی تانتا لگا ہوا ہے ‘‘۔
احقر نے متعدد حضرات کو حضرت والاکی قبر مبارک کی مٹی اپنی جیبوںاورتھیلوںمیں بھرتے دیکھا جن کا خیال تھا کہ مجمع کی کثرت کا جب یہ عالم ہے تو تدفین کے وقت مٹی کا دستیاب ہونا ناممکن ہوگا اوربھیڑ کم پڑنے پر اس مٹی سے تدفین میں شرکت کرسکوں گا ۔
حضرتؒ کی ایک اہم کرامت
یہا ں حضرت کی ایک اہم کرامت کا ذکر مناسب ہے جس سے نہ صرف حضرت فقیہ الاسلام ؒکی کرامت کا ظہور ہو ا بلکہ ڈیڑھ سو سالہ قدیم دینی ادارہ مظاہرعلوم کے مستقبل کا مدار ہے ،جب صفیں درست کی گئیں اورنماز جنازہ کا اعلان ہونے لگا تو تقریباً تین لا کھ کے مجمع نے مائک سے ایک خوش کن ،مسرت افزاء اعلان سناکہ
’’حضرت فقیہ الاسلام ؒ کی تدفین سے پہلے آپ ؒ کی مسند عالی وجانشینی کے لئے حضرت مولانامحمد سعید ی صاحب کا انتخاب مجمع کی طرف سے کیا جارہا ہے ‘‘۔
پورے مجمع نے ہاتھ اٹھا کر اس انتخاب لاجواب کی تعریف وتحسین کی اورمائک سے پھر آواز بلند ہوئی ۔
’’ہم لوگ اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم مظاہر علوم (وقف)کے لئے ماضی کی طرح ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں‘‘(مجمع نے پھر ہاتھ اٹھا کر پرُزور تائید کی )
نیرجاتے جاتے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل بھی ہوگیا کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین سے پہلے ہی اتفاق رائے سے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انتخاب عمل میںآگیا تھا ۔
دفن ہم نے خاک میں تاباںستارہ کرد یا
علم وفضل اورتقویٰ وتقدس کے اس گنجینہ کو رات تقریباً ڈیڑھ بجے ’’گنجِ مظاہر علوم ‘‘کے اس حصہ میں دفن کیا گیا جہاں فخرالاماثل حضرت مولانامحمد مظہر نانوتویؒ (م ۱۲۹۷ھ )حضرت مولاناپیرمحمد ؒ تلمیذ حضرت مولانامحمد مظہر نانوتویؒ، حضر ت مولاناعنایت الٰہی ؒ(م ۱۳۴۷ھ)سید المتواضعین حضرت مولانامنظوراحمد خان سہارنپور(م ۱۳۸۸ھ ) حضرت مولانا محمدیحییٰ کاندھلوی (م ۱۳۳۴ھ )شیخ الاسلام حضرت مولاناسید عبد اللطیف پورقاضویؒ (م ۱۳۷۳ھ ) حضرت حجۃ الاسلام حضرت مولانامحمد اسعد اللہؒ (م ۱۳۹۹ھ )مفتی ٔ اعظم حضرت مولانامفتی سعید احمد اجراڑویؒ (م ۱۳۷۷ھ )،امام النحو حضرت علامہ صدیق احمد صاحب کشمیریؒ (م ۱۳۸۹ھ ) سید القراء حضرت مولانا قاری سید سلیمان دیو بندیؒ(م ۱۳۸۵ھ ) حضرت مولانا علامہ محمد یامین صاحب سہا رنپوریؒ (م۱۹۹۴ھ ) حضرت مولانا حافظ فضل الرحمن کلیانویؒحضرت مولانا محمد ظفر نیرانویؒ حضرت مولانا علیم اللہ مظاہریؒ (م ۱۴۰۶ھ ) حضرت مولانا محمد اللہ صاحب مظاہریؒ، حضرت مولانا محمد عشیق صاحب مولانا عبدالمالک صاحب ؒجیسی شخصیات کے علاوہ حضرت فقیہ الاسلامؒکی والدہ ماجدہ ، آپ کی رفیقۂ حیات،اور خادم مولانا محمد تحسین صاحب آسودۂ خواب ہیں ۔ ؎
جی چاہتا ہے خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گرانمایہ کیا کئے
قبر مبارک میں اتارنے والوں میں جناب مولانا محمد سعیدی صاحب ،مولانا محمد یعقوب صاحب ،مولانا احمد سعید مظاہری،قاری شکیل احمد ،مولانا محمد ارشد میرٹھی،اور بھائی تاج محمد شامل تھے۔
زبان خلق کو نقَّارہ ٔ خدا سمجھو
حضرت فقیہ الاسلام ؒ تو ہمیشہ کے لئے پردہ فرماگئے لیکن اب بھی ایسا محسوس ہوتا ہے گویا آپ حیات ہیں ، کبھی محسوس ہوتا ہے کہ آپ مسند اہتمام پر جلوہ افروز ہیں ،کبھی خیال گزرتا ہے کہ دارالاہتمام میں حضرت چل رہے ہیں ،کبھی تصورہوتا ہے کہ دفتر کے صحن میںآپ ؒ گھوم پھررہے ہیں گویا ؎
وہ آئے بھی،گئے بھی نظر میں اب تک سمارہے ہیں
یہ چل رہے ہیں وہ پھررہے ہیں وہ آرہے ہیں یہ جارہے ہیں
مظاہر علوم کے مستقبل کیلئے عوام وخواص کی بے چینی اورحضرت ناظم صاحب ؒ کا ارشاد کہ ’’جو ہوگا انشاء اللہ بہترہوگا‘‘کے حقیقی معنی اب سمجھ میں آئے کہ آپ کس قدر مستقبل شناس تھے کہ جنازہ کی تدفین سے پہلے مظاہر علوم کے عہدۂ اہتمام کیلئے مو لانا محمد سعیدی صاحب کو تین لاکھ کے جم غفیر نے اتفاق رائے سے منتخب کرکے مظاہر علوم کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں ایک اہم مثال پیش کی ہے، اس کے ساتھ ہی مومنانہ فراست بھی ظاہر ہوئی جس کو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاتھا کہ اتقوامن فراسۃ المومن فانہٗ ینظربنوراللّٰہ ۔
مرحبا اے مفتیٔ کامل سراپا عز و شاں
مرحبا اے واعظ شیریں بیاں شیریں زبان
مرحبا صد مرحبا ابن سعید محترم
مرحبا اے اسعدؔ ناظم کے نائب نکتہ داں

نماز جنازہ
سخت سردی اورسرد ہواؤں کے باوجود مجمع پر وقار وسکینت کا ماحول طاری تھا ،نمازجنازہ کیلئے مولانامحمد سعید ی کا نام پکارا گیا اورمولانا موصوف نے نماز جنازہ پڑھائی ۔ ؎
کاروانِ علم و عرفاں کا ہے غمگیں ہر نفر
ہوگیا ہے ان سے گم افسوس میرِ کارواں
ہوگئی ہیں اُف مظاہر علوم کی صیدِ غم
راہیٔ جنت ہوا ہے آج اُن کا پاسباں
 
Last edited by a moderator:

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
جزاک اللہ احسن الجزا

کیسے اللہ والے لوگ تھے جن کا جنازہ بھی دھوم دھام سے نکلا دل سے دعائیں نکلتی ہیں اور زبان پر اللہ کا نام جاری ہو جاتا ہے

اللہ تعالٰی ہمیں بھی موت کی تیاری کرنے کی توفیق نصییب فرمائے اور خاتمہ بالایمان نصیب فرمائے آمین
 

بنت حوا

فعال رکن
وی آئی پی ممبر
اللہ تعالٰی ہمیں بھی موت کی تیاری کرنے کی توفیق نصییب فرمائے اور خاتمہ بالایمان نصیب فرمائے آمی
 

محمد یوسف

وفقہ اللہ
رکن
فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفرحسین ناظم مطاہرعلوم سہارنپور
حضرت کی زیارت مجھے سب سے 1999 میں ہوئی جب حضرت رحمۃ اللہ کا بنگلور سفر ہوا تھا اور میں حضرت کے خلیفہ مولانا مفتی شعیب اللہ خان صاحب جو میرے استاد ہیں ان کی طبیعت ناساز ہونے کہ وجہ سے میں اس سفر میں ساتھ تھا اسطرح تقریبا پانچ دن حضرت کے ساتھ رہنے کا موقع ہوا ؛ پھر اللہ نے دیوبند پڑھ نے کے زمانے میں موقعہ عطا فرمایا جب بھی سہارنپور جانا ہوتا بلکہ اکثر حضرت کی زیارت کے لئے ہیں جانا ہوتا تھا ،حضرت اکثر جمعہ سے پہلے مدرسہ تشریف لاتے تھے اور بارہ بجے تک رہتے تھے۔
ایک مرتبہ حضرت چائے منگوائی سب ملی میرے ساتھی کو نہیں ملی میں نے آدھی چائے ساتھی کو دیدی کچھ دیر بعد چائے آئی تو حضرت میرے ساتھی کو دی میں نے کہا کہ آپ نے جو چائے مجھے دی تھی میں نے آدھی ان کو دے دی تھی ،حضرت نے کہا "مولی صاحب ایسا نہیں کرتے آپ تو پڑھے ہو" پھر حضرت نے ایک مسئلہ بتا یا کہ فقہاء نے کہا ہے کہ مہمان میزبان کی دستر خوان سے اس کی اجازت کے بغیر ہڈیاں بھی کتے کو نہیں ڈال سکتا ۔
میرا اور میرے ساتھی (ذیشان) کام ہی یہی تھا کہ بس حضرت کے چہرے کو دیکھتے رہیں، اور ہم کئی مرتبہ کوشش کی جب حضرت کی نگاہ ہم پر پڑھے تو ہم بھی حضرت کو دیکھیں مگر ایسا تین سال میں کبھی نہیں ہوا حضرت جب بھی دیکھتے کہ ہماری نگا ہ فورا نیچے جھک جاتی تھی ، حضرت کے دانت نہیں تھےجسکی وجہ سے گال اندر کی طرف تھے اور چہرے پر چھوٹے چھوٹے داغ جیسے تھے ، اس کے باوجودچہرہ اتنا نورانی تھا کہ ہم دو دو گھنٹے حضرت کو دیکھنے کے بعد بھی سیرابی نہیں ہوتی تھی ،
ایک مرتبہ حضرت مفتی شعیب اللہ خان صاحب سہارنپور آئے تو میں بھی ساتھ تھا دودن مدرسہ میں قیام تھا کھانا کے لئے حضرت سب کو گھر پر ہی کھلاتے تھے ہم چار آدمی تھے اس وقت حضرت کا گھر دیکھا کہ بہت سادہ اور بہت چھوٹا تھا۔میں نے ان جیسی سادہ گی کسی میں نہیں دیکھی کٹی ہوئی لنگی کا کپڑا ہی دستی کے طور استعمال بھی کرتے تھے ،حضرت کو رعشہ تھا جسکی وجہ سے کم گفتگو کرتے تھے ۔
ہائے وہ دن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چمن کے تخت پر جس دن شہ گل کا تجمل تھا
ہزاروں بلبلوں کی فوج تھی اک شور تھا غل تھا
خزاں کے دن جو دیکھا کچھ نہ تھا جز خار گلشن میں
بتاتا باغباں رو رو یہاں غنچہ یہاں گل تھا
 
Top