میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ملا علی قاری کے بیس دلائل

نورانی

وفقہ اللہ
رکن
میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ملا علی قاری کے بیس دلائل

ملا علی قاری کے بیس دلائل
۱۔ ابولہب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خبر دینے پر ثوبیہ لونڈی کو آزاد کیا ہلاکت کے بعد اس کو کسی نے خواب میں دیکھا پوچھا کس حال میں ہو ۔ جواب دیا کہ ویسے تو سخت عذاب میں ہوں لیکن جس انگلی کا اشارہ کر کے میں نے لونڈی کو آزاد کیا تھا ہر سوموار کو اکے منہ میں ڈالنے سے کچھ راحت مل جاتی ہے۔
۲۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ولادت کی خود تعظیم فرما کر اپنے درس دے رہے ہيں یعنی ہر سوموار کو روزہ رکھ کر۔
۳۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پر خوشی کرنا قرآن کا مطلوب ہے
۴۔ جس زمانے میں کوئی عظیم دینی کام ہوا ہوجب وہ زمانہ لوٹ آئے تو اس کی تعظیم کرنا چاہئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس قاعدہ کو مقرر فرمایا۔
۵۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی ولادت کا بیان فرمایا: انا دعوۃ ابی ابراہیم وبشارۃ عیسی انا ابن الذبحتین : میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا اور حضرت عیسی کی بشارت ہوں۔ میں دو ذبیحوں یعنی حضرت اسماعیل اور آپ کے والد حضرت عبداللہ کا بیٹا ہوں۔
۶۔ محفل میلاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کا محرک ، باعث اور سبب ہےاور جو چیز مطلوب شرعی کا سبب ہو وہ بھی شرعا مطلوب ہوتی ہے۔
۷۔ محفل میلاد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اور کمالات اور آپ کی سیرت کا بیات ہوتا ہے اور ہمیں آپ کی سیرت پر عمل کرنے کا حکم ہے۔
۸۔ جو شعرا صحابہ کی مدح کرتے اور نعتیہ اشعار پڑھے آپ ان سے خوش ہوتے اور ان کو انعامات سے نوازتے تو جب محفل میلا میں آپ کے شمائل اور فضائل کا بیان ہوگا اور نعت خوانی ہوگی تو آپ اس سے خوش ہوں گے اور آپ کی خوشی شرعا مطلوب ہے۔
۹۔ آ پ کے معجزات اور سیرت کا بیان آ پ کے ساتھ ایمان کے کمال اور آپ کی محبت میں زیادتی کا موجب ہے وہ شرعاً مطلوب ہے۔
۱۰۔ محفل میلاد میں اظہار سرور ، مسلمانوں کو کھانا کھلانا اور آپ کی تعریف کرنا یہ سب چیزیں آپ کی تعظیم کو ظاہر کرتی ہے اور آپ کی تعظیم شرعاً مطلوب ہے
۱۱۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن کی فضیلت یہ بیان فرمائی کے اس دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے تو اُس دن کی فضیلت کا عالم کیا ہو گا جس دن آپ پیدا ہوئے۔
۱۲۔تمام علما اور تمام شہروں کے مسلمانوں نے محفل میلاد کو مستحسن قرار دیا ہے اور حضرت عبداللہ ابن مسعود کی حدیث پاک ہے کہ جس کام کو مسلمان اچھا سمجھيں وہ اللہ تعالی کے نزدیک اچھا ہے اور جس کام کو مسلمان برا سمجھیں وہ اللہ تعالی کے نزدیک برا ہے اس حدیث کو امام احمدنے روایت کیا ہے۔
۱۳۔ محفل میلاد میں ذکر کے لیے جمع ہونا، نعت خوانی ، صدقہ و خیرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم ہے اور یہ تمام چیزیں سنت اور شرعاً مطلوب اور محمود ہیں۔
۱۴۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ہم تمام انبیاء کے واقعات آپ سے بیان کرتے ہیں جس سے آپ کا دل استقامت پر رکھتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء علیہم السلام کے واقعات سے ہم اپنے دل کی تسکین کے محتاج ہیں۔
۱۵۔ ہر وہ چیز جو عہد رسالت میں نہ ہو مطلقاً مذموم اور حرام نہیں ہے بلکہ اس کو دلائل شرعیہ سے دیکھا جائے گا اگر اس میں کوئی مصلحت واجبہ ہوگی تو وہ واجب ہوگی اس طرح مستحب ، مباح ، مکروہ اور حرام یہ سب بدعت کی اقسام ہیں۔
۱۶۔ جو چیز صدراول میں ہیئت اجتاعیہ کے ساتھ نہ وہ لیکن افراد کے ساتھ ہو وہ بھی مطلوب شرعی ہے کیونکہ جس کے افراد شرعاً مطلوب ہوں اس کی ہیئت اجتماعیہ مطلوب ہوگی۔
۱۷۔ اگر بدعت حرام ہو تو حضرت ابو بکر اور عثمان کا قرآن مجید جمع کرنا ، حضرت عمر کا تروایح کی جماعت کا اہتمام کرنا اور تمام علوم نافعہ کی تصنیف حرام ہوجائے گی اور ہم تیر کمان کے ساتھ جنگ کریں اور بندوقوں اور توپوں سے جنگ حرام ہو اور میناروں پر اذان دینا سرائے اور مدارس بنانا۔ ہسپتال اور یتیم خانے بنانا سب حرام ہو جائیں ۔ اس وجہ سے وہ نیا کام حرام ہو گا جس میں برائی ہو کیونکہ ایسے بہت سے کام ہیں جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف میں سے کسی نے نہیں کیا مثلاً تراویح میں ختم قرآن ، ختم قرآن کی دعا ، ستائیسویں شب کو امام الحرمین کا خطبہ دینا وغیرہ۔
۱۸۔ امام شافعی نے فرمایا کہ جو چیز کتاب و سنت یا اجماع یا اقوال صحابہ کے خلاف ہو وہ بدعت ہے اور جو نیک کام ان کے مخالف نہ ہو وہ محمود ہے۔
۱۹۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اسلام میں اچھا کام ایجاد کیا اور بعد والوں نے اس پر عمل کیا تو اس کو ان کو اجر ملے گا اور اس کے اجور میں کمی نہیں ہوگی۔
۲۰۔ جس طرح حج کے افعال ، صفا و مروہ کی دوڑ صالحین کی یاد تازہ کرنے کے لئے مشروع ہے اسی طرح محفل میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد تازہ کرنے کے لیے مشروع ہے۔ ﴿ملاعلی قاری، المولدالروی ص ۱۷﴾
 

ناصرنعمان

وفقہ اللہ
رکن
نورانی بھائی ۔۔۔۔ جہاں تک ہماری ناقص عقل کام کررہی ہے تو ان میں سے کوئی دلیل بھی آپ کے دعوی سے مطابقت نہیں رکھتی
کیوں کہ آپ لوگ خصوصا 12 ربیع الاول کا دن تعین کرکے عید منانے کے قائل ہیں ۔۔۔۔ جبکہ ان میں کوئی دلیل بھی آپ کے دعوی سے مطابقت نہیں رکھتی
اگر ہمارا سمجھنا غلط ہے براہ مہربانی نشادہی فرمادیں ۔شکریہ
 

نورانی

وفقہ اللہ
رکن
ایک ہی دن وفات اور وہی دن ولادت کے بارے میں ذرا یہ حق پر مبنی تحقیق بھی پڑھ لیں
(1) دلیل: حافظ ابوبکر ابن ابی شیبہ متوفی 235ھ سند صحیح کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔ عفان سے روایت ہے کہ وہ سعید بن مینا سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت جابر اور حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت عام الفیل میں بروز پیر بارہ ربیع اول کو ہوئی۔

(بحوالہ: البدایہ والنہایہ جلد دوم صفحہ نمبر 302، بلوغ الامانی شرح الفتح الربانی جلد دوم صفحہ نمبر 189)

(2) دلیل: محدث علامہ ابن جوزی متوفی 597ھ فرماتے ہیں۔ اس بات پر تمام متفق ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت عام الفیل میں پیر کے روز ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی اور اس کے تاریخ میں اختلاف ہے اور اس بارے میں چار اقوال ہیں چوتھا قول یہ ہے کہ بارہ ربیع الاول شریف کو ولادت باسعادت ہوئی۔ (بحوالہ: صفۃ الصفوہ جلد اول صفحہ نمبر 22)

(3) دلیل: حضرت جابر رضی اﷲ عنہ اور ابن عباس رضی اﷲ عنہ دونوں سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل روز دوشنبہ بارہ ربیع الاول کو پیدا ہوئے اور اسی روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی۔ اسی روز معراج ہوئی اور اسی روز ہجرت کی اور جمہور اہل اسلام کے نزدیک یہی تاریخ بارہ ربیع الاول مشہور ہے۔ (بحوالہ: سیرت ابن کثیر جلد اول صفحہ نمبر 199)

(4) دلیل: امام ابن جریر طبری علیہ الرحمہ جوکہ مورخ ہیں، اپنی کتاب تاریخ طبری جلد دوم صفحہ نمبر 125 پر فرماتے ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پیر کے دن ربیع الاول شریف کی بارہویں تاریخ کو عام الفیل میں ہوئی۔

(5) دلیل: علامہ امام شہاب الدین قسطلانی شافعی شارح بخاری علیہ الرحمہ (متوفی 923ھ) فرماتے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ دس ربیع الاول کو ولادت ہوئی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بارہ ربیع الاول کو ولادت ہوئی اور اسی پر اہل مکہ ولادت کے وقت اس جگہ کی زیارت کرتے ہیں اور مشہور یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بارہ ربیع الاول بروز پیر کو پیدا ہوئے اور یہ ابن اسحق کا قول ہے (بحوالہ: المواہب اللدینہ مع زرقانی جلد اول صفحہ نمبر 247)

(6) دلیل: علامہ امام محمد بن عبدالباقی زرقانی مالکی علیہ الرحمہ (متوفی 1122ھ) فرماتے ہیں (ربیع الاول ولادت) کا قول محمد بن اسحق بن یسار امام الغازی کا ہے اور اس کے علاوہ کا قول بھی ہے کہ ابن کثیر نے کہا۔ یہی جمہور کے نزدیک مشہور ہے۔ امام ابن جوزی اور ابن جزار نے اس پر اجماع نقل کیا ہے، اسی پر عمل ہے۔ (بحوالہ: زرقانی شریف شرح مواہب جلد اول صفحہ نمبر 248)

(7) دلیل: علامہ امام نور الدین حلبی علیہ الرحمہ (متوفی 624ھ) فرماتے ہیں۔ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت بارہ ربیع الاول شریف کو ہوئی اس پر اجماع ہے اور اب اسی پر عمل ہے شہروں میں خصوصا اہل مکہ اسی دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی جگہ پر زیارت کے لئے آتے ہیں (بحوالہ: سیرت حلبیہ جلد اول صفحہ نمبر 57)

(8) دلیل: علامہ امام قسطلانی وفاضل زرقانی رحمہم اﷲ فرماتے ہیں۔ مشہور یہ ہے کہ حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم بارہ ربیع الاول بروز پیر کو پیدا ہوئے۔ امام المغازی محمد بن اسحق وغیرہ کا یہی قول ہے۔

(9) دلیل: علامہ ابن خلدون علیہ الرحمہ جو علم تاریخ اور فلسفہ تاریخ میں امام تسلیم کئے جاتے ہیں بلکہ فلسفہ تاریخ کے موجد بھی یہی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت عام الفیل کو ماہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو ہوئی۔ نوشیرواں کی حکمرانی کا چالیسواں سال تھا (بحوالہ: تاریخ ابن خلدون صفحہ نمبر 710 جلد دوم)

(10) دلیل: مشہور سیرت نگار علامہ ابن ہشام (متوفی213ھ) عالم اسلام کے سب سے پہلے سیرت نگار امام محمد بن اسحق سے اپنی السیرۃ النبوۃ میں رقم طراز ہیں۔ حضور اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم سوموار بارہ ربیع الاول کو عام الفیل میں پیدا ہوئے (السیرۃ النبوۃ ابن ہشام جلد اول صفحہ نمبر 171)

(11) دلیل: علامہ ابو الحسن علی بن محمد الماوردی فرماتے ہیں۔ واقعہ اصحاب فیل کے پچاس روز بعد اور آپ کے والد کے انتقال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم بروز سوموار بارہ ربیع الاول کو پیدا ہوئے (بحوالہ: اعلام النبوۃ صفحہ نمبر 192)

(12) دلیل: امام الحافظ ابوالفتح محمد بن محمد بن عبداﷲ بن محمد بن یحییٰ بن سید الناس الشافعی الاندلسی اپنی کتاب میں فرماتے ہیں۔ ہمارے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سوموار کے روز بارہ ربیع الاول کو عام الفیل میں پیدا ہوئے (بحوالہ: عیون الاثر جلد اول صفحہ نمبر 26)

(13) دلیل: گیارہویں صدی کے مجدد شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ خوب جان لو کہ جمہور اہل سیر وتواریخ کی یہ رائے ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت عام الفیل میں ہوئی اور یہ واقعہ فیل کے چالیس روز یا پچپن روز بعد اور یہ دوسرا قول سب اقوال سے زیادہ صحیح ہے۔ مشہور یہ ہے کہ ربیع الاول کا مہینہ تھا اور بارہ تاریخ تھی۔ بعض علماء نے اس قول پر اتفاق کا دعویٰ کیا ہے۔ یعنی سب علماء اس پر متفق ہیں (بحوالہ: مدارج النبوۃ جلد دوم صفحہ 15)

(14) دلیل: امام محمد ابوزہرہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ علماء روایت کی ایک عظیم کثرت اس بات پر متفق ہے کہ یوم میلاد عام الفیل ماہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ ہے (بحوالہ: خاتم النبیین جلد اول صفحہ نمبر 115)

(15) دلیل: چودھویں صدی کے مجدد اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ سائل نے یہاں تاریخ سے سوال نہ کیا۔ اس میں اقوال بہت مختلف ہیں۔ دو، آٹھ، دس، بارہ، سترہ، اٹھارہ، بائیس سات قول ہیں مگر اشہر و ماخوذ و معتبر بارہویں ہے۔ مکہ معظمہ میں ہمیشہ اسی تاریخ مکان مولد اقدس کی زیارت کرتے ہیں۔ کمافی المواہب والمدارج (جیسا کہ مواہب اللدنیہ اور مدارج النبوۃ میں ہے) اور خاص اس مکان جنت نشان میں اس تاریخ مجلس میلاد مقدس ہوتی ہے (فتاویٰ رضویہ)

غیر مقلدین اہلحدیث فرقے کے پیشوا نواب سید محمد صدیق حسن خان نے اپنی کتاب میں میلاد کی تاریخ بارہ ربیع الاول تحریر کی ہے (الشما مۃ العبریہ فی مولد حیر البریۃ صفہ 7)
) دلیل: دور حاضر کے سیرت نگار محمد الصادق ابراہیم عرجون، جو جامعہ ازہر مصر کے کلیۃ اصول الدین کے عمید رہے ہیں، اپنی کتاب ’’محمد رسول اﷲ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں۔ کثیر التعداد ذرائع سے یہ بات صیح ثابت ہوچکی ہے کہ حضور اکرمﷺ بروز دوشنبہ بارہ ربیع الاول عام الفیل کسریٰ نوشیروان کے عہد حکومت میں تولد ہوئے اور ان علماء کے نزدیک جو مختلف سمتوں کی آپس میں تطبیق کرتے ہیں۔ انہوں نے عیسوی تاریخ میں 20 اگست 570ھ بیان کی ہے (بحوالہ: محمد رسول اﷲ جلد اول صفحہ نمبر 102)

دیوبندی فرقے کے پیشوا مفتی محمد شفیع نے اپنی کتاب میں میلاد کی تاریخ بارہ ربیع الاول تحریر کی سیرت خاتم الانبیا صفہ 23پر
شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی جن کو اشرف علی تھانوی صاحب نے اپنا بزرگ لکھا
اپنی کتاب میں ولادت کی تاریخ بارہ ربیع الاول تحریر کی سیرت الرسول صفحہ 12
 

ناصرنعمان

وفقہ اللہ
رکن
نورانی بھائی ۔۔۔۔ اوپر پہلی پوسٹ میں پیش کئے گئے دلائل میں سے کوئی دلیل بھی آپ کے دعوی سے مطابقت نہیں رکھتی
کیوں کہ آپ لوگ خصوصا 12 ربیع الاول کا دن تعین کرکے عید منانے کے قائل ہیں ۔۔۔۔ جبکہ ان میں کوئی دلیل بھی آپ کے دعوی سے مطابقت نہیں رکھتی
اگر ہمارا سمجھنا غلط ہے براہ مہربانی نشادہی فرمادیں ۔شکریہ
 
Top