میلاد شریف كاجواز
سب خوبیاں اللہ تعالیٰ کے لئے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کرے اگرچہ کافروں کو ناپسند ہو ، حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور آنکھوں کے نور آپ کے آل و اصحاب پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہوں۔
میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دلائل پوچھنے والے اے عالمو! یاد رکھو! میلاد شریف کی محفل میں آپ کی کمال شان پر دلالت کرنے والی آیات، صحیح احادیث، ولادتِ باسعادت، معراج شریف ، معجزات اور وفات کے واقعات کا بیان کرنا ہمیشہ سے بزرگانِ دین کا طریقہ رہا ہے لہٰذا تمہارے انکار کی ضد کے سوا کوئی وجہ نہیں۔ اگر تم مسلمان ہو اور محبوب رب العالمین سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال سننے کا شوق ہے تو پاس آؤ اور (ہم سے احوالِ مصطفی) سنو تمہیں پتہ چلے کہ ہمارا دعویٰ حقیت پر مبنی ہے ، محفل میلاد دراصل وعظ و نصیحت ہے اس کے لئے جو کان لگائیں اور متوجہ ہوں ، اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔
''نصیحت کرو بے شک نصیحت مومنین کیلئے مفید ہے'' ہمارے زمانہ کے جہلائ، جو اپنے آپ کو ''پڑھا لکھا'' اور ''صالحین'' سمجھتے ہیں کے وعظ کی طرح نہ ہو جو انبیائ، اولیاء کی توہین اور مومنین کی غیبت کا مجموعہ ہوتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں غیبت سے منع کیا ہے۔ ارشاد ہے:۔ ''ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی اپنے مرے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ تمہیں ہر گز گوارا نہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو بے شک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔'' جاہل واعظ خود گمراہ ہیں اور دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں خود برباد ہوئے ، دوسروں کو برباد کرتے ہیں، اپنے آپ سے بے خبر چند بے وقوف ، شر پسند اور متکبر اگر چراغ تک پہنچتے ہیں تو ہوا بن جاتے ہیں(یعنی چراغ ہدایت کو بجھانے کی کوشش کرتے ہیں) اور دماغ تک پہنچتے ہیں تو دھواں ہوجاتے ہیں۔ (یعنی اس کو تاریک کرنے کی کوشش کرتے ہیں) اللہ تعالیٰ ان سے بچائے۔ ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ تعالیٰ کا ہی ذکر ہے۔ حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''میرے پاس جبرائیل آئے اور کہا بے شک میرا اور آپ کا رب فرماتا ہے ،آپ جانتے ہیں میں نے آپ کا ذکر کیسے بلند کیا ؟ میں نے کہا اللہ ل بہتر جانتا ہے(جبرائیل نے ) کہا اللہ فرماتا ہے کہ جب میرا ذکر کیا جائے ، آپ کا میرے ساتھ ذکر کیا جائے۔''ابن عطا سے روایت ہے کہ میں نے (اللہ نے) آپ کے ساتھ اپنے ذکر کو تکمیل ایمان کا ذریعہ بنایا ، ابنِ عطاء ہی سے روایت ہے کہ میں آپ کو اپنا ذکر بنادیا جس نے آپ کا ذکر کیا اس نے میرا ذکر کیا(شفائ)۔ (ان دلائل کے ہوتے ہوئے) جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر سے روکے وہ شیطانی لشکر سے ہے ، جس کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے نفرت ہے کیونکہ مومنِ صادق تو ذکر محبوب کا مشتاق ہوتا ہے اور ذکر محبوب سے لذت پاتا ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے
اَعِدْ ذِکْرَ نُعْمَانٍ لَنَا اِنَّ ذِکْرَہ،۔۔۔۔۔۔ہُوَا لْمِسْکُ مَا کَرَّ رتَہ، یَتَضَوَّعْ''ہمارے سامنے نعمان کابکثرت زکر کر، بلا شبہ اس کا ذکر جتنی دفعہ کرو گے کستوری کی طرح مہکے گا
محب تو ذکر محبوب سننے کیلئے مال، اولاد ، ازواج، جان سب کچھ قربان کردیتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ ں کا طریقہ تھا لہٰذا جس کا دل چاہے اللہ کی فوج میں شامل ہوجائے اللہ کی فوج یقینا کامیاب ہے اور جس کا دل چاہے شیطانی ٹولے میں شامل ہوجائے شیطانی ٹولہ خسارے میں ہے۔ اب ہم اشرار کے علی الرغم اکابر کی پیش کردہ خاص دلیلیںبھی ذکر کرتے ہیں ۔ حافظ ابو الفضل ابن حجر نے حدیث سے ایک ضابطہ کا استخراج فرمایا ہے فرماتے ہیں کہ:''حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ شریف تشریف لائے تو وہاں کے یہودیوں کو عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا تو ان سے دریافت فرمایا کہ تم عاشورہ کا روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا یہ دن نہایت مقدس ہے مبارک ہے اسی دن اللہ تعالیٰ نے فرعون کو غرق فرمایا اور موسیٰ کو نجات بخشی اور ہم تعظیماً اس دن کا روزہ رکھتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہم موسیٰ کا دن منانے میں تم سے زیادہ حقدار ہیں پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔'' معلوم ہوا جس دن اللہ تعالیٰ کی کسی خاص نعمت کا نزول ہو یا کسی مصیبت سے نجات ہو نہ صرف اسی دن بلکہ ہر سال اس تاریخ کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر بجالانے کے مختلف طریقے ہیں، عبادت، قیام، سجود، صدقہ اور تلاوت وغیرہ اور یومِ میلاد شریف وہ دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمتِ عظمیٰ اور رحمت عطا ہوئی لہٰذا قصہ موسیٰ کے ساتھ مطابقت کے لئے ہر سال یومِ میلاد کا اہتمام کرنا چاہئے۔ اور کہا ہمارے شیخ شیخ الاسلام علامہ جلال الدین سیوطی نے کہ حافظ ابو الفضل کی دلیل کے علاوہ بھی میرے پاس دلیل ہے اور وہ یہ کہ امام بہیقی نے حضرتِ انس سے روایت کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عقیقہ اعلانِ نبوت کے بعد خود کیا ، حالانکہ آپ کے دادا عبدالمطلب آپ کی ولادت کے ساتویں روز آپ کا عقیقہ کر چکے تھے اور عقیقہ بار بار نہیں ہوتا ایک ہی دفعہ ہوتا ہے معلوم ہوا کہ ایسا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ادائے شکر کے طور پر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رحمۃ اللعالمین بنایا اور ہمیں آپ کی امت ہونے کا شرف بخشا جس طرح آپ کے میلاد کی خوشی میں جلسہ کریں ، کھانا کھلائیں، اور دیگر عبادات اور خوشی کے جو طریقے ہیں کے ذریعے شکر بجالائیں۔ شرح سنن ابنِ ماجہ میں اس یوم کی تصریح بھی ہے اور امام جلال الدین نے فرمایا کہ میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم معظم اور مکرم ہے آپ کا یوم ولادت مقدس و بزرگ اور یومِ عظیم ہے آپ کا وجود عشاق کے لئے ذریعہ نجات ہے جس نے نجات کے لئے ولادت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی کا اہتمام کیا اس کی اقتداء کرنے والے پر بھی رحمت و برکت کا نزول ہوگا ۔ یومِ ولادت اس سے جمعہ کے مشابہ ہے کہ جمعہ والے دن جہنم میں آگ نہیں بھڑکائی جاتی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یونہی مروی ہے اظہارِ خوشی اور اپنی بساط کے مطابق خرچ کرنا اور جو دعوتِ ولیمہ دے اس کی دعوت قبول کرنا بہت اچھا ہے ۔ امام ابو عبدا بن الحاج نے اس ماہ کی یوں فضیلت بیان فرمائی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کو فضیلت عطا فرمائی۔ سید الاولین و آخرین کی تشریف آوری اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت عظمی کا شکر بجالاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ عبادات اور نیکی کی جائے اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ میں معمول سے زیادہ کچھ نہیں کیا کرتے تھے یہ آپ کی امت پر مہربانی اور شفقت تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوئی کام اس لئے بھی چھوڑ دیتے تھے کہ کہیں امت پر فرض نہ ہوجائے ایسا امت پر شفقت کی وجہ سے تھا لیکن آپ نے اس ماہ کی فضیلت بیان فرمائی ہے ، ایک سائل نے بروز پیر روزہ رکھنے کے متعلق آپ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا ، یہ وہ دن ہے جس دن میں پیدا ہوا، آپ کا یومِ ولادت ربیع الاول کی شرافت کو مستلزم ہے ہمیں چاہئے کہ اس ماہ کا سخت احترام کریں ، اس مہینے کو ان تمام مہینوں ، زمانوں اور امکنہ سے زیادہ سمجھیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بعض عبادات کیلئے خاص کیا ہے طاہر ہے کسی جگہ یا زمانہ کو بذات کوئی فضیلت نہیں فضیلت صرف ان واقعات کی وجہ سے ہے جو کسی جگہ یا زمانہ میں رونما ہوئے، ذرا غور کرو! ربیع الاول میںپیر کے دن کون تشریف لایا؟ کیا تمہیں معلوم نہیں؟ پیر والے دن روزہ رکھنا صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کی وجہ سے عظیم فضیلت رکھتا ہے ، ہمیں چاہئے کہ جب ربیع الاوال کی تشریف آوری ہو ، اول سے آخر تک انتہائی تعظیم و تکریم کا مظاہر کیا جائے اور یہ آپ کی سنت ہے کیونکہ آپ اس دن نیکی اور خیرات زیادہ کیا کرتے تھے جس دن کوئی فضیلت والا واقعہ پیش آتا۔ شیخ احمد بن خطیب قسطلانی مواہب لدنیہ میں فرماتے ہیں۔ '' اللہ تعالیٰ نے جمعہ میں ایک ایسی گھڑی کہ ہر دعا اس میں قبول ہوتی ہے صرف اس لئے رکھی گئی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جمعہ کو پیدا ہوئے اور پیر جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادت ہے کی کیا شان ہوگی؟''
جاری
میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دلائل پوچھنے والے اے عالمو! یاد رکھو! میلاد شریف کی محفل میں آپ کی کمال شان پر دلالت کرنے والی آیات، صحیح احادیث، ولادتِ باسعادت، معراج شریف ، معجزات اور وفات کے واقعات کا بیان کرنا ہمیشہ سے بزرگانِ دین کا طریقہ رہا ہے لہٰذا تمہارے انکار کی ضد کے سوا کوئی وجہ نہیں۔ اگر تم مسلمان ہو اور محبوب رب العالمین سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال سننے کا شوق ہے تو پاس آؤ اور (ہم سے احوالِ مصطفی) سنو تمہیں پتہ چلے کہ ہمارا دعویٰ حقیت پر مبنی ہے ، محفل میلاد دراصل وعظ و نصیحت ہے اس کے لئے جو کان لگائیں اور متوجہ ہوں ، اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔
''نصیحت کرو بے شک نصیحت مومنین کیلئے مفید ہے'' ہمارے زمانہ کے جہلائ، جو اپنے آپ کو ''پڑھا لکھا'' اور ''صالحین'' سمجھتے ہیں کے وعظ کی طرح نہ ہو جو انبیائ، اولیاء کی توہین اور مومنین کی غیبت کا مجموعہ ہوتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں غیبت سے منع کیا ہے۔ ارشاد ہے:۔ ''ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی اپنے مرے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ تمہیں ہر گز گوارا نہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو بے شک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔'' جاہل واعظ خود گمراہ ہیں اور دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں خود برباد ہوئے ، دوسروں کو برباد کرتے ہیں، اپنے آپ سے بے خبر چند بے وقوف ، شر پسند اور متکبر اگر چراغ تک پہنچتے ہیں تو ہوا بن جاتے ہیں(یعنی چراغ ہدایت کو بجھانے کی کوشش کرتے ہیں) اور دماغ تک پہنچتے ہیں تو دھواں ہوجاتے ہیں۔ (یعنی اس کو تاریک کرنے کی کوشش کرتے ہیں) اللہ تعالیٰ ان سے بچائے۔ ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ تعالیٰ کا ہی ذکر ہے۔ حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''میرے پاس جبرائیل آئے اور کہا بے شک میرا اور آپ کا رب فرماتا ہے ،آپ جانتے ہیں میں نے آپ کا ذکر کیسے بلند کیا ؟ میں نے کہا اللہ ل بہتر جانتا ہے(جبرائیل نے ) کہا اللہ فرماتا ہے کہ جب میرا ذکر کیا جائے ، آپ کا میرے ساتھ ذکر کیا جائے۔''ابن عطا سے روایت ہے کہ میں نے (اللہ نے) آپ کے ساتھ اپنے ذکر کو تکمیل ایمان کا ذریعہ بنایا ، ابنِ عطاء ہی سے روایت ہے کہ میں آپ کو اپنا ذکر بنادیا جس نے آپ کا ذکر کیا اس نے میرا ذکر کیا(شفائ)۔ (ان دلائل کے ہوتے ہوئے) جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر سے روکے وہ شیطانی لشکر سے ہے ، جس کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے نفرت ہے کیونکہ مومنِ صادق تو ذکر محبوب کا مشتاق ہوتا ہے اور ذکر محبوب سے لذت پاتا ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے
اَعِدْ ذِکْرَ نُعْمَانٍ لَنَا اِنَّ ذِکْرَہ،۔۔۔۔۔۔ہُوَا لْمِسْکُ مَا کَرَّ رتَہ، یَتَضَوَّعْ''ہمارے سامنے نعمان کابکثرت زکر کر، بلا شبہ اس کا ذکر جتنی دفعہ کرو گے کستوری کی طرح مہکے گا
محب تو ذکر محبوب سننے کیلئے مال، اولاد ، ازواج، جان سب کچھ قربان کردیتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ ں کا طریقہ تھا لہٰذا جس کا دل چاہے اللہ کی فوج میں شامل ہوجائے اللہ کی فوج یقینا کامیاب ہے اور جس کا دل چاہے شیطانی ٹولے میں شامل ہوجائے شیطانی ٹولہ خسارے میں ہے۔ اب ہم اشرار کے علی الرغم اکابر کی پیش کردہ خاص دلیلیںبھی ذکر کرتے ہیں ۔ حافظ ابو الفضل ابن حجر نے حدیث سے ایک ضابطہ کا استخراج فرمایا ہے فرماتے ہیں کہ:''حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ شریف تشریف لائے تو وہاں کے یہودیوں کو عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا تو ان سے دریافت فرمایا کہ تم عاشورہ کا روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا یہ دن نہایت مقدس ہے مبارک ہے اسی دن اللہ تعالیٰ نے فرعون کو غرق فرمایا اور موسیٰ کو نجات بخشی اور ہم تعظیماً اس دن کا روزہ رکھتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہم موسیٰ کا دن منانے میں تم سے زیادہ حقدار ہیں پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔'' معلوم ہوا جس دن اللہ تعالیٰ کی کسی خاص نعمت کا نزول ہو یا کسی مصیبت سے نجات ہو نہ صرف اسی دن بلکہ ہر سال اس تاریخ کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر بجالانے کے مختلف طریقے ہیں، عبادت، قیام، سجود، صدقہ اور تلاوت وغیرہ اور یومِ میلاد شریف وہ دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمتِ عظمیٰ اور رحمت عطا ہوئی لہٰذا قصہ موسیٰ کے ساتھ مطابقت کے لئے ہر سال یومِ میلاد کا اہتمام کرنا چاہئے۔ اور کہا ہمارے شیخ شیخ الاسلام علامہ جلال الدین سیوطی نے کہ حافظ ابو الفضل کی دلیل کے علاوہ بھی میرے پاس دلیل ہے اور وہ یہ کہ امام بہیقی نے حضرتِ انس سے روایت کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عقیقہ اعلانِ نبوت کے بعد خود کیا ، حالانکہ آپ کے دادا عبدالمطلب آپ کی ولادت کے ساتویں روز آپ کا عقیقہ کر چکے تھے اور عقیقہ بار بار نہیں ہوتا ایک ہی دفعہ ہوتا ہے معلوم ہوا کہ ایسا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ادائے شکر کے طور پر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رحمۃ اللعالمین بنایا اور ہمیں آپ کی امت ہونے کا شرف بخشا جس طرح آپ کے میلاد کی خوشی میں جلسہ کریں ، کھانا کھلائیں، اور دیگر عبادات اور خوشی کے جو طریقے ہیں کے ذریعے شکر بجالائیں۔ شرح سنن ابنِ ماجہ میں اس یوم کی تصریح بھی ہے اور امام جلال الدین نے فرمایا کہ میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم معظم اور مکرم ہے آپ کا یوم ولادت مقدس و بزرگ اور یومِ عظیم ہے آپ کا وجود عشاق کے لئے ذریعہ نجات ہے جس نے نجات کے لئے ولادت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی کا اہتمام کیا اس کی اقتداء کرنے والے پر بھی رحمت و برکت کا نزول ہوگا ۔ یومِ ولادت اس سے جمعہ کے مشابہ ہے کہ جمعہ والے دن جہنم میں آگ نہیں بھڑکائی جاتی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یونہی مروی ہے اظہارِ خوشی اور اپنی بساط کے مطابق خرچ کرنا اور جو دعوتِ ولیمہ دے اس کی دعوت قبول کرنا بہت اچھا ہے ۔ امام ابو عبدا بن الحاج نے اس ماہ کی یوں فضیلت بیان فرمائی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کو فضیلت عطا فرمائی۔ سید الاولین و آخرین کی تشریف آوری اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت عظمی کا شکر بجالاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ عبادات اور نیکی کی جائے اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ میں معمول سے زیادہ کچھ نہیں کیا کرتے تھے یہ آپ کی امت پر مہربانی اور شفقت تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوئی کام اس لئے بھی چھوڑ دیتے تھے کہ کہیں امت پر فرض نہ ہوجائے ایسا امت پر شفقت کی وجہ سے تھا لیکن آپ نے اس ماہ کی فضیلت بیان فرمائی ہے ، ایک سائل نے بروز پیر روزہ رکھنے کے متعلق آپ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا ، یہ وہ دن ہے جس دن میں پیدا ہوا، آپ کا یومِ ولادت ربیع الاول کی شرافت کو مستلزم ہے ہمیں چاہئے کہ اس ماہ کا سخت احترام کریں ، اس مہینے کو ان تمام مہینوں ، زمانوں اور امکنہ سے زیادہ سمجھیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بعض عبادات کیلئے خاص کیا ہے طاہر ہے کسی جگہ یا زمانہ کو بذات کوئی فضیلت نہیں فضیلت صرف ان واقعات کی وجہ سے ہے جو کسی جگہ یا زمانہ میں رونما ہوئے، ذرا غور کرو! ربیع الاول میںپیر کے دن کون تشریف لایا؟ کیا تمہیں معلوم نہیں؟ پیر والے دن روزہ رکھنا صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کی وجہ سے عظیم فضیلت رکھتا ہے ، ہمیں چاہئے کہ جب ربیع الاوال کی تشریف آوری ہو ، اول سے آخر تک انتہائی تعظیم و تکریم کا مظاہر کیا جائے اور یہ آپ کی سنت ہے کیونکہ آپ اس دن نیکی اور خیرات زیادہ کیا کرتے تھے جس دن کوئی فضیلت والا واقعہ پیش آتا۔ شیخ احمد بن خطیب قسطلانی مواہب لدنیہ میں فرماتے ہیں۔ '' اللہ تعالیٰ نے جمعہ میں ایک ایسی گھڑی کہ ہر دعا اس میں قبول ہوتی ہے صرف اس لئے رکھی گئی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جمعہ کو پیدا ہوئے اور پیر جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادت ہے کی کیا شان ہوگی؟''
جاری