ایک کہانی ، بڑی پرانی

سیفی خان

وفقہ اللہ
رکن
ایک کہانی ، بڑی پرانی​

کسی گاؤں میں ایک گونگا لڑکا رہتا تھا اسے گاؤں کی بہری لڑکی سے عشق ہو گیا دونوں میں بہت پیار تھا گونگا جب بھی گانا گاتا بہری اسے سن کر دوڑی چلی آتی گونگے کی آواز میں اتنا درد تھا کہ اسے سن کر بہری کے آنسو نکل آتے بہری کا ایک اندھا چچا ہوتا ہے وہ ایک دن دونوں کو کھیت میں پیار کی باتیں کرتے ہوئے دیکھ لیتا ہے اور دوڑتا ہوا بہرے کے معذور باپ کے پاس آتا ہے جسکی ٹانگیں ٹرین کے حادثے میں کٹ چکی ہیں
جیسے ہی بہری کا باپ یہ سنتا ہے وہ گھر میں دوڑا ہوا جاتا ہے ، سائیکل نکالتا ہے باہر آ کر موٹر سائیکل سٹارٹ کرتا ہے کھیتوں کے پاس جا کر گاڑی روکتا ہے گھوڑے سے اترتا ہے جیسے ہی وہ دیکھتا ہے اسکی بیٹی گونگے کے ساتھ باتیں کر رہی ہے وہ غصہ میں آ کر خنجر نکالتا ہے اور دو فائر کرتا ہے جیسے ہی وہ فائر کرتا ہے دو تیر گونگے کے سینے میں لگتے ہیں گونگا نیزا نکال کر کہتا ہے یہ آخر کس نے کیا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ گونگے کا خون نکل رہا ہے اس کی چیخیں سن کر بہری رو رہی ہے اور خود بھی چلا رہی ہے" کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو" کچھ دیر بعد پولیس وین آتی ہے تمام پولیس والے ایمبولینس سے اترتے ہیں گونگے اور بہری کو بس میں ڈال کر ٹرک کے زریعے بس سٹاپ پہنچاتے ہیں وہاں سے ٹرین میں بیٹھ کر ائیر پورٹ آتے ہیں وہاں سے پانی کے جہاز میں بیٹھ کر لیڈی ولنگٹن ہسپتال لاہور آتے ہیں وہاں انجنئیر گونگے کی گولیاں نکال دیتے ہیں گونگا ٹھیک ہو جاتا ہے گونگے بہری کی شادی ہو جاتی کچھ عرصہ بعد ان کا ایک بیٹا ہوتا ہے جو اندھا ،گونگا بہرا ہوتا ہے اس کے ہاتھ اور پاؤں کسی بیماری کی وجہ سے کاٹ دیتے ہیں اور وہ تینوں ہنسی خوشی زندگی گزارتے ہیں۔
 
Top