تونے اپنے گھر بلایا میں تو اس قابل نہ تھا(عمرہ کا سفرنامہ) قسط دوم

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
تونے اپنے گھر بلایا میں تو اس قابل نہ تھا(عمرہ کا سفرنامہ) قسط دوم۔

روانگی

مارچ 2010 میں گھر سے سب کی دعائیں لیے ہمارا قافلہ لاہور علامہ اقبال انٹر نیشنل ائیر پورٹ لاہور روانہ ہوا۔ جب جہاز کے اندر بیٹھا تو کچھ ڈرسا محسوس ہو رہا تھاکیونکہ پہلے بارجہاز میں سفر کر رہا تھادلی سکون حاصل کرنے کے لیے میں نے قرآن مجید کی تلاوت شروع کردی ۔ جہاز شام 6 بجے لاہور سے کراچی کے لیے روانہ ہوا۔ کچھ دیر بعد جہاز میں ہمیں ایک پیکٹ دیا گیا جس میں کھانے کی مختلف اشیاء سجائی گئیں تھیں ساتھ بوتل اور چائے بھی دی گئی ۔ اور اسی طرح ہمارا سفر چلتا رہا۔تقریباً 7:30 پر ہمارے جہاز نے کراچی قائد اعظم محمدعلی جناح ائیر پورٹ پر لینڈنگ کی۔ جہاز سے اتر کر فوراً والد محترم کو کال کرکے اطلاع دی کہ الحمداللہ ہم کراچی پہنچ گئے ہیں ۔ اس کے بعد والد صاحب نے کچھ ہدایات دیں اور فون بند کردیا۔ اس کے بعد ہم احرام باندھنے چلے گئے جب احرام باندھا تو مجھ پر ایک عجیب کیفیت طاری تھی۔ اور میں اپنے آپ کو بھت ہلکا محسوس کر رہا تھا۔ دل ملے جلے جزبات سے معمور تھادلی طور پر وہاں پہنچ چکا تھا۔ آنکھیں نم تھیں اور زبان پر دعائیں تھیں جسم کانپ رہا تھا۔ میں تو ایک گناہ گار سیاہ کار انسان ہوں اس کے باوجود خدا تعالٰی نے مجھ ناچیز پر کرم فرمایا۔ اور اپنے گھر اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیے بلایا۔ ہمارے جہاز نے رات 10 بجے اڑان بھرنی تھی۔ لیکن مختلف وجوہات کی بناء پر لیٹ ہوگیا۔ جب ہم اپنی سیٹیں لینے کاؤنٹر پر گئے۔ تو اس نے جھٹ سے سیٹیں دے دیں اور کہا: آپ خوش قسمت ہیں کہ سیٹیں آپ کو مل گئیں یہی آخری سیٹیں تھیں ۔ ورنہ آپ کو مزید ایک دن انتظار کرنا پڑتا۔ ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ سیٹیں مل گئیں نہیں تو ایک دن یہیں رُکنا پڑتا اور جہاز کی طرف روانہ ہوئے۔ اور دل میں یہ سوچ رہے تھے ممکن ہے سیٹیں بلکل آخر میں ہوں گی پھر سوچا سیٹیں نہ ملنے سو بہتر ہے جہاں بھی ملیں بیٹھ جائیں گے۔ لیکن جب ہم جہاز کے دروازے پر پہنچےتو وہاں کھڑے ایک آدمی نے ہمارا بھر پور استقبال کیا اور ٹکٹ طلب کی ۔ ہم نے جھٹ سے ٹکٹ اسے تھمادی ۔ اور اس نے ہمیں اپنے پیچھے آنے کا حکم صادر کیا۔ بھائی جان مجھے لیے ہوئے اس کے پیچھے چل پڑے۔ میری حیرت کی اس وقت تک انتہا نہ رہی جب اس نے جہاز کی وی آئی پی سیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بھائی جان کو کہا: یہ آپ کے چھوٹے بھائی کی سیٹ ہے۔ بھائی جان نے مجھے بٹھایا۔ اس کے بعد بھائی جان نے اسی اپنی ٹکٹ دکھائی تو اس نے مجھ سے چند سیٹیں آگے ایک سیٹ پر اشارہ کیا جو ممکنہ طور پر جہاز کی پہلی سیٹ تھی۔اطمینان ہوگیا کہ بھائی جان میرے ساتھ ہی ہیں تھوڑی دیر بعد تایا جان بھی وہیں آگئے۔ اس کے بعد میں نے بھائی جان سے پوچھا باقی کہاں ہیں تو کہا: مولانا یسین صاحبؒ کو دوسری منزل پر سیٹ ملی ہے والدہ اوربھائی جان مولانا یسین صاحبؒ کی زوجہ (بھابھی محترمہ) وہ ہمارے تھوڑے پیچھے بیٹھی ہیں ۔ اس دوران ہمارے جہاز نے جدہ کی طرف اڑان بھری میں اپنے اذکار میں مصروف ہو گیا۔ کچھ دیر بعد جہاز کمپنی کی طرف سے ہمیں بریانی اور دیگر لوازمات پیش کیے گئے اور چائے دی گئی۔ہلکا پھلکا کھانا کھایا۔ بس دل چاہتا تھا کہ جلد از جلد حرمین پہنچیں اور کعبہ کی زیارت سے اپنی آکنھوں کو ٹھنڈک پہنچائیں ۔ لوازمات چکھنے کے بعد میں نے سوچا کافی تھک گیا ہوں کچھ دیر آرام کرلیتا ہوں ۔ میں آرام کرنے ہی لگا تھا ہاتھ کے نیچے جو بٹن تھے وہ ہاتھ کے نیچے آنے کی وہ سے چل پڑے یکدم ایک آدمی نمودار ہوا اور کہا: حافظ صاحب خیریت ہے کوئی چیز چاہیے میں پریشان ہوگیا یا اللہ کیا ماجرا ہے۔ میں حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگا کہ میں نے تو کسی کو نہیں بلایا کچھ دیر بعد وہ معاملہ سمجھ گیا اور اس نے کہا جہاں آپ نے ہاتھ رکھا ہے اس کے نیچے بٹن ہیں آپ کے ہاتھ رکھنے سے گھنٹی بجی اس لیے آیااگر کوئی کام ہے تو بتادیں میں نے شکریہ ادا کیا۔ تو اس نے تمام بٹنون کے بارے میں سمجھایا یہ لائٹ کا ہے یہ گھنٹی کا ہے وغیرہ وغیرہ اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو گھنٹہ کا بٹن دبا دیجئے گا۔۔ اسوقت علم ہوا کہ ماجرا کیا ہے اور یہ صاحب گھنٹی بجنے پر تشریف لائے۔ اصل میں کچھ سیٹیوں پر اوپر کی طرف بٹن ہوتے ہیں جو جہاز کی اگلی سیٹیں ہوتی ہیں ان میں سے کچھ کے بٹن سیٹ کے ساتھ لگے ہوتے ہیں،اس لیے معلوم نہ پرا کہ یہاں بٹن ہیں۔
بہر حال کچھ دیر بعد میں نے ساتھ والے کو سلام کیا،بات کرنے پر پتہ چلا وہ بھی سعادت عمرہ کے لیے جارہا ہے۔ اس کے بعد میں نے سوچا اب نیند تو آ نہیں رہی راستہ بھی غالباََکم رہ گیا ہے اس لیے جو اذکار یاد تھے اور جو دعائیں یاد تھیں وہ کرنا شروع کردیں۔ اس دوران بھائی جان بھی آجاتے اور پوچھ لیتے کہیں ڈر ور تو نہیں لگ رہا سفر کیسا گزر رہا ہے وغیرہ وغیرہ ۔​
جدہ ائیر پورٹ
میقات کے قریب جہاز کے پائلٹ کی طرف سے اعلان ہوا جنہوں نے احرام نہیں باندھے وہ جلد از جلد احرام باندھ لیں۔ جہاز میں جنہون نے احرام نہیں باندھے تھے ،انہوں نے جلد از جلد احرام باندھے، ہم کراچی ائیرپورٹ پر احرام پہن چکے تھے بھائی میرے پاس آئے اور کہا احرام کی نیت کر لو۔ جہاز میں لبیک اللھم لبیک کی صدائیں گونج نے لگیں، تھوڑی دیر بعد اعلان ہوا ابھی کچھ دیر بعد شیخ عبدالعزیز السعود انٹر نیشنل ائیر پورٹ پر ہم اتریں گے۔ کھڑکی سے باہر کا منظر تو دیکھا جو بڑا دلکش لگ رہا تھا ، جہاز لینڈنگ کے لیے تیار تھا اور آہستہ آہستہ نیچے اُتر رہا تھا کچھ دیر بعد جہاز ائیر پورٹ پر لینڈ کرگیا۔ جہاز جیسے ہی رکا سیڑھی لگائی گئی مسافروں نے نیچے اترنا شروع کیا اس دوران پائلٹ کی جانب سے اعلان ہوا عمرہ والے جہاز میں بیٹھے رہیں۔ اور کاروبار والے باہر نکل جائیں۔ تقریباً 10 منٹ بعد ہمیں حکم ملا اب نیچے اتر جائیں ۔ اس طرح ہم نے سعودیہ عرب کے وقت کے مطابق نماز فجر کے وقت اس مقدس سر زمین پر پاؤں رکھا۔جب اس مقدس سرزمین پر پاؤں رکھا تو دل ایک عجیب کیفیت سے دوچار تھا۔ جہاز سے اتر نے کے بعد اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے بخیر و عافیت اپنی منزل مقصود تک پہنچا دیا۔ جہاز سے اترنے کے بعد بس میں سوار کرکے مین بلڈنگ کی طرف لے جایا گیا جہاں پاسپورٹ پر مہر لگانے اور سامان لینے کے بعد ہمیں باہر جانے کی اجازت دے دی گئی ۔ باہر نکلنے کےبعد کچھ دیر انتظار کرایا گیا پھر بس لائی گئی اور اس میں سوار ہوگئے، باہر کچھ سردی کا احساس ہو رہا تھا۔ خیر جیسے ہی ہم بس میں بیٹھے تو ہمیں اس احساس نے آگھیرا کہیں نماز فجر کزا نہ ہو جائے۔ ہم نے اپنے گائیٹ سے کہا تو اس نے کہا: مکہ جاکر پڑھ لیں گے۔ ہم نے انکار کرتے ہوئے وہاں پہنچتے پہنچتے ہماری نماز کزا ہو جائے گی لہذا ہم بس سے نیچے اتر آئے، وضو کیا اور جدہ ائیر پورٹ پر ہی نماز فجر ادا کی ۔ نماز فجر ادا کرنے کے بعد ہم مکتہ المکرمہ کی جانب حازم سفر ہوئے راستے میں مختلف مناظر دیکھے اوربس میں لبیک اللھم لبیک کی صدائیں گونجتی رہیں۔ جیسے ہی مکہ کی حدود میں داخلہ ہوتا ہے تو نشانی کے طور پر دو پلر بنائے گئے ہیں جن کے اوپر جیسے کھلی ہوئی کتاب ہو اس طرح کا نقشہ بنا ہوا ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں سے مکہ کی حدود شروع ہو رہی ہے۔
مکۃالمکرمہ
مکہ مکمل نام: مکہ مکرمہ، عربی: مَكَّةُ الْمُكَرّمَةْ‎، تاریخی خطہ حجاز میں سعودی عرب کے صوبہ مکہ کا دار الحکومت اور مذہب اسلام کا مقدس ترین شہر ہے۔ مکہ جدہ سے 73 کلومیٹر دور وادی فاران میں سطح سمندر سے 277 میٹر بلندی پر واقع ہے۔ یہ بحیرہ احمر سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔یہ شہر اسلام کا مقدس ترین شہر ہے کیونکہ روئے زمین پر مقدس ترین مقام بیت اللہ یہیں موجود ہے اور تمام باحیثیت مسلمانوں پر زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ یہاں کا حج کرنا فرض ہے ۔اسی شہر میں نبی آخر الزماں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پیدا ہوئے اور اسی شہر میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی کی ابتدا ہوئی۔ یہی وہ شہر ہے جس سے اسلام کا نور پھیلا۔مسلمانوں کے لیے مکہ بے پناہ اہمیت کا حامل ہے اور دنیا بھر کے مسلمان دن میں 5 مرتبہ اسی کی جانب رخ کرکے نماز ادا کرتے ہیں۔
مکہ آمد
لبیک اللھم لبیک کی صداؤں اور ورد کے ساتھ ہم مکہ پہنچ گئے اور ہمیں ہوٹل لے جایا گیا۔ جہاں ہم کو ٹھرایا گیا وہ ایک وی آئی پی ہوٹل تھا۔کاؤنٹر سے کمرہ کی چابی لینے کے بعد لفٹ کے ذریعے ہم اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے وہاں جاکر دیکھا تو وہ ایک چھوٹے سے خوبصورت مکان کی طرح بنے ہو ئے دو کمرے تھے۔ ساتھ ہی باتھ روم اور سائٹ پر کچن تھا۔ ہوٹل میں سامان وغیرہ رکھا تو ہم سب کو بھوک کا احساس ہوا تو بھائی جان اور مولانا یسین صاحب کھانا لینے چلے گئے۔ کچھ دیر بعد ان کی واپسی ہوئی تو دیکھا ان کے ہاتھ میں کچھ روٹیاں اور سالن کے چھوٹے سے ڈبے ہیں جب کھانا کھانے لگے تو بھوک ختم ہوگئی ۔ بس کعبہ کے دیدار کو دل مچلنے لگا سب نے کھانے سے ہاتھ ہٹالیا اور مسجد الحرام جانے کی تیاری کرنے لگے۔ بھائی جان نے سب کو کہا: کچھ دیر آرام کرلیں بعد از نماز ظہر عمرہ کر لیا جائے گا آپ سب تھک جائیں گے۔ لیکن دل میں تڑپ تھی اس لیے سب نے آرام کرنے سے انکار کردیا یوں ہم نے وضو کیا اور مسجدالحرام کی طرف چل پڑے۔


(جاری ہے)
 
Last edited:
Top