از حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمہ اللہ

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
رہنے دو چپ مجھے نہ سنو ماجرائے دل
میں حال دل کہوں تو ابھی منہ کو آئے دل

سمجھے کون کس سے کہوں راز ہائے دل
دل ہی سے کہہ رہا ہوں ماجرائے دل

کب تک یہ ہائے ہائے جگر ہائے ہائے دل
کر رحم اے خدائے جگر، اے خدائے دل

دو لفظوں ہی میں کہدیا سب ماجرائے دل
خاموش ہوگیا ہے کوئی کہہ کے ہائے دل

آتے نہیں ہیں سننے میں اب نالہائے دل
سنسان کیوں پڑی ہے یہ ماتم سرائے دل

ہوتا ہوں محو لذت دید قضائے دل
باغ و بہار زیست ہیں یہ داغ ہائے دل

اب ہوچکی ہے جرم سے زائد سزائے دل
جانے دو بس معاف بھی کردو خطائے دل

ہر ہر ادا بتوں کی ہے قاتل برائے دل
آخر کوئی بچائے تو کیونکر بچائے دل

اتنا بھی کوئی ہوگا نہ صبر آزمائے دل
سب سے لگائے تم سے نہ کوئی لگائے دل

اک سیل بے پناہ ہے ہر اقتضائے دل
ایسا بھی ہائے کوئی نہ پائے جو پائے دل

مجذوب تو بھی غیر خدا سے لگائے دل
عشق بتاں ہے بندہ حق ناسزائے دل
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
اے دل ابھی دیکھی ہے کہاں ان کی تجلی
اس نور کے پردے میں چھپا اور بھی کچھ ہے
اہل نظر اس حسن کو پو چھیں مرے دل سے
ہر ناز مین اک طرفہ ادا اور بھی کچھ ہے
از کلام مجذوب
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت خواجہ عزیزالحسن مجذوب کامقام حضرت تھانوی کی مجلس میں وہی تھاجوحضرت نظام الدین اولیاکی مجلس میں امیرخسروکا،حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی مجلس میں حضرت ناگوری کا،حضرت مصلح الامۃ کی مجلس میں حضرت عبدالرحمن جامی کا۔
اللہ ان سبھی حضرات کی قبورکوروضۃ من ریاض الجنۃ بنائے۔
 

محمد یوسف صدیقی

وفقہ اللہ
رکن
آئینہ بنتا ہے رگڑے لاکھ جب کھاتا ہے دل
کچھ نہ پوچھو بڑی مشکل سے بن پاتا ہے دل
عشق میں دھوکے پہ دھوکے روز کیوں کھاتا ہے دل
ان کی باتوں میں نہ جانے کیوں ہی آجاتا ہے دل
فصل گل میں سب تو خنداں ہیں مگر گریاں ہوں میں
جب چمک جاتی ہے بجلی یاد آ جاتا ہے دل
ایک وہ دن تھے ،محبت سے تھا لطف زندگی
اب تو نام عشق سے بھی سخت گھبراتا ہے دل
کچھ نہ ہم کو علم رستے کا نہ منزل کی خبر
جا رہے ہیں بس جدھر ہم کو لے جاتا ہے دل
لاکھ کر لیتا ہوں عہد ان کو نہ دیکھوں گا کبھی
کچھ نہیں چلتی ہے اپنی جب مچل جاتا ہے دل
پھیر لیتا ہوں نگاہیں روک لیتا ہوں خیال
اور یہاں اتنے میں ہاتھوں سے نکل جاتا ہے دل

(گفتہء مجذوب)​
 

محمد یوسف صدیقی

وفقہ اللہ
رکن
آئے تھے کہنے حالِ دل بیٹھے ہیں لب سئے ہوئے
نیچی نظر کئے ہوئے اپنا سا منہ لئے ہوئے

چھیڑو نہ ہم کو زاہدو بیٹھے ہیں ہم پئے ہوئے

چاہتے ہو جو لَوٹنا زہد کو تم لئے ہوئے

کیسے گئے تھے شوق سے لینے اس آشنا کو ہم

ویسے کے ویسے آگئے اپنا سا منہ لئے ہوئے

جان سے عزیز کیوں مجھ کو نہ ہوں یہ داغِ دل

ہائے کسی کو کیا خبر کس کے ہیں یہ دئے ہوئے

کہنے کو ہجر ہے مگر دل کی کسی کو کیا خبر

پھرتے ہیں اُس نگار کو پہلو میں ہم لئے ہوئے

ہوگئے زندہ مردہ دل جب یہ سنا کہ وہ آئیں گے

جب یہ سنا نہ آئیں گے مر گئے پھر جئے ہوئے

چاہتے ہیں نہ فاش ہو اُن کو جو مجھ سے ربط ہے

رہتے ہیں سب کے سامنے خود کو جو وہ لئے ہوئے

(گفتہء مجذوب)​
 

محمد یوسف صدیقی

وفقہ اللہ
رکن
نازل بہت ہیں پاؤں مرے نونہال کے
آنکھیں بچائے حور تو پلکیں نکال کے
وہ سو رہے ہیں منہ پہ دوپٹہ جو ڈال کے
کن حسرتوں سے تکتے ہیں ارماں وسال کے
کیا کیا تھے شوق آج عروسِ جمال کے
اندھیر تو نے کر دیا گھو نگھٹ نکال کے
برسات میں یہ اُن کی ادا دے گئی مزا
چلنا اٹھا کے پائنچے دامن سنبھال کے
کم سِن ہیں ڈر نہ جائیں وہ شکل اس کی دیکھ کر
شب آئے منہ پہ چادرِ مہتاب ڈال کے
ہالہ میں چاند دیکھ کے یاد آگیا مجھے
کھڑکی سے جھانکنا وہ ترا منہ نکال کے
آیا جو چاند ابر میں آنکھوں میں پھر گیا
آنا وہ شب کو رُخ پہ نقاب اُن کا ڈال کے
یوں کوندتی ہیں ابر میں رہ رہ کے بجلیاں
یاد آئیں جیسے ہجرکی شب ،دن وصال کے
ابر سیہ میں برق منور نہیں حسن
آیا ہے مانگ کوئی پریرو نکال کے

(گفتہء مجذوب)​
 
Top