اَلْبِدْعَةُ عِنْدَ الأئِمَّةِ وَالْمُحَدِّثِيْن

Hunain

وفقہ اللہ
رکن

مَوْلَاي صَلِّ وَ سَلِّمْ دَآئِمًا اَبَدًا
عَلٰي حَبِيْبِکَ خَيْرِ الْخَلْقِ کُلِّهِم
اٰيَاتُ حَقٍّ مِّنَ الرَّحْمٰنِ مُحْدَثَةٌ
قَدِيْمَةٌ صِفَةُ الْمَوْصُوْفِ بِالْقِدَم


(صَلَّي اﷲُ تَعَالٰي عَلَيْهِ وَ عَلٰي آلِه وَ اَصْحَابِه وَ بَارِکْ وَسَلِّمْ)

تصور بدعت کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے اس مضمون میں ائمہ و محدّثین کے نزدیک بدعت کی تقسیم بیان کی گئی ہے۔ اکابر ائمہ اسلام نے کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ کے ذریعے اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ ہر بدعت ناجائز اور حرام نہیں ہوتی بلکہ صرف وہ بدعت ناجائز ہوتی ہے جس کی کوئی اصل، مثال یا نظیر کتاب و سنت میں موجود نہ ہو اور وہ شریعت کے کسی حکم کے واضح طور پر مخالف اور متضاد ہو۔ لیکن اس کے برعکس جو نیا کام احکام شریعت کے خلاف نہ ہو بلکہ ایسے امور میں داخل ہو جو اصلًا حسنات و خیرات اور صالحات کے زمرے میں آتے ہیں تو ایسے جملہ نئے کام محض لغوی اعتبار سے ’’بدعت‘‘ کہلائیں گے کیونکہ ’بدعت‘ کا لغوی معنی ہی ’’نیا کام‘‘ ہے ورنہ وہ شرعًا نہ تو بدعت ہوں گے اور نہ ہی مذموم اور نہ باعث ضلالت ہوں گے وہ مبنی بر خیر ’’امورِ حسنہ‘‘ تصور ہوں گے۔

تصورِ بدعت کے حوالے سے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ بعض اوقات ایک کام محض لغوی اِعتبار سے بدعت ہوتا ہے شرعی اِعتبار سے نہیں بعض لوگ کم فہمی کی وجہ سے بدعتِ لغوی کو ہی بدعتِ شرعی سمجھ کر حرام کہنے لگتے ہیں۔ لفظِ بدعت، چونکہ بَدَعَ سے ہے جس کے معنی ’’نیا کام‘‘ کے ہیں۔ اسلئے لُغوی اعتبار سے ہر نئے کام کو خواہ اچھا ہو یا برا، صالح ہو یا فاسد، مقبول ہو یا نا مقبول بدعت کہہ دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء اسلام نے بدعت کی ایک اصولی تقسیم یہ کی ہے کہ اسے بنیادی طور پر بدعت لغوی اور بدعتِ شرعی، دو اقسام میں منقسم کیا ہے اور بدعت کو بلا امتیاز و بلا تفریق صرف ایک ہی اکائی سمجھ کر ہر نئے کام کو جو عہدِ رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا عہدِ صحابہ کے بعد ایجاد ہوا یا رواج پذیر ہوا، مذموم، حرام اور باعث ضلالت قرار نہیں دیا۔ بلکہ کسی نئے کام کو ’’بدعۃِ لغویہ‘‘ کے زمرے میں لکھا ہے اور کسی کو ’’بدعۃِ شرعیۃ‘‘ کے زمرے میں اور صرف بدعتِ شرعیۃ کو ہی بدعتِ ضلالت قرار دیا ہے جبکہ بدعتِ لغویہ کو بالعموم بدعتِ حسنہ تصور کیا ہے۔

اس تقسیم کو صراحۃً بیان کرنے والوں میں منجملہ کثیر ائمہ دین اور علماء اعلام کے ابن تیمیہ، ابن کثیر، ابن رجب حنبلی، علامہ شوکانی اور علامہ بھوپالی سے لیکر شیخ عبد العزیز بن باز تک ایک خاص نقطۂ نظر رکھنے والے علماء بھی شامل ہیں۔ یہی تمام تفصیلات زیرِ نظر کتابچہ میں درج کی گئی ہیں۔ لہٰذا کسی بھی نئے عمل کی حلت و حرمت کو جانچنے کے لئے اسے دلیلِ شرعی کی طرف لوٹایا جائے گا۔ اگر وہ عمل موافقِ دلیل ہو تو ’’بدعتِ حسنہ‘‘ کہلائے گا اور اگر مخالفِ دلیل ہو تو ’’بدعتِ سیئہ‘‘ یا ’’بدعتِ مذمومہ‘‘۔

مختصراً یہ کہ بدعت کے در اصل دو اِطلاقات ہیں : ایک شرعی اور دوسرا لغوی۔ شرعی اِطلاق میں بدعت ’’محدثات الامور‘‘ کو شامل ہے اور یہی ’’بدعتِ سیّئہ‘‘ ہے۔ سو اس معنی میں ’’کل بدعۃ ضلالۃٌ‘‘ درست ہے، کیونکہ اس کا معنی و مراد ہی ’’کل بدعۃٍ سیّئۃٍ ضلالۃٌ‘‘ ہے۔ لیکن لغوی اِطلاق میں بدعت کی تقسیم ہوگی۔ اگر وہ مخالفِ دلیلِ شرعی یا منافی و ناسخِ سنّت ہو تو خود بخود ’’بدعت شرعی‘‘ ہو جائے گی اور وہی ’’بدعتِ سیّئہ‘‘ ’’بدعتِ مذمومہ‘‘ یا ’’بدعتِ ضلالۃ‘‘ ہوگی اگر مخالفِ شریعت نہ ہو اور نہ ہی ناسخِ سنّت ہو تو وہ مباح اور جائز ہوگی۔ پھر اس کی اہمیت و ضرورت اور افادیت و مصلحت کے اعتبار سے اس کی مزید درجہ بندی ہوگی، سو یا وہ فقط بدعتِ مباحہ ہوگی، یا بدعتِ مندوبہ (مستحبّہ) ہوگی یا بدعتِ واجبہ یعنی صورۃً وھیئۃً تو وہ کوئی نیا کام ہوگا مگر اصلًا و دلالۃً وہ امرِ خیر اور امر صالح ہوگا جسے شریعتِ اسلامیہ کے عمومی دلائل و احکام کی اصولی تائید میسّر ہوگی۔ اسی لئے تمام ائمہ و محدثین اور فقہاء و محققین نے ہر زمانے میںبدعت کی یہ تقسیم بیان کی ہے۔

اگر ہر نیا کام جو عہدِ رسالت مآب اور عہدِ صحابہ میں متداول اور معمول بہ نہ تھا محض اپنے نئے ہونے کی وجہ سے ناجائز قرار پائے تو تعلیماتِ دین اور فقہ اسلامی کا بیشتر حصہ ناجائز کے زمرے میں آجائے گا اور اجتہاد کی ساری صورتیں، قیاس، استحسان، مصالح مرسلہ، استحصاب، استدلال اور استنباط کی جملہ شکلیں ناجائز کہلائیں گی۔ اسی طرح دینی علوم و فنون مثلاً اُصولِ تفسیر، اصول حدیث، فقہ و اُصولِ فقہ، ان کی تدوین، اور ان کو سمجھنے کے لئے صرف و نحو، بلاغت و معانی، منطق و فلسفہ اور دیگر معاشرتی و معاشی جملہ علوم خادمہ جو فہمِِ دین کے لئے ضروری اور عصری تقاضوں کے مطابق لابدی ہیں ان کا سیکھنا، سکھانا بھی حرام قرار پائے گا کیونکہ یہ سب علوم و فنون اپنی موجودہ شکل میں نہ عہدِ رسالت میں موجود تھے نہ ہی عہدِصحابہ کرام میں، انہیں تو بعد میں ضرورت کے پیش نظر وضع اور مرتب کیا گیا۔ یہ تمام علوم و فنون اپنی ہیئت، اصول، اصطلاحات، تعریفات اور قواعد و ضوابط کے اعتبار سے نئے ہیں اس لئے بلا شک و شبہ بدعتِ لغوی کے زمرے میں آتے ہیں۔

اگر ہر نیا کام بدعتِ شرعی اور ضلالت و گمراہی قرار پائے تودینی مدارس کی مروجہ تعلیم و تدریس اور نصابات کا بیشتر حصّہ بھی گمراہی قرار پائے گا کیونکہ موجودہ درس نظامی کے نصابات کے مطابق درس و تدریس نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ اقدس میں تھی اور نہ ہی اس طرح کسی صحابی نے تعلیم حاصل کی تھی ان کا طریقہ نہایت سادہ تھا فقط قرآن و حدیث کا سماع و روایت، بلکہ قرآن حکیم کی موجودہ شکل میں طباعت و زیبائش سے لیکر حرم کعبہ اور مساجد کی پختہ تعمیر اور تزئین و آرائش تک بہت سے معاملات کا جواز بھی مجروح اور ساقط ہو جائے گا۔

اسی طرح یہ امر بھی نہایت اہم ہے کہ اگر کسی مسئلہ کا کوئی حل قرآن مجید اور سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں سے نہ ملے تو ’’اجتہاد‘‘ کرنا، یہ حکم نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور یہ حکم از خود نئے کام کو جو قرآن و سنّت میں نہ تھا محض خیر اور دینی ضرورت و مصلحت کی بنا پر نہ صرف جواز فراہم کر رہا ہے بلکہ خود اس عملِ اجتہاد کو بھی سنّت بنا رہا ہے۔ اس حقیقت پر حدیثِ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ شاہد عادل ہے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا قاضی بنا کر بھیجتے وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن سے پوچھا :

کيف تقضي إذا عرض لک قضاء قال : أقضي بکتاب اﷲ قال : فإن لم تجده في کتاب اﷲ قال : أقضي بسنة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : فإن لم تجده في سنة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : أجتهد برأي لا آلو قال : فضرب بيده في صدري و قال : الحمد ﷲ الذي وفّق رسول رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم لما يرضي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.

’’(اے معاذ) جب آپ کے سامنے کوئی معاملہ پیش کیا جائے گا تو آپ کس طرح اس کا فیصلہ کریں گے؟ تو انہوں نے عرض کیا : میں کتاب اﷲ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو اس معاملے کو کتاب اﷲ میں نہ پائے تو اس پر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ پھر میں سنت رسول کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ پھر حضور علیہ الصلاۃ و السلام نے فرمایا : اگر تو اس معاملے کا حل سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی نہ پائے تو انہوں نے عرض کیا کہ پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور کوئی کوتاہی نہیں کروں گا۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ شفقت میرے سینے پر مارا اور فرمایا تمام تعریفیں اس خدا کی ہیں جس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نمائندہ کو ایسی توفیق بخشی جو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کا سبب ہے۔‘‘

1. ترمذي، الجامع الصحيح، ابواب الأحکام، باب ما جاء في القاضي، 3 : 616، رقم : 1327
2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 10 : 114، رقم : 20339

مذکورہ حدیثِ مبارکہ میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے الفاظ ’’أَجْتَهِدُ بِرَأْي‘‘ اور اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ’’الحمد ﷲ الَّذي وفّق رسول رسول اﷲ لما يرضٰی رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم‘‘ سے ثابت ہوتا ہے کہ جو امر قرآن و سنت میں نہ ہو بلکہ اِجتہاد اور رائے محمود کی بنیاد پر طے کیا جائے تو یہ نہ صرف مستحسن ہے بلکہ بارگہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منظور شدہ طریق ہے۔ یہی اصول ’’بدعت حسنہ‘‘ میں کار فرما ہے جو اس حدیثِ مبارکہ سے ثابت ہے۔

اس سے یہ اصول وضع ہوتا ہے کہ اگر نفس الامر اور اس کا حل خود قرآن و سنّت سے ثابت نہیں تو اس کے حل کا طریق جو مبنی بر ’’رایء و اجتہاد‘‘ ہے وہ تو سنّت سے ثابت ہے۔ لہٰذا ’’نفس الامر اور اس کا حل‘‘ نیا ہونے کی بنا پر تو ’’بدعت‘‘ ہوئے مگر اس حل کا طریقِ مشروع ہے اس لئے تابع سنّت ہوا۔ سو ’’نئے پن‘‘ نے اس عمل کو بدعتِ لغوی بنایا تھا اور طریق کی مشروعیت نے اسے بدعت حسنہ بنا دیا۔ یہی وہ دائمی اصول ہے جو دین اسلام کی تعلیمات کو زمانوں اور معاشروں کے بدلتے ہوئے حالات اور زندگی کے نئے تقاضوں کی تکمیل کے لئے ابدالاباد تک تحرک اور تسلسل دیتا ہے، اسی اصول کے باعث اسلامی نظام حیات میں جمود پیدا نہیں ہونے پاتا۔ یہی اصول اسلامی احکام کی دائمی اور متحرک عملیّت اور لا یزال مطابقیت برقرار رکھتا ہے جس سے اس نظام کی تازگی ہمیشہ قائم رہتی ہے۔

اسی وجہ سے جب کوئی مجتہد حاکم خلوص نیت کے ساتھ کوئی حکم استنباط کرتا ہے اور وہ حکم درست ہوتا ہے تو اسے اﷲ کی طرف سے دو اَجر ملتے ہیں اور اگر وہ حکم درست نہ ہو بلکہ غلط ہو تو بھی اس مجتہد کو اپنے اجتہاد پر ایک اجر ملتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

إذَا حَکَمَ الحَاکِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ اَصَابَ فَلَه اَجْرَانِ وَ اِذَا حَکَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ اَخْطَأَ فَلَه اَجْرٌ.

’’جب کوئی حاکم اجتہاد سے فیصلہ کرے اور صحیح فیصلہ کردے تو اس کے لئے دو اجر ہیں اور جب اجتہاد سے فیصلہ کرے اور اس سے غلطی ہو جائے تو بھی اس کے لئے ایک اجر ہے۔‘‘

بخاري، الصحيح، کتاب الاعتصام، باب اجر الحاکم اِذا اجتهد، 6 : 2676، رقم : 6919

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر حوصلہ افزائی کیوں؟ کہ غلطی اور خطا پر بھی ’’اجر‘‘ ملے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اگر مجتہدین و محققین نظام الاحکام کو صرف عہدِ رسالت اور عہدِ صحابہ کے قضایا اور نظائر تک محدود رکھتے اور نئے اقدامات کو بدعت سمجھ کر چھوڑ دیتے تو قدیم اور جدید میں فاصلے بر قرار رہتے۔ نتیجۃً اس فاصلے کے باعث اسلامی طرزِ زندگی میں جمود آسکتا تھا، چونکہ مجتہد نئے فیصلوں کے ذریعے امکانِ جمود کو ختم کرتا ہے، احکامِ شریعت کے تحرک و تسلسل کے برقرار رہنے کا باعث بنتا ہے۔ سو اخلاص اور نیک نیتی پر مبنی اس کی اس جرات کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ فیصلہ صاف ظاہر ہے ایک ’’نیا قدم‘‘ ہی ہوگا۔ اگر نصوصِ قرآن و سنّت یا عہدِ رسالت و عہدِ صحابہ سے ثابت ہوتا تو اجتہاد نہ کہلاتا بلکہ وہ حکم منصوص ہی ہوتا۔ چونکہ وہ اساسی مصادر سے یا زمانہ تشکیلِ سنّت سے ثابت نہیں ہے اس لئے لغّۃً بدعت ہے، طریقۃً اجتھاد ہے، ضرورۃً مصلحت ہے اور حکمًا ’’حسنہ‘‘ ہے۔ اسے بدعت حسنہ کہتے ہیں۔ یہی ’’اجتہادِ ماجور‘‘ ہے اور یہ حکم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اور اصلًا سنّتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع ہے۔

بدعت کے اس تصور اور تقسیم کی بنیاد بھی خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قائم فرمائی ہے۔ جو اس حدیث صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صاف ظاہر ہے۔

من سن فی الاسلام سنة حسنة فله أجرها و أجر من عمل بها بعده من غير أن ينقص من أجورهم شئ ومن سن في الاسلام سنة سيئة کان عليه وزرها و وزر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أوزارهم شيئ.

’’جس شخص نے اسلام میں کسی نیک کام کی ابتداء کی اس کو اپنے عمل کا بھی اجر ملے گا اور بعد میں عمل کرنے والوں کے عمل کا بھی اجر ملے گا اور ان عاملین کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس نے اسلام میں کسی برے عمل کی ابتدا کی اسے اپنے عمل کا بھی گناہ ہوگا اور بعد میں عمل کرنے والوں کے عمل کا بھی گناہ ہوگا اور ان عاملین کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017

اگر کچھ تعمّق اور تفکّر سے کام لیا جائے تو یہ واضح ہو جائیگا کہ یہاں لفظ ’’سنّت‘‘ سے مراد سنّتِ شرعی نہیں ہے بلکہ یہ سنّتِ لغوی ہے۔

گویا لفظ بدعت کی طرح لفظ سنّت کا استعمال دو طرح پر ہے۔ اگر ’’من سنَّ فی الاسلام سنّۃً‘‘ سے مراد یہاں پر شرعی معنی میں سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا سنّتِ صحابہ ہوتی تو اسے ’’سنۃ حسنۃ‘‘ اور ’’سنۃ سیّئۃ‘‘ میں ہرگز تقسیم نہ کیا جاتا۔ کیونکہ سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ہمیشہ ’’حسنۃ‘‘ ہی ہوتی ہے۔ اس کے سیّئہ ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہاں پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لفظ تو ’’سنّت‘‘ کا استعمال فرمایا ہے مگر اس کے اطلاق میں حسنہ اور سیّئہ دو اقسام بیان کی ہیں اور ایک پر اجر اور دوسری قسم پر گناہ مترتب فرمایا گیا ہے۔ سو معلوم ہوا یہاں پر ’’سنّت‘‘ کی تقسیم تو حسنہ اور سیّئہ میں صراحتًا کر دی گئی ہے۔ اس سے انکار کی بھی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ اب اس کی وجہ تلاش کرنا ہوگی۔ تو سوائے اس کے اور کوئی وجہ نہیں کہ یہاں لفظ سنّت اپنے لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے نہ کہ شرعی معنی میں۔ اور اس سے مراد کوئی ’’نیا راستہ‘‘ نکالنا ہے۔

اب غور طلب امر یہ ہے کہ جب لفظِ سنّت بھی، لغوی اور شرعی تقسیم کے ساتھ خود حسنہ اور سیّئہ کی دو قسموں پر حدیث سے ثابت ہوگیا تو لفظِ بدعت کو اسی اصول پر حسنہ اور سیّئہ کی دو اقسام پر تسلیم کرنے میں کون سا امر مانع رہ گیا۔ سوائے ضد، ہٹ دھرمی یا جہالت اور لا علمی کے۔ پھر اس اصول کی تصریح سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے مبارک ارشاد سے فرما دی ہے جسے امام بخاری نے ’’الجامع الصحیح‘‘ میں روایت کیا ہے۔

خرجت مع عمر بن الخطاب رضي الله عنه ليلة في رمضان إلي المسجد فإذا الناس أوزاع متفرقون يصلي الرجل لنفسه و يصلي الرجل فيصلي بصلاته الرهط، فقال عمر : إني أري لو جمعت هؤلاء علي قارئ واحد لکان أمثل ثم عزم فجمعهم علي أبي بن کعب ثم خرجت معه ليلة أُخري والناس يصلون بصلوة قارئهم، قال عمر : نعم البدعة هذه والتي ينامون عنها أفضل من التي يقومون يريد آخر الليل و کان الناس يقومون أوّله.

’’میں حضرت عمرص کے ساتھ رمضان کی ایک رات مسجد کی طرف نکلا تو لوگ متفرق تھے ایک آدمی تنہا نماز پڑھ رہا تھا اور ایک آدمی گروہ کے ساتھ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے خیال میں انہیں ایک قاری کے پیچھے جمع کردیا جائے تو اچھا ہوگا، پس آپ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پیچھے سب کو جمع کردیا۔ پھر میں دوسری رات کو ان کے ساتھ نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے قاری کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ کتنی اچھی بدعت ہے اور رات کا وہ حصہ جس میں لوگ سو جاتے اس سے بہتر وہ حصہ ہے جس میں وہ قیام کرتے ہیں مراد رات کا آخری حصہ تھا جبکہ لوگ پہلے حصے میں قیام کرتے تھے۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، 2 : 707، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، رقم : 1906

آپ نے غور فرمایا کہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے نماز تراویح کے بعد باجماعت اہتمام کو ’’بدعت‘‘ بھی کہا اور ’’نعمۃ‘‘ یعنی ’’حسنۃ‘‘ بھی کہا۔ وجہ یہی تھی کہ یہ کام اپنی ظاہری حالت اور ہیئت کے حوالے سے نیا تھا۔ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اختیار نہیں فرمایا تھا اس لئے اسے ’’بدعۃً‘‘ کہا۔ مگر باعثِ خیر اور مبنی بر مصلحت تھا اس لئے اسے ’’نعمۃ یعنی حسنۃ ‘‘ قرار دیدیا۔

سو بدعت کی اس تقسیم کی بنیاد بعد کے ائمہ و محدثین اور علماء و فقہاء اسلام نے ہرگز نہیں رکھی۔ بلکہ انہوں نے ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سنّتِ خلفائے راشدین کی ہی تشریح و توضیح کی ہے۔ اور اسے خاص علمی نظم کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔

ہماری بد قسمت یہ ہے کہ کئی مدعیانِ علم رائے تصور اور عقیدۂ و نظریہ پہلے قائم کر لیتے ہیں اور قرآن و حدیث کا مطالعہ اس کے تابع ہو کر کرتے ہیں اس لئے نفسِ مسئلہ کی صحیح معرفت نصیب نہیں ہوتی۔ اگر اہل علم دامنِ ذہن کو خالی رکھ کر یعنی اسے پہلے سے Engage کئے بغیر پہلی خیرات ہی قرآن و حدیث اور آثارِ صحابہ سے لیں تو تصورات یکسر بدل جائیں گے۔ احقر نے اپنی ’’کتاب البدعۃ‘‘ میں اسی حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور زیرِ نظر کتابچہ اس پوری بحث کا فقط ایک باب ہے کہ ’’البدعۃ‘‘ کی تقسیم کو ائمہ و محدثین نے کس طرح بیان کیا ہے۔ اگر یہ بات سمجھ میں آجائے تو کم از کم مسلمانوں پر ’’فتاوائے بدعت‘‘ کی بوچھاڑ کم ہو جائے گی۔ جو یقینًا مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب ہونے میں مدد دے گی۔
 

Hunain

وفقہ اللہ
رکن
(1) امام محمد بن اِدریس بن عباس الشافعی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 204ھ)

امام بیہقی (المتوفی 458 ھ) نے اپنی سند کے ساتھ ’’مناقبِ شافعی‘‘ میں روایت کیا ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بدعت کی تقسیم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :

1. المحدثات من الأمور ضربان : أحدهما ما أحدث مما يخالف کتاباً أوسنة أو اثرًا أو إجماعاً فهذه البدعة ضلالة، و الثانية ما أحدث من الخير لا خلاف فيه لواحد من هذا فهذه محدثة غير مذمومة، قد قال عمر رضي الله عنه في قيام رمضان نعمت البدعة هذه(1) يعني إِنَّها محدثة لم تکن و إِذا کانت ليس فيها ردُّ لما مضي. (2)

’’محدثات میں دو قسم کے امور شامل ہیں : پہلی قسم میں تو وہ نئے امور ہیں جو قرآن و سنت یا اثر صحابہ یا اجماع امت کے خلاف ہوں وہ بدعت ضلالہ ہے، اور دوسری قسم میں وہ نئے امور ہیں جن کو بھلائی کے لیے انجام دیا جائے اور کوئی ان میں سے کسی (امرِ شریعت) کی مخالفت نہ کرتا ہو پس یہ امور یعنی نئے کام محدثہ غیر مذمومۃ ہیں۔ اسی لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رمضان میں تراویح کے قیام کے موقع پر فرمایا تھا کہ ’’یہ کتنی اچھی بدعت ہے یعنی یہ ایک ایسا محدثہ ہے جو پہلے نہ تھا اور اگر یہ پہلے ہوتا تو پھر مردود نہ ہوتا۔‘‘

1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250
4. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266
5. زرقاني، شرح الزرقاني علي موطا الامام مالک، 1 / 340


1. بيهقي، المدخل الي السنن الکبريٰ، 1 : 206
2. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 8 : 408
3. نووي، تهذيب الاسماء واللغات، 3 : 21

علامہ ابن رجب حنبلی (795ھ) اپنی کتاب ’’جامع العلوم والحکم‘‘ میں تقسیمِ بدعت کے تناظر میں اِمام شافعی کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں :

2. وقد روي الحافظ أبو نعيم بإسناد عن إبراهيم ابن الجنيد قال : سمعت الشافعي يقول : البدعة بدعتان : بدعة محمودة و بدعة مذمومة، فما وافق السنة فهو محمود، وما خالف السنة فهو مذموم. واحتجّ بقول عمر رضي الله عنه : نعمت البدعة هي. (1) و مراد الشافعي رضي الله عنه ما ذکرناه من قبل أن أصل البدعة المذمومة ما ليس لها أصل في الشريعة ترجع إليه و هي البدعة في إطلاق الشرع. وأما البدعة المحمودة فما وافق السنة : يعني ما کان لها أصل من السنة ترجع إليه، و إنما هي بدعة لغة لا شرعا لموافقتها السنة. وقد روي عن الشافعي کلام آخر يفسر هذا و أنه قال : المحدثات ضربان : ما أحدث مما يخالف کتابا أو سنة أو أثرا أو إجماعا فهذه البدعة الضلالة، وما أحدث فيه من الخير لا خلاف فيه لواحد من هذا و هذه محدثة غير مذمومة، و کثير من الأمور التي أحدثت ولم يکن قد اختلف العلماء في أنها بدعة حسنة حتي ترجع إلي السنة أم لا. فمنها کتابة الحديث نهي عنه عمر وطائفة من الصحابة و رخص فيها الأکثرون واستدلوا له بأحاديث من السنة. ومنها کتابة تفسير الحديث والقرآن کرهه قوم من العلماء و رخص فيه کثير منهم. وکذلک اختلافهم في کتابة الرأي في الحلال والحرام و نحوه. و في توسعة الکلام في المعاملات و أعمال القلوب التي لم تنقل عن الصحابة والتابعين. (2)

1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح موطا مالک، 1 / 105، رقم : 250
4. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266
5. زرقاني، شرح الزرقاني علي موطا الامام مالک، 1 / 340


ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم : 4 - 253

’’حافظ ابو نعیم نے ابراہیم بن جنید کی سند سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں۔

1۔ بدعت محمودہ
2۔ بدعت مذمومۃ

جو بدعت سنت کے مطابق و موافق ہو وہ محمودہ ہے اور جو سنت کے مخالف و متناقض ہو وہ مذموم ہے اور انہوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول (نعمت البدعۃ ھذہ) کو دلیل بنایا ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی مراد بھی یہی ہے جو ہم نے اس سے پہلے بیان کی ہے بے شک بدعت مذمومہ وہ ہے جس کی کوئی اصل اور دلیل شریعت میں نہ ہو جس کی طرف یہ لوٹتی ہے اور اسی پر بدعت شرعی کا اطلاق ہوتا ہے اور بدعت محمودہ وہ بدعت ہے جو سنت کے موافق ہے یعنی اس کی شریعت میں اصل ہو جس کی طرف یہ لوٹتی ہو اور یہی بدعت لغوی ہے شرعی نہیں ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے دوسری دلیل اس کی وضاحت پر یہ ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ محدثات کی دو اقسام ہیں پہلی وہ بدعت جو کتاب و سنت، اثر صحابہ اور اجماع اُمت کے خلاف ہو یہ بدعت ضلالہ ہے اور ایسی ایجاد جس میں خیر ہو اور وہ ان چیزوں (یعنی قرآن و سنت، اثر اور اجماع) میں سے کسی کے خلاف نہ ہو تو یہ بدعتِ غیر مذمومہ ہے اور بہت سارے امور ایسے ہیں جو ایجاد ہوئے جو کہ پہلے نہ تھے جن میں علماء نے اختلاف کیا کہ کیا یہ بدعت حسنہ ہے۔ یہاں تک کہ وہ سنت کی طرف لوٹے یا نہ لوٹے اور ان میں سے کتابت حدیث ہے جس سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور صحابہ کے ایک گروہ نے منع کیا ہے اور اکثر نے اس کی اجازت دی اور استدلال کے لیے انہوں نے کچھ احادیث سنت سے پیش کی ہیں اور اسی میں سے قرآن اور حدیث کی تفسیر کرنا جس کو قوم کے کچھ علماء نے ناپسند کیا ہے اور ان میں سے کثیر علماء نے اس کی اجازت دی ہے۔ اور اسی طرح حلال و حرام اور اس جیسے معاملات میں اپنی رائے سے لکھنے میں علماء کا اختلاف ہے اور اسی طرح معاملات اور دل کی باتیں جو کہ صحابہ اور تابعین سے صادر نہ ہوئی ہوں ان کے بارے میں گفتگو کرنے میں بھی علماء کا اختلاف ہے۔‘‘

(2) اِمام ابو عبداﷲ محمد بن احمد القرطبی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 380ھ)

معروف مفسرِ قرآن اِمام ابو عبداﷲ محمدبن احمد قرطبی بدعت کی مختلف اقسام بیان کرتے ہوئے اپنی معروف تفسیر ’’الجامع لاحکام القرآن‘‘ میں فرماتے ہیں :

3. کل بِدعة صدرت من مخلوق فلا يخلو أن يکون لها أصل في الشرع أولا؛ فإن کان لها أصل کانت واقعة تحت عموم ما ندب اﷲ إليه و حضّ رسوله عليه؛ فهي في حيز المدح. وإن لم يکن مثاله موجودا کنوع من الجود والسخاء و فعل المعروف؛ فهذا فعله من الأفعال المحمودة، وإن لم يکن الفاعل قد سبق إليه. و يعْضُدْ هذا قول عمر رضی الله عنه : نعمت البدعة هذه؛ لما کانت من أفعال الخير و داخلة في حيز المدح، وهي وإن کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم قد صلاها إلا أنه ترکها ولم يحافظ عليها، ولا جمع الناس عليها؛ فمحافظة عمر رضی الله عنه، عليها وجمع الناس لها، وندبهم إليها، بدعة لکنها بدعة محمودة ممدوحة. وإن کانت في خلاف ما أمرﷲ به ورسوله فهي في حيّز الذم والإنکار؛ قال معناه الخطابي و غيره

قلت : وهو معني قوله صلي الله عليه وآله وسلم في خطبته : ’’وشَرُّ الأمور محدثاتها وکل بدعة ضلالة‘‘(1) يريد مالم يوافق کتابا أو سنة، أو عمل الصحابة رضي اﷲ عنهم، وقد بين هذا بقوله : ’’مَنْ سَنّ فِي الإسلام سُنَّة حسنة کان له أجرها و أجر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أجورهم شيء ومَن سنّ في الإسلام سُنَّة سيئة کان عليه وزرُها ووزر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أوزارهم شيئ‘‘. (2) وهذا إشارة إلي ما ابتدع من قبيح و حسن.(3)

’’ہر بدعت جو مخلوق سے صادر ہوتی ہے دوحالتوں سے خالی نہیں ہوتی وہ یہ کہ اس کی اصل شریعت میں ہوتی ہے یا نہیں اگر اس کی اصل شریعت میں ہو تو پھر وہ لازمی طور پر عموم کے تحت واقع ہوگی جس کو اﷲ تعاليٰ نے مستحب قرار دیا ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم پر برانگیختہ کیا ہو پس یہ بدعت مقامِ مدح میں ہوگی اور اگر ان کی مثال پہلے سے موجود نہ ہو جیسے جود و سخاء وغیرہ کی اقسام اور معروف کام تو ایسے امور کا سر انجام دینا افعال محمودہ میں سے ہے چاہے کسی نے یہ کام پہلے نہ کئے ہوں اور یہ عمل حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول، ’’ نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ کو تقویت دیتا ہے جو کہ اچھے کاموں میں سے تھی اور وہ محمود کاموں میں داخل ہیں اور وہ یہ ہے کہ بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز تراویح کو پڑھا تھا مگر آپ نے اسے (باجماعت) ترک کر دیا اور اس کی محافظت نہیں فرمائی اور نہ ہی لوگوں کو اس کے لئے جمع کیا پس (بعد میں مصلحت وقت کے تحت) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس (نمازِ تراویح) کی محافظت کی اور لوگوں کو اس کے لئے جمع کیا اور انہوں نے لوگوں کو اس کی ترغیب دی تو وہ بدعت ہوئی لیکن بدعت محمودہ اور ممدوحہ ہے اور اگر وہ بدعت اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو تو وہ مقام ذم میں ہوگی اور یہ معنی خطابی اور دیگر نے بھی کیا ہے تو امام قرطبی کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ وہی معنی آقا علیہ السلام کے خطبہ سے بھی ثابت ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’وشرالامور محدثاتہا و کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ اور اس سے مراد وہ کام ہے جو کتاب و سنت اور عمل صحابہ کے موافق نہ ہو اور یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول سے بھی واضح ہوتی ہے کہ ’’جس نے اسلام میں کسی اچھی چیز کی ابتداء کی اس کو اپنا اجر بھی ملے گا اور اس کے بعد جو لوگ اس کام کو کریں گے ان کے عمل کا اجر بھی اسے ملے گا اور ان کے اجر میں ذرّہ برابر بھی کمی نہیں ہوگی اور جس کسی نے اسلام میں کسی بری چیز کی ابتداء کی تو اس پر اپنی برائی کا وبال بھی ہوگا اور اس کے بعد اس پر عمل کرنے والوں کی برائی کا وبال بھی اس پر ہوگا اور ان کے وبال میں سے کوئی کمی نہ کی جائے گی‘‘ اور یہ اشارہ اس کی طرف ہے جس نے کسی اچھے یا برے کام کی ابتداء کی۔

1. ابن ماجه، السنن، باب اجتناب البدع الجدل، 1 / 18، رقم : 46
2. ابن حبان، الصحيح، 1 / 186، رقم : 10
3. طبراني، المعجم الکبير، 9 / 96، رقم : 8518
4. ابويعلي، المسند، 4 / 85، رقم : 2111
5. ديلمي، المسند الفردوس، 1 / 380، رقم : 1529


1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017
2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم : 2554
3. ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357 - 359
5. ابن حبان، الصحيح، 8 : 101، 102، رقم : 3308


قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 2 : 87

(3) اِمام علی بن اَحمد ابن حزم الاندلسی رحمۃ اللہ علیہ (456 ھ)

اِمام ابن حزم اندلسی اپنی کتاب ’’الاحکام فی اُصول الاحکام‘‘ میں بدعت کی تعریف اور تقسیم بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :

4. والبدعة کل ما قيل أو فعل مما ليس له أصل فيما نسب إليه صلي الله عليه وآله وسلم و هو في الدين کل مالم يأت في القرآن ولا عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إلا أن منها ما يؤجر عليه صاحبه و يعذر بما قصد إليه من الخير و منها ما يؤجر عليه صاحبه و يکون حسنا و هو ماکان أصله الإباحة کما روي عن عمر رضي الله عنه نعمت البدعة هذه(1) و هو ما کان فعل خير جاء النص بعموم استحبابه و إن لم يقرر عمله في النص و منها ما يکون مذموما ولا يعذر صاحبه و هو ما قامت به الحجة علي فساده فتمادي عليه القائل به. (2)

’’بدعت ہر اس قول اور فعل کو کہتے ہیں جس کی دین میں کوئی اصل یا دلیل نہ ہو اور اس کی نسبت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کی جائے لہٰذا دین میں ہر وہ بات بدعت ہے جس کی بنیاد کتاب و سنت پر نہ ہو مگر جس نئے کام کی بنیاد خیر پر ہو تو اس کے کرنے والے کو اس کے اِرادئہ خیر کی وجہ سے اَجر دیا جاتا ہے اور یہ بدعتِ حسنہ ہوتی ہے اور یہ ایسی بدعت ہے جس کی اصل اباحت ہے۔ جس طرح کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا نعمت البدعۃ ہذہ قول ہے۔ اور یہ وہی اچھا عمل تھا جس کے مستحب ہونے پر نص وارد ہوئی اگرچہ پہلے اس فعل پر صراحتاً نص نہیں تھی اور ان (بدعات) میں سے بعض افعال مذموم ہوتے ہیں لہٰذا اس کے عامل کو معذور نہیں سمجھا جاتا اور یہ ایسا فعل ہوتا ہے جس کے ناجائز ہونے پر دلیل قائم ہوتی ہے اور اس کا قائل اس پر سختی سے عامل ہوتا ہے۔‘‘

1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250
4. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266


ابن حزم الاندلسي، الاحکام في اُصول الاحکام، 1 : 47

(4) اِمام ابوبکر احمد بن حسین البیہقی رحمۃ اللہ علیہ (458 ھ)

امام ابوبکر احمد بن حسین البیہقی اپنی کتاب ’’المدخل الی السنن الکبريٰ‘‘ میں ربیع بن سلیمان سے روایت کرتے ہیں کہ :

5. قال الشافعي رضي الله عنه المحدثات من الأمور ضربان : أحدهما ما أحدث مما يخالف کتاباً أوسنة أو اثرًا أو إجماعاً فهذه البدعة ضلالة، و الثانية ما أحدث من الخير لا خلاف فيه لواحد من هذا فهذه محدثة غير مذمومة، قد قال عمر رضي الله عنه في قيام رمضان نعمت البدعة هذه(1) يعني إِنَّها محدثة لم تکن و إِذا کانت ليس فيها ردُّ لما مضي. (2)

’’محدثات میں دو قسم کے امور شامل ہیں : پہلی قسم میں تو وہ نئے امور ہیں جو قرآن و سنت یا اثر صحابہ یا اجماع امت کے خلاف ہوں وہ بدعت ضلالہ ہے، اور دوسری قسم میں وہ نئے امور ہیں جن کو بھلائی کے لیے انجام دیا جائے اور کوئی ان میں سے کسی (امرِ شریعت) کی مخالفت نہ کرتا ہو پس یہ امور محدثہ غیر مذمومۃ ہیں۔ اسی لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رمضان میں تراویح کے قیام کے موقع پر فرمایا تھا کہ ’’یہ کتنی اچھی بدعت ہے۔ یعنی یہ ایک ایسا محدثہ یعنی نیا عمل ہے جو پہلے نہ تھا اور اگر یہ پہلے ہوتا تو پھر مردود نہ ہوتا۔‘‘

1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250
4. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266
5. زرقاني، شرح الزرقاني علي مؤطا الامام مالک، 1 / 340


1. بيهقي، المدخل الي السنن الکبري، 1 : 206
2. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 8 : 408
3. نووي، تهذيب الاسماء واللغات، 3 : 21

(5) اِمام ابو حامد محمد بن محمد الغزالی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 505ھ)

امام ابوحامد محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب’’احیاء علوم الدین‘‘ میں بدعت کے حوالے سے رقمطراز ہیں :

6. فليس کل ما أبدع منهيا بل المنهي بدعة تضاد سُنة ثابتة و ترفع أمرا من الشرع مع بقاء علته بل الابداع قد يجب في بعض الاحوال إذا تغيرت الأسباب وليس في المائدة إلا رفع الطعام عن الأرض لتيسير الأکل و أمثال ذلک مما لا کراهة فيه. والأربع التي جمعت في أنها مبدعة ليست متساوية بل الأشنان حسن لما فيه من النظافة فإن الغسل مستحب للنظافة والأشنان أتم في التنظيف، وکانوا لا يستعملونه لأنه ربما کان لا يعتاد عندهم أو لا يتيسر، أو کانوا مشغولين بأمور أهم من المبالغة في النظافة فقد کانوا لا يغسلون اليد أيضا، وکانت مناديلهم أخمص أقدامهم وذلک لا يمنع کون الغسل مستحبا. و أما المنخل فالمقصود منه تطييب الطعام وذلک مباح مالم ينته إلي التنعم المفرط. و أما المائدة فتيسير للأکل و هو أيضا مباح مالم ينته إلي الکبر والتعاظم. و أما الشبع فهو أشد هذه الأربعة فإنه يدعو إلي تهييج الشهوات و تحريک الأدواء في البدن فلتدرک التفرقة بين هذه البدعات.

’’ہر بدعت ممنوع نہیں ہوتی بلکہ ممنوع صرف بدعت وہ ہوتی ہے جو سنتِ ثابتہ سے متضاد ہو اور اس سنت کی علت کے ہوتے ہوئے اَمرِ شریعت کو اٹھادے (مزید برآں) بعض احوال میں جب اسباب متغیر ہوجائیں تو بدعت واجب ہوجاتی ہے اور بلند دسترخوان میں یہی بات تو ہے کہ کھانے کی آسانی کے لیے کھانے کو زمین سے بلند کیا جاتا ہے اور اس قسم کے کاموں میں کراہت نہیں ہوتی۔ جن چار باتوں کو جمع کیا گیا کہ یہ بدعت ہیں تو یہ سب برابر بھی نہیں ہیں بلکہ اُشنان (ایک بوٹی جو صفائی کے کام آتی ہے) اچھی چیز ہے کیونکہ اس میں نظافت ہے کیونکہ پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے غسل مستحب ہے اور اُشنان اس نظافت کو مکمل کرتی ہے اور وہ لوگ اس لیے استعمال نہیں کرتے تھے کہ ان کی عادت نہیں تھی یا انہیں حاصل نہیں ہوتی تھی۔ یا وہ نظافت سے زیادہ اہمیت کے کاموں میں مشغول ہوتے تھے بعض اوقات وہ ہاتھ بھی نہیں دھوتے تھے اور ان کے رومال پاؤں کے تلوے ہوتے تھے (یعنی پاؤں کے تلوؤں سے ہاتھ صاف کرلیتے تھے) اور یہ عمل، دھونے کے استحباب کے خلاف نہیں، چھلنی سے مقصود کھانے کو صاف کرنا ہوتا ہے اور یہ جائز ہے جب تک حد سے متجاوز عیاشی کی طرف نہ لے جائے۔ اونچے دسترخوان سے چونکہ کھانا کھانے میں آسانی ہوتی ہے لہٰذا یہ بھی جائز ہے جب تک تکبر اور بڑائی پیدا نہ کرے شکم سیری ان چاروں میں سے زیادہ سخت ہے کیونکہ اس سے خواہشات ابھرتی ہیں اور بدن میں بیماریاں پیدا ہوتی ہیں تو ان چاروں بدعات میں فرق معلوم ہونا چاہے۔‘‘

غزالي، إحياء علوم الدين، 2 : 3
 

Hunain

وفقہ اللہ
رکن
(6) اِمام مبارک بن محمد ابن اثیر الجزری رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 606ھ)

علامہ ابن اثیر جزری حدیثِ عمر ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ (بخاری، رقم : 1906) کے تحت بدعت کی اقسام اور ان کا شرعی مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

7. البدعة بدعتان : بدعة هدًي، و بدعة ضلال، فما کان في خلاف ما أمر اﷲ به و رسوله صلي الله عليه وآله وسلم فهو في حيز الذّم والإنکار، وما کان واقعا تحت عموم ما ندب اﷲ إليه و حضَّ عليه اﷲ أو رسوله فهو في حيز المدح، وما لم يکن له مثال موجود کنوع من الجود والسخاء و فعل المعروف فهو من الأفعال المحمودة، ولا يجوز أن يکون ذلک في خلاف ما ورد الشرع به؛ لأن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قد جعل له في ذلک ثوابا فقال من سنّ سُنة حسنة کان له أجرها و أجر من عمل بها وقال في ضِدّه ومن سنّ سنة سيّئة کان عليه وزرُها ووِزرُ من عمل بها(1) وذلک إذا کان في خلاف ما أمر اﷲ به ورسوله صلي الله عليه وآله وسلم ومن هذا النوع قول عمر رضی الله عنه : نِعمت البدعة هذه(2). لمَّا کانت من أفعال الخير وداخلة في حيز المدح سماها بدعة ومدحها؛ لأن النبي صلي الله عليه وآله وسلم لم يسُنَّها لهم، و إنما صلّاها ليالي ثم ترکها ولم يحافظ عليها، ولا جمع الناس لها، ولا کانت في زمن أبي بکر، وإنما عمر رضی الله عنه جمع الناس عليها و ندبهم إليها، فبهذا سمّاها بدعة، وهي علي الحقيقة سُنَّة، لقوله صلي الله عليه وآله وسلم (عليکم بِسُنَّتي و سنَّة الخلفاء الراشدين من بعدي)(3) وقوله (اقتدوا باللذين من بعدي أبي بکر و عمر)(4) و علي هذا التأويل يحمل الحديث الآخر (کل مُحْدَثة بدعة) إنما يريد ما خالف أصول الشريعة ولم يوافق السُّنَّة(5).

’’بدعت کی دو قسمیں ہیں، بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ. جو کام اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو وہ مذموم اور ممنوع ہے، اور جو کام کسی ایسے عام حکم کا فرد ہو جس کو اللہ تعاليٰ نے مستحب قرار دیا ہو یا اللہ تعاليٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم پر برانگیختہ کیا ہو اس کام کا کرنا محمود ہے اور جن کاموں کی مثال پہلے موجود نہ ہو جیسے سخاوت کی اقسام اور دوسرے نیک کام، وہ اچھے کام ہیں بشرطیکہ وہ خلاف شرع نہ ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے کاموں پر ثواب کی بشارت دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس شخص نے اچھے کام کی ابتداء کی اس کو اپنا اجر بھی ملے گا اور جو لوگ اس کام کو کریں گے ان کے عمل کا اجر بھی ملے گا اور اس کے برعکس جو برے کام کی ابتداء کرے گا اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے برے کام کی ابتداء کی اس پر اپنی برائی کا وبال بھی ہو گا اور جو اس برائی کو کریں گے ان کا وبال بھی اس پر ہو گا اور یہ اس صورت میں ہے جب وہ کام اللہ تعاليٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو اور اِسی قسم یعنی بدعتِ حسنہ کے بارے میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ قول ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ ہے پس جب کوئی کام افعالِ خیر میں سے ہو اور مقام مدح میں داخل ہو تو اسے لغوی اعتبار سے بدعت کہا جائے گا مگر اس کی تحسین کی جائے گی کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باجماعت نماز تراویح کو ان کے لئے مسنون قرار نہیں دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند راتیں اس کو پڑھا پھر باجماعت پڑھنا ترک کر دیا اور اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ محافظت فرمائی اور نہ ہی لوگوں کو اس کے لئے جمع کیا، بعد میں نہ ہی یہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور میں باجماعت پڑھی گئی پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اس پر جمع کیا اور ان کو اس کی طرف متوجہ کیا پس اس وجہ سے اس کو بدعت کہا گیا درآں حالیکہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول ’’علیکم بسنّتی و سنۃ الخلفاء الراشدین من بعدی‘‘ اور اس قول’’اقتدوا باللذین من بعدی ابی بکر و عمر‘‘ کی وجہ سے حقیقت میں سنت ہے پس اس تاویل کی وجہ سے حدیث ’’کل محدثۃ بدعۃ‘‘ کو اصول شریعت کی مخالفت اور سنت کی عدم موافقت پر محمول کیا جائے گا۔

1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017
2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم : 2554
3. ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359
5. دارمي، السنن، 1 : 141، رقم : 514


1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250


1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة، رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126


1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب عن الرسول صلي الله عليه وآله وسلم ، باب مناقب ابي بکر و عمر، 5 / 609، رقم : 3662
2. ابن ماجه، السنن، باب في فضل اصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 / 37، رقم : 97
3. حاکم، المستدرک، 3 / 79، رقم : 4451


ابن أثير جزري، النهاية في غريب الحديث والأثر1 : 106

(7) اِمام عز الدین عبدالعزیز بن عبد السلام رحمۃ اللہ علیہ (660ھ)

سلطان العلماء امام عز الدین عبدالعزیز بن عبد السلام السلمی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ ’’قواعد الاحکام فی اصلاح الانام‘‘ میں بدعت کی پانچ اقسام اور ان کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

8. البدعة فعل مالم يعهد في عصر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وهي منقسمة إلي بدعة واجبة و بدعة محرمة و بدعة مندوبة و بدعة مکروهة و بدعة مباحة قال والطريق في معرفة ذلک أن تعرض البدعة علي قواعد الشريعة، فان دخلت في قواعد الايجاب فهي واجبة، و إن دخلت في قواعد التحريم فهي محرمة، و إن دخلت في قواعد المندوب فهي مندوبة، و ان دخلت في قواعد المکروه فهي مکروهة، و ان دخلت في قواعد المباح فهي مباحة، و للبدع الواجبة أمثلة منها الاشتغال بعلم النحو الذي يفهم به کلام اﷲ تعالٰي و کلام رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، و ذٰلک واجب لان حفظ الشريعة واجب، ولايتأتيٰ حفظها الا بمعرفة ذٰلک، وما لايتمُّ الواجبُ الابه فهو واجبٌ، الثاني : حِفْظُ غريبِ الکتاب والسنة من اللغة، الثالث : تدوين اصول الدين و اصول الفقه، الرابع : الکلام في الجرح والتعديل، لتمييز الصحيح من السقيم، وقد دَلَّت قواعدُ الشريعة علي أنَّ حِفْظَ الشريعة فرض کفاية فيما زاد علي القَدْرِ المُتَعَيّن ولا يتأتٰي حفظ الشريعة الا بما ذکرناه و للبدع المحرمة امثلة منها مذاهب القدرية والجبرية والمُرجِئَة و المُجَسِّمَة والرد علي هؤلاء من البدع الواجبة وللبدع المندوبة أمثلة منها إحداثَ الرُّبُطِ والمدارسِ و بنائُ القناطر و کل احسانٍ لم يعْهدْ في العصر الاول ومنها صلاة التراويح والکلام في دقائق التصوف و الکلام في الجَدَل ومنها جمع المحافل للاستدلال في المسائل اِنْ قُصِدَ بذلک وجه اﷲ تعالٰي : وللبدع المکروهة أمثلة کزخرفة المساجد و تَزْويقُ المصاحف و أما تلحين القرآن بحيث تتغيّرُ ألفاظُه عن الوضع العربي فالأصحُّ أنه من البدع المُحَرَّمَة وللبدع المباحة امثلةء منها المصافحة عقيب الصبح والعصر ومنها التوسع في اللذيذ من المآکل والمشارب والملابس والمساکن و لبس الطيالسة و توسيع الاکمام وقد يخْتَلَفُ في بعض ذٰلک فيجعله بعض العلماء من البدع المکروهة و يجعله اٰخرون من السنن المفعولة في عهد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فما بعده و ذلک کالاستعاذة في الصلاة والبسملة فيها.

’’بدعت سے مراد وہ فعل ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ کیا گیا ہو، بدعت کی حسبِ ذیل اقسام ہیں۔ واجب، حرام، مستحب، مکروہ اور مباح۔ اس کے جاننے کا طریقہ یہ ہے کہ بدعت کا قواعد شرعیہ سے موازنہ کیا جائے، اگر وہ بدعت قواعد ایجاب کے تحت داخل ہے تو واجب ہے اور اگر قواعدِ تحریم کے تحت داخل ہے تو حرام ہے اور اگر قواعدِ استحباب کے تحت داخل ہے تو مستحب ہے اور اگر کراھت کے قاعدہ کے تحت داخل ہے تومکروہ اور اگر اباحت کے قاعدہ میں داخل ہے تومباح ہے۔ بدعات واجبہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : علم نحو کا پڑھنا جس پر قرآن و حدیث کا سمجھنا موقوف ہے، یہ اس لیے واجب ہے کہ علم شریعت کا حصول واجب ہے اور قرآن و حدیث کے بغیر علم شریعت حاصل نہیں ہو سکتا اور جس چیز پر کوئی واجب موقوف ہو وہ بھی واجب ہوتی ہے۔ دوسری مثال ہے قرآن اور حدیث کے معانی جاننے کیلئے علم لغت کا حاصل کرنا، تیسری مثال ہے دین کے قواعد اور اصول فقہ کو مرتب کرنا چوتھی مثال سندِ حدیث میں جرح اور تعدیل کا علم حاصل کرنا تاکہ صحیح اور ضعیف حدیث میں امتیاز ہو سکے اور قواعدِ شرعیہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اپنی ضروریات سے زیادہ علم شریعت حاصل کرنا فرض کفایہ ہے اور یہ علم مذکور الصدر علوم کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ بدعات محرمہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : قدریہ، جبریہ، مرجیۂ اور مجسمہ کے نظریات اور ان لوگوں پر رد کرنا بدعات واجبہ کی قسم میں داخل ہے۔ بدعاتِ مستحبہ کی بعض مثالیں یہ ہیں سرائے، مدارس اور بلند عمارتیں بنانا اور ہر ایسا اصلاحی اور فلاحی کام جو عہد رسالت میں نہیں تھا (تمام رمضان میں باجماعت) نمازِ تراویح، تصوف کی دقیق ابحاث، بد عقیدہ فرقوں سے مناظرہ اور اس مقصد کیلئے جلسے منعقد کرنا بشرطیکہ اس سے مقصود رضائے الٰہی ہو۔ بدعات مکروھہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : مساجد کی زیب و زینت، (متاخرین فقہاء نے اس کو جائز قرار دیا) مصحف (قرآن) کو مزین کرنا (یہ بھی متاخرین کے نزدیک جائز ہے) اور قرآن کو ایسی سُر سے پڑھنا کہ اس کے الفاظ عربی وضع سے پھر جائیں اور زیادہ درست یہ ہے کہ یہ بدعتِ محرمہ ہے۔ بدعات مباحہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : صبح اور عصر (کی نماز) کے بعد مصافحہ کرنا، کھانے پینے، پہننے اور رہائش کے معاملات میں وسعت اختیار کرنا، سبز چادریں اوڑھنا، کھلی آستینوں کی قمیص پہننا، ان امور میں اختلاف ہے۔ بعض علماء نے ان امور کو بدعاتِ مکروھۃ میں داخل کیا ہے اور بعض علماء نے ان کو عہدِ رسالت اور عہد صحابہ کی سنتوں میں داخل کیا ہے جیسے نماز میں تعوُّذ و تسمیہ جھراً پڑھنے میں سنت ہونے نہ ہونے کا اختلاف ہے۔‘‘

1. عزالدين، قواعد الأحکام في إصلاح الأنام، 2 : 337
2. نووي، تهذيب الأسماء واللغات، 3 : 21
3. سيوطي، شرح سنن ابن ماجه، 1 : 6
4. ابن حجر مکي، الفتاوي الحديثيه : 130

(8) امام ابو زکریا محی الدین بن شرف النووی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 676ھ)

امام ابو زکریا محی الدین بن شرف نووی رحمۃ اللہ علیہ بدعت کی تعریف اور اس کی اقسام بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’تہذیب الاسماء واللغات‘‘ میں فرماتے ہیں :

9. البدعة في الشرع هي احداث مالم يکن في عهد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وهي منقسمة الي حسنة و قبيحة وقال الشيخ الامام المجمع علي امامته و جلالته و تمکنه في انواع العلوم و براعته ابو محمد عبدالعزيز بن عبدالسلام في آخر ’’کتاب القواعد‘‘ البدعة منقسمة إلي واجبة و محرمة و مندوبة و مکروهة و مباحة قال والطريق في ذلک أن تعرض البدعة علي قواعد الشريعة فان دخلت في قواعد الايجاب فهي واجبة و إن دخلت في قواعد التحريم فهي محرمة و إن دخلت في قواعد المندوب فهي مندوبه و ان دخلت في قواعد المکروه فهي مکروهة و ان دخلت في قواعد المباح فهي مباحة و للبدع الواجبة أمثلة منها الإشتغال بعلم النحو الذي يفهم به کلام اﷲ تعالٰي و کلام رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و ذٰلک واجب لان حفظ الشريعة واجب ولايتاتي حفظها اِلَّا بمعرفة بذٰلک وما لايتم الواجب الا به فهو واجب، الثاني حفظ غريب الکتاب والسنة من اللغة، الثالث تدوين اصول الدين و اصول الفقه، الرابع الکلام في الجرح والتعديل لتمييز الصحيح من السقيم وقد دلت قواعد الشريعة علي أن حفظ الشريعة فرض کفاية فيما زاد علي المتعين ولا يتأتي ذٰلک الا بما ذکرناه و للبدع المحرمة أمثلة منها مذاهب القدرية والجبرية والمُرجئة و المُجَسِّمَة والرد علي هؤلاء من البدع الواجبة وللبدع المندوبة أمثلة منها احداث الرُبطِ والمدارس و بنائُ القناطر و کل احسان لم يعْهدْ في العصر الاول ومنها صلاة التراويح والکلام في دقائق التصوف و الکلام في الجَدَل ومنها جمع المحافل للاستدلال في المسائل اِنْ قُصِدَ بذلک وجه اﷲ تعالٰي : وللبدع المکروهة امثلة کزخرفة المساجد و تَزْويقُ المصاحف و أما تلحين القرآن بحيث تتغيّرُ ألفاظُه عن الوضع العربي فالأصحّ أنه من البدع المحرّمة وللبدع المباحة أمثلة منها المصافحة عقيب الصبح والعصر ومنها التوسع في اللذيذ من المآکل والمشارب والملابس والمساکن و لبس الطيالسة و توسيع الاکمام وقد يختلف في بعض ذٰلک فيجعله بعض العلماء من البدع المکروهة و يجعله اٰخرون من السنن المفعولة في عهد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فما بعده و ذلک کالاستعاذة في الصلاة والبسملة فيها.

’’شریعت میں بدعت سے مراد وہ امور ہیں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ تھے، بدعت کو بدعت حسنہ اور بدعت قبیحہ میں تقسیم کیا گیا ہے اور شیخ عبدالعزیز بن عبدالسلام ’’کتاب القواعد‘‘ میں فرماتے ہیں۔ بدعت کو بدعت واجبۃ، محرمۃ، مندوبۃ، مکروھۃ اور مباحۃ میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اس کے جاننے کا طریقہ یہ ہے کہ بدعت کا قواعدِ شرعیہ سے موازنہ کیا جائے، اگر وہ بدعت قواعد ایجاب کے تحت داخل ہے تو واجب ہے اور اگر قواعدِ تحریم کے تحت داخل ہے تو حرام ہے اور اگر قواعدِ استحباب کے تحت داخل ہے تو مستحب ہے اور اگر کراھت کے قاعدہ کے تحت داخل ہے تو مکروہ اور اگر اباحت کے قاعدہ میں داخل ہے تومباح ہے۔ بدعات واجبہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : علم نحو کا پڑھنا جس پر قرآن اور حدیث کا سمجھنا موقوف ہے، یہ اس لیے واجب ہے کہ علم شریعت کا حصول واجب ہے اور قرآن اور حدیث کے بغیر علم شریعت حاصل نہیں ہو سکتا اور جس چیز پر کوئی واجب موقوف ہو وہ بھی واجب ہوتی ہے۔ دوسری مثال قرآن و حدیث کے معانی جاننے کیلئے علم لغت کا حاصل کرنا ہے، تیسری مثال دین کے قواعد اور اصول فقہ کو مرتب کرنا ہے جبکہ چوتھی مثال سندِ حدیث میں جرح اور تعدیل کا علم حاصل کرنا تاکہ صحیح اور ضعیف حدیث میں امتیا زہو سکے اور قواعدِ شرعیہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اپنی ضروریات سے زیادہ علم شریعت حاصل کرنا فرض کفایہ ہے اور یہ علم مذکور الصدر علوم کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ بدعات محرمہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : قدریہ، جبریہ، مرجیۂ اور مجسمہ کے نظریات اور ان لوگوں پر رد کرنا بدعات واجبہ کی قسم میں داخل ہے۔ بدعاتِ مستحبہ کی بعض مثالیں یہ ہیں سرائے، مدارس اور بلند عمارتیں بنانا اور ہر ایسا اصلاحی اور فلاحی کام جو عہد رسالت میں نہیں تھا (تمام رمضان میں) باجماعت تراویح، تصوف کی دقیق ابحاث، بد عقیدہ فرقوں سے مناظرہ اور اس مقصد کیلئے جلسے منعقد کرنا بشرطیکہ اس سے مقصود رضائے الٰہی ہو۔ بدعات مکروھہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : مساجد کی زیب و زینت، (متاخرین فقہاء نے اس کو جائز قرار دیا) مصحف (قرآن) کو مزین کرنا (یہ بھی متاخرین کے نزدیک جائز ہے) اور قرآن کو ایسی سر سے پڑھنا کہ اس کے الفاظ عربی وضع سے پھر جائیں اور زیادہ اصح یہ ہے کہ یہ بدعت محرمہ ہے۔ بدعات مباحہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : صبح اور عصر کی نماز کے بعد مصافحہ کرنا، کھانے پینے، پہننے اور رہائش کے معاملات میں وسعت اختیار کرنا، سبز چادریں اوڑھنا، کھلی آستینوں کی قمیض پہننا، ان امور میں اختلاف ہے۔ بعض علماء نے ان امور کو بدعاتِ مکروھۃ میں داخل کیا ہے اور بعض علماء نے ان کو عہدِ رسالت اور عہد صحابہ کی سنتوں میں داخل کیا ہے جیسے نماز میں تعوُّذ و تسمیہ جھراً پڑھنے میں سنت ہونے نہ ہونے کا اختلاف ہے۔‘‘

1. نووي، تهذيب الأسماء واللغات، 3 : 22
2. نووي، شرح صحيح مسلم، 1 : 286
3. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 51
4. صالحي، سبل الهدي والرشاد، 1 : 370

اِمام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح صحیح مسلم میں بدعت کی اقسام اور پھر ان میں سے ہر قسم کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

10. قوله صلي الله عليه وآله وسلم و ’’کل بدعة ضلالة‘‘(1) هذا عام مخصوص والمراد غالب البدع قال أهل اللغة هي کل شيء عمل مثال سابق قال العلماء البدعة خمسة أقسام واجبة و مندوبة و محرمة و مکروهة و مباحة فمن الواجبة نظم أدلة المتکلمين للرد علي الملاحدة والمبتدعين و شبه ذلک ومن المندوبة تصنيف کتب العلم و بناء المدارس والربط و غير ذلک و من المباح التبسط في ألوان الأطعمة و غير ذلک والحرام والمکروه ظاهران وقد أوضحت المسألة بأدلتها المبسوطة في تهذيب الأسماء واللغات فإذا عرف ما ذکرته علم أن الحديث من العام المخصوص و کذا ما أشبهه من الأحاديث الواردة و يؤيد ما قلناه قول عمر ابن الخطاب رضي الله عنه في التراويح نعمت البدعة ولا يمنع من کون الحديث عاما مخصوصا قوله کل بدعة مؤکدا بکل بل يدخله التخصيص مع ذلک کقوله تعالي تدمر کل شيء (الاحقاف، 42 : 52) (2)

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان کہ ’’ہر بدعت ضلالت ہے‘‘ عام مخصوص ہے عام طور پر اس سے مراد بدعتِ سيّئہ لیا جاتا ہے اہل لغت نے کہا ہے کہ ہر وہ چیز جس پر مثال سابق کے بغیر عمل کیا جائے وہ بدعت ہے۔ علماء نے بدعت کی پانچ اقسام بدعت واجبہ، مندوبہ، محرمہ، مکروہۃ اور مباحہ بیان کی ہیں بدعت واجبہ کی مثال متکلمین کے دلائل کو ملحدین، مبتدعین اور اس جیسے دیگر امور کے رد کے لئے استعمال کرنا ہے اور بدعت مستحبہ کی مثال جیسے کتب تصنیف کرنا، مدارس، سرائے اور اس جیسی دیگر چیزیں تعمیر کرنا۔ بدعت مباح کی مثال یہ ہے کہ مختلف انواع کے کھانے اور اس جیسی چیزوں کو اپنانا ہے جبکہ بدعت حرام اور مکروہ واضح ہیں اور اس مسئلہ کو تفصیلی دلائل کے ساتھ میں نے ’’تہذیب الاسماء واللغات‘‘ میں واضح کردیا ہے۔ جو کچھ میں نے بیان کیا ہے اگر اس کی پہچان ہوجائے گی تو پھر یہ سمجھنا آسان ہے کہ یہ حدیث اور دیگر ایسی احادیث جو ان سے مشابہت رکھتی ہیں عام مخصوص میں سے تھیں اور جو ہم نے کہا اس کی تائید حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قول ’’نعمت البدعۃ‘‘ کرتا ہے اور یہ بات حدیث کو عام مخصوص کے قاعدے سے خارج نہیں کرتی۔ قول ’’کل بدعۃ‘‘ لفظ ’’کل ‘‘ کے ساتھ مؤکد ہے لیکن اس کے باوجود اس میں تخصیص شامل ہے جیسا کہ اللہ تعاليٰ کے ارشاد تدمر کل شئ (الاحقاف، 42 : 52) کہ (وہ ہر چیز کو اُکھاڑ پھینکے گی) میں تخصیص شامل ہے۔

1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة، رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
5. ابن حبان، الصحيح، 1 : 178، رقم : 5
6. دارمي، السنن، 1 : 57، رقم : 95


نووي، شرح صحيح مسلم، 6 : 154

(9) اِمام شہاب الدین احمد القرافی المالکی رحمۃ اللہ علیہ (684ھ)

معروف مالکی فقیہ اِمام شہاب الدین احمد بن ادریس القرافی تفصیل کے ساتھ بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب الفروق میں رقمطراز ہیں :

11. البدعة خمسة اقسام (القسم الأول) واجب و هو ما تتناوله قواعد الوجوب وادلته من الشرع کتدوين القرآن والشرائع اذا خيف عليها الضياع فان التبليغ لمن بعدنا من القرون واجب اجماعا و أهمال ذلک حرام اجماعا فمثل هذا النوع لا ينبغي ان يختلف في وجوبه (القسم الثاني) محرم و هو بدعة تناولتها قواعد التحريم و ادلته من الشريعة کالمکوس والمحدثات من المظالم المنافية لقواعد الشريعة کتقديم الجهال علي العلماء و تولية المناصب الشرعية من لا يصلح لها بطريق التوارث و جعل المستند لذلک کون المنصب کان لابيه و هو في نفسه ليس باهل (القسم الثالث) من البدع مندوب اليه و هو ما تناولته قواعد الندب وادلته من الشريعة کصلاة التراويح و اقامة صور الائمة والقضاء وولاة الامور علي خلاف ما کان عليه أمر الصحابة بسبب ان المصالح والمقاصد الشرعية لا تحصل الا بعظمة الولاة في نفوس الناس و کان الناس في زمن الصحابة معظم تعظيمهم انما هو بالدين و سابق الهجرة ثم اختل النظام و ذهب ذلک القرن وحدث قرن آخر لا يعظمون الا بالصور فيتعين تفخيم الصور حتي تحصل المصالح و قد کان عمر يا کل خبز الشعير والملح و يفرض لعامله نصف شاة کل يوم لعلمه بان الحالة التي هو عليها لوعملها غيره لهان في نفوس الناس ولم يحترموه و تجاسروا عليه بالمخالفة فاحتاج الي ان يضع غيره في صورة اخري لحفظ النظام ولذلک لما قدم الشام ووجد معاوية بن أبي سفيان قد اتخذ الحجاب و أرخي الحجاب واتخذ المراکب النفيسة والثياب الهائلة العلية و سلک ما يسلکه الملوک فسأله عن ذلک فقال انا بأرض نحن فيها محتاجون لهذا فقال له لا أمرک ولا انهاک و معناه أنت اعلم بحالک هل انت محتاج الي هذا فيکون حسنا أو غير محتاج اليه فدل ذلک من عمر وغيره علي ان احوال الائمة و ولاة الامور تختلف باختلاف الاعصار والامصار والقرون والاحوال فلذلک يحتاجون الي تجديد زخارف و سياسات لم تکن قديما و ربما وجبت في بعض الاحوال (القسم الرابع) بدع مکروهة و هي ما تناولته ادلة الکراهة من الشريعة وقواعدها کتخصيص الايام الفاضلة او غيرها بنوع من العبادات و من ذلک في الصحيح ما خرجه مسلم وغيره ان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم نهي عن تخصيص يوم الجمعة بصيام أوليلته بقيام ومن هذا الباب الزيادة في المندوبات المحدودات کما ورد في التسبيح عقيب الصلوات ثلاثة وثلاثين فيفعل مائة وورد صاع في زکاة الفطر فيجعل عشرة آصع بسبب ان الزيادة فيها اظهار الاستظهار علي الشارع وقلة ادب معه بل شان العظماء اذا حددوا شيئا وقف عنده والخروج عنه قلة ادب والزيادة في الواجب أو عليه أشد في المنع لانه يؤدي الا ان يعتقد ان الواجب هو الاصل والمزيد عليه ولذلک نهي مالک عن ايصال ست من شوال لئلا يعتقد انها من رمضان و خرج ابو داود في سننه ان رجلا دخل الي مسجد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فصلي الفرض وقام ليصلي رکعتين فقال له عمر بن الخطاب اجلس حتي تفصل بين فرضک و نفلک فبهذا هلک من کان قبلنا فقال له عليه السلام أصاب اﷲ بک يا ابن الخطاب يريد عمر ان من قبلنا و صلوا النوافل بالفرائض فاعتقدوا الجميع واجبا و ذلک تغيير للشرائع و هو حرام اجماعا (القسم الخامس) البدع المباحة و هي ما تناولته ادلة الاباحة وقواعدها من الشريعة کاتخاذ المناخل للدقيق ففي الاثار اول شيء احدثه الناس بعد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم اتخاذ المناخل للدقيق لان تليين العيش و اصلاحه من المباحات فوسائله مباحة.

’’بدعت کی پانچ اقسام ہیں۔ ان میں سے پہلی قسم واجب ہے اور یہ وہ بدعت ہے جو قواعد وجوب پر مشتمل ہو اور اس کی دلیل شریعت میں موجود ہو جیسے ضائع ہونے کے ڈر سے قرآن مجید اور شریعت کی تدوین۔ بے شک ہمارے بعد آنے والوں کے لیے تبلیغ کرنا اجماعاً واجب ہے اور اسے چھوڑ دینا اجماعا حرام ہے۔ اس طرح کی چیزوں کے وجوب میں اختلاف کرنا درست نہیں ہے۔ دوسری قسم بدعت محرومہ ہے۔ یہ وہ بدعت ہے جس کی دلیل شریعت میں حرام کے قواعد کے مطابق ہو۔ جیسے ٹیکس اور ایسے نئے ظالمانہ امور جو کہ قواعد شریعت کے منافی ہوں۔ جیسے جھلاء کو علماء پر فوقیت دینا اور شریعت کے کسی ایسے عہدے پر فائز کرنا جو وراثتی طریقے سے اس کے لیے درست نہ ہو اور اس منصب کو اس شخص کے لیے درست قرار دیا جائے جو کہ اس کے باب کے لیے تھا اور وہ بذات خود اس منصب کا اہل نہ ہو اور تیسری قسم بدعت مستحبہ ہے اور یہ وہ بدعت ہے جو قواعد استحباب پر مشتمل ہو اور شریعت میں اس کی حمایت میں دلائل موجود ہوں جیسا کہ نماز تراویح اور امر صحابہ کے خلاف (مصلحت و خیر کے پیش نظر) حکمرانان وقت، قاضیوں اور اہم منصب داروں کی تصویروں کو آویزاں کرنا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بے شمار مصالح اور شرعی مقاصد لوگوں کے دلوں میں حکمرانوں کی عظمت ڈالے بغیر حاصل نہیں ہوسکتے صحابہ کے زمانے میں صحابہ کے دین اور سابق الھجرہ ہونے کی وجہ سے لوگ ان کی تعظیم کرتے تھے پھر نظام درہم برہم ہوگیا اور وہ زمانہ گزرگیا اور نیا زمانہ آگیا اس زمانہ میں لوگ تصویروں کے بغیر کسی کی عظمت نہیں کرتے تھے لہٰذا تصویروں کی حیثیت کو تسلیم کرلیا گیا۔ یہاں تک کہ متعلقہ مصلحتیں حاصل ہوگئیں اور اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود تو جو کی روٹی اور نمک کھایا کرتے تھے جبکہ اپنے عاملین کے لئے آدھی بکری روزانہ مقرر کر رکھی تھی کیونکہ اگر دوسرے عاملین بھی اسی طریقہ پر عمل کرتے جس پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ خود تھے تو وہ عوام الناس کی نظروں میں گرجاتے اور لوگ ان کا احترام نہ کرتے اور ان کی مخالفت پر اتر آتے لہٰذا یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ کسی دوسرے کو کسی اور شکل میں نظام کی حفاظت کے لیے تیار کیا جائے اور اسی طرح جب آپ شام گئے تو آپ نے معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابی سفیان کو اس حالت میں دیکھا کہ وہ پردہ کئے ہوئے اور پردہ لٹکائے ہوئے تھے اور ان کے پاس خوبصورت سواری اور اعليٰ رعب دار کپڑے تھے اور آپ اس طرح پیش آتے جس طرح بادشاہ پیش آتے تھے پھر اس کے بارے میں ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ہم ایسے علاقے میں ہیں جہاں ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ لہٰذا سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ نہ میں تمہیں اس کا حکم دیتا ہوں اور نہ منع کرتا ہوں اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے احوال کو بہتر جانتے ہو کہ تمہیں اس کی ضرورت ہے کہ نہیں اور اگر ضرورت ہے تو یہ بہتر ہے۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دوسروں کے نظائر (Precedents) سے یہ دلیل ملتی ہے کہ ائمہ کے احوال اور امور سلطنت، زمانے، شہروں، صدیوں کے اختلاف سے مختلف ہوتے ہیں۔ اس طرح انہیں حسن معاملات اور حسن سیاسیات میں تنوع کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ یہ احوال پرانے نہ ہوجائیں اور بعض اوقات یہ مصلحتیں واجب ہوجاتی ہیں اور چوتھی قسم بدعت مکروہ کی ہے اور یہ وہ ہے جو شریعت اور اس کے قواعد میں سے دلائل کراہت پر مشتمل ہو جیسے بعض فضیلت والے اور بابرکت ایام کو عبادات کے لئے مخصوص کرنا۔ اس کی مثال وہ روایت ہے جسے امام مسلم اور دیگر نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمعہ کے دن روزہ رکھنے اور اسی رات کو قیام کے لئے مختص کرنے کو منع کیا ہے۔ اور اسی طرح اس باب میں محدود مندوبات کو زیادہ کرنا جیسے نمازوں کے بعد تینتیس بار تسبیح کرنا آیا ہے پھر ان کو سو بار کیا جائے، اور اسی طرح زکوٰۃ فطر کے لیے ایک صاع دینا آیا ہے پھر اسے دس صاعات بنا دیا جائے یہ اس وجہ سے ہے کہ ان امور میں زیادتی شارع پر جرات اور اس کی بے ادبی ہے۔ پس عظیم لوگوں کی شان یہ ہے کہ اگر انہیں کسی امر سے روکا جائے تو وہ رک جائیں کیونکہ اس حکم سے سرتابی سوئے ادب ہے۔ لہٰذا واجب میں زیادتی یا واجب پر زیادتی سخت منع ہے۔ کیونکہ اس طرح یہ اعتقاد پنپتا ہے کہ واجب اور اس پر زیادتی دونوں واجب ہیں۔ جیسا کہ امام مالک نے شوال کے چھ (روزوں کو) ملانے سے منع کیا ہے۔ کہیں ایسا نہ سمجھا جائے کہ یہ بھی رمضان میں سے ہیں اسی طرح امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں ذکر کیا ہے کہ ایک آدمی مسجد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں داخل ہوا پھر اس نے فرض نماز ادا کی اور ساتھ ہی کھڑا ہو گیا تاکہ دو رکعتیں (نفل) پڑھے۔ تو اسے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بیٹھ جاؤ۔ یہاں تک کہ تو اپنے فرض اور نفل میں فرق کرے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اسی وجہ سے ہم سے پہلے لوگ ہلاک ہو گئے تو پھر اسے آقا علیہ السلام نے فرمایا اے ابن خطاب اللہ تعاليٰ نے تجھے درست پایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مراد یہ تھی کہ ہم سے پہلے لوگوں نے نوافل کو فرائض کے ساتھ ملا دیا انہوں نے یہ یقین کر لیا کہ یہ تمام واجبات میں سے ہیں اور یہ شریعت میں تغیر ہے جو کہ اجماعاً حرام ہے اور پانچویں قسم بدعت مباح ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی چیز کی دلیل شریعت کے قواعد و ضوابط میں اباحت کے اصولوں کے مطابق ہو جیسا کہ آٹا چھاننے کے لیے چھلنی کا استعمال کرنا اور آثار میں پہلی چیز جو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ایجاد کی وہ تھی ’’اتخاذ المناخل للدقیق‘‘ یعنی آٹا چھاننے کے لئے چھلنی کا استعمال کیونکہ زندگی میں لوگوں کی طبیعت میں نرمی ہونا اور اس کی اصلاح کرنا مباحات میں سے ہے اور اس کے تمام وسائل بھی مباح میں سے ہیں۔‘‘

القرافي، انوار البروق في انوار الفروق، 4 : 202 - 205

(10) علامہ جمال الدین محمد بن مکرم ابن منظور الافریقی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 711ھ)

علامہ جمال الدین ابن منظور افریقی اپنی معروف کتاب ’’لسان العرب‘‘ میں علامہ ابن اثیر جزری کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ حدیث پاک ’’کل محدثۃ بدعۃ‘‘ سے مراد صرف وہ کام ہے جو شریعت مطہرہ کے خلاف ہو اور وہ بدعت جو شریعت سے متعارض نہ ہو وہ جائز ہے۔ لکھتے ہیں :

12. البدعة : الحدث وما ابتدع من الدين بعد الإکمال. ابن السّکيت : البدعة کل محدثة و في حديث عمر رضي الله عنه في قيام رمضان ’’نعمتِ البدعة هذه‘‘(1) ابن الأثير : البدعة بدعتان : بدعة هدًي، و بدعة ضلال، فما کان في خلاف ما أمر اﷲ به و رسوله صلي الله عليه وآله وسلم فهو في حيز الذّم والإنکار، وما کان واقعا تحت عموم ما ندب اﷲ إليه و حضَّ عليه اﷲ أو رسوله فهو في حيّز المدح، وما لم يکن له مثال موجود کنوع من الجود والسّخاء و فعل المعروف فهو من الأفعال المحمودة، ولا يجوز أن يکون ذلک في خلاف ما ورد الشرع به؛ لأن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قد جعل له في ذلک ثوابا فقال : (من سنّ سُنة حسنة کان له أجرها و أجر من عمل بها) وقال في ضِدّه : (من سنّ سنة سيّئة کان عليه وزرُها ووِزرُ من عمل بها)(2) وذلک إذا کان في خلاف ما أمر اﷲ به ورسوله صلي الله عليه وآله وسلم ، قَالَ : ومن هذا النوع قول عمر رضی الله عنه : نِعمت البدعة هذه، لمَّا کانت من أفعال الخير وداخلة في حيز المدح سماها بدعة ومدحها لأن النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، لم يسُنَّها لهم، و إنما صلَّاها ليالي ثم ترکها ولم يحافظ عليها ولا جمع الناس لها ولا کانت في زمن أبي بکر رضی الله عنه، وإنما عمر رضی الله عنه جمع الناس عليها و ندبهم إليها، فبهذا سمّاها بدعة، وهي علي الحقيقة سنَّة، لقوله صلي الله عليه وآله وسلم (عليکم بسنَّتي و سنَّة الخلفاء الراشدين من بعدي)(3) وقوله صلي الله عليه وآله وسلم : (اقتدوا باللذين من بعدي أبي بکر و عمر)(4) و علي هذا التأويل يحمل الحديث الآخر (کل محدثة بدعة) إنما يريد ما خالف أصول الشريعة ولم يوافق السُّنَّة. (5)

’’بدعت سے مراد احداث ہے یا ہر وہ کام جو اکمالِ دین کے بعد کسی دینی مصلحت کے پیش نظر شروع کیا گیا ہو۔ ابن سکیت کہتے ہیں کہ ہر نئی چیز بدعت ہے جیسا کہ قیام رمضان کے حوالے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے نعمت البدعۃ ہذہ. ابن اثیر کہتے ہیں بدعت کی دو قسمیں ہیں، بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ. جو کام اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو وہ مذموم اور ممنوع ہے، اور جو کام کسی ایسے عام حکم کا فرد ہو جس کو اللہ تعاليٰ نے مستحب قرار دیا ہو یا اللہ تعاليٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم پر برانگیختہ کیا ہو تو یہ اَمرِمحمود ہے اور جن کاموں کی مثال پہلے موجود نہ ہو جیسے سخاوت کی اقسام اور دوسرے نیک کام، وہ اچھے کام ہیں بشرطیکہ وہ خلاف شرع نہ ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے کاموں پر ثواب کی بشارت دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس شخص نے اچھے کام کی ابتداء کی اس کو اپنا اجر بھی ملے گا اور جو لوگ اس کام کو کریں گے ان کے عمل کا اجر بھی ملے گا اور اس کے برعکس یہ بھی فرمایا : جس شخص نے برے کام کی ابتداء کی اس پر اپنی برائی کا وبال بھی ہو گا اور جو اس برائی کو کریں گے ان کا وبال بھی اس پر ہو گا اور یہ اس وقت ہے جب وہ کام اللہ تعاليٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو۔ اور اِسی قسم یعنی بدعتِ حسنہ میں سے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ قول ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ ہے پس جب کوئی کام افعالِ خیر میں سے ہو اور مقام مدح میں داخل ہو تو اسے لغوی اعتبار سے تو بدعت کہاجائے گا مگر اس کی تحسین کی جائے گی کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس (باجماعت نماز تراویح کے) عمل کو ان کے لئے مسنون قرار نہیں دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند راتیں اس کو پڑھا پھر (باجماعت پڑھنا) ترک کردیا اور (بعد میں) اس پر محافظت نہ فرمائی اور نہ ہی لوگوں کو اس کے لئے جمع کیا بعد ازاں نہ ہی یہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور میں (باجماعت) پڑھی گئی پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اس پر جمع کیا اور ان کو اس کی طرف متوجہ کیا پس اس وجہ سے اس کو بدعت کہا گیا درآں حالیکہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول ’’علیکم بسنّتی و سنۃ الخلفاء الراشدین من بعدی‘‘ اور اس قول’’اقتدوا باللذین من بعدی ابی بکر و عمر‘‘ کی وجہ سے حقیقت میں سنت ہے پس اس تاویل کی وجہ سے حدیث ’’کل محدثۃ بدعۃ‘‘ کو اصول شریعت کی مخالفت اور سنت کی عدم موافقت پر محمول کیا جائے گا۔‘‘

1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250


1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017
2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم : 2554
3. ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359


1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة، رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126


1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب عن الرسول صلي الله عليه وآله وسلم ، باب مناقب ابي بکر و عمر، 5 / 609، رقم : 3662
2. ابن ماجه، السنن، باب في فضل اصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 / 37، رقم : 97
3. حاکم، المستدرک، 3 / 79، رقم : 4451
4. بيهقي، السنن الکبريٰ، 5 / 212، رقم : 9836


ابن منظور افريقي، لسان العرب، 8 : 6
 

Hunain

وفقہ اللہ
رکن
(11) علامہ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ (المتوفی 728 ھ)

امام ابن تیمیہ اپنی کتاب ’’منہاج السنۃ‘‘ میں لغوی بدعت اور شرعی بدعت کو واضح کرتے ہوئے ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ کے ذیل میں بیان کرتے ہیں۔

13. إنما سماها بدعة لأن ما فعل ابتداء، بدعة لغة، وليس ذلک بدعة شرعية، فإن البدعة الشرعية التي هي ضلالة ما فعل بغير دليل شرعي

’’اِسے بدعت اِس لیے کہا گیا کہ یہ عمل اس سے پہلے اِس انداز میں نہیں ہوا تھا لہٰذا یہ بدعتِ لغوی ہے بدعتِ شرعی نہیں ہے کیونکہ بدعتِ شرعی وہ گمراہی ہوتی ہے جو دلیل شرعی کے بغیر سر انجام دی جائے۔‘‘

ابن تيميه، منهاج السنة، 4 : 224

علامہ ابن تیمیہ ’’بدعت حسنہ‘‘ اور ’’بدعت ضلالۃ‘‘ کے مفہوم کو مزید واضح کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں :

14. ومن هنا يعرف ضلال من ابتدع طريقاً أو اعتقاداً زعم أن الإيمان لا يتم إلا به مع العلم بأن الرسول صلي الله عليه وآله وسلم لم يذکره وما خالف النصوص فهو بدعة باتفاق المسلمين وما لم يعلم أنه خالفها فقد لا يسمي بدعة قال الشافعي رحمه اﷲ البدعة بدعتان بدعة خالفت کتابا و سنة و إجماعا و أثرا عن بعض أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فهذه بدعه ضلاله و بدعه لم تخالف شيئا من ذلک فهذه قد تکون حسنة لقول عمر نعمت البدعة هذه (1) هذا الکلام أو نحوه رواه البيهقي بإسناده الصحيح في المدخل(2)

’’اور اس کلام سے لفظ ’’ضلال‘‘ کا مفہوم سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی شخص نے یہ جانتے ہوئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بیان نہیں کیا کسی طریقے یا عقیدے کی ابتداء اس گمان سے کی کہ بے شک ایمان اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتا تو یہ ’’ضلالۃ‘‘ ہے اور جو چیز نصوص کے مخالف ہو وہ مسلمانوں کے اتفاق رائے کے ساتھ بدعت ہے۔ اور جس چیز کے بارے یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے کتاب و سنت کی مخالفت کی ہے ایسی چیز کو بدعت کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ اور امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ نے بدعت کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ ایک وہ بدعت جو قرآن و سنت، اجماع اور بعض اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کے خلاف ہو تو وہ بدعت ضلالہ ہے۔ اور جو بدعت ان تمام چیزوں (یعنی قرآن و سنت، اجماع اور اثر صحابہ) میں سے کسی کے مخالف نہ ہو تو وہی بدعت حسنہ ہے۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ یہ یا اس جیسا دوسرا بیان اسے امام بیہقی نے اپنی صحیح اسناد کے ساتھ ’’المدخل‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘

1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250


1. ابن تيمية، کتب ورسائل و فتاوي ابن تيمية في الفقه، 20 : 16

(12) اِمام حافظ عماد الدین ابو الفدا اسماعیل ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 774ھ)

حافظ عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن کثیر اپنی تفسیر ’’تفسیر القرآن العظیم‘‘ میں بدعت کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں

15. والبدعة علي قسمين تارة تکون بدعة شرعية کقوله (فإن کل محدثة بدعة و کل بدعة ضلالة) و تارة تکون بدعة لغوية کقول أمير المؤمنين عمر بن الخطاب عن جمعه إيّاهم علي صلاة التراويح واستمرارهم : نعمت البدعة هذه

’’بدعت کی دو قسمیں ہیں بعض اوقات یہ بدعت شرعیۃ ہوتی ہے جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’فان کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ اور بعض اوقات یہ بدعت لغویہ ہوتی ہے جیسا کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق کا لوگوں کو نماز تراویح پر جمع کرتے اور دوام کی ترغیب دیتے وقت فرمان ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ ہے۔‘‘

ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 161

(13) اِمام ابو اسحاق ابراہیم بن موسيٰ الشاطبی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 790ھ)

علامہ ابو اسحاق شاطبی اپنی معروف کتاب ’’الاعتصام‘‘ میں بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

16. هذا الباب يُضْطَرُّ إِلي الکلام فيه عند النظر فيما هو بدعة وما ليس ببدعة فإن کثيرًا من الناس عدوا اکثر المصالح المرسلة بدعاً و نسبوها إلي الصحابة و التابعين و جعلوها حجة فيما ذهبوا إليه من اختراع العبادات وقوم جعلوا البدع تنقسم بأقسام أحکام الشرعية، فقالوا : إن منها ما هو واجب و مندوب، وعدوا من الواجب کتب المصحف وغيره، ومن المندوب الإجتماع في قيام رمضان علي قارئ واحد. و أيضا فإن المصالح المرسلة يرجع معناها إلي إعتبار المناسب الذي لا يشهد له أصل معين فليس له علي هذا شاهد شرعيّ علي الخصوص، ولا کونه قياساً بحيث إذا عرض علي العقول تلقته بالقبول. وهذا بعينه موجود في البدع المستحسنة، فإنها راجعة إلي أمور في الدين مصلحية. في زعم واضعيها. في الشرع علي الخصوص. وإذا ثبت هذا فإن کان إعتبار المصالح المرسلة حقا فإعتبار البدع المستحسنه حق لأنهما يجريان من واد واحد. وإن لم يکن إعتبار البدع حقا، لم يصح إعتبار المصالح المرسلة.

’’اس باب ميں یہ بحث کرنا ضروری ہے کہ کیا چیز بدعت ہے اور کیا چیز بدعت نہیں ہے کیونکہ زیادہ تر لوگوں نے بہت سی مصالح مرسلہ کو بدعت قرار دیا ہے اور ان بدعات کو صحابہ کرام اور تابعین عظام کی طرف منسوب کیا ہے اور ان سے اپنی من گھڑت عبادات پر استدلال کیا ہے۔ اور ایک قوم نے بدعات کی احکام شرعیہ کے مطابق تقسیم کی ہے اور انہوں نے کہا کہ بعض بدعات واجب ہیں اور بعض مستحب ہیں، انہوں نے بدعات واجبہ میں قرآن کریم کی کتابت کو شمار کیا ہے اور بدعات مستحبہ میں ایک امام کے ساتھ تراویح کے اجتماع کو شامل کیا ہے۔ مصالح مرسلہ کا رجوع اس اعتبار مناسب کی طرف ہوتا ہے جس پر کوئی اصل معین شاہد نہیں ہوتی اس لحاظ سے اس پر کوئی دلیل شرعی بالخصوص نہیں ہوتی اور نہ وہ کسی ایسے قیاس سے ثابت ہے کہ جب اسے عقل پر پیش کیا جائے تو وہ اسے قبول کرے اور یہ چیز بعینہ بدعات حسنہ میں بھی پائی جاتی ہے کیونکہ بدعات حسنہ کے ایجاد کرنے والوں کے نزدیک ان کی بنیاد دین اور بالخصوص شریعت کی کسی مصلحت پر ہوتی ہے اور جب یہ بات ثابت ہو گئی تو مصالح مرسلہ اور بدعات حسنہ دونوں کا مآل ایک ہے اور دونوں برحق ہیں اور اگر بدعات حسنہ کا اعتبار صحیح نہ ہو تو مصالح مرسلہ کا اعتبار بھی صحیح نہیں ہو گا۔‘‘

شاطبی، الإعتصام، 2 : 111

علامہ شاطبی ’’بدعت حسنہ‘‘ کے جواز پر دلائل دیتے ہوئے مزید فرماتے ہیں :

17. أن أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم اتفقوا علي جمع المصحف وليس تَمَّ نص علي جمعه وکتبه أيضا. . بل قد قال بعضهم : کيف نفعل شيئاً لم يفعله رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم؟ فروي عن زيد بن ثابت رضي الله عنه قال : أرسل إِليّ أبوبکر رضي الله عنه مقتلَ (أهل) اليمامة، و إِذا عنده عمر رضي الله عنه، قال أبوبکر : (إن عمر أتاني فقال) : إِن القتل قد استحرّ بقراءِ القرآن يوم اليمامة، و إِني أخشي أن يستحرّ القتل بالقراءِ في المواطن کلها فيذهب قرآن کثير، و إِني أري أن تأمر بجمع القرآن. (قال) : فقلت له : کيف أفعل شيئًا لم يفعله رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ فقال لي : هو واﷲ خير. فلم يزل عمر يراجعني في ذلک حتي شرح اﷲ صدري له، ورأيت فيه الذي رأي عمر. قال زيد : فقال أبوبکر : إنک رجل شاب عاقل لا نتهمک، قد کنت تکتب الوحي لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، فتتبع القرآن فاجمعه. قال زيد : فواﷲ لو کلفوني نقل جبل من الجبال ما کان أثقل عليّ من ذلک. فقلت : کيف تفعلون شيئًا لم يفعله رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ فقال أبوبکر : هو واﷲ خير، فلم يزل يراجعني في ذلک أبوبکر حتي شرح اﷲ صدي للذي شرح له صدورهما فتتبعت القرآن أجمعه من الرقاع والعسب واللخاف، ومن صدور الرجال، فهذا عمل لم ينقل فيه خلاف عن أحد من الصحابة. (1). . . . حتي اذا نسخوا الصحف في المصاحف، بعث عثمان في کل افق بمصحف من تلک المصاحف التي نسخوها، ثم امر بما سوي ذٰلک من القراء ة في کل صحيفة أو مصحف أن يحرق. . . . ولم يرد نص عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم بما صنعوا من ذلک، ولکنهم رأوه مصلحة تناسب تصرفات الشرع قطعا فإن ذلک راجع إلي حفظ الشريعة، والأمر بحفظها معلوم، وإلي منع الذريعة للاختلاف في أصلها الذي هوالقرآن، وقد علم النهي عن الإختلاف في ذلک بما لا مزيد عليه. واذا استقام هذا الأصل فاحمل عليه کتب العلم من السنن و غيرها إذا خيف عليها الإندراس، زيادة علي ما جاء في الأحاديث من الأمر بکتب العلم. (2)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ قرآن کریم کو ایک مصحف میں جمع کرنے پر متفق ہو گئے حالانکہ قرآن کریم کو جمع کرنے اور لکھنے کے بارے میں ان کے پاس کوئی صریح حکم نہیں تھا۔ ۔ ۔ لیکن بعض نے کہا کہ ہم اس کام کو کس طرح کریں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلایا جبکہ یمامہ والوں سے لڑائی ہو رہی تھی اور اس و قت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی ان کے پاس تھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا کہ جنگ یمامہ میں قرآن کے کتنے ہی قاری شہید ہوگئے ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ قراء کے مختلف جگہوں پر شہید ہونے کی وجہ سے قرآن مجید کا اکثر حصہ جاتا رہے گا۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ قرآن مجید کے جمع کرنے کا حکم دیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں وہ کام کس طرح کرسکتا ہوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا تو انہوں نے مجھے کہا خدا کی قسم یہ اچھا ہے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس بارے میں مجھ سے بحث کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعاليٰ نے اس معاملے میں میرا سینہ کھول دیا۔ میں نے بھی وہ کچھ دیکھ لیا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تھا حضرت زید کا بیان ہے کہ حضرت ابوبکر نے مجھے فرمایا آپ نوجوان آدمی اور صاحب عقل و دانش ہو اور آپ کی قرآن فہمی پر کسی کو اعتراض بھی نہیں اور آپ آقا علیہ السلام کو وحی بھی لکھ کر دیا کرتے تھے۔ آپ قرآن مجید کو تلاش کرکے جمع کردیں تو حضرت زید رضی اللہ عنہ نے کہا خدا کی قسم اگر آپ مجھے پہاڑوں میں کسی پہاڑ کو منتقل کرنے کا حکم دیں تو وہ میرے لیے اس کام سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ آپ رضی اللہ عنہ اس کام کو کیوں کر رہے ہو جسے آقا علیہ السلام نے نہیں کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا خدا کی قسم اس میں بہتری ہے۔ تو میں برابر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بحث کرتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعاليٰ نے میرا سینہ کھول دیا جس طرح اللہ تعاليٰ نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما کا سینہ کھولا تھا۔ پھر میں نے قرآن مجید کو کھجور کے پتوں، کپڑے کے ٹکڑوں، پتھر کے ٹکڑوں اور لوگوں کے سینوں سے تلاش کرکے جمع کردیا۔ یہ وہ عمل ہے جس پر صحابہ رضی اللہ عنہ میں سے کسی کا اختلاف نقل نہیں کیا گیا۔ ۔ ۔ حتی کہ جب انہوں نے (لغت قریش پر) صحائف لکھ لیے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تمام شہروں میں ان مصاحف کو بھیجا اور یہ حکم دیا کہ اس لغت کے سوا باقی تمام لغات پر لکھے ہوئے مصاحف کو جلا دیا جائے۔ ۔ ۔ حالانکہ اس معاملہ میں ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی حکم نہیں تھا لیکن انہوں نے اس اقدام میں ایسی مصلحت دیکھی جو تصرفات شرعیہ کے بالکل مناسب تھی کیونکہ قرآن کریم کو مصحف واحد میں جمع کرنا شریعت کے تحفظ کی خاطر تھا اور یہ بات مسلّم اور طے شدہ ہے کہ ہمیں شریعت کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے اور ایک لغت پر قرآن کریم کو جمع کرنا اس لیے تھا کہ مسلمان ایک دوسرے کی قرات کی تکذیب نہ کریں اور ان میں اختلاف نہ پیدا ہو اور یہ بات بھی مسلّم ہے کہ ہمیں اختلاف سے منع کیا گیا ہے اور جب یہ قاعدہ معلوم ہو گیا تو جان لو کہ احادیث اور کتب فقہ کو مدون کرنا بھی اسی وجہ سے ہے کہ شریعت محفوظ رہے، علاوہ ازیں احادیث میں علم کی باتوں کو لکھنے کا بھی حکم ثابت ہے۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، 4 : 1720، کتاب التفسير، باب قوله لقد جاء کم رسول، رقم : 4402
2. بخاري، الصحيح، 6 : 2629، کتاب الاًحکام، باب يستحب للکاتب أن يکون اميناً عاقلاً، رقم : 6768
3. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 283، کتاب التفسير، باب من سورة التوبة رقم : 3103
4. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 7، رقم : 2202
5. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 13، رقم : 76
6. ابن حبان، الصحيح، 10 : 360، رقم : 4506


شاطبي، الاعتصام، 2 : 115

(14) اِمام بدر الدین محمد بن عبد اﷲ الزرکشی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 794ھ)

علامہ بدر الدین محمد بن عبداللہ زرکشی اپنی کتاب ’’المنثور فی القواعد‘‘ میں بدعت لغویۃ اور بدعت شرعیہ کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

18. فأما في الشرع فموضوعة للحادث المذموم، و إذا أريد الممدوح قُيّدَتْ و يکون ذالک مجازًا شرعياً حقيقة لغوية

’’شرع میں عام طور پر لفظ بدعت، محدثہ مذمومہ کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن جب بدعت ممدوحہ مراد ہو تو اسے مقید کیا جائے گا لہٰذا یہ بدعت ممدوحہ مجازاً شرعی ہوگی اور حقیقتاً لغوی ہوگی۔‘‘

زرکشي، المنثور في القواعد، 1 : 217

(15) اِمام عبد الرحمٰن بن شہاب الدین ابن رجب الحنبلی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 795 ھ)

علامہ ابن رجب حنبلی بغدادی اپنی کتاب ’’جامع العلوم والحکم‘‘ میں بدعت کی اقسام اور اس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

19. المراد بالبدعة ما أحدث مما لا أصل له في الشريعة يدلّ عليه، وأما ما کان له أصل من الشرع يدلّ عليه فليس ببدعة شرعاً وإن کان بدعة لغة.

’’بدعت سے مراد ہر وہ نیا کام ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو اس پر دلالت کرے لیکن ہر وہ معاملہ جس کی اصل شریعت میں موجود ہو وہ شرعاً بدعت نہیں اگرچہ وہ لغوی اعتبار سے بدعت ہو گا۔‘‘

1. ابن رجب حنبلي رحمة الله عليه ، جامع العلوم والحکم، 1 : 252
2. محمد شمس الحق، عون المعبود شرح سنن أبي داؤد، 12 : 235
3. عبد الرحمن مبارکپوري، تحفت الأخوذي، 7 : 366

حديث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَنْ أحْدَثَ فِی أمْرِنَا هذا مَا لَيْسَ مِنْهَ فَهُوَ رَدٌّ کی تشریح کرتے ہوئے علامہ موصوف رقمطراز ہیں :

20. من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد (1) فکلّ من أحدث شيئا و نسبه إلي الدين ولم يکن له أصل من الدين يرجع إليه فهو ضلالة والدين بريء منه، و سواء في ذلک مسائل الاعتقادات أو الأعمال أو الأقوال الظاهرة والباطنة. و أما ما وقع في کلام السلف من استحسان بعض البدع فإنما ذلک في البدع اللغوية لا الشرعية. (2)

’’حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہ ہو تو وہ (چیز) مردود ہے۔ پس جس کسی نے بھی کوئی نئی چیز ایجاد کی اور پھر اس کی نسبت دین کی طرف کر دی اور وہ چیز دین کی اصل میں سے نہ ہو تو وہ چیز اس کی طرف لوٹائی جائے گی اور وہی گمراہی ہو گی اور دین اس چیز سے بری ہو گا اور اس میں اعتقادی، عملی، قولی، ظاہری و باطنی تمام مسائل برابر ہیں۔ اور بعض اچھی چیزوں میں سے جو کچھ اسلاف کے کلام میں گزر چکا ہے پس وہ بدعت لغویہ میں سے ہے، بدعت شرعیہ میں سے نہیں ہے۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، 3 : 1343، کتاب الاقضية، باب نقض الاحکام الباطلة، رقم : 1718
2. ابن ماجه، السنن، المقدمه الکتاب، 1 : 7، باب تعظيم حديث رسول الله، رقم : 14
3. احمد بن حنبل، المسند : 6 : 270، رقم : 26372
4. ابن حبان، الصحيح، 1 : 207، رقم : 26
5. دار قطني، السنن، 4 : 224، رقم : 78


ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم : 252

علامہ ابن رجب بدعات حسنہ کی مثالیں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

21. فمن ذلک قول عمر رضي الله عنه لما جمع الناس في قيام رمضان علي إمام واحد في المسجد و خرج ورآهم يصلون کذلک فقال : نعمت البدعة هذه. (1) وروي عنه أنه قال : إن کانت هذه بدعة فنعمت البدعة. وروي عن أبيّ بن کعب قال له : إن هذا لم يکن، فقال عمر : قد علمت ولکنه حسن، ومراده أن هذا الفعل لم يکن علي هذا الوجه قبل هذا الوقت، ولکن له أصل في الشريعة يرجع إليها. فمنها أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم کان يحثّ علي قيام رمضان و يرغب فيه، وکان الناس في زمنه يقومون في المسجد جماعات متفرقة ووحدانا، وهو صلي الله عليه وآله وسلم صلي بأصحابه في رمضان غير ليلة ثم امتنع من ذلک معللا بأنه خشي أن يکتب عليهم فيعجزوا عن القيام به و هذا قد أمن بعده صلي الله عليه وآله وسلم . وروي عنه صلي الله عليه وآله وسلم أنه کان يقوم بأصحابه ليالي الإفراد في العشر الأواخر. ومنها أنه صلي الله عليه وآله وسلم أمر باتباع سنة خلفائه الراشدين، و هذا قد صار من سنة خلفائه الراشدين، فإن الناس اجتمعوا عليه في زمن عمر و عثمان و علي رضي اﷲ عنهم. ومن ذلک أذان الجمعة الأوّل زاده عثمان لحاجة الناس إليه، و أقرّه عليّ واستمرّ عمل المسلمين عليه. وروي عن ابن عمر أنه قال : هو بدعة، ولعله أراد ما أراد أبوه في قيام شهر رمضان. ومن ذلک جمع الصحف في کتاب واحد توقف فيه زيد بن ثابت وقال لأبي بکر و عمر رضي اﷲ عنهما : کيف تفعلان مالم يفعله النبي صلي الله عليه وآله وسلم ؟ ثم علم أنه مصلحة فوافق علي جمعه، وقد کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يأمر بکتابة الوحي، ولا فرق بين أن يکتب مفرقا أو مجموعا بل جمعه صار أصلح. وکذلک جمع عثمان الأمة علي مصحف و إعلامه لما خالفه خشية تفرّق الأمة، وقد استحسنه عليّ و أکثر الصحابة رضي اﷲ عنهم و کان ذلک عين المصلحة. وکذلک قال من منع الزکاة توقف فيه عمر و غيره حتي بينه له أبوبکر أصله الذي يرجع إليه من الشريعة فوافقه الناس علي ذلک. (2)

’’اور بدعتِ حسنہ کے اثبات میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جب آپ رضی اللہ عنہ نے قیام رمضان کے لیے تمام لوگوں کو مسجد میں ایک امام کی اقتداء میں جمع کیا اور پھر جب انہیں اس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ یہ کتنی اچھی بدعت ہے اور آپ رضی اللہ عنہ سے کچھ اس طرح بھی مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’ان کانت ھذہ بدعۃ فنعمت البدعۃ‘‘ اگر یہ بدعت ہے تو پھر یہ اچھی بدعت ہے۔ اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کہا کہ اگرچہ یہ اس طرح نہ بھی ہو، تو اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں بھی جانتا ہوں لیکن یہ اچھی بدعت ہے اور اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ یہ عمل اس سے پہلے اس صورت میں نہیں تھا۔ لیکن اس کی اصل شریعت میں موجود تھی جو کہ اس فعل کی طرف لوٹتی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ آقا علیہ السلام قیام رمضان پر ابھارتے اور اس کی ترغیب دیتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بھی لوگ متفرق جماعات کی صورت میں قیام کیا کرتے تھے اور اکیلے اکیلے بھی قیام کیا کرتے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کے ساتھ ایک رات سے زیادہ راتوں میں رمضان میں نماز پڑھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی علت کے باعث اس سے منع فرما دیا اور وہ اس وجہ سے تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوف ہونے لگا کہ یہ ان پر فرض کردی جائے گی اور وہ لوگ اس قیام سے عاجز آجائیں گے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تصدیق بھی کردی، اور آقا علیہ السلام سے روایت کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری عشرہ کی طاق راتوں میں اپنے بعض صحابہ کرام کے ساتھ قیام کیا کرتے تھے۔ اور اسی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنھم کی سنت پر عمل کرنے کا حکم دیا۔ اور یہ کام (یعنی قیام رمضان تراویح کی صورت) خلفاء راشدین کی سنت میں سے ہوگیا۔ اور اسی طرح لوگ حضرت عمر فاروق، عثمان غنی اور علی المرتضيٰ رضی اﷲ عنہم کے زمانے میں ہی اس چیز پر مجتمع ہوگئے تھے اور اسی طرح جمعہ کی پہلی اذان ہے جس کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی ضرورت کے پیش نظر زیادہ کیا اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ اس پر قائم رہے اور اس پر لوگوں نے عمل کرنا شروع کردیا۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے جمعہ کی دوسری اذان کے بارے میں فرمایا کہ وہ بدعت ہے۔ شاید ان کی مراد بھی وہی ہو جو ان کے والد کی قیام رمضان کے بارے میں تھی۔ اور اسی میں سے صحائف کو ایک کتاب میں جمع کرنا ہے۔ اس پر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے توقف کیا اور آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہما سے کہا کہ آپ اس کام کو کیسے کر رہے ہو جسے خود آقا علیہ السلام نے نہیں کیا؟ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے جان لیا کہ اس میں مصلحت ہے۔ تو پھر آپ اس کو جمع کرنے پر راضی ہوگئے۔ اور حضور علیہ السلام نے وحی کو لکھنے کا حکم دیا تھا اور اس میں کوئی فرق نہیں کہ اسے متفرق یا مجموعہ کی صورت میں لکھا جائے۔ لیکن اس کو جمع کرنا زیادہ مبنی بر مصلحت ہے۔ اور اسی طرح حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے امت مسلمہ کو ایک مصحف پر جمع کیا۔ اور آپ رضی اللہ عنہ نے اس حقیقت کو پالیا جس کے لوگ مخالف تھے اور جو امت میں تفرقہ ڈالنے والی تھی۔ اور اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اکثر صحابہ رضی اللہ عنھم نے درست جانا ہے اور یہ مصلحت کے عین مطابق تھا۔ اور اسی طرح زکوٰۃ نہ دینے والوں کے بارے میں (حضرت ابوبکر کا) فیصلہ اس میں عمر اور دیگر صحابہ نے توقف اختیار کیا۔ یہاں تک کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس اصل کا بتا دیا جو کہ شریعت میں سے اس کی طرف لوٹتی ہے پھر اس پر لوگ آپ سے متفق ہوگئے۔‘‘

1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250


ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم : 3 - 252
 

Hunain

وفقہ اللہ
رکن
(16) علامہ شمس الدین محمد بن یوسف الکرمانی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 796ھ)

علامہ شمس الدین محمد بن یوسف بن علی الکرمانی تصور بدعت کی تفہیم اور اس کی تقسیم بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’الکواکب الدراری فی شرح صحیح البخاری‘‘ میں لکھتے ہیں :

22. البدعة کل شئ عمل علي غير مثال سابق و هي خمسة أقسام واجبة و مندوبة و محرمة و مکروهة و مباحة و حديث کل بدعة ضلالة(1) من العام المخصوص. . . . لأن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم لم يسنها ولا کانت في زمن أبي بکر ورغب فيها بقوله نعم ليدل علي فضلها ولئلا يمنع هذا اللقب من فعلها و يقال نعم کلمة تجمع المحاسن کلها و بئس کلمة تجمع المساويء کلها و قيام رمضان في حق التسمية سنة غير بدعة لقوله عليه الصلاة والسلام (اقتدوا باللذين من بعدي أبي بکر و عمر رضي اﷲ عنهما)(2) قوله (ينامون عنها) أي فارغين عنها أي الصلاة أول الليل أفضل من الصلاة في آخر الليل و بعضهم عکسوا و بعضهم فصلوا بين من يستوثق بالانتباه من النوم و غيره. فان قلت هذه الصلاة ليست بدعة لما ثبت من فعله صلي الله عليه وآله وسلم لها. قلت لم يثبت کونها أول الليل أو کل ليلة أو بهذه الصفة. (3)

’’ہر وہ چیز جس پر مثال سابق کے بغیر عمل کیا جائے وہ ’’بدعت‘‘ کہلاتی ہے۔ اور اس کی پانچ اقسام بدعت واجبہ، بدعت مندوبۃ، بدعت محرمہ، بدعت مکروھہ اور بدعت مباحہ ہیں۔ اور ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ والی حدیث عام مخصوص کے قاعدے کے تحت ہے۔ . . کیونکہ حضور علیہ السلام نے اس چیز کو مسنون نہیں کیا اور نہ ہی یہ کام حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہوا اسی وجہ سے اس کو ’’بدعت‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور لفظ ’’نعم‘‘ کے ذریعے ایسے (احسن) اُمور کی ترغیب دی گئی تاکہ یہ لفظ ان امور کی فضیلت پر دلالت کرے تاکہ محض لفظ بدعت کی وجہ سے ایسے احسن امور کے کرنے سے منع نہ کیا جائے اور جب کسی امر کے ساتھ کلمہ ’’نعم‘‘ لگا دیا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ امر تمام محاسن کا جامع ہے اور اگر لفظ ’’بئس‘‘ لگا دیا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ امر تمام برائیوں کا جامع ہے۔‘‘ اور قیام رمضان حقیقت میں سنت کا ہی نام ہے نہ کہ بدعت کا جس طرح آقا علیہ السلام نے اپنے ایک قول میں ارشاد فرمایا (اقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر و عمر) میرے بعد میں آنے والے یعنی ابو بکر اور عمر رضی اﷲ عنہما کی پیروی کرنا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول ’’ینا مون عنھا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس نماز سے محروم رہتے ہیں یعنی وہ اس نماز سے خالی ہیں یعنی اول وقت میں نماز پڑھنا اخر وقت میں نماز پڑھنے سے زیادہ افضل ہے اور بعض نے اس کے برعکس کہا اور بعض نے فرق کیا ہے۔ اور اگر تو یہ کہے کہ یہ نماز بدعت نہیں ہے کیونکہ اس کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فعل ثابت ہے تو میں کہتا ہوں کہ اول رات میں ہر رات میں یا اس صفت کے ساتھ اس کام کا ہونا ثابت نہیں ہے۔‘‘

1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة، رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
5. ابن حبان، الصحيح، 1 : 178، رقم : 5


1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب عن الرسول صلي الله عليه وآله وسلم ، باب مناقب ابي بکر و عمر، 5 / 609، رقم : 3662
2. ابن ماجه، السنن، باب في فضل اصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 / 37، رقم : 97
3. حاکم، المستدرک، 3 / 79، رقم : 4451
4. احمد بن حنبل، المسند، 5 / 382، رقم : 23293


الکرماني، الکواکب الدراري في شرح صحيح البخاري، 9 : 5 - 154

(17) علامہ ابو عبد اﷲ محمد بن خلفہ الوشتانی المالکی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 828 ھ)

علامہ ابوعبداللہ محمد بن خلفہ وشتانی مالکی صحیح مسلم کی شرح ’’اکمال اکمال المعلم‘‘ میں حدیث شریف ’’من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ‘‘ کی شرح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :

23. التعبير بلفظ السنة في الشر مجاز من مجاز المقابلة کقوله تعالي و مکروا و مکر اﷲ واﷲ خير الماکرين (آل عمران، 3 : 54) و يدخل في السنة الحسنة البدع المستحسنة کقيام رمضان والتحضير في المنار أثر فراغ الأذان و عند أبواب الجامع و عند دخول الإمام وکالتصبيح عند طلوع الفجر کل ذلک من الإعانة علي العبادة التي يشهد الشرع باعتبارها وقد کان عليّ و عمر رضي اﷲ عنهما يوقظان الناس لصلاة الصبح بعد طلوع الفجر واتفق أن إمام الجامع الأعظم بتونس وأظنه البرجيني حين أتي ليدخل الجامع سألته إمرأة أن يدعو لابنها الأسير و کان المؤذنون حينئذ يحضرون في المنار فقال لها ما أصاب الناس في هذا يعني التحضير أشد من أمرابنک فکان الشيخ ينکر ذلک عليه و يقول ليس انکاره بصحيح بل التحضير من البدع المستحسنة التي شهد الشرع باعتبارها و مصلحتها ظاهرة قال وهو اجماع من الشيوخ اذ لم ينکروه کقيام رمضان والاجماع علي التلاوة ولاشک أنه لا وجه لإنکاره اِلَّا کونه بدعة ولکنها مستحسنة و يشهد لاعتبارها الأذان والإقامة فإن الأذان للأعلام بدخول الوقت والإقامة بحضور الصلاة و کذلک التحضير هو اعلام بقرب حضور الصلاة (قوله ومن سن في الإسلام سنة سيئه)(1) (قلت) هذه لا يشترط فيها أن ينوي الاقتداء به بدليل حديث ابن آدم القاتل لأخيه ان عليه کفلا من کل نفس قتلت لأنه أول من سن القتل. (2)

’’لفظ سنت کی تعبیر کچھ اس طرح ہے کہ سنت کا لفظ جو ’’شرُّ‘‘ کے ساتھ استعمال ہوا ہے وہ مجازی طور پر استعمال ہوا ہے جو کہ مجاز کے مقابلہ میں ہے۔ جیسے اللہ تعاليٰ کا ارشاد ہے ’’ومکروا و مکر اﷲ واﷲ خیر الما کرین‘‘ (آل عمران، 3 : 54) اور اسی طرح بدعت حسنہ سنت مستحسنہ میں داخل ہے جیسے رمضان المبارک میں قیام کرنا آذان کے لئے منار اور مساجد کے دروازوں پر جانا اور امام کے آنے پر کھڑا ہونا اور اسی طرح صبح کے وقت ایک دوسرے کو سلام کرنا یہ اور اس جیسے دوسرے امور عبادت پر مددگار ہیں اور شرع ان کی تائید کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، وعلی رضی اللہ عنہ طلوع فجر کے بعد لوگوں کو نماز کے لئے اٹھاتے تھے اور اس امر پر اتفاق ہے کہ تیونس کے عظیم امام (شارع کہتا ہے کہ) میرے گمان میں وہ شیخ البرجینی تھے جب وہ جامع مسجد کی طرف آئے تو ایک عورت نے ان سے استدعا کی کہ وہ اس کے قیدی بیٹے کے لئے دعا کریں اس زمانے میں مؤذن مینار میں حاضر ہوکر اذان دیتے تھے۔ تو انہوں نے کہا کہ اس مسئلہ میں لوگ کتنا عجیب معاملہ کرتے ہیں یعنی مینار پر حاضر ہونا تیرے بیٹے کے معاملے سے بھی زیادہ عجیب تر ہے شیخ نے اس چیز کا انکار کر دیا انہوں نے کہا کہ اُن کا انکار کرنا درست نہیں ہے کیونکہ تحضیر بدعت مستحسنۃ میں سے ہے شرع نے اس کے اعتبار اور ظاہری مصلحت کی وجہ سے اسے جائز قرار دیا ہے مزید کہا کہ جب انہیں انکار نہیں ہے تو پھر اس پر شیوخ کا اجماع ہے۔ جیسے قیام رمضان اور تلاوت کے لئے مجتمع ہونا اور بلاشبہ اس کے انکار کی کوئی وجہ نہیں سوائے اس کے کہ یہ بدعت ہے لیکن یہ بدعت مستحسنۃ ہے اور اذان و اقامت کا اعتبار اس کے بدعت حسنہ ہونے کی گواہی ہے کیونکہ اذان دخول وقت کا اعلان ہے اور اقامت نماز میں حاضر ہونے کا اعلان ہے۔ اسی طرح تحضیر نماز کے قریب آنے کا اعلان ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان ’’ومن سن فی الاسلام سنۃ سیئۃ‘‘ میں ’’بدعت سیئہ‘‘ کی اِقتداء شرط نہیں ہے جیسے حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے کا اپنے بھائی کو قتل کرنا تو اس قاتل پر ہر اس قتل کا بوجھ بھی ہوگا جو بعد میں ہوگا کیونکہ یہ وہ شخص ہے جس نے قتل کا آغاز کیا۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017
2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم : 2554
3. ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359
5. ابن حبان، الصحيح، 8 : 101، 102، رقم : 3308


وشتاني، إکمال إکمال المعلم، 7 : 109

(18) اِمام ابو الفضل احمدبن علی بن محمد ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی، 852ھ)

علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور و معروف تصنیف ’’فتح الباری شرح صحیح البخاری‘‘ میں بدعت کی تعریف اور تقسیم پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے :

24. والبدعة أصلها ما أحدث علي غير مثال سابق، و تطلق في الشرع في مقابل السنة فتکون مذمومة، والتحقيق أنها إن کانت مما تندرج تحت مستحسن في الشرع فهي حسنة، و إن کانت مما تندرج مستقبح في الشرع فهي مستقبحة، و إلَّا فهي من قسم المباح وقد تنقسم إلي الأحکام الخمسة.

’’بدعت سے مراد ایسے نئے امور کا پیدا کیا جانا ہے جن کی مثال سابقہ دور میں نہ ملے اور ان امور کا اطلاق شریعت میں سنت کے خلاف ہو پس یہ ناپسندیدہ عمل ہے، اور بالتحقیق اگر وہ بدعت شریعت میں مستحسن ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے اور اگر وہ بدعت شریعت میں ناپسندیدہ ہو تو وہ بدعت مستقبحہ یعنی بری بدعت کہلائے گی اور اگر ایسی نہ ہو تو اس کا شمار بدعت مباحہ میں ہوگا۔ بدعت کو شریعت میں پانچ اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے (واجبہ، مندوبہ، محرمہ، مکروہہ اور مباحہ)۔‘‘

1. عسقلاني، فتح الباري شرح صحيح البخاري، 4 : 253
2. شوکاني، نيل الأوطار، 3 : 63

(19) اِمام ابو محمد بدر الدین محمود العینی الحنفی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 855ھ)

اِمام بدر الدین عینی بدعت کی تعریف اور اس کی تقسیم بیان کرتے ہوئے ’’عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری‘‘ میں رقمطراز ہیں :

25. البدعة في الأصل احداث أمرلم يکن في زمن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم . ثم البدعة علي نوعين اِن کانت مما يندرج تحت مستحسن في الشرع فهي بدعة حسنة و اِن کانت مما يندرج تحت مستقبح في الشرع فهي بدعة مستقبحة.

’’بدعت اصل میں اُس نئے کام کا بجا لانا ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ ہوا ہو پھر بدعت کی دو قسمیں ہیں اگر یہ بدعت شریعت کے مستحسنات کے تحت آجائے تو یہ ’’بدعتِ حسنہ‘‘ ہے اور اگر یہ شریعت کے مستقبحات کے تحت آجائے تو یہ ’’بدعتِ مستقبحۃ‘‘ ہے۔‘‘

عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 11 : 126

(20) اِمام محمد بن عبدالرحمن شمس الدین محمود السخاوی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 902ھ)

علامہ شمس الدین سخاوی اذان کے بعد صلوۃ و سلام پڑھنے کو بدعت حسنہ قرار دیتے ہوئے اپنی کتاب ’’القول البدیع فی الصلاۃ علی الحبیب الشفیع‘‘ کے صفحہ 193 پر رقمطراز ہیں :

26. وقد اختلف في ذٰلک هل هو مستحب أو مکروه أو بدعة أو مشروع واستدل للأول بقوله تعالٰي و افعلوا الخير، و معلوم ان الصلٰوة و السلام من أجل القرب لا سيما وقد تواردت الاخبار علي الحث علي ذلک مع ماجاء في فصل الدعا عقب الأذان والثلث الاخير من الليل و قرب الفجر والصواب انه بدعة حسنة يؤجر فاعله بحسن نية.

’’اذان کے بعد صلوٰۃ و سلام پڑھنے میں اختلاف ہے کیا وہ مستحب ہے، مکروہ ہے، بدعت ہے یا جائز ہے؟ اس کے اِستحباب پر اللہ تعاليٰ کے اس قول (وافعلوا الخیر) سے استدلال کیا گیا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ صلوٰۃ و سلام قُرب کے قصد سے پڑھا جاتا ہے خصوصاً جب کہ اس کی ترغیب میں کثیر احادیث وارد ہیں، علاوہ ازیں اذان کے بعد دعا میں جدائی کرنے اور تہائی رات کے اخیر میں دعا کرنے کی فضیلت میں بھی احادیث ہیں اور صحیح یہ ہے کہ یہ بدعت حسنہ ہے اور اس کے فاعل کو حسن نیت کی وجہ سے اجر ملے گا۔‘‘

1. سخاوي، القول البديع في الصلاة علي الحبيب الشفيع : 193
2. سخاوي، فتح المغيث شرح الفية الحديث، 2 : 327
 

Hunain

وفقہ اللہ
رکن
(21) اِمام جلال الدین عبدالرحمن بن ابو بکر السیوطی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 911ھ)

امام جلال الدین سیوطی اپنے فتاويٰ ’’الحاوی للفتاوٰی‘‘ میں علامہ نووی کے حوالے سے بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

27. أن البدعة لم تنحصر في الحرام و المکروه، بل قد تکون أيضاً مباحة و مندوبة و واجبة. قال النووي رحمة الله عليه في تهذيب الأسماء واللُّغات، البدعة في الشرع هي إحداث ما لم يکن في عهد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وهي منقسمة إلي حسنة و قبيحة، وقال الشيخ عز الدين بن عبدالسلام رحمة الله عليه في القواعد : البدعة منقسمة إلي واجبة و محرمة و مندوبة و مکروهة و مباحة قال : والطريق في ذلک أن نعرض البدعة علي قواعد الشريعة فإذا دخلت في قواعد الإيجاب فهي واجبة أوفي قواعد التحريم فهي محرمة أو الندب فمندوبة أو المکروه فمکروهة أو المباح فمباحة، وذکر لکل قسم من هذه الخمسة أمثلة إلي أن قال : و للبدع المندوبة أمثلة، منها أحداث الربط والمدارس وکل إحسان لم يعهد في العصر الأول، ومنها التراويح والکلام في دقائق التصوف وفي الجدل، ومنها جمع المحافل للإستدلال في المسائل إن قصد بذلک وجه اﷲ تعالي.

’’بدعت حرام اور مکروہ تک ہی محصور نہیں ہے بلکہ اسی طرح یہ مباح، مندوب اور واجب بھی ہوتی ہے جیسے کہ امام نووی اپنی کتاب ’’تہذیب الاسماء و اللغات‘‘ میں فرماتے ہیں کہ شریعت میں بدعت اس عمل کو کہتے ہیں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں نہ ہوا ہو اور یہ بدعت، بدعت حسنہ اور بدعت قبیحۃ میں تقسیم ہوتی ہے اور شیخ عزالدین بن عبدالسلام اپنی کتاب ’’القواعد الاحکام‘‘ میں کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ بدعت کی تقسیم واجب، حرام، مندوب، مکروہ اور مباح کے اعتبار سے ہوتی ہے اور فرماتے ہیں کہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم بدعت کو شریعت کے قواعد پر پیش کریں اگر وہ بدعت قواعدِ ایجاب کے تحت داخل ہو تو واجب ہے اور اگر قواعد تحریم کے تحت داخل ہو تو حرام ہے اور اگر قواعدِ اِستحباب کے تحت داخل ہو تو مستحب ہے اور اگر کراہت کے قاعدہ کے تحت داخل ہو تو مکروہ اور اباحت کے قاعدہ میں داخل ہے تو مباح ہے اور انہوں نے ان پانچ اقسام کی مثالیں بیان کی ہیں جیسے کہ بدعت مندوبہ کی مثال سرائے اور مدارس وغیرہ کا تعمیر کرنا اور ہر وہ اچھا کام جو پہلے زمانے میں نہیں ہوا جیسے کہ نماز تراویح اور علم التصوف کے متعلق گہری معلومات اور مجادلہ سے متعلق معلومات وغیرہ اور اسی میں سے رضائے الٰہی کے لئے مسائل میں استدلال کے لئے محافل کا انعقاد کرنا ہے وغیرہ وغیرہ۔‘‘

1. سيوطي، الحاوي للفتاويٰ، 1 : 192
2. سيوطي، شرح سنن ابن ماجه، 1 : 6
3. سيوطي، الديباج علي صحيح مسلم بن الحجاج، 2 : 445

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ کے ذیل میں نماز تراویح کو بدعت حسنہ قرار دیتے ہوئے علامہ جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں :

28. عن عمر أنه قال في التراويح : نعمت البدعة هذه(1) والتي ينامون عنها أفضل فسماها بدعة. يعني بدعة حسنة. و ذلک صريح في أنهالم تکن في عهد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، و قد نص علي ذلک الإمام الشافعي و صرح به جماعات من الأئمة منهم الشيخ عز الدين بن عبد السلام حيث قسم البدعة إلي خمسة أقسام و قال : ومثال المندوبة صلاة التراويح و نقله عنه النووي في تهذيب الأسماء و اللغات، ثم قال و روي البيهقي بإسناده في مناقب الشافعي عن الشافعي قال : المحدثات في الأمور ضربان، أحدهما ما أحدث مما خالف کتابا أو سنة أو أثرا أو اجماعا فهذه البدعة الضلالة. والثاني ما أحدث من الخير و هذه محدثة غير مذمومة و قد قال عمر في قيام شهر رمضان : نعمت البدعة هذه. يعني أنها محدثة لم تکن. (2)

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے تراویح کے بارے میں فرمایا یہ کتنی اچھی بدعت ہے اور رات کا وہ حصہ جس میں لوگ سو جاتے ہیں یہ حصہ اس سے بہتر ہے آپ نے اسی وجہ سے اسے بدعت کا نام دیا یعنی بدعت حسنہ۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ چیز آقا علیہ السلام کے زمانے میں نہیں تھی۔ اور اس پر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے نص پیش کی ہے اور پھر ائمہ کی جماعتوں نے بھی اس کی وضاحت کی ہے۔ ان میں سے ایک شیخ عز الدین بن عبد السلام ہیں جنہوں نے بدعت کو پانچ قسموں میں تقسیم کیا ہے اور انہوں نے کہا کہ جیسے مندوب کی مثال نماز تراویح ہے اور ان سے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’تہذیب الاسماء و اللغات‘‘ میں نقل کیا ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ امام بیہقی نے بھی اپنی سند کے ساتھ مناقب شافعی میں بیان کیا ہے۔ امام شافعی سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا محدثات الامور کی دو قسمیں ہیں ان میں سے ایک احداث ایسا ہے جو کہ کتاب، سنت، اثر صحابہ (یعنی قول صحابہ) اور اجماع کے مخالف ہے وہی بدعت ضلالہ ہے اور دوسرا احداث جو کہ خیر میں سے ہے اور یہ احداث غیر مذموم ہے جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ماہ رمضان میں قیام (یعنی نماز تراویح) کے بارے میں کہا ’’نعمتِ البدعَۃ ھَذِہِ‘‘یہ کتنی اچھی بدعت ہے، یعنی یہ ایسا محدثہ ہے جو پہلے نہیں تھا۔‘‘

1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266
4. زرقاني، شرح الزرقاني علي مؤطا الامام مالک، 1 / 340


سيوطي، الحاوي للفتاوي، 1 / 348

(22) اِمام ابو العباس احمد بن محمد شہاب الدین القسطلانی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 911ھ)

علامہ شہاب الدین احمد قسطلانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان ’’نعم البدعۃ ہذہ‘‘ کے ضمن میں بدعت کی تعریف اور تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

29. نعم البدعة هذه(1) سماها بدعة لأنه صلي الله عليه وآله وسلم لم يسن لهم الاجتماع لها ولا کانت في زمن الصديق ولا أول الليل ولا کل ليلة ولا هذا العدد. و هي خمسة واجبة و مندوبة و محرمة و مکروهة و مباحة و حديث ’’کل بدعة ضلالة‘‘(2) من العام المخصوص و قد رغب فيها عمر بقوله نعم البدعة و هي کلمة تجمع المحاسن کلها کما أن بئس تجمع المساوي کلها و قيام رمضان ليس بدعة لأنه صلي الله عليه وآله وسلم قال اقتدوا باللذين من بعدي ابي بکر و عمر(3) (رضي اﷲ عنهما) و إذا أجمع الصحابة مع عمر رضی الله عنه علي ذلک زال عنه اسم البدعة. (4)

’’نعم البدعۃ ہذہ‘‘ کے تحت نماز تراویح کو بدعت کا نام دیا گیا کیونکہ آقا علیہ السلام نے تراویح کے لئے اجتماع کو مسنون قرار نہیں دیا۔ اور نہ ہی اس طریقے سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تھی اور نہ ہی (پابندی کے ساتھ) رات کے اِبتدائی حصے میں تھی اور نہ ہی مستقلاً ہر رات پڑھی جاتی تھی اور نہ ہی یہ عدد متعین تھا اور بدعت کی درج ذیل پانچ اقسام واجبہ، مندوبہ، محرمہ، مکروھہ، اور مُبَاحہ ہیں اور جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ’’کل بدعۃ ضلالہ‘‘ یعنی ہر بدعت گمراہی ہے یہ حکم عام ہے مگر اس سے مراد مخصوص قسم کی بدعات ہیں اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے قول ’’نعم البدعۃ ہذہ‘‘ سے اس (بدعت حسنہ) کی ترغیب دی ہے۔ اوریہ کلمہ (یعنی لفظ نعم) اپنے اندر تمام محاسن سموئے ہوئے ہے جس طرح کہ لفظ بئس اپنے اندر تمام برائیاں سموئے ہوئے ہے۔ اور رمضان المبارک میں (نماز تراویح) کا قیام بدعت نہیں ہے کیونکہ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے بعد حضرت ابوبکر اور عمر رضی اﷲ عنہما کی پیروی کرنا اور جب صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ قیام رمضان پر اتفاق کیا تو اس طرح قیام رمضان سے بدعت کا اطلاق ختم ہوگیا۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، 2 : 707، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، رقم : 1906
2. مالک، المؤطا، 1 : 114، رقم، 2 : 250
3. ابن خزيمة، الصحيح، 2 : 155، رقم : 1100


1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة، رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126


1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب عن الرسول صلي الله عليه وآله وسلم ، باب مناقب ابي بکر و عمر، 5 / 609، رقم : 3662
2. ابن ماجه، السنن، باب في فضل اصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 / 37، رقم : 97
3. حاکم، المستدرک، 3 / 79، رقم : 4451


قسطلاني، ارشاد الساري لشرح صحيح البخاري، 3 : 426

(23) امام ابو عبد اﷲ محمد بن یوسف صالحی الشامی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 942ھ)

امام محمد بن یوسف صالحی شامی اپنی معروف کتاب ’’سبل الھدی والرشاد‘‘ میں علامہ تاج الدین فاکہانی کے اس مؤقف ’’ان الابتداع فی الدین لیس مباحًا‘‘ کا محاکمہ کرتے ہیں اور اس ضمن میں بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

30. أن البدعة لم تنحصر في الحرام والمکروه، بل قد تکون أيضاً مباحة و مندوبة و واجبة. قال النووي رحمة الله عليه في تهذيب الأسماء واللُّغات : البدعة في الشرع : هي ما لم يکن في عهد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وهي منقسمة إلي حسنة و قبيحة. وقال الشيخ عز الدين بن عبدالسلام رحمة اﷲ تعالٰي في القواعد : البدعة منقسمة إلي واجبة و إلي محرمة و مندوبة و مکروهة و مباحة.

’’ بدعت کا انحصار صرف حرام اور مکروہ پر نہیں ہے بلکہ بدعت اسی طرح مباح مندوب اور واجب بھی ہوتی ہے۔ اِمام نووی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’’تہذیب الاسماء واللغات‘‘ میں فرماتے ہیں شریعت میں بدعت اس عمل کو کہتے ہیں جو عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نہ ہوا ہو اور یہ بدعتِ حسنہ اور بدعت قبیحہ میں تقسیم کی جاتی ہے شیخ عزالدین بن عبدالسلام اپنی کتاب قواعد الاحکام میں فرماتے ہیں بدعت واجب، حرام، مندوب، مکروہ اور مباح میں تقسیم ہوتی ہے۔‘‘

صالحي، سبل الهدي والرشاد، 1 : 370

(24) امام عبد الوھاب بن احمد علی الشعرانی رحمۃ اللہ علیہ (973ھ)

امام عبد الوھاب بن احمد علی الشعرانی اپنی کتاب ’’الیواقیت و الجواہر فی بیان عقائد الاکابر‘‘ میں ایک استفتاء کے جواب میں بدعت حسنہ کے شرعی حکم کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

31. (فإن قلت) : فهل يلحق بالسنة الصحيحة في وجوب الإذعان لها ما ابتدعه المسلمون من البدع الحسنة؟ (فالجواب) : کما قاله الشيخ في الباب الثاني و الستين و مائتين : إنه يندب الإذعان لها ولا يجب کما أشار إليه قوله تعالي : (وَرَهبَانِيّة أبْتَدَعُوها مَا کَتَبْنٰها عَلَيْهِم) (الحديد، 57 : 27) وکما أشار إليها قوله صلي الله عليه وآله وسلم : (من سن سنة حسنة، (1) فقد أجاز لنا ابتداع کل ما کان حسناً وجعل فيه الأجر لمن ابتدعه ولمن عمل به مالم يشق ذلک علي الناس). (2)

’’اگر تو اعتراض کرے کہ بدعت حسنہ میں سے جو نئی چیز مسلمانوں نے اختیار کی ہے کیا وہ وجوب اقرار میں سنت صحیحہ کے ساتھ (درجہ میں) مل جاتی ہے؟ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اس نئی چیز یعنی بدعت حسنہ کا اقرار کرنا مندوب ہے نہ کہ واجب جیسا کہ اس چیز کی طرف اللہ تعاليٰ کا یہ قول اشارہ کرتا ہے ’’ورھبانیۃ ابتدعوھا ما کتبنٰھا علیھم‘‘ (الحدید، 57 : 27) ’’انہوں نے اس رہبانیت کو از خود شروع کر لیا تھا یہ ہم نے ان پر فرض نہیں کی تھی‘‘ اور جیسا کہ اسی چیز کی طرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان اشارہ کرتا ہے (من سن سنۃ حسنۃ) ’’جس نے کوئی اچھا طریقہ شروع کیا اور ہر وہ چیز جو اچھی ہو اسے شروع کرنا ہمارے لیے جائز ہے اور اس میں شروع کرنے والے کے لئے اور اس پر عمل کرنے والے کے لئے اجر رکھ دیا گیا ہے جب تک اس اچھی چیز پر عمل کرنا لوگوں کو مشقت میں نہ ڈالے۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017
2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم : 2554
3. ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359
5. ابن حبان، الصحيح، 8 : 101، 102، رقم : 3308
6. دارمي، السنن، 1 : 141، رقم : 514


شعراني، اليواقيت والجواهر في بيان عقائد الأکابر، 2 : 288

(25) اِمام احمد شہاب الدین ابن الحجر المکی الہیتمی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 974ھ)

اِمام ابن حجر مکی ’’الفتاويٰ الحدیثیہ‘‘ میں ایک سائل کا جواب دیتے ہوئے رقمطراز ہیں :

32. و قول السائل نفع اﷲ به وهل الاجتماع للبدع المباحة جائز جوابه نعم هو جائز قال العزالدين بن عبدالسلام رحمه اﷲ تعالي البدعة فعل مالم يعهد في عهد النبي صلي الله عليه وآله وسلم و تنقسم إلي خمسه أحکام يعني الوجوب والندب الخ وطريق معرفة ذلک أن تعرض البدعة علي قواعد الشرع فأي حکم دخلت فيه فهي منه فمن البدع الواجبة تعلم النحو الذي يفهم به القرآن والسنة ومن البدع المحرمة مذهب نحو القدرية ومن البدع المندوبة احداث نحو المدارس والاجتماع لصلاة التراويح ومن البدع المباحة المصافحة بعد الصلاة ومن البدع المکروهة زخرفة المساجد والمصاحف أي بغير الذهب والا فهي محرمة وفي الحديث ’’کل بدعة ضلالة و کل ضلالة في النار‘‘(1) وهو محمول علي المحرمة لا غير. (2)

’’اور سائل کا یہ قول (اللہ تعاليٰ اس سائل کو نفع دے) کہ کیا بدعت مباحہ کے لئے اجتماع جائز ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں ایسا کرنا جائز ہے، شیخ عز الدین بن عبدالسلام فرماتے ہیں : بدعت ایسا فعل ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ تھا اور بدعت کو پانچ اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے یعنی واجب اور ندب۔ ۔ ۔ الخ، اور اس کی پہچان کا طریقہ کار یہ ہے کہ بدعت کو قواعد شرعیہ پر پرکھا جائے گا پس جس حکم میں وہ بدعت داخل ہو گی تو وہ حکم اس پر لاگو ہو گا الغرض بدعت واجبہ میں سے نحو کا علم سیکھنا ہے جس سے قرآن اور سنت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، اور بدعت محرمہ میں سے نئے مذہب کا بنانا جیسے قدریہ، اور بدعت مندوبہ میں سے قیام مدارس اور نماز تراویح جماعت کے ساتھ ادا کرنا، اور بدعت مباحہ میں نماز کے بعد مصافحہ کرنا، اور بدعت مکروہہ میں سے مساجد اور قرآن کی تزئین و آرائش کرنا یعنی سونا استعمال کئے بغیر بصورت دیگر یہ بدعت محرمہ ہوگی اور حدی۔ رضی اللہ عنھم میں جو یہ الفاظ ہیں کہ ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ اور ’’کل ضلالۃ فی النار‘‘ اس سے مراد بدعت محرمہ ہے اس کے علاوہ اور کچھ مراد نہیں ہے۔‘‘

1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة، رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
5. ابن حبان، الصحيح، 1 : 178، رقم : 5


ابن حجر مکي، الفتاويٰ الحديثية : 130
 

Hunain

وفقہ اللہ
رکن
(26) شیخ محمد شمس الدین الشربینی الخطیب رحمۃ اللہ علیہ (977ھ)

دسویں صدی ھجری کے معروف شافعی عالم دین الشیخ محمد شمس الدین الشربینی الخطیب اپنی کتاب ’’مغنی المحتاج الی معرفۃ معانی الفاظ المنہاج‘‘ میں لفظ ’’وَتُقْبَلُ شَهادَة مُبْتَدِعٍ لاَ نُکَفِّرُه‘‘ کے ذیل میں شیخ عزالدین بن عبد السلام کے حوالے سے لکھتے ہیں :

33. البدعة منقسمة إلي واجبة و محرمة و مندوبة و مکروهة و مباحة. قال و الطريق في ذلک أن تعرض البدعة علي قواعد الشريعة، فان دخلت في قواعد الإيجاب فهي واجبة کالاشتغال بعلم النحو أو في قواعد التحريم فمحرمة کمذهب القدرية و المرجئة و المجسمة و الرافضة. قال والرد علي هؤلاء من البدع الواجبة : أي لأن المبتدع من أحدث في الشريعة مالم يکن في عهده صلي اﷲ عليه وسلم، أو في قواعد المندوب فمندوبة کبناء الربط و المدارس و کل إحسان لم يحدث في العصر الأول کصلاة التراويح، أو في قواعد المکروه فمکروه کزخرفة المساجد و تزويق المصاحف، أو في قواعد المباح فمباحة کالمصافحة عقب الصبح و العصر و التوسع في المآکل والملابس، و روي البيهقي بإسناده في مناقب الشافعي رضي اﷲ تعالي عنه : أنه قال : المحدثات ضربان : أحدهما ما خالف کتابا أو سنة أو إجماعا فهو بدعة و ضلالة : و الثاني ما أحدث من الخير فهو غير مذموم.

’’بدعت واجبہ، محرمہ، مندوبہ، مکروھۃ اور محرمہ کے تحت تقسیم ہوتی ہے اور انہوں نے کہا اس کا طریقہ یہ ہے کہ بدعت کو قواعد شریعت کے مطابق پرکھا جائے گا۔ اگر وہ وجوب کے قواعد میں داخل ہوئی تو وہ بدعت واجبہ ہو گی جیسے علم النحو کے حصول میں مشعول ہونا یا وہ بدعت قواعد تحریم میں داخل ہو گی تو پھر وہ بدعت محرمہ ہو گی جیسے مذہب قدریہ، مرجئہ، مجسمہ اور رافضہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان تمام (باطل مذاہب) کا رد کرنا بدعت واجبہ میں سے ہے کیونکہ مبتدع (بدعتی) نے شرعیت میں ایسی چیز ایجاد کی ہے جو کہ حضور علیہ السلام کے زمانے میں نہ تھی یا پھر وہ مستحب کے قواعد میں داخل ہو گئی تو وہ بدعت مستحبہ ہو گی جیسے سرائے اور مدارس وغیرہ تعمیر کرنا اور ہر وہ اچھی چیز جو پہلے زمانے میں ایجاد نہ ہوئی ہو جیسے نماز تراویح وغیرہ. یا پھر وہ قواعد مکروہ میں داخل ہو گی تو وہ بدعت مکروہ ہو گی جیسے مسجدوں کی تزئین اور مصاحف پر نقش نگار کرنا یا وہ قواعد مباح میں داخل ہو گی تو وہ مباح کہلائے گی۔ جیسے (نماز) فجر اور عصر کے بعد مصافحہ کرنا، کھانے اور پینے میں وسعت (اختیار) کرنا اور اسی طرح امام بیہقی نے اپنی سند کے ساتھ مناقب شافعی میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ محدثات کی دو قسمیں ہیں ان میں سے ایک وہ جو کتاب و سنت یا اجماع کے مخالف ہے وہی بدعت ضلالہ ہے اور دوسری وہ جو خیر میں سے ایجاد کی گئی ہو پس وہی بدعت غیر مذموم ہے۔‘‘

شربيني، مغني المحتاج الي معرفة معاني ألفاظ المنهاج، 4 : 436

(27) اِمام ملا علی بن سلطان محمد القاری رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 1014ھ)

اِمام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب مرقاۃ شرح مشکاۃ میں بدعت کی اقسام اور ان کی تفصیلات نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

34. قال الشيخ عزالدين بن عبدالسلام في آخر کتاب القواعد البدعة أما واجبة کتعلم النحو لفهم کلام اﷲ و رسوله و کتدوين اصول الفقه و الکلام في الجرح و التعديل، وأما محرمة کمذهب الجبرية والقدرية والمرجئة والمجسمة والرد علي هؤلاء من البدع الواجبة لأن حفظ الشريعة من هذه البدع فرض کفاية، و أما مندوبة کاحداث الربط والمدارس وکل إحسان لم يعهد في الصدر الأول و کالتراويح أي بالجماعة العامة و الکلام في دقائق الصوفية. و أما مکروهة کزخرفة المساجد و تزويق المصاحف يعني عند الشافعية و أما عند الحنفية فمباح، وأما مباحة کالمصافحة عقيب الصبح والعصر أي عند الشافعية ايضًا وإلا فعند الحنفية مکروه والتوسع في لذائذ الماکل والمشارب والمساکن وتوسيع الاکمام.

’’شيخ عزالدین بن عبد السلام ’’القواعد البدعۃ‘‘ کے آخر میں فرماتے ہیں۔ بدعت واجبہ میں قرآن اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام کو سمجھنے کے لیے نحو کا سیکھنا، اصول فقہ کی تدوین کرنا اور علم جرح و التعدیل کا حاصل کرنا ہے، جبکہ بدعت محرمہ میں نئے مذاہب کا وجود ہے جیسے جبریہ، قدریہ، مرجئہ اور مجسمہ اور ان تمام کا رد بدعت واجبہ سے کیا جائے گا۔ کیوں کہ اسی بدعت سے شریعت کی حفاظت کرنا فرض کفایہ ہے، جبکہ بدعت مندوبہ میں سرائے اور مدارس کا قیام اور ہر قسم کی نیکی کا فروغ جو اسلام کے ابتدائی دور میں نہ تھی جیسے باجماعت نماز تراویح اور تصوف کے پیچیدہ نکات و رموز پر گفتگو کرنا شامل ہیں۔

بدعت مکروھہ میں شوافع کے ہاں مساجد اور قرآن کی تزئین و آرائش کرنا ہے جبکہ احناف کے ہاں یہ مباح ہے، اور بدعت مباحہ میں شوافع کے ہاں فجر اور عصر کے بعد مصافحہ کرنا اور احناف کے نزدیک یہ مکروہ ہے اور اسی طرح لذیذ کھانے، پینے اور گھروں اور آستینوں کو وسیع کرنا (بھی بدعت مباحہ )میں شامل ہے۔‘‘

1. ملا علي قاري، مرقاة شرح مشکوٰة، 1 : 216

کل بدعۃ ضلالۃ کی شرح

1. اِمام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی، 1014ھ) حدیث مبارکہ ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

35. أي کل بدعة سيئة ضلالة، لقوله عليه الصلوة والسلام ’’من سنّ في الاسلام سنّة حسنة فله اجرها و أجر من عمل بها‘‘(1) و جمع أبوبکر و عمر القرآن و کتبه زيد في المصحف و جدد في عهد عثمان رضی الله عنهم.(2)

’’یعنی ہر بری بدعت گمراہی ہے۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے ’’ جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اس کو اس عمل کا اور اس پر عمل کرنے والے کا اجر ملے گا۔‘‘ اور یہ کہ حضرت شیخین ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کو جمع کیا اور حصرت زید رضی اللہ عنہ نے اس کو صحیفہ میں لکھا اور عہد عثمانی میں اس کی تجدید کی گئی۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017
2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم : 2554
3. ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359


ملا علي قاري، مرقاة، شرح مشکاة، 1 : 216

2. اِمام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی، 976ھ) اِسی حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

36. و في الحديث کل بدعة ضلالة و کل ضلالة في النار(1) و هو محمول علي المحرمة لا غير. (2)

’’اور جو حدیث میں ہے کہ ’’ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جائے گی‘‘ اس حدیث کو بدعت محرمہ پر محمول کیا گیا ہے، اس کے علاوہ اور کسی پر نہیں۔‘‘

1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة، رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
5. ابن حبان، الصحيح، 1 : 178، رقم : 5
6. طبراني، مسند الشاميين، 1 : 446، رقم : 786
7. طبراني، المعجم الکبير، 18 : 249، رقم : 624

(3) ابن حجر مکي، الفتاوي الحديثيه : 130

(28) الشيخ عبد الحميد الشرواني رحمۃ اللہ عليہ (ھ)

علامہ شیخ عبد الحمید الشروانی اپنی کتاب ’’حواشی الشروانی‘‘ میں بدعت کا حکم اور اس کی تفصیلات نقل کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں :

37. (قوله لا نکفره ببدعته) قال الزرکشي و لا نفسقه بها (فائدة) قال ابن عبد السلام البدعة منقسمة إلي واجبة و محرمة و مندوبة و مکروهة و مباحة قال والطريق في ذلک أن تعرض البدعة علي قواعد الشريعة فان دخلت في قواعد الإيجاب فهي واجبة کالاشتغال بعلم النحو أو في قواعد التحريم فمحرمة کمذهب القدرية والمرجئة والمجسمة والرافضة قال والرد علي هؤلاء من البدع الواجبة أي لان المبتدع من أحدث في الشريعة ما لم يکن في عهده صلي اﷲ عليه وسلم أو في قواعد المندوب فمندوبة کبناء الربط والمدارس و کل إحسان لم يحدث في العصر الأول کصلاة التراويح أو في قواعد المکروه فمکروهة کزخرفة المساجد و تزويق المصاحف أو في قواعد المباح فمباحة کالمصافحة عقب الصبح و العصر والتوسع في المأکل و الملابس وروي البيهقي بإسناده في مناقب الشافعي رضي الله عنه أنه قال المحدثات ضربان أحدهما ما خالف کتابا أوسنة أو اجماعا فهو بدعة و ضلالة و الثاني ما أحدث من الخير فهو غير مذموم.

’’شارح علامہ عبدالحمید الشروانی مبتدع کے بارے میں مؤلف کی عبارت ’’لا نکفرہ ببدعہ‘‘ اور امام زرکشی کے الفاظ ’’ولا نفسقہ بھا‘‘ کے حوالے سے بدعت کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عزالدین بن عبدالسلام نے کہا ہے کہ بدعت واجبہ، محرمہ، مندوبہ، مکروھۃ اور محرمہ کے تحت تقسیم ہوتی ہے اور انہوں نے کہا اس کا طریقہ یہ ہے کہ بدعت کو قواعد شریعت کے مطابق پرکھا جائے گا۔ اگر وہ وجوب کے قواعد میں داخل ہوئی تو وہ بدعت واجبہ ہو گی جیسے علم النحو کے حصول میں مشعول ہونا یا وہ بدعت قواعد تحریم میں داخل ہو گی تو پھر وہ بدعت محرمہ ہو گی جیسے مذہب قدریہ، مرجئہ، مجسمہ اور رافضہ (کا بنانا بدعت محرمہ) ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان تمام (باطل مذاہب) کا رد کرنا بدعت واجبہ میں سے ہے کیونکہ مبتدع (بدعتی) نے شرعیت میں ایسی چیز ایجاد کی ہے جو کہ حضور علیہ السلام کے زمانے میں نہ تھی یا پھر وہ مستحب کے قواعد میں داخل ہو گئی تو وہ بدعت مستحبہ ہو گی جیسے سرائے اور مدارس وغیرہ تعمیر کرنا اور ہر وہ اچھی چیز جو پہلے زمانے میں ایجاد نہیں ہوئی ہو جیسے نماز تراویح وغیرہ یا پھر وہ قواعد مکروہ میں داخل ہو گی تو وہ بدعت مکروہہ ہو گی جیسے مسجدوں کی تزئین اور مصاحف پر نقش نگار کرنا یا وہ قواعد مباح میں داخل ہو گی تو وہ چیز مباح کہلائے گی جیسے (نماز) فجر اور عصر کے بعد مصافحہ کرنا، کھانے پینے میں وسعت (اختیار) کرنا اور اسی طرح امام بیہقی نے اپنی سند کے ساتھ مناقب شافعی میں بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ محدثات کی دو قسمیں ہیں ان میں سے ایک وہ جو کتاب و سنت یا اجماع کے مخالف ہے وہی بدعت ضلالہ ہے اور دوسری وہ جو خیر میں سے ہو پس وہی پسندیدہ ہے۔‘‘

شرواني، حواشي الشرواني، 10 : 235

(29) اِمام محمد عبدالرؤوف زین الدین المناوی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ (1031ھ)

امام محمد عبدالرؤوف المناوی اپنی کتاب ’’فیض القدیر شرح الجامع الصغیر‘‘ میں بدعت کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

38. المراد بالبدعة هنا اعتقاد مذهب القدرية أو الجبريه أو المرجئه أو المجسمة و نحوهم فإن البدعة خمسة أنواع وهي هذه واجبة و هي نصب أدلة المتکلمين للرد علي هؤلاء و تعلم النحو الذي به يفهم الکتاب والسنة و نحو ذلک و مندوبة کإحداث نحو رباط و مدرسة وکل إحسان لم يعهد في الصدر الأول و مکروهة کزخرفة مسجد و تزويق مصحف و مباحة کالمصافحة عقب صبح و عصر و توسع في لذيذ مأکل و مشرب و ملبس و مسکن و لبس طيلسان و توسيع أکمام ذکره النووي في تهذيبه.

’’بدعت سے مراد مذہب قدریہ، جبریہ، مرجئہ، مجسمہ اور دیگر مذاہب باطلہ کے عقائد ہیں۔ بے شک بدعت کی پانچ اقسام ہیں اور وہ یہ ہیں پہلی بدعت واجبہ ہے اور وہ یہ کہ ان تمام مذاہب کو رد کرنے کے لئے متکلمین کے دلائل پیش کرنا اور اسی طرح علم نحو کا سیکھنا تاکہ قرآن و سنت کو سمجھا جا سکے اور اس جیسے دیگر علوم کا حاصل کرنا بدعت واجبہ میں سے ہے اور اسی طرح سرائے اور مدارس وغیرہ بنانا اور ہر اچھا کام جو کہ زمانہ اول میں نہ تھا اسے کرنا بدعت مستحبہ میں شامل ہے اور اسی طرح مسجد کی تزئین اور قرآن مجید کے اوراق کو منقش کرنا بدعت مکروھہ میں شامل ہے اور اسی طرح (نماز) فجر اور عصر کے بعد مصافحہ کرنا اور لذیذ کھانے، پینے، پہننے، رہنے اور سبز چادر استعمال کرنے میں توسیع کرنا اور آستینوں کا کھلا رکھنا بدعت مباحہ میں سے ہے۔ اس کو امام نووی نے اپنی تہذیب میں بیان کیا ہے۔‘‘

مناوي، فيض القدير شرح الجامع الصغير، 1 : 439

(30) شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 1052 ھ)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی اپنی کتاب ’’اشعۃ اللمعات‘‘ میں بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

39. بعض بدعتہا ست کہ واجب است چنانچہ تعلم و تعلیم صرف و نحو کہ بداں معرفت آیات و احادیث حاصل گردد و حفظ غرائب کتاب و سنت و دیگر چیز ہائیکہ حفظ دین وملت برآں موقوف بود، و بعض مستحسن و مستحب مثل بنائے رباطہا و مدرسہا، وبعض مکروہ مانند نقش و نگار کردن مساجد و مصاحف بقول بعض و بٍعض مباح مثل فراخی در طعامہائے لذیذہ و لباسہاے فاخرہ بشرطیکہ حلال باشند و باعث طغیان و تکبر و مفاخرت نشوند، و مباحات دیگر کہ در زمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبودند چنانکہ بیری و غربال و مانند آن، و بعض حرام چنانکہ مذاہب اہل بدع و اہو ابر خلاف سنت و جماعت و انچہ خلفاے راشدین کردہ باشند۔

’’بعض بدعتیں ایسی ہیں جو کہ واجب ہیں مثلاً علمِ صرف و نحو کاسیکھنا اور سکھانا کہ ان کے ذریعے آیات و احادیث کے معانی کی صحیح پہچان ہوتی ہے، اسی طرح کتاب و سنت کے غرائب اور دوسری بہت سی چیزوں کو حفظ کرنا جن پر دین و ملت کی حفاظت موقوف ہے۔ اور کچھ بدعات مستحسن اور مستحب ہیں جیسے سرائے اور دینی مدرسے تعمیر کرنا، اور بعض بدعات بعض علماء کے نزدیک مکروہ ہیں جیسے مساجد اور قرآن حکیم کی آرائش و زیبائش کرنا۔ بعض بدعات مباح ہیں جیسے کھانے پینے کی لذیذ چیزوں اور لباس فاخرہ کی فراوانی کا حسب ضرورت استعمال، لیکن شرط یہ ہے کہ حلال ہو اور سرکشی، تکبر و رعونت اورفخر کا باعث نہ ہو، اور دوسری ایسی مباحات جوکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ تھیں جیسے کہ آٹے کو چھلنی سے چھاننا وغیرہ۔ بعض بدعات حرام ہیں ان میں اہل بدعت کے نفسانی خواہشات کی اتباع میں نئے مذاہب ہیں جو سنت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، جماعت اور خلفائے راشدین کے طریقوں کے خلاف ہیں۔

عبدالحق محدث دهلوي، اشعة اللمعات، باب الاعتصام بالکتاب والسنة، 1 : 125
 

خادمِ اولیاء

وفقہ اللہ
رکن
شکرا جزیلالک وایدک اللہ
بدعت کی کماحقہ لغوی وشرعی تحقیق، اور ائمہ ومحدثین کے دلائل کی روشنی میں عمدہ انداز کے ساتھ تشریح لائق تحسین ہے
نیز احادیث اور آثارکی روشنی میں اس کو آپ نے چار چاند لگاکرقارئین کا دل جیت لیا۔کیا ہی بہترہوتااگر یہ کتاب مجھے کسی طریقے سے مل جاتی، یا کوئی آن لائن ربط؟
 

Hunain

وفقہ اللہ
رکن
(31) علامہ علاؤ الدین محمد بن علی بن محمد الحصکفی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 1088ھ)

علامہ علاؤ الدین محمد حصکفی بھی بدعت کی تقسیم حسنہ اور سیئۃ میں کرتے ہیں لہٰذا اذان کے بعد سلام پڑھنے کو بدعتِ حسنہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :

40. التسليم بعد الأذان حدث في ربيع الاخر سنة سبعمائة واحدي و ثمانين في عشاء ليلة الإثنين ثم يوم الجمعة ثم بعد عشر سنين حدث في الکل الا المغرب ثم فيها مرتين وهو بدعة حسنة.

’’اذان کے بعد سلام پڑھنے کي ابتداء سات سو اکیاسی ہجری (781ھ) کے ربیع الآخر میں پیر کی شب عشاء کی اذان سے ہوئی، اس کے بعد جمعہ کے دن اذان کے بعد سلام پڑھا گیا اس کے دس سال بعد مغرب کے سوا تمام نمازوں میں دو مرتبہ سلام پڑھا جانے لگا اور یہ بدعت حسنہ ہے۔‘‘

حصکفي، در مختار علي هامش الرد، 1 : 362

(32) اِمام ابوعبداﷲ محمد بن عبدالباقی الزرقانی المالکی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 1122ھ)

اِمام محمد عبدالباقی زرقانی حدیث ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ کے ذیل میں بدعت کا مفہوم اور اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

41. سماها بدعة لانه صلي الله عليه وآله وسلم لم يسن الإجتماع لها، و هو لغة ما أحدث علي غير مثال سبق، و تطلق شرعاً علي مقابل السنة و هي مالم يکن في عهده صلي الله عليه وآله وسلم ثم تنقسم إلي الأحکام الخمسة و حديث کل بدعة ضلالة(1) عام مخصوص وقد رغب فيها عمر. (2)

’’باجماعت نماز تراویح کو بدعت سے اس لیے موسوم کیا جاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے لئے اجتماع سنت قرار نہیں دیا اور لغوی اعتبار سے بدعت اس عمل کو کہتے ہیں جو مثالِ سابق کے بغیر ایجاد کیا گیا ہو اور شرعی طور پر بدعتِ سيّئۃ کو سنت کے مقابلے میں بولا جاتا ہے اور اس سے مراد وہ عمل ہوتا ہے جسے عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نہ کیا گیا ہو پھر بدعت کی پانچ قسمیں بیان کی جاتی ہیں اور حدیث ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘عام مخصوص ہے اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس (نماز تراویح) کی ترغیب دی ہے۔‘‘

1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة، رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126


زرقاني، شرح المؤطا، 1 : 238

(33) علامہ مرتضيٰ حسینی الزبیدی الحنفی رحمۃ اللہ علیہ (1205ھ)

علامہ مرتضيٰ زبیدی حنفی معروف ماہر لغت ہیں وہ اپنی شہرہ آفاق لغت ’’تاج العروس من جواہر القاموس‘‘ میں بدعت کی تعریف اور تقسیم نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

42. و قال ابن السکيت : البدعَة : کُلُّ محدثة و في حديثِ قِيامِ رَمَضَانَ (نعمت البدعة هذِه)(1) و قال ابن الأثير البدعة بدعتان : بدعة هدًي، و بدعة ضلال، فما کان في خلاف ما أمر اﷲ به فهو في حيز الذّم والإنکار، وما کان واقعا تحت عموم ما ندب اﷲ إليه و حضَّ عليه أو رسوله فهو في حيز المدح، وما لم يکن له مثال موجود کنوع من الجود والسخاء و فعل المعروف فهو من الأفعال المحمودة، ولا يجوز أن يکون ذلک في خلاف ما ورد الشرع به؛ لأن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قد جعل له في ذٰلک ثوابا فقال من سنّ سُنة حسنة کان له أجرها و أجر من عمل بها وقال في ضِدّه ومن سنّ سنة سيّئة کان عليه وزرُها ووِزرُ من عمل بها(2) و ذٰلک إذا کان في خلاف ما أمر اﷲ به ورسوله صلي الله عليه وآله وسلم قال : ومن هذا النوع قول عمر رضی الله عنه : نِعمت البدعة هذه. لمَّا کانت من أفعال الخير وداخلة في حيز المدح سماها بدعة ومدحها؛ لأن النبي صلي الله عليه وآله وسلم لم يسُنَّها لهم، و إنما صلّاها ليالي ثم ترکها، ولم يحافظ عليها، ولا جمع الناس لها، ولا کانت في زمن أبي بکر رضی الله عنه، وإنما عمر رضی الله عنه جمع الناس عليها و ندبهم إليها، فبهذا سمّاها بدعة، وهي علي الحقيقة سنَّة، لقوله صلي الله عليه وآله وسلم (عليکم بسنَّتي و سنَّة الخلفاء الراشدين من بعدي)(3) وقوله صلي الله عليه وآله وسلم (اقتدوا باللذين من بعدي أبي بکر و عمر)(4) و علي هذا التأويل يحمل الحديث الآخر (کل محدثة بدعة) إنما يريد ما خالف أصول الشريعة ولم يوافق السُّنَّة. (5)

’’ابن سِکِّیت نے کہا ہے کہ بدعت ہر نئی چیز کو کہتے ہیں اور جیسا کہ حدیث قیام رمضان میں ’’نعمتِ البدعۃ ھذہ‘‘ ہے اور ابن اثیر نے کہا ہے بدعت کی دو قسمیں ہیں : بدعت ھدی اور بدعت ضلال جو کام اللہ عزوجل کے احکام کے خلاف ہو وہ مذموم اور ممنوع ہے، اور جو کام کسی ایسے عام حکم کا فرد ہو جس کو اللہ تعاليٰ نے مستحب قرار دیا ہو اور اللہ تعاليٰ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم پر برانگیختہ کیا ہو اس کام کا کرنا محمود ہے اور جن کاموں کی مثال پہلے موجود نہ ہو جیسے جود و سخاء کی اقسام اور دوسرے نیک کام، پس وہ اچھے کاموں میںسے ہیں بشرطیکہ وہ خلاف شرع نہ ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے کاموں پر ثواب کی بشارت دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس شخص نے اچھے کام کی ابتداء کی اس کو اپنا اجر بھی ملے گا اور جو لوگ اس کام کو کریں گے ان کے عمل کا اجر بھی ملے گا جو برے کام کی ابتداء کرے گا اس کے بارے میں فرمایا : جس شخص نے برے کام کی ابتداء کی اس پر اپنی برائی کا وبال بھی ہو گا اور جو اس برائی کو کریں گے ان کا وبال بھی اس پر ہو گا اور یہ اس وقت ہے جب وہ کام اللہ تعاليٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو۔ اور اِسی قسم (یعنی بدعتِ حسنہ) میں سے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ قول ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ ہے پس جب کوئی کام افعالِ خیر میں سے ہو اور مقام مدح میں داخل ہو تو اسے (لغوی اعتبار سے) بدعت کہا جائے گا مگر اس کی تحسین کی جائے گی کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس (باجماعت نماز تراویح کے) عمل کو ان کے لئے مسنون قرار نہیں دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند راتیں اس کو پڑھا پھر (با جماعت پڑھنا) ترک کردیا اور (بعد میں) اس پر محافظت نہ فرمائی اور نہ ہی لوگوں کو اس کے لئے جمع کیا اور بعد میں نہ ہی یہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور میں (با جماعت) پڑھی گئی پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اس پر جمع کیا اور ان کو اس کی طرف متوجہ کیا پس اس وجہ سے اس کو بدعت کہا گیا درآں حالیکہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول ’’علیکم بسنّتی و سنۃ الخلفاء الراشدین من بعدی‘‘ اور اس قول’’اقتدوا باللذین من بعدی ابی بکر و عمر‘‘ کی وجہ سے حقیقت میں سنت ہے پس اس تاویل کی وجہ سے حدیث ’’کل محدثۃ بدعۃ‘‘ کو اصول شریعت کی مخالفت اور سنت کی عدم موافقت پر محمول کیا جائے گا۔‘‘

1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250


1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017
2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم : 2554
3. ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359
5. ابن ابي شيبه، المصنف، 2 : 350، رقم : 9803
6. بيهقي، السنن الکبريٰ، 4 : 175، رقم : 7531


1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة، رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
5. ابن حبان، الصحيح، 1 : 178، رقم : 5


1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب عن الرسول صلي الله عليه وآله وسلم ، باب مناقب ابي بکر و عمر، 5 / 609، رقم : 3662
2. ابن ماجه، السنن، باب في فضل اصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 / 37، رقم : 97
3. حاکم، المستدرک، 3 / 79، رقم : 4451


مرتضيٰ زبيدي، تاج العروس من جواهر القاموس، 11 : 9

(34) علامہ سید محمد امین ابن عابدین الشامی رحمۃ اللہ علیہ (1252ھ)

علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی اپنی کتاب ’’رد المختار علی درالمختار‘‘ میں لفظ ’صاحب بدعۃ‘ کا مفہوم و مراد واضح کرتے ہوئے اور بدعت کی متعدد اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

43. (قوله أي صاحب بدعة) أي محرمة وإلّا فقد تکون واجبة کنصب الأدلة للرد علي أهل الفرق الضالة و تعلم النحو المفهم للکتاب والسنة و مندوبة کإحداث نحو رباط و مدرسة و کل إحسان لم يکن في الصدر الأول و مکروهة کزخرفة المساجد و مباحة کالتوسع بلذيذ المآکل والمشارب و الثياب کما في شرح الجامع الصغير للمناوي عن تهذيب النووي و مثله في الطريقة المحمدية للبرکلي.

’’(قولہ ای صاحب بدعۃ) ان کے قول صاحب بدعت سے مراد بدعت محرمہ ہے اور اگر یہ مراد نہ ہو تو پھر بدعت واجبہ مراد ہے جیسے گمراہ فرقوں کے رد میں دلائل قائم کرنا اور علم النحو کا سیکھنا جو کہ کتاب و سنت کو سمجھانے کا باعث ہے اور اسی طرح بدعت مندوبہ ہوتی ہے جیسے سرحدی چوکیوں، مدارس اور وہ اچھے کام جو پہلے زمانہ میں نہ تھے ان کا ایجاد کرنا وغیرہ اور اسی طرح مساجد کی تزئین کرنا بدعت مکروہ ہے۔ اور اسی طرح لذیذ کھانے مشروبات اور پہننے وغیرہ کی چیزوں میں وسعت اختیار کرنا بدعت مباحہ ہے اور اسی طرح امام مناوی کی ’’جامع الصغیر‘‘ میں، امام نووی کی ’’تہذیب‘‘ میں اور امام برکلی کی ’’الطریقہ المحمدیہ‘‘ میں بھی ایسے ہی درج ہے۔

ابن عابدين شامي، رد المحتار علي درالمختار، 1 : 414

(35) شیخ محمد بن علی بن محمد الشوکانی (المتوفی 1255ھ)

یمن کے معروف غیر مقلد عالم شیخ شوکانی حدیث عمر ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ کے ذیل میں فتح الباری کے حوالے سے اقسام بدعت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

44. البدعة أصلها ما أحدث علي غير مثال سابق و تطلق في الشرع علي مقابلة السنة فتکون مذمومة والتحقيق إنها إن کانت مما يندرج تحت مستحسن في الشرع فهي حسنة وإن کانت مما يندرج تحت مستقبح في الشرع فهي مستقبحة و إلَّا فهي من قسم المباح و قد تنقسم إلي الأحکام الخمسة.

’’لغت میں بدعت اس کام کو کہتے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو اور اصطلاح شرع میں سنت کے مقابلہ میں بدعت کا اطلاق ہوتا ہے اس لیے یہ مذموم ہے اور تحقیق یہ ہے کہ بدعت اگر کسی ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں مستحسن ہے تو یہ بدعت حسنہ ہے اور اگر ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں قبیح ہے تو یہ بدعت سیئہ ہے ورنہ بدعت مباحہ ہے اور بلا شبہ بدعت کی پانچ قسمیں ہیں۔‘‘

شوکاني، نيل الاوطار شرح منتقي الأخبار، 3 : 63
 

Hunain

وفقہ اللہ
رکن
(36) علامہ شہاب الدین سید محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 1270ھ)

ابو الفضل شہاب الدین سید محمود آلوسی بغدادی اپنی تفسیر ’’روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی‘‘ میں علامہ نووی کے حوالے سے بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

45. و تفصيل الکلام في البدعة ما ذکره الإمام محي الدين النووي في شرح صحيح مسلم. قال العلماء : البدعة خمسة أقسام واجبة، و مندوبة، و محرمة، و مکروهة، ومباحة فمن الواجبة تعلم أدلة المتکلمين للرد علي الملاحدة والمبتدعين و شبه ذلک، ومن المندوبة تصنيف کتب العلم وبناء المدارس والربط و غير ذلک، ومن المباحة التبسط في ألوان الأطعمة و غير ذلک، والحرام والمکروه ظاهران، فعلم أن قوله صلي الله عليه وآله وسلم (کل بدعة ضلالة)(1) من العام المخصوص.

و قال صاحب جامع الاصول : الابتداع من المخلوقين إن کان في خلاف من أمر اﷲ تعالي به و رسوله صلي الله عليه وآله وسلم فهو في حيز الذم والانکار وإن کان واقعاً تحت عموم ما ندب اﷲ تعالي إليه و حض عليه أو رسوله صلي الله عليه وآله وسلم فهو في حيز المدح وإن لم يکن مثاله موجوداً کنوع من الجود والسخاء و فعل المعروف، و يعضد ذلک قول عمر بن الخطاب رضي الله عنه في صلاة التراويح : نعمت البدعة هذه. (2)

1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة، رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
5. بيهقي، شعب الايمان، 6 : 67، رقم : 7516
6. حاکم، المستدرک، 1 : 174، رقم : 329


آلوسي، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، 14 : 192

’’بدعت کي تفصیلی بحث امام محی الدین النووی نے اپنی کتاب شرح صحیح مسلم میں کی ہے اور دیگر علماء نے کہا ہے بدعت کی پانچ اقسام بدعتِ واجبہ، بدعتِ مستحسبۃ، بدعتِ محرمۃ، بدعتِ مکروھۃ اور بدعتِ مباحۃ ہیں۔ بدعتِ واجب میں سے یہ ہے کہ ملحدین، مبتدعین اور اس جیسے دیگر شبہات کو رد کرنے کے لیے علم الکلام کا حاصل کرنا۔ اور بدعت مستحب کی دلیل یہ ہے کہ کوئی علمی کتاب تصنیف کرنا، مدرسے بنانا، سرائے یا اس جیسی دیگر چیزیں بنانا اس میں شامل ہے اور بدعتِ مباحۃ جیسے رنگ برنگے کھانے اور اس طرح کی چیزوں میں اضافہ وغیرہ جبکہ حرام اور مکروہ دونوں واضح ہیں۔ پس یہ جان لینا چاہئے کہ حضور علیہ السلام کے قول ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ میں عام سے خاص مراد ہے۔ اور صاحب جامع الاصول فرماتے ہیں کہ بدعات کی چند اقسام ہیں جو کام اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے خلاف ہو وہ مذموم اور ممنوع ہے اور جو کام کسی ایسے عام حکم کا فرد ہو جس کو اللہ تعاليٰ نے مستحب قرار دیا ہو یا اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم پر برانگیختہ کیا ہو اس کام کا کرنا محمود ہے اور اگر کسی (کام) کی مثال پہلے موجود نہ ہو جیسے جود و سخا کی اقسام اور دوسرے نیک کام اور جس طرح صلاۃ التراویح میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول سے تقویت ملتی ہے کہ یہ کتنی اچھی بدعت ہے۔‘‘

(37) مولانا احمد علی سہارنپوری (1297ھ)

مولانا احمد علی سہارنپوری صحیح بخاری کے حاشیہ میں بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

46. البدعة أصلها ما أحدث علي غير مثال سابق و يطلق في الشرع في مقابلة السنة فتکون مذمومة والتحقيق إنها إن کانت مما تندرج تحت مستحسن في الشرع فهي حسنة و إن کانت مما تندرج تحت مستقبح في الشرع فهي مستقبحة وإلّا فهي من قسم المباح و قد تنقسم الي احکام خمسة قاله في الفتح اي واجبة و مندوبة و محرمة و مکروهة و مباحة کذا في الکرماني قال محمد في المؤطا لا باس في شهر رمضان ان يصلي الناس تطوعا و قد روي عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم ما راه المسلمون حسنا فهو عنداﷲ حسن وما راه المسلمون قبيحا فهو عنداﷲ قبيح(1). و في الفتح قال ابن التين وغيره استنبط عمر ذلک من تقرير النبي صلي الله عليه وآله وسلم من صلي معه في تلک الليالي و ان کان کره ذلک لهم فانما کرهه خشية ان يفرض عليهم و کان هذا هوا السر في ايراد البخاري لحديث عائشة عقب حديث عمر فلما مات صلي الله عليه وآله وسلم حصل الامن من ذلک. (2)

’’بدعت سے مراد وہ عمل ہے جو مثال سابق کے بغیر کیا جائے شریعت میں عام طور پر اسے سنت کے مقابلے میں بیان کیا جاتا ہے لہٰذا اس صورت میں یہ مذموم ہوتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ شریعت کے مستحسنات کے تحت آ جائے تو اسے بدعت حسنہ کہیں گے اور اگر یہ شریعت کے مستقبحات کے تحت آ جائے تو اسے بدعت مستقبحۃ کہیں گے اور اگر یہ دونوں کے تحت نہ آئے تو اسے بدعت مباحہ میں شمار کیا جائے گا اور بے شک یہ پانچ اقسام میں تقسیم ہوتی ہے جیسا کہ صاحب فتح الباری نے کہا کہ یہ واجبہ، مندوبہ، محرمہ، مکروہہ اور مباحہ ہیں اور اسی طرح شرح کرمانی میں ہے امام محمد نے موطا میں ذکر کیا ہے کہ لوگوں کے ماہ رمضان میں نوافل پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ جو کام مسلمانوں کی نظر میں اچھا ہے وہ اﷲ تعاليٰ کے ہاں بھی اچھا ہے اور جو کام مسلمانوں کی نظر میں قبیح ہو وہ اﷲ تعاليٰ کے ہاں بھی برا ہے۔ فتح الباری میں مذکور ہے کہ ابن متین اور دیگر ائمہ نے کہا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی حضور علیہ السلام کی تقریر سے اسی طرح کا استنباط کرتے ہوئے کہا کہ جس نے بھی ان راتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی اور اگر اس میں ان کے لئے کراہت تھی تو وہ اس ڈر سے کراہت تھی کہ کہیں وہ (نماز) ان پر فرض نہ ہوجائے اور یہ وہ راز تھا جسے امام بخاری نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے بعد حضرت عائشہ کی حدیث سے مراد لیا ہے، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوا تو اس (نماز کی فرضیت) کا خوف جاتا رہا۔‘‘

1. بزار، المسند، 5 : 213، رقم : 1816
2. طيالسي، المسند، 1 : 33، رقم : 246
3. طبراني، المعجم الکبير، 9 : 112، رقم : 8583
4. ابن رجب، جامع العلوم والحکم، 1 : 254
5. بيهقي، الاعتقاد، 1 : 322

سهارنپوري، حاشيه بخاري، 1 : 269

(38) نواب صدیق حسن خان بھوپالی (المتوفی 1307ھ)

غیر مقلدین کے نامور عالم دین نواب صدیق حسن خان بھوپالی نے واضح طور پر لکھا ہے کہ ہر نئے کام کو بدعت کہہ کرمطعون نہیں کیا جائے گا بلکہ بدعت صرف اس کام کو کہا جائے گا جس سے کوئی سنت متروک ہو اور جو نیا کام کسی امرِ شریعت سے متناقص نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ مباح اور جائز ہے شیخ وحید الزماں اپنی کتاب ہدیۃ المہدی کے صفحہ 117 پر بدعت کے حوالے سے علامہ بھوپالی کا یہ قول نقل کرتے ہیں :

47. البدعة الضلالة المحرمة هي التي ترفع السنة مثلها والتي لا ترفع شيئا منها فليست هي من البدعة بل هي مباح الاصل.

’’بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے۔‘‘

وحيد الزمان، هدية المهدي : 117

(39) مولانا وحید الزمان (المتوفی 1327ھ)

مشہور غیر مقلد عالم دین مولانا وحید الزمان بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

48. اما البدعة اللغوية فهي تنقسم إلي مباحة ومکروهة و حسنة و سيئة قال الشيخ ولي اﷲ من أصحابنا من البدعة بدعة حسنة کالأخذ بالنواجذ لما حث عليه النبي صلي الله عليه وآله وسلم من غير عزم کالتراويح ومنها مباحة کعادات الناس في الأکل والشرب واللباس وهي هنيئة قلت تدخل في البدعات المباحة استعمال الورد والرياحين والأزهار للعروس ومن الناس من منع عنها لاجل التشبه بالهنود الکفار قلنا إذا لم ينو التشبه أوجري الأمر المرسوم بين الکفار في جماعة المسلمين من غير نکير فلا يضر التشبه ککثير من الاقبية والالبسة التي جاء ت من قبل الکفار ثم شاعت بين المسلمين وقد لبس النبي صلي الله عليه وآله وسلم جبة رومية ضيقة الکمين و قسم الا قبية التي جاءت من بلاد الکفار علي أصحابه و منها ما هي ترک المسنون و تحريف المشروع وهي الضلالة وقال السيد البدعة الضلالة المحرمة هي التي ترفع السنة مثلها والتي لا ترفع شيئا منها فليست هي من البدعة بل هي مباح الأصل.

’’باعتبار لغت کے بدعت کے حسب ذیل اقسام ہیں : بدعت مباحہ، بدعت مکروھہ، بدعت حسنۂ اور بدعت سیئہ. ہمارے اصحاب میں سے شیخ ولی اللہ نے کہا کہ بدعات میں سے بدعت حسنہ کو دانتوں سے پکڑ لینا چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو واجب کیے بغیر اس پر برانگیختہ کیا ہے جیسے تراویح۔ بدعات میں سے ایک بدعت مباحہ ہے جیسے لوگوں کے کھانے پینے اور پہننے کے معمولات ہیں اور یہ آسان ہے۔ میں کہتا ہوں کہ دولہا، دلہن کے لئے کلیوں اور پھولوں کا استعمال (جیسے ہار اور سہرا) بھی بدعات مباحہ میں داخل ہے بعض لوگوں نے ہندوؤں سے مشابہت کے سبب اس سے منع کیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص تشبّہ کی نیت نہ کرے یا کفار کی کوئی رسم مسلمانوں میں بغیر انکار کے جاری ہو تو اس میں مشابہت سے کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ قباء اور دوسرے لباس کفار کی طرف سے آئے اور مسلمانوں میں رائج ہو گئے اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تنگ آستینوں والا رومی جبہّ پہنا ہے اور کفار کی طرف سے جو قبائیں آئی تھیں ان کو صحابہ میں تقسیم فرمایا ہے اور بدعات میں سے ایک وہ بدعت ہے جس سے کوئی سنت متروک ہو اور حکم شرعی میں تبدیلی آئے اور یہی بدعت ضلالہ (سیئہ) ہے۔ نواب صاحب (نواب صدیق حسن بھوپالی) نے کہا ہے کہ بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے۔‘‘

وحيد الزمان، هدية المهدي : 117

(40) مولانا عبدالرحمن مبارکپوری (1353ھ)

مولانا عبدالرحمن مبارکپوری بدعت لغوی اور بدعت شرعی کی تقسیم بیان کرتے ہوئے تحفۃ الاحوذی میں لکھتے ہیں :

49. بقوله کل بدعة ضلالة(1) والمراد بالبدعة ما أحدث مما لا أصل له في الشريعة يدل عليه واما ما کان له أصل من الشرع يدل عليه فليس ببدعة شرعا و إن کان بدعة لغة فقوله صلي الله عليه وآله وسلم کل بدعة ضلالة من جوامع الکلم لا يخرج عنه شئ وهو أصل عظيم من أصول الدين واما ما وقع في کلام السلف من استحسان بعض البدع فإنّما ذلک في البدع اللغوية لا الشرعية فمن ذلک قول عمر رضی الله عنه في التراويح (نعمت البدعة هذه)(2) و روي عنه أنه قال إن کانت هذه بدعة فنعمت البدعة ومن ذٰلک أذان الجمعة الأول زاده عثمان رضي الله عنه لحاجة الناس إليه و اقره عليٌّ واستمر عمل المسلمين عليه و روي عن ابن عمر أنه قال هو بدعة و لعله اَراد ما أراد ابوه في التراويح. (3)

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ (ہر بدعت گمراہی ہے) میں بدعت سے مراد ایسی نئی چیز ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو اس پر دلالت کرے اور وہ چیز جس کی اصل شریعت میں موجود ہو جو اس پر دلالت کرے اسے شرعاً بدعت نہیں کہا جا سکتا اگرچہ وہ لغتاً بدعت ہو گی کیونکہ حضور علیہ السلام کا قول ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ جو امع الکلم میں سے ہے اس سے کوئی چیز خارج نہیں ہے۔ یہ دین کے بنیادی اصولوں میں سے ہے اور اسلاف کے کلام میں جو بعض بدعات کو مستحسنہ قرار دیا گیا ہے تو یہ بدعت لغویہ ہے، شرعیۃ نہیں ہے۔ اور اسی میں سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نماز تراویح کے بارے میں فرمان ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ ہے اور آپ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت کیا گیا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’ان کانت ھذہ بدعۃ فنعمت البدعۃ‘‘ (اگر یہ بدعت ہے تو یہ اچھی بدعت ہے) اور جمعہ کی پہلی اذان بھی اسی میں سے ہے جسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی ضرورت کے پیش نظر شروع کیا تھا اور اسے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے قائم رکھا اور اسی پر مسلمانوں نے مداومت اختیار کی۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ بدعت ہے کا شاید ان کا ارادہ بھی اس سے وہی تھا جو ان کے والد (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) کا نماز تراویح میں تھا (کہ با جماعت نما زتراویح ’’نعمت البدعۃ‘‘ ہے)۔‘‘

1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة، رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126


1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250
4. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266


مبارکپوري، جامع الترمذي مع شرح تحفة الاحوذي، 3 : 378

(41) مولانا شبیر احمد عثمانی (المتوفی 1369ھ)

مولانا شبیر احمد عثمانی ’’فتح الملہم شرح صحیح مسلم‘‘ میں حدیث ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ کی شرح کرتے ہوئے اقسام بدعت کے حوالے سے لکھتے ہیں :

50. قال علي القاري قال في الازهار أي کل بدعة سيئة ضلالة لقوله عليه الصلوة والسلام (من سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها و أجر من عمل بها)(1) و جمع ابوبکر و عمر القرآن و کتبه زيد في المصحف و جُدد في عهد عثمان رضي الله عنه قال النووي البدعة کل شئ عمل علي غير مثال سبق و في الشرع إحداث مالم يکن في عهد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و قوله کل بدعة ضلالة(2) عام مخصوص. (3)

’’ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ الازھار میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘ سے ہر بدعت سيّئَہ کا گمراہی ہونا مراد ہے اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ قول دلیل ہے کہ ’’من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فلہ اجرھا و اجر من عمل بہا جیسا کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما نے قرآن کو جمع کیا حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اسے مصحف میں لکھا اور عہد عثمان رضی اللہ عنہ میں اس کی تجدید کی گئی امام نووی فرماتے ہیں کہ بدعت ہر اُس عمل کو کہتے ہیں جس کو مثال سابق کے بغیر عمل میں لایا جائے اور اِصطلاح شرع میں ہر وہ نیا کام جو عہد نبوی میں نہ ہوا ہو بدعت کہلاتا ہے اور حدیث کل بدعۃ ضلالۃ عام مخصوص ہے۔‘‘

ائمہ و محدثین کی طرف سے بدعت کی اس تقسیم کے بعد معلوم ہوا کہ اگر بدعت شریعت کے مستحسنات کے تحت آجائے تو وہ بدعت حسنہ ہے اور اگر مستقبحات کے تحت آجائے (یعنی مخالف دلیل ہو) تو بدعت سیئہ ہے اور اگر ان دونوں میں نہ آئے تو وہ بدعت مباحہ ہے۔

1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017
2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم : 2554
3. ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359
5. ابن حبان، الصحيح، 8 : 101، 102، رقم : 3308


1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة، رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42
4. طبراني، المعجم الکبير، 18 : 249، رقم : 624


عثماني، فتح الملهم شرح صحيح مسلم، 2 :

406(42) مولانا محمد زکریا کاندھلوی (المتوفی 1402ھ)

مولانا محمد زکریا کاندھلوی ’’اوجز المسالک اِلی مؤطا مالک‘‘ میں ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ کے ذیل میں بدعت کا معنی و مفہوم اور تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

51. والبدعة الممنوعة تکون خلاف السنة، و هذا تصريح منه بأنه أول من جمع الناس في قيام رمضان علي إمام واحد بالجماعة الکبري، لأن البدعة ما ابتدأ بفعلها المبتدع، ولم يتقدمه غيره، و أراد بالبدعة : اجتماعهم علي إمام واحد لا أصل التراويح أو الجماعة، فإنهم کانوا قبل ذلک يصلون أوزاعا لنفسه ومع الرهط.

’’بدعتِ ممنوعہ خلافِ سنت ہوتی ہے۔ اور یہ اس کی وضاحت میں سے ہے کیونکہ یہ (سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ) پہلے شخص تھے جنہوں نے قیام رمضان کے سلسلے میں بڑی جماعت کے لئے لوگوں کو ایک امام کے پیچھے جمع کردیا۔ کیونکہ بدعت وہ ہوتی ہے جس کی ابتداء کسی بدعتی نے کی ہو اور اس سے پہلے اس کے علاوہ کسی اور نے اس کا اجراء نہ کیا ہو پس اس حدیث میں بدعت سے مراد ایک امام کے پیچھے لوگوں کو مجتمع کرنا ہے نہ کہ نفس تراویح یا نفس جماعت کا آغاز کرنا کیونکہ صحابہ اس سے قبل الگ الگ یا گروہ کی شکل میں نماز پڑھا کرتے تھے۔‘‘

کاندهلوي، أوجز المسالک الي مؤطا مالک، 2 : 297
 

Hunain

وفقہ اللہ
رکن
(43) الشیخ عبد العزیز بن عبد اﷲ بن باز (1421ھ)

عصر قریب میں مملکت سعودی عرب کے معروف مفتی شیخ عبد العزیز بن عبد اﷲ بن باز نے سعودی حکومت کے شعبہ ’’الافتاء والدعوہ والارشاد‘‘ کے زیر اہتمام چھپنے والے اپنے فتاويٰ جات کے مجموعہ ’’فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحُوث العلمیۃ والافتاء‘‘ میں بدعت حسنہ اور بدعت سیہ کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :

52. أولاً : قسم العلماء البدعة إلي بدعة دينية و بدعة دنيوية، فالبدعة في الدين هي : إحداث عبادة لم يشرعها اﷲ سبحانه و تعالي وهي التيي تراد في الحديث الذي ذکر وما في معناه من الأحاديث. و أما الدنيوية : فما غلب فيها جانب المصلحة علي جانب المفسدة فهي جائزة وإلا فهي ممنوعة ومن أمثلة ذلک ما أحدث من أنواع السلاح والمراکب و نحو ذلک.

ثالثاً : طبع القرآن و کتابته من وسائل حفظه و تعلمه و تعليمه و الوسائل لها حکم الغايات فيکون ذلک مشروعاً و ليس من البدع المنهي عنها؛ لأن اﷲ سبحانه ضمن حفظ القرآن الکريم و هذا من وسائل حفظه.

’’علماء کرام نے بدعت کو بدعت دینیہ اور بدعت دنیویہ میں تقسیم کیا ہے، بدعت دینیہ یہ ہے کہ ایسی عبادت کو شروع کرنا جسے اللہ تبارک و تعالی نے مشروع نہ کیا ہو اور یہی اس حدیث سے مراد ہے جو ذکر کی جا چکی ہے اور اس طرح کی دیگر احادیث سے بھی یہی مراد ہے اور دوسری بدعت دنیوی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس میں مصلحت والا پہلو فساد والے پہلو پر غالب ہو اور وہ جائز ہے اور اگر ایسا نہ ہو (یعنی مصلحت والا پہلو فساد والے پہلو پر غالب نہ ہو) تو وہ ممنوع ہے۔ اس کی مثالوں میں مختلف اقسام کا اسلحہ سواریاں اور اس جیسی دیگر چیزیں بنانا اسی طرح قرآن پاک کی طباعت و کتابت اس کو حفظ کرنے، اسے سیکھنے اور سکھانے کے وسائل اور وہ وسائل جن کے لیے غایات (اھداف) کا حکم ہے پس یہ ساری چیزیں مشروع ہیں اور ممنوعہ بدعات میں سے نہیں ہیں کیونکہ اللہ تبارک و تعالی نے قرآن پاک کے حفظ کی ضمانت دی ہے اور یہ (سب اس کے) وسائل حفظ میں سے ہے۔‘‘

ابن باز، فتاويٰ اللجنة، 2 : 325

ایک اور سوال کے جواب میں ابن باز بدعت دینیۃ اور بدعت عادیۃ کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

53. البدعة تنقسم إلي بدعة دينية و بدعة عادية، فالعادية مثل کل ما جد من الصناعات والاختراعات والأصل فيها الجواز إلا ما دل دليل شرعي علي منعه.

أما البدعة الدينية فهي کل ما أحدث في الدين مضاهاة لتشريع اﷲ.

’’بدعت کو بدعت دینیہ اور بدعت عادیہ میں تقسیم کیا جاتا ہے پس بدعت عادیہ سے مراد ہر وہ نئی چیز جو کہ مصنوعات یا ایجادات میں سے ہو اور دراصل میں اس پر جواز کا حکم ہے سوائے اس چیز کے کہ جس کے منع پر کوئی شرعی دلیل آ چکی ہو اور پھر بدعت دینی یہ ہے کہ ہر نئی چیز جو دین میں ایجاد کی جائے جو اللہ تعاليٰ کی شرع کے متشابہ ہو (یہ ناجائز ہے)۔‘‘

ابن باز، فتاويٰ اللجنة، 2 : 329

بدعت کی لغوی تعریف کے بعد بدعت خیر اور بدعت شر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے علامہ ابن باز لکھتے ہیں :

54. البدعة هي کل ما أحدث علي غير مثال سابق، ثم منها ما يتعلق بالمعاملات و شؤون الدنيا کإختراع آلات النقل من طائرات و سيارات و قاطرات وأجهزة الکهرباء وأدوات الطهي والمکيفات التي تستعمل للتدفئة والتبريد وآلات الحرب من قنابل وغواصات و دبابات إلي غير ذلک مما يرجع إلي مصالح العباد في دنياهم فهذه في نفسها لا حرج فيها ولا إثم في إختراعها، أما بالنسبة للمقصد من اختراعها وما تستعمل فيه فإن قصد بها خير واستعين بها فيه فهي خير، وإن قصد بها شر من تخريب و تدمير وإفساد في الأرض واستعين بها في ذلک فهي شر و بلاء.

’’ہر وہ چیز جو مثال سابق کے بغیر ایجاد کی جائے بدعت کہلاتی ہے۔ پھر ان میں سے جو چیزیں معاملات اور دنیاوی کاموں میں سے ہوں جیسے نقل و حمل کے آلات میں سے جہاز، گاڑیاں، ریلوے انجن، بجلی کا سامان، صنعتی آلات اور ایئرکنڈیشنرز جو کہ ٹھنڈک اور حرارت کے لئے استعمال ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ، اور اسی طرح جنگی آلات میں سے ایٹم بم، آبدوزیں اور ٹینک یا اس جیسی دیگر چیزیں جن کو لوگ اپنی دنیاوی مصلحت کے پیش نظر ترجیح دیتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں ایسی ہیں کہ فی نفسہ ان کی ایجادات میں نہ تو کوئی گناہ ہے اور نہ ہی کسی قسم کا حرج ہے مگر ان چیزوں کے مقصد ایجاد کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ اگر تو ان چیزوں کے استعمال کا مقصد خیر و سلامتی ہے تو ان چیزوں سے خیر کے معاملے میں مدد حاصل کی جا سکتی ہے تو یہ ایک بھلائی ہے اور اگر ان چیزوں کا مقصد ایجاد زمین میں شر، فساد، تخریب کاری اور تباہی ہے تو پھر ان چیزوں سے مدد حاصل کرنا تباہی و بربادی ہے اور یہ ایک شر اور بلاء ہے۔‘‘

ابن باز، فتاويٰ اللجنة، 2 : 321

(44) محمد بن علوی المالکی المکی رحمۃ اللہ علیہ (1425ھ)

مکہ مکرمۃ کے معروف عالم دین الشیخ السید محمد بن علوی المالکی الحسنی رحمۃ اللہ علیہ بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ کی تقسیم کو لازمی قرار دیتے ہیں، لہٰذا وہ اپنی کتاب ’’مفاہیم یجب ان تصحح‘‘ میں بدعت کی تفصیلات کا بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

55. أن روح الشريعة الإسلامية توجب علينا أن نميز بين أنواع البدعة و أن نقول : إن منها البدعة الحسنة و منها البدعة السيئة، وهذا ما يقتضيه العقل النير والنظر الثاقب.

وهذا ما حققه علماء الأصول من سلف هذه الأمة رضي الله عنهم کالإمام العز بن عبد السلام والنووي والسيوطي والمحلي وابن حجر.

ومن أمثلة ذلک هذا الحديث : کل بدعة ضلالة. فلا بد من القول : أن المراد بذلک البدعة السيئة التي لا تدخل تحت أصل شرعي.

وهذا التقييد وارد في غير هذا الحديث کحديث :

(لا صلاة لجار المسجد إلَّا في المسجد) (1)

فهذا الحديث مع أنه يفيد الحصر في نفي صلاة جار المسجد إلَّا أن عمومات الأحاديث تفيد تقييده بأن لا صلاة کاملة و کحديث : (لا صلاة بحضرة الطعام)(2) قالوا : أي صلاة کاملة

وکحديث : (لا يؤمن أحدکم حتي يحب لأخيه ما يحب لنفسه)(3)

قالوا : أي إيمانا کاملا

وکحديث : (واﷲ لا يؤمن واﷲ لا يؤمن واﷲ لا يؤمن، قيل : من يا رسول اﷲ؟ قال : من لم يأمن جاره بوائقه) (4)

وکحديث : (لا يدخل الجنة قتات)(5) (ولا يدخل الجنة قاطع رحم)(6) (و عاق لوالديه) (7)

فالعلماء قالوا : إنه لا يدخل دخولا أوليا أو لا يدخل إذا کان مستحلا لذلک الفعل.

الحاصل أنهم لم يجروه علي ظاهره و إنما أولوه بأنواع التأويل.

وحديث البدعة هذا من هذا الباب فعمومات الأحاديث وأحوال الصحابة تفيد أن المقصود به البدعة السيئة التي لا تندرج تحت أصل کلي.

وفي الحديث : (من سن سنة حسنة کان له أجرها وأجر من عمل بها إلي يوم القيامة) (8)

وفي الحديث : (عليکم بسنتي و سنة الخلفاء الراشدين) (9)

و يقول عمر في صلاة التراويح : نعمت البدعة هذه. (10)

ينتقد بعضهم تقسيم البدعة إلي حسنة و سيئة، و ينکر علي من يقول ذلک اشد الإنکار، بل ومنهم من يرميه بالفسق والضلال، و ذلک لمخالفة صريح قول الرسول صلي الله عليه وآله وسلم : [کل بدعة ضلالة](11) و هذا اللفظ صريح في العموم و صريح في وصف البدعة بالضلالة، ومن هنا تراه يقول : فهل يصح بعد قول المشرع صاحب الرسالة : أن کل بدعة ضلالة يأتي مجتهد أو فقيه مهما کانت رتبته فيقول : لا. لا. ليست کل بدعة ضلالة، بل بعضها ضلالة و بعضها حسنه و بعضها سيئة، و بهذا المدخل يغترّ کثير من الناس فيصيح مع الصّائحين و ينکر مع المنکرين و يکثر سواد هؤلاء الذين لم يفهموا مقاصد الشريعة، ولم يذوقوا روح الدّين الإسلامي.

ثم لا يلبث إلا يسيرا حتي يضطر إلي إيجاد مخرج يحل له المشاکل التي تصادمه، و يفسّر له الواقع الذي يعيشه، إنه يضطر إلي اللجوء إلي اختراع وسيلة أخري، لولاها لما يستطيع أن يأکل ولا يشرب ولا يسکن، بل ولا يلبس ولا يتنفس ولا يتزوج ولا يتعامل مع نفسه ولا أهله ولا إخوانه ولا مجتمعه، هذه الوسيلة هي أن يقول باللفظ الصريح : إن البدعة تنقسم إلي بدعة دينية ودنيوية، يا سبحان اﷲ لقد أجاز هذا المتلاعب لنفسه أن يخترع هذا التقسيم أو علي الأقل أن يخترع هذه التسمية ولو سلّمنا أن هذا المعني کان موجودا منذ عهد النبوة لکن هذا التسمية : دينية ودنيوية لم تکن موجودة قطعا في عهد التشريع النبوي فمن أين جاء هذا التقسيم؟ ومن أين جاء ت هذه التسمية المبتدعة؟ فمن قال : إن تقسيم البدعة إلي حسنة وسيئة لم يأت من الشارع نقول له : وکذا تقسيم البدعة إلي دينية غير مقبولة، و دنيوية مقبولة هو عين الابتداع والاختراع.

فالشارع يقول : (کل بدعة ضلالة) هکذا بالاطلاق، وهذا يقول : لا. لا ليست کل بدعة ضلالة بالاطلاق، بل إن البدعة تنقسم إلي قسمين : دينيه وهي الضلالة، ودنيوية وهي التي لا شئي فيها.

ولذا لا بد أن نوضح هنا مسألة مهمة وبها ينجلي کثير من الإشکال، ويزول اللبس إن شاء اﷲ.

وهو أن المتکلم هنا هو الشارع الحکيم، فلسانه هو لسان الشرع، فلا بد من فهم کلامه علي الميزان الشرعي الذي جاء به، وإذا علمت أن البدعة في الأصل هي : کل ما أحدث واخترع علي غير مثال فلا يغيب عن ذهنک أن الزيادة أو الإختراع المذموم هنا هو الزيادة في أمر الدين ليصير من أمر الدين، والزيادة في الشريعة ليأخذ صبغة الشريعة، فيصير شريعة متبعة منسوبة لصاحب الشريعة، وهذا هو الذي حذر منه سيدنا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بقوله : (من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد)(12) فالحد الفاصل في الموضوع هو قوله : (في أمرنا هذا).

ولذلک فإن تقسيم البدعة إلي حسنة وسيئة في مفهومنا ليس إلا للبدعة اللغوية التي هي مجرد الاختراع والاحداث، ولا نشک جميعا في أن البدعة بالمعني الشرعي ليست إلا ضلالة وفتنة مذمومة مردودة مبغوضة، ولو فهم أولئک المنکرون هذا المعني لظهر لهم أن محل الاجتماع قريب موطن النزاع بعيد.

وزيادة في التقريب بين الأفهام أري أن منکري التقسيم إنما ينکرون تقسيم البدعة الشرعية بدليل تقسيمهم البدعة إلي دينية ودنيويه، وإعتبارهم ذلک ضرورة.

وأن القائلين بالتقسيم إلي حسنة وسيئة يرون أن هذا إنما هو بالنسبة للبدعة اللغوية لأنهم يقولون : إن الزيادة في الدين والشريعة ضلالة وسيئة کبيرة، ولا شک في ذلک عندهم فالخلاف شکلي، غير أني أري أن إخواننا المنکرين لتقسيم البدعة إلي حسنة وسيئة، والقائلين بتقسيمها إلي دينية ودنيوية لم يحالفهم الحظ في دقة التعبير،

وذلک لأنهم لما حکموا بأن البدعة الدينية ضلالة. وهذا حق. وحکموا بأن البدعة الدنيوية لا شييء فيها قد أساؤا الحکم لأنهم بهذا قد حکموا علي کل بدعة دنيوية بالإباحة، وفي هذا خطر عظيم، وتقع به فتنة ومصيبة، ولا بد حينئذ من تفصيل واجب و ضروري للقضية، وهو أن يقولوا : إن هذا البدعة الدنيوية منها ما هو خير و منها ما هو شر کما هو الواقع المشاهد الذي لا ينکره إلاَّ أعمي جاهل، وهذه الزيادة لا بد منها، ويکفي في تحقيق هذا المعني بدقة قول من قال : بأن البدعة تنقسم إلي حسنة وسيئة، و معلوم أن المراد بها اللغوية کما تقدم، وهي التي عبر عنها المنکرون بالدنيوية، وهذا القول في غاية الدقة والإحتياط، وهو ينادي علي کل جديد بالانضباط والإنصياع لحکم الشرع وقواعد الدين، ويُلزم المسلمين أن يعرضوا کل ما جدّ لهم و أحدث من أمورهم الدنيوية العامة والخاصة علي الشريعة الإسلاميه ليري حکم الإسلام فيها مهما کانت تلک البدعة، وهذه لا يتحقق إلا بالتقسيم الرائع المعتبر عن أئمة الأصول. (13)

’’شریعت اسلامیہ کی تعلیمات نے ہم پر لازم کیا ہے کہ ہم انواعِ بدعت میں تمیز و فرق سے کام لیں اور یہ کہیں کہ بعض بدعتِ حسنہ ہیں اور بعض بدعتِ سیئہ ہے، عقل اور نظرثاقب بھی اسی کو چاہتی ہے۔ اس امت کے علماء سلف میں سے علماء اصول رضی اللہ عنھم نے اسی کو ثابت کیاہے جیسا کہ امام عزالدین بن عبدالسلام و علامہ نووی و سیوطی و محلی و ابنِ حجر رحمہم اﷲ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

اس کی ایک مثال حدیث وَکُلُّ بِدْعَۃ ضَلاَلَۃ ہے تو یہ کہنا پڑے گا کہ اس سے مراد وہ بدعتِ سیئہ ہے جو اصلِ شرعی کے تحت داخل نہ ہو۔ یہ قید اور اس طرح کی دیگر قیودات دیگر احادیث میں بھی بکثرت وارد ہوئی ہیں جیسا کہ یہ حدیث مبارکہ لَا صَلٰوۃ لِجَارِ الْمَسْجِدِ اِلاَ فِی الْمَسْجِدِ، مسجد کے پڑوسی کی نماز صرف مسجد ہی میں ہوتی ہے۔ اس حدیث پاک میں حصر کے ساتھ مسجد کے پڑوسی کی نماز کی نفی وارد ہوئی مگر احادیث کثیرہ کے عموم سے یہ قید اس کے ساتھ مستفاد ہوتی ہے کہ لَا صَلٰوۃ کَاملَۃ نفی کمال کی ہے نہ اصل نماز کی اور جیسا کہ حدیثِ پاک ہے ’’لاصلوۃ بحضرۃ طَعَامٍ‘‘ علماء کرام نے فرمایا اس میں بھی نفی کمال کی ہے بمعنی لَا صَلٰوۃ کَاملَۃ اور تیسری حدیث پاک لا یومن احدکم حتی یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ اس میں بھی علماء کرام نے فرمایا کہ مراد لا یؤمنُ ایمانًا کاملاً نفی کمال کی ہے اور چوتھی روایت :

واﷲ لا يؤمن واﷲ لا يؤمن واﷲ لا يؤمن، قيل : من يا رسول اﷲ؟ قال : من لم يأمن جاره بوائقه.

خدا کی قسم مومن نہیں خدا کی قسم مومن نہیں، خدا کی قسم مؤمن نہیں، عرض کیا گیا کہ کون یارسول اﷲ؟ آپ نے فرمایا جس کا پڑوسی اس کے ظلم سے مامون نہ ہو۔

اس میں بھی نفی کمال کی ہے اور پانچویں حدیث :

لا يدخل الجنة قتات. . . ولا يدخل الجنة قاطع رحم. . . و عاق لوالديه. . .

جنت میں چغل خوری کرنے والا داخل نہ ہو گا اور جنت میں قطع رحمی کرنے والا اور ماں باپ کا نافرمان داخل نہ ہوگا۔

علماء کرام نے فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ لا یدخل دخولاً اوَّلیا یعنی دخول اولی کی نفی ہے۔ یاپھریہ ہے کہ بالکل جنت میں داخل نہ ہوگا اگر ان افعال کو حلال سمجھ کر کرے گا۔

حاصل کلام یہ ہے کہ علماء کرام نے ان احادیث کوظاہر پر محمول نہیں کیا اور کسی نہ کسی قسم کی تاویل کی ہے اور کل بدعۃ ضلالۃ والی حدیث بھی اسی قبیل سے ہے۔ احادیث شریفہ کے عموم اور احوال صحابہ سے یہ بات مستفاد ہوتی ہے کہ اس بدعت سے مراد بدعتِ سیئہ ہے جو کسی حاصلِ کلی کے تحت مندرج نہ ہو۔ اور ایک حدیث پاک میں تو یہ ارشاد فرمایا :

من سن سنة حسنة کان له أجرها وأجر من عمل بها إلي يوم القيامة ولا ينقص من اجرها شيئٌ.

’’جو شخص کوئی بھی اچھا طریقہ جاری کردے تو اس کو اس کا اجرو ثواب اور ان لوگوں کا اجرو ثواب ملے گا جو قیامت تک اس پر عمل کریں گے اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہ کی جائے گی۔‘‘

اور دوسری حدیثِ پاک میں ہے :

عليکم بسنتي وسنة الخلفآءِ الرَّاشدينَ.

لازم پکڑو میری سنت کو اورخلفاء راشدین رضی اللہ عنھم کی سنت کو۔

اور صلاۃ التراویح کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

نعمت البدعة هذهِ

یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے

بعض لوگ بدعت کی تقسیم حسنہ اور سیئہ کرنے پر تنقید کرتے ہیں اور اس کے قائلین پر بہت شدت سے رد کرتے ہیں بلکہ بعض ان میں سے ایسے بھی ہیں جو ان پر فسق اور گمراہی کے فتوے لگاتے ہیں اور یہ رد اس لئے کرتے ہیں کہ اس تقسیم سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صریح قول اور واضح ارشاد وَکُلُّ بِدْعَۃ ضَلاَلَۃ کی مخالفت ہوتی ہے جبکہ یہ قول صراحۃ ہر بدعت کو شامل ہے اور اس کی گمراہی پر بھی صریح ہے۔ اسی وجہ سے تم ان کو یہ کہتا دیکھو گے کیا صاحبِ شریعت صاحب رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کے بعد ہر بدعت گمراہی ہے کسی مجتہد یا فقیہ یا جو بھی اس کا رتبہ ہو یہ کہنا صحیح ہوسکتا ہے کہ نہیں نہیں ہر بدعت گمراہی نہیں بلکہ بعض بدعتیں گمراہی ہیں؟ بعض اچھی اور بعض بری ہیں۔

اور اس طرح کے اعتراضات کی وجہ سے بہت سے لوگ دھوکہ میں آجاتے ہیں اور وہ بھی ان معترضین کے ساتھ چیخ اٹھتے ہیں اور منکرین کے ساتھ وہ بھی انکار کر بیٹھتے ہیں چنانچہ ان لوگوں کی جماعت بڑھتی جاتی ہے جنہوں نے نہ مقاصدِ شرعیہ کو سمجھا اور نہ دین اسلام کی روح کو چکھا۔

پھر چند روز ہی گزرتے ہیں کہ یہی معترضین ایسی مشکل میں پڑجاتے ہیں جس سے بچنے کی راہ نکالنا ان کے لئے دشوار ہوتاہے اور ان کی روز مرہ کی معیشت اس کی واضح دلیل ہے۔ لازماً وہ ایسے حیلہ کی پناہ لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ جس کے بغیر ان کے لئے کھانا پینا اور رہنا سہنا بلکہ لباس پہننا اور سانس لینا تک مشکل ہوجائے اور جس حیلہ کے بغیر نہ تو وہ ذاتی اور خانگی معاملات طے کرسکتے ہیں۔ اور نہ اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں سے کوئی معاملہ کرسکتے ہیں۔ اور وہ حیلہ یہ ہے کہ وہ واضح لفظوں میں کہہ اٹھتے ہیں کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں، بدعتِ دینیہ اور بدعتِ دنیویہ.

ہاے اﷲ ان کھلاڑیوں نے کیسے اپنے نفس کے لئے یہ تقسیم گھڑلی یا کم از کم یہ نام کس طرح گھڑ لیا۔ اور اگرتسلیم بھی کرلیا جائے کہ یہ چیزیں عہدِ رسالت میں موجود تھیں تو یہ بدعت کی تقسیم دینیہ اور دنیویہ کی توعہدرسالت میں ہرگز موجود نہ تھی، تو پھر یہ تقسیم کہاں سے آگئی؟ اور یہ نو ایجاد بدعتی نام کہاں سے آگیا؟

لہٰذا جولوگ یہ کہتے ہیں کہ بدعت کو حسنہ اور سیئہ کی طرف منقسم کرنا شارع کی طرف سے نہیں ہے اس لئے غلط ہے تو ہم ان کو جواب میں کہتے ہیں کہ بالکل اسی طرح بدعت کو ناپسندیدہ بدعت دینیہ اور پسندیدہ بدعتِ دنیویہ کی طرف منقسم کرنا بھی اختراع اور بدعت ہے۔ اس لئے کہ شارع علیہ السلام تو علی الاطلاق فرماتے ہیں کہ وَکُلُّ بِدْعَۃ ضَلاَلَۃ اور یہ کہتے ہیں کہ نہیں نہیں، ہر بدعت مطلقاً گمراہی نہیں بلکہ بدعت کی دو قسمیں ہیں بدعتِ دینیہ اور وہ گمراہی ہے اور بدعتِ دنیویہ جس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے۔

اس لئے ضروری ہے کہ ہم ایک اہم مسئلہ کی وضاحت کردیں جس کی روشنی میں بہت سے اشکالات حل ہوجائیں گے اور بہت سے شبہات دور ہوجائیں گے۔ ان شاء اﷲتعاليٰ.

وہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کُلُّ بِدْعَۃ ضَلاَلَۃ کے قول کے متکلم شارع حکیم ہیں۔ ان کا فرمان شرعی فرمان ہے اس لئے نہایت ضروری ہے کہ ان کے فرمان کو انہی کے لائے ہوئے شرعی میزان میں پرکھا جائے۔ اور جب یہ معلوم ہوگیا کہ بدعت اصلاً ہر نو پیداوار اور نو ایجاد چیز کو کہا جاتا ہے تو تمہارے ذہن میں یہ بات بھی رہنی چاہیے کہ زیادتی اور نئی ایجاد وہ ممنوع ہے جو زیادتی دین میں کی جائے اور دینی چیز قرار دینے کے لئے ہو اور شریعت میں شرعی رنگ دینے کے لئے کی جائے۔ تاکہ وہ زیادتی قابل اتباع شرعی چیز بن کر صاحبِ شریعت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب ہوجائے۔ اور یہی وہ چیز ہے جس سے ہمارے آقا اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے قول کے ذریعہ ڈرایا ہے کہ :

من احدث في امرنا هذا ماليس منه فهورد

جو ہمارے اس دین میں ایسی بات ایجاد کرے جو درحقیقت دین سے نہ ہو وہ مردود ہے۔

اس لئے اس موضوع میں حدِ فاصل آپ کا یہ قول ’’فی امرنا ھذا‘‘ ہے اور اسی لئے ہمارے نزدیک بدعت کی تقسیم حسنہ اور سیئہ کی طرف کرنا صرف اور صرف لغوی اعتبار سے ہے (اور بدعتِ لغوی کا مفہوم نوپیداور نوایجاد ہے) بلاشبہ ہم بدعت کے شرعی مفہوم کے اعتبار سے معترضین کے ساتھ متفق ہیں کہ وہ بدعت گمراہی اور فتنہ ہے، جو مذموم، مردود اور انتہائی ناپسندیدہ ہے اور اگر معترضین اس حقیقت کو سمجھ لیتے تو ان پر خود روشن ہوجاتا کہ ہمارا آپس میں تقریباً اتفاق ہی ہے اور جھگڑنے والی کوئی بات نہیں۔

اور میرے ذہن میں ایک اور بات بھی ہے جس سے دونوں قسم کی فکریں ایک معلوم ہوتی ہیں۔ وہ یہ ہے کہ جو لوگ بدعت کی تقسیم کے منکر ہیں وہ صرف بدعتِ شرعیہ کی تقسیم کا انکار کرتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے خود ہی بدعت کو دینیہ اور دنیویہ کی طرف منقسم کردیا ہے اور اس پر اعتبار کرنا ان کی ضرورت ہے۔

اور جو لوگ بدعت کی تقسیم حسنہ اور سیئہ کی طرف کرتے ہیں وہ بدعت لغویہ کے اعتبار کرتے ہیں کیونکہ ان کا یہ بھی تو کہنا ہے کہ دین اور شریعت میں زیادتی کرنا گمراہی اور گناہِ کبیرہ ہے۔ اور یہ بات ان کے نزدیک بلاشبہ ثابت ہے اس لئے یہ ایک صوری اختلاف ہے (حقیقۃ نہیں)۔

اگرچہ میرے خیال میں ہمارے بھائی بدعت کی تقسیم حسنہ اور سیئہ کرنے کے منکر ہیں اور بدعت کو دینیہ اور دنیویہ پر تقسیم کرتے ہیں ان کی بات زیادہ باریک بینی اور احتیاط پر مبنی نہیں، کیونکہ جب انہوں نے بدعتِ دینیہ کو گمراہی کہا (اور یہ بات حق بھی ہے) اور بدعتِ دنیویہ پر یہ حکم لگایا کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں تو ان کی یہ بات کوئی اچھی نہیں کیونکہ اس طرح تو انہوں نے ہربدعت دنیویہ کو مباح کہہ دیا جب کہ اس میں بہت عظیم خطرہ ہے اور اس سے تو بڑا فتنہ اور مصیبت واقع ہوسکتی ہے جس کی بناء پر بہت ضروری ہوا کہ اس قضیہ کے ساتھ یہ تفصیل بھی وہ بیان کریں کہ ’’بدعتِ دنیویہ میں بھی بعض امور خیر ہیں اور بعض امور شر ہیں۔ کوئی اندھا اور جاہل ہوگا جو ان امور شر کا نظارہ نہ کرتا ہو اس لئے اس تفصیل کا بیان بہت ضروری ہوا۔

اور جو لوگ بدعت کو حسنہ اور سیئہ پر منقسم کرتے ہیں اور یہ بات متحقق ہے کہ ان کی مراد اس سے بدعتِ لغویہ ہے جیسا کہ پہلے (کلام) گزر چکا ہے (اور اس تقسیم کے منکرین اسی کو بدعتِ دنیویہ سے تعبیر کرتے ہیں) ان لوگوں نے اس مفہوم کو بہت مختصراً اور دقیق انداز میں بیان کیا ہے اور ان کا یہ قول انتہائی باریک بینی اور احتیاط پر مبنی ہے۔ اور یہ قول ہر نو ایجاد چیز کو شرعی احکام اور دینی قواعد کا پابند کر رہا ہے اور تمام مسلمین پر یہ لازم کر رہا ہے کہ ان کے سامنے جب بھی کوئی بدعت آئے اور کسی بھی نو ایجاد چیز سے ان کو واسطہ پڑے عموماً دنیاوی امور میں اور خصوصاً شرعی امور میں تو وہ اس میں شرعی حکم معلوم کریں اور یہ مفہوم جب ہی ہو گا کہ بدعت کو ائمہ اصول کے قول کے مطابق عمدہ اور معتبر طور پر تقسیم کیا جائے۔

1. عبدالرزاق، المصنف، 1 : 497، رقم : 1915
2. ازدي، مسند الربيع، 1 : 108، رقم : 256
3. حاکم، المستدرک، 1 : 373، رقم : 898
4. طحاوي، شرح معاني الآثار، 1 : 394


1. مسلم، الصحيح، کتاب المساجد، باب کراهة الصلاة، 1 : 393، رقم : 560
2. ابن خزيمه، الصحيح، 2 : 66، رقم : 933
3. بيهقي، السنن الکبري، 3 : 73، رقم : 4816
4. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 6 : 6


1. بخاري، الصحيح، کتاب الايمان، باب من الايمان، 1 : 14، رقم : 13
2. مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب الدليل علي ان من خصال الايمان، 1 : 68، رقم : 45
3. نسائي، السنن، کتاب الايمان، باب علامة الايمان، 8 : 155، رقم : 5016
4. ابن ماجه، السنن، باب في الايمان، 1 : 26، رقم : 66


1. بخاري، الصحيح، کتاب الادب، باب اثم من لايامن جاره، 5 : 2240، رقم : 5670
2. حاکم، المستدرک، 1 : 53، رقم : 21
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 169
4. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 336، رقم : 8413


1. بخاري، الصحيح کتاب الادب، باب ما يکره من النميمة، 5 : 2250، رقم : 5709
2. مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب بيان غلظ تحريم النميمة، 1 : 101، رقم : 105
3. ترمذي، الجامع الصحيه، کتاب البر والصلة، 4 : 375، رقم : 2026
4. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 328، رقم : 23295


1. بخاري، الصحيح، کتاب الادب، باب اثم القاطع، 5 : 2231، رقم : 5638
2. مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة، باب صلة الرحم، 4 : 1981، رقم : 2556
3. طبراني، المعجم الاوسط، 4 : 32، رقم : 3537


1. عبدالرزاق، المصنف، 7 : 454، رقم : 13859
2. طبراني، المعجم الاوسط، 3 : 19، رقم : 2335
3. بيهقي، شعب الايمان، 6 : 191، رقم : 7873
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 5 : 75


1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017
2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم : 2554
3. ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359


1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة، رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126


1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 : 116، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 : 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 : 105، رقم : 250
4. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم الحکم، 1 : 266


1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة، رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126


1. مسلم، الصحيح، 3 : 1343، کتاب الاقضية، باب نقض الاحکام الباطلة، رقم : 1718
2. ابن ماجه، السنن، المقدمه الکتاب، 1 : 7، باب تعظيم حديث رسول الله، رقم : 14
3. احمد بن حنبل، المسند : 6 : 270، رقم : 26372


علوي المالکي، مفاهيم يجب ان تصحح : 102. 106
 

Hunain

وفقہ اللہ
رکن
مجیب منصور نے کہا ہے:
شکرا جزیلالک وایدک اللہ
بدعت کی کماحقہ لغوی وشرعی تحقیق، اور ائمہ ومحدثین کے دلائل کی روشنی میں عمدہ انداز کے ساتھ تشریح لائق تحسین ہے
نیز احادیث اور آثارکی روشنی میں اس کو آپ نے چار چاند لگاکرقارئین کا دل جیت لیا۔کیا ہی بہترہوتااگر یہ کتاب مجھے کسی طریقے سے مل جاتی، یا کوئی آن لائن ربط؟
انشا ءاللہ عزوجل ۔۔۔۔۔جلد ہی !!!
 
Top