علاج الغضب (سلسلہ مواعظ حسنہ نمبر4)

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
سلسلہ مواعظ حسنہ نمبر ۴

علاج الغضب

واعِظ:
شیخ العرب و العجم عارف باللہ حضرتِ اقدس مولاناالشاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم العالیہ

جامع و مرتب:
حضرت سیّد عشرت جمیل میر صاحب مدظلہ (خادمِ خاص حضرت والا دامت برکاتہم العالیہ)

ناشر:
کتب خانہ مظہری (و خانقاہ امدادیہ اشرفیہ)، گلشنِ اقبال، کراچی، پاکستان


نوٹ: یہ وعظ مسمیّٰ بہ علاج الغضب حضرت والا دامت برکاتہم العالیہ کے تین مواعظ کا مجموعہ ہے جن میں سے پہلا اور تیسرا مسجدِ اشرف خانقاہ امدادیہ اشرفیہ میں اور دوسرا وعظ ڈیرہ غازی خان میں ہوا جبکہ سفر حضرت اقدس مولانا شاہ ابرار الحق صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے ہمراہ مختلف شہروں میں ہوا تھا۔ ۔۔۔ اس رسالہ کے مسوّدہ کو حضرت والا نے ابتداء تا انتہا خود مطالعہ فرما لیا ہے۔ (از جامع و مرتب، ملخصاً)
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسَوْلِہ الْکَرِیْمِ۔ اَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۔ (القرآن)​
اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں اپنے خاص بندوں کی تین علامتیں بیان کی ہیں:
(۱)… جو لوگ کہ غصہ کو پی جاتے ہیں۔
(۲)… ہمارے بندوں کی خطائوں کو معاف کردیتے ہیں اور
(۳)… صرف معاف ہی نہیں کرتے بلکہ ان پر کچھ احسان پر بھی کردیتے ہیں تو ایسوں کو اللہ تعالیٰ محبوب رکھتا ہے۔
اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے انسان کی ایک خطرناک بیماری کا علاج بھی ان آیات میں بیان فرمایا ہے۔ ’’وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ ‘‘ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ وہ بندے جو غصہ کو پی جاتے ہیں۔ الکاظمین کے معنی ہیں ’’الذین یکظمون الغیظ‘‘۔ اسم فاعل پر جب لام داخل ہوتا ہے تو معنی میں اسم موصول کے ہوجاتا ہے۔ تو معنی یہ ہوئے کہ وہ لوگ جو غصہ کو ضبط کرلیتے ہیں۔ غصہ آنا بُرا نہیں ہے، غصہ کا بے جا استعمال بُرا ہے۔ اگر غصہ کا مادّہ بُرا ہوتا تو قرآن میں الکاظمین الغیظ کے بجائے العادمین الغیظ نازل ہوتا۔ جس کے معنی ہوتے کہ وہ لوگ جو غصہ کو معدوم و مفقود و فنا کردیتے ہیں۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے العادمین الغیظ نازل نہیں فرمایا، اس لیے کہ غصہ کا عدم مراد نہیں ہے۔ اگر غصہ معدوم ہوجائے تو کفار سے مقابلہ کے وقت جہاد کیسے کرے گا؟ غصہ رہے، وہ تو اللہ نے رکھا ہے لیکن غصہ کے موقع پر اس کا استعمال کرے۔ مثلاً جہاد ہورہا ہے۔ اب خدا کے دُشمنوں کے خلاف غصہ استعمال کرو۔ اس وقت اگر کوئی کہے کہ یہ حقیر فقیر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہے تو اس وقت یہ تواضع حرام ہے بلکہ اس وقت تو کہو ’’ہل من مبارز‘‘ ہے کوئی جو میرے مقابلہ میں آئے، لیکن غصہ جب اپنے نفس کے لیے ہو اُس وقت کے لیے ہے ’’والکاظمین الغیظ‘‘ یہ ہیں مردانِ خدا جو غصہ کو پی جاتے ہیں، ضبط کرلیتے ہیں۔
اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ صاحب کوئی ایسا وظیفہ بتادیجیے کہ بُرے خیالات ہی نہ آئیں۔ شہوت اور تقاضے ہی ختم ہوجائیں یعنی وہ چاہتے ہیں کہ ’’نہ رہے بانس نہ بجے بانسری‘‘ یہ نادانی ہے۔ کمال تو یہی ہے کہ بُرے تقاضے پیدا ہوں لیکن اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے اپنی آرزوئوں کا خون کرلے۔ جو شخص آپ کے لیے جتنی زیادہ مشقت اور تکلیف اُتھاتا ہے آپ اس کو اس اتنا ہی زیادہ اپنا گہرا دوست سمجھتے ہیں۔ بس تقاضوں سے بھاگنا یا مغلوب ہوجانا اس بات کی دلیل ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں تکلیف نہیں اُٹھانا چاہتے۔ پھر کیا دعویٰ محبت ہے۔ محبت کا ایک حق یہ ہے کہ محبوب کو راضی کرنے کے لیے ہر تکلیف کو برداشت کرلے۔ بس تقاضے تو رہنے چاہئیں اگر تقاضے زائل ہوجائیں تو حلال موقع پر بیوی کے حقوق کیسے ادا کرے گا؟ مطلب یہ ہے کہ غلط استعمال نہ کیا جائے۔
حضرت حکیم الامت مجدد الملت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رذائل کا ازالہ مقصود نہیں امالہ مقصود ہے۔ یعنی رذائل کو زائل نہیں کیا جاسکتا، اُن کا رُخ پھیرا جاسکتا ہے۔ مثلاً کسی کے اندر غصہ کا مادّہ زیادہ ہے۔ اصلاح سے پہلے اپنے نفس کے لیے کیا کرتا تھا۔ کسی نے بُرا کہہ دیا، بس آپے سے باہر ہوگیا۔ کسی سے کوئی تکلیف پہنچی، اس پر صبر نہ کیا اور غصہ نافذ کردیا۔ لیکن اصلاح کے بعد اس غصہ کا رُخ بدل گیا، اب اللہ کی نافرمانی پر غصہ آتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے دُشمنوں سے بغض رکھتا ہے، نفس اگر گناہ کا تقاضا کرتا ہے تو اپنے نفس پر غصہ نافذ کرتا ہے کہ ہر گز تجھے گناہ نہیں کرنے دوں گا۔ غصہ تو ہے لیکن اب امالہ ہوگیا، رُخ بدل گیا جو محمود اور پسندیدہ ہے۔
اور کظم کے کیا معنی ہیں۔ عرب کے لوگ کظم کا استعمال کہاں کرتے تھے؟ قرآن کیونکہ محاورئہ عرب پر نازل ہوا ہے لہٰذا علامہ آلوسی السید محمود بغدادی رحمہ اللہ مفتی بغداد نے تفسیر روح المعانی میں عربوں کا محاورہ نقل کیا ہے تاکہ قرآن صحیح سمجھ میں آجائے۔ فرماتے ہیں کہ کظم عرب کی لغت میں اس وقت بولتے تھے جب مشک بھر کر پانی اُبلنے لگتا تھا تو عرب کے لوگ رسّی سے اس کا منہ باندھ دیتے تھے۔ لہٰذا کظم کے معنی ہیں: ’’شَدُّ رَأسِ الْقِرْبَۃِ عِنْدَ اِمْتِلَائِ ہَا‘‘ مشک کا منہ باندھ دینا جب پانی بھر کر اس کے منہ سے نکلنے لگے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ ‘‘ کہ جب تم کو غصہ آجائے اور تمہارے جسم کی مشک کے منہ سے غصہ میں اول فول، گالی گلوج یا کوئی انتامی جذباتی اور مضربات نہ نکل جائے۔ اس وقت جلدی سے کظم کی رسّی سے منہ کو باندھ دو اور غصہ کو ضبط کرلو۔ اسی کا نام ہے ’’کظم غیظ۔‘‘
اچھا غیظ اور غضب میں کیا فرق ہے؟ جیسے دفتر والے کہتے ہیں کہ آج صاحب کا موڈ ٹھیک نہیں ہے۔ بہت غیظ و غضب میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ شاید بیوی سے کچھ ناچاقی ہوگئی ہے۔
علامہ الوسی رحمۃ اللہ علیہ نے غیظ و غضب کا فرق بیان کیا ہے۔ غیظ کے معنی ہیں کہ غصہ آئے اور انسان اس کو ضبط کرلے۔ غیظ میں آدمی اندر اندر گھٹتا رہتا ہے اور غضب کے ساتھ ارادہ انتقام کا ہوتا ہے، اس لیے غیظ کا استعمال مخلوق کے لیے خاص ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف غیظ کی نسبت کرنا جائز نہیں یعنی ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچو، لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ کے غیظ سے بچو۔ غیظ کا لفظ صرف مخلوق کے لیے خاص ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت کرنا درست نہیں اور غضب کا استعمال مشترک ہے خالق کے لیے بھی اور مخلوق کے لیے بھی۔ یعنی غضب کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف بھی کی جاتی ہے اور مخلوق کی طرف بھی کی جاسکتی ہے۔
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
اس آیت کی تفسیر میں علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے چار حدیثیں بیان کی ہیں، اس لیے کہ آیات کی تفسیر سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہی سے ہوسکتی ہے جن پر قرآن نازل ہوا۔ ان ہی کی زبان مبارک سے اس کی تفسیر ہوسکتی ہے۔
پہلی حدیث یہ بیان فرمائی کہ:
’’مَنْ کَظَمَ غَیْظًا وَہُوَ یَقْدِرُ عَلٰی اِنْفَاذِہٖ مَلَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی قَلْبَہٗ اَمْنًا وَّاِیْمَانًا۔‘‘ (جامع صغیر: ص ۱۷۹، ج ۲)​
ترجمہ: ’’جس شخص نے غصہ کو ضبط کرلیا باوجودیکہ وہ غصہ نافذ کرنے پر قدرت رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے قلب کو ایمان اور سکون سے بھردے گا۔‘‘​
یعنی جس شخص کو کسی پر غصہ آگیا اور وہ اس پر پورا غصہ جاری کرسکتا ہے، اس کے لیے کوئی مانع نہیں ہے لیکن اللہ کے خوف سے اپنے غصہ کو پی جاتا ہے اور معاف کردیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو امن و ایمان سے بھردے گا۔ امن کے معنی ہیں سکون، غصہ ضبط کرنے کا یہ انعام عظیم ہے۔
بزرگوں نے فرمایا کہ جو شخص غصہ کا تلخ گھونٹ پی لیتا ہے یعنی غصہ کو ضبط کرلیتا ہے تو وہ غصہ سب کا سب نور بن جاتا ہے۔
اور ساتھ ساتھ غصہ کی ایک اور تفسیر بیان کی کہ اپنے دین کی حفاظت کے لیے اور دین کے اجراء کے لیے اور اللہ کے لیے جو غصہ آئے وہ مستثنیٰ ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو منکرات اور اللہ کی نافرمانی پر اتنا غصہ آتا تھا کہ آپ کا چہرۂ مبارک سرخ ہوجاتا تھا۔ کَاَنَّ الرُّمَّانَ عُصِرَ عَلٰی وَجْہِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جیسے کہ آپ کے چہرۂ مبارک پر انار نچوڑ دیا گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر غصہ آنا ہی چاہئے۔
دوسری حدیث یہ بیان کی کہ:
’’جس شخص نے غصہ کو ضبط کرلیا درآنحالیکہ وہ اس کے نافذ کرنے پر قادر تھا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو تمام مخلوق کے سامنے بلائیں گے اور اختیار دیں گے کہ جس حور کو چاہے اپنی پسند سے انتخاب کرلے۔‘‘ (ابودائود: ص ۳۰۳، ج ۲)​
غصہ ضبط کرنے کا یہ دوسرا انعام بیان فرمایا گیا۔
تیسری حدیث یہ ہے کہ:
’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ وہ شخص کھڑا ہوجائے جس کا میرے اوپر کوئی حق ہو فَلَا یَقُوْمُ اِلَّا اِنْسَانٌ عَفَا پس کوئی شخص کھڑا نہیں ہوگا، مگر وہ جس نے دنیا میں کسی کی خطاؤں کو معاف کیا ہوگا۔‘‘ (رُوح المعانی: ص ۵۸، ج ۴)​
جنہوں نے یہ دولت کمائی ہوگی اور معاف کرنے والا عمل کیا ہوگا وہ اس دن اللہ تعالیٰ سے اپنا انعام لینے کے لیے کھڑے ہوجائیں گے۔
چوتھی حدیث علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ یہ نقل فرماتے ہیں کہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص یہ بات پسند کرے کہ جنت میں اس کے لیے اونچے محل بنائے جائیں اور اس کے درجات بھی بلند ہوجائیں اس کو چاہئے کہ جو شخص اس پر ظلم کرے اس کو معاف کردے اور جو اس کو محروم رکھے اس کو عطا کردے، اور جو اس سے قطع رحمی کرے اس کے ساتھ رحمی کرے۔‘‘ (روح المعانی: ص ۵۸، ج۴)​
بعضے خون کے رشتے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ لاکھ نیکیاں کرتے رہو، وہ کبھی نیکی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ان کے لیے حکم ہے کہ:
صِلْ مَنْ قَطَعَکَ (جامع صغیر: ص ۴۳، ج ۲) وہ تو قطع رحمی کریں، مگر آپ ان سے جڑے رہیں اور ان کو معاف کرتے رہیں۔
اس حدیثِ پاک میں ایسے شخص کے لیے اللہ تعالیٰ نے بزبانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم یہ وعدہ فرمایا کہ جنت میں اس کا شاندار مکان ہوگا اور اس کے درجات بلند ہوں گے۔
البتہ اگر کسی رشتہ دار سے ناقابلِ برداشت مسلسل اذیت پہنچ رہی ہے جس سے دین یا دنیا کا ضرر ہو تو علماء سے مشورہ کریں۔ اس کے لیے دوسرے احکام ہیں۔
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
تین حدیثیں غصہ کے بارے میں سناتا ہوں۔ اس آیت کی تفسیر میں سات حدیث بیان کرنے کا احقر کا معمول ہے۔
پانچویں حدیث یہ ہے کہ:
’’اَنَّ الْغَضَبَ لَیُفْسِدُ الْاِیْمَانَ کَمَا یُفْسِدُ الصَّبِرُ الْعَسَلَ۔‘‘ (مشکوٰۃ: ص ۴۳۴)
ترجمہ: ’’غصہ ایمان کو ایسا خراب اور برباد کردیتا ہے جیسا کہ ایلو شہد کو خراب کردیتا ہے۔‘‘​
ایلوا ایک نہایت کڑوی دوا ہے اگر کوئی دُور بھی کوٹ رہا ہو تو حلق کڑوا ہو جاتا ہے۔ ایک من شہد میں ذرا سا ڈال دیجیے، سارا شہد کڑوا ہوجائے گا۔ اسی طرح غصہ ایمان کی مٹھاس اور حلاوت کو کڑوا کردیتا ہے یعنی غصہ والے کو اللہ تعالیٰ کی محبت کا مزہ، عبادت کا مزہ، تلاوت کا مزہ نہیں آئے گا کیونکہ غصہ نے اس کے ایمان کے کمال اور نور کو خراب کردیا۔
چھٹی حدیث ہے کہ:
مَنْ کَفَّ غَضَبَہٗ کَفَّ اللّٰہُ عَنْہُ عَذَابَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔ ‘‘ (مشکوٰۃ: ۴۳۴)
ترجمہ: ’’جو شخص اپنے غصہ کو روک لے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنا عذاب اس سے روک لیں گے۔‘‘​
ظاہر بات ہے کہ غصہ روکنے میں تکلیف ہوتی ہے اور اس نے اللہ کے لیے یہ تکلیف اُٹھائی لہٰذا اس مجاہدہ پر اتنا بڑا انعام ہے۔
اور یہ مجاہدہ بھی اہل اللہ کی صحبت کی برکت سے آسان ہوجاتا ہے۔ ایک حکایت یاد آئی۔ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو ایک شخص نے لکھا کہ حضرت مجھ میں غصہ کا مرض ہے۔ اس کا علاج عطا فرمائیے۔ حضرت نے ان کو تحریر فرمایا کہ آپ لکھنؤ میں انوار بک ڈپو کے مالک مولوی محمد حسن کاکوروی رحمہ اللہ کی خدمت میں جایا کیجیے۔ کچھ عرصہ بعد اس شخص نے حضرت حکیم الامت کو لکھا کہ حضرات میرا غصہ جاتا رہا۔ میں مولوی صاحب کی خدمت میں جاتا رہتا ہوں لیکن انہوں نے تو کبھی غصہ کے متعلق مجھے کوئی نصیحت بھی نہیں کی۔ یہ کیا بات ہے کہ مجھے اتنا فائدہ ہوا۔ حضرت نے فرمایا کیونکہ مولوی صاحب حلیم الطبع ہیں۔ ان کے دل میں صبر و حلم اور برداشت کا مادّہ بہت ہے۔ ان کے قلب کی صفت حلم آپ کے قلب میں منتقل ہوگئی۔
ساتویں حدیث کے روای ایک صحابی حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’کُنْتُ اَضْرِبُ غُلَامًالِّیْ‘‘ میں اپنے ایک مملوک غلام کی پٹائی کررہا تھا۔ فَسَمِعْتُ مِنْ خَلْفِیْ صَوْتًا میں نے اپنی پیٹھ کے پیچھے سے ایک آواز سنی۔ وہ کیا آواز تھی؟
’’اِعْلَمْ اَبَا مَسْعُوْدٍ لَلّٰہُ اِقْدَرُ عَلَیْکَ مِنْکَ عَلَیْہِ۔‘‘ (مسلم: ص ۵۱، ج ۲)
یہ کلام نبوت کی بلاغت ہے کہ چند ضمیروں میں دو سطر کا مضمون بیان فرمادیا۔ اگر ہم اُردو میں اس کا ترجمہ کریں تو ڈیڑھ دو سطر ہوجائے گی۔ فرمایا کہ اے ابا مسعود! اللہ تعالیٰ کو تجھ پر زیادہ قدرت ہے۔ اس قدرت سے جو تجھ کو اس غلام پر حاصل ہے جس کو تو پیٹ رہا ہے۔ فرماتے ہیں: ’’فَالْتَفَتُّ‘‘ میں نے متوجہ ہوکر دیکھا کہ کہاں سے یہ آواز آئی۔ فَاِذَا ہُوَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وہ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے، یہ آپ کی آواز تھی ؎
جی اُٹھے مُردے تری آواز سے​
یہ آوازِ نبوت تھی جس سے صحابہ رضی اللہ عنہ کے دل زندہ ہوتے تھے۔ امراض کی اصلاح ہوجاتی تھی۔ بس اللہ تعالیٰ نے صحبتِ نبوّت کے فیضان کی برکت سے فوراً ہدایت عطا فرمادی۔ اللہ والوں کی صحبت سے قلب میں اعمالِ صالحہ کی ایک زبردست قوت و ہمت اور توفیق پید اہوجاتی ہے۔ چالیس چالیس سال سے انسان جس گناہ کو چھوڑنے کی طاقت نہ پاتا ہو اللہ والوں کے پاس چند دن رہ کرکے دیکھے کہ کیا ہوتا ہے۔
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
حضرت شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا اور یہ بات حضرت ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ نے مجھے بتائی کہ میں تمہیں تمہارے پیر کی ایک بات بتاتا ہوں۔ کسی نے حضرت پھولپوری رحمہ اللہ سے پوچھا کہ پارس میں یہ خاصیت کیوں ہے کہ لوہا اس سے چھوتے ہی سونا بن جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ فرمایا: کیوں، کیا مت پوچھو۔ لوہے کو پارس سے لگادو پھر آنکھوں سے دیکھو کہ لوہا سونا بنتا ہے یا نہیں۔ پوچھنا کیا ہے، مشاہدہ کرلو۔ دیکھو کیسے کیسے شرابی، کبابی صحبت کی برکت سے اللہ والے بن گئے۔ جگر مراد آبادی رحمہ اللہ اللہ والے بن گئے اور جون پور کے ایک شاعر جن کا نام عبدالحفیظ تھا، شراب پیتے تھے۔ یہ سن کر تھانہ بھون گئے کہ وہاں انسان، انسان بنتے ہیں۔ شاید یہ شرابی بھی انسان بن جائے۔ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب نے فرمایا کہ حضرت سے بیعت ہوگئے اور بیعت بھی کیسے ہوئے کہ خانقاہ تھانہ بھون میں چند دن قیام سے داڑھی جو تھوڑی سی بڑھ گئی تھی، وہ بیعت ہونے سے پہلے منڈوالی اور حضرت تھانوی سے درخواست کی کہ حضرت مجھے بیعت کرلیجیے۔ حضرت نے فرمایا کہ جب بیعت ہی ہونا تھا تو اللہ کا نور جو چہرہ پر آگیا تھا اس کو کیوں صاف کیا؟ عرض کیا کہ حضرت آپ حکیم الامت ہیں، میں مریض الامت ہوں۔ مریض کو چاہئے کہ حکیم کے سامنے اپنا سارا مرض پیش کردے تاکہ نسخہ اسی طاقت سے لکھا جائے۔ یہ عمل تو بظاہر صحیح نہیں تھا لیکن چونکہ نیت اچھی تھی اس لیے حضرت نے اس پر گرفت نہیں فرمائی۔ پھر خود ہی عرض کیا کہ اب کبھی داڑھی پر اُسترا نہیں لگائوں گا۔ حضرت نے بیعت فرمالیا۔ یہ جونپور آگئے۔ ایک سال کے بعد حضرت وعظ کے سلسلہ میں جونپور تشریف لے گئے دیکھا کہ ایک بڑے میاں کھڑے ہیں۔ ایک مشت داڑھی رکھے ہوئے۔ فرمایا کہ یہ بڑے میاں کون ہیں۔ عرض کیا گیا کہ یہ وہی بڑے میاں ہیں جو کس حالت میں تھانہ بھون گئے تھے۔ حضرت ان کی داڑھی دیکھ کر خوش ہوگئے۔
حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ان کا خاتمہ بڑا اچھا ہوا۔ تین دن تک گھر میں روتے رہے۔ اللہ کا خوف طاری ہوگیا۔ کمرے میں ادھر سے ادھر ایک دیوار سے دوسری دیوار تک تڑپ کے جاتے تھے اور روتے تھے۔ اسی طرح رو رو کے جان دے دی اور اس خوف کی حالت میں اللہ کے پاس چلے گئے۔ اور اپنے دیوان میں یہ اشعار بڑھادیے تھے ؎
مری کھل کر سیہ کاری تو دیکھو
اور ان کی شانِ ستّاری تو دیکھو
گڑا جاتا ہوں جیتے جی زمیں میں
گناہوں کی گراں باری تو دیکھو
ہوا بیعت حفیظ اشرف علی سے
بایں غفلت یہ ہشیاری تو دیکھو​
واقعی بڑی ہشیاری ہے۔ مبارک وہ بندہ ہے، بہت ہی مبارک بندہ ہے وہ جو اللہ والوں سے تعلق کرلے جو اللہ کے دوستوں سے دوستی کرلے۔ اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ یہ ہماروں کا ہمارا ہے، یہ ہمارے دوستوں کا دوست ہے۔ لہٰذا اس پر بھی فضل فرمادیتے ہیں اور اس کو بھی اپنا بنالیتے ہیں۔ اللہ والوں کی صحبت سے تقدیریں بدل جاتی ہیں۔
سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’ہُمُ الْجُلَسَائُ لَایَشْقٰی جَلِیْسُہُمْ۔‘‘ (بخاری: ص ۹۴۸، ج۲)
اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کے پاس بیٹھنے والا شقی نہیں رہ سکتا۔ اس کی شقاوت کو سعادت سے اللہ تعالیٰ بدل دیتے ہیں۔ یہ لمبی حدیث ہے جس کا ایک جز یہ ہے کہ اللہ والوں کی مجلس میں ایک شخص غیرمخلص تھا۔ وہ وہاں اللہ کے لیے نہیں بیٹھا تھا۔ کسی ضرور سے جارہا تھا کہ وہاں بیٹھ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے پوچھا کہ میرے بندے کیا کررہے تھے؟ اللہ تعالیٰ کو تو سب معلوم ہے لیکن اپنے بندوں پر فخر و مباہات فرمانے کے لیے پوچھتے ہیں۔ آخری جز اس لمبی حدیث کا یہ کہ اے فرشتو! گواہ رہنا میں نے ان سب کو بخش دیا۔ فرشتوں نے عرض کیا کہ وہاں ایک بندہ ذکر کے لیے نہیں بیٹھا تھا۔ ’’اَنَّمَا جَائَ لِحَاجَۃٍ‘‘ وہ کسی حاجت سے جارہا تھا۔ دیکھا کہ کچھ اللہ والے لوگ بیٹھے ہیں، وہ بھی بیٹھ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے اس کو بھی بخش دیا کیونکہ میں اپنے مقبول بندوں کے پاس بیٹھنے والوں کو محروم نہیں کیا کرتا۔ ہُمُ الْجُلَسَائُ لَایَشْقٰ جَلِیْسُہُمْ اس کی شرح میں علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’اِنَّ جَلِیْسَہُمْ یَنْدَرِجُ مَعَہُمْ فِیْ جَمِیْعِ مَایَتَفَضَّلُ اللّٰہُ بِہٖ عَلَیْہِمْ۔‘‘ (فتح الباری: ص ۲۱۳، ج ۱۱)
اللہ والوں کے پاس بیٹھنے والوں کو اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ مندرج کرلیتا ہے۔ ان تمام انعامات میں جو اللہ والوں کو عطا کیے جاتے ہیں۔ وجہ کیا ہے؟ آگے مفعول لہٗ بیان ہورہا ہے۔ اِکْرَامًا لَہُمْ اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کا اکرام فرماتے ہیں۔
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
دیکھئے! جیسے یہاں ڈیرہ غازی خان میں آپ لوگ جو کچھ حضرت والا ہردوئی دامت برکاتہم کو کھلاتے ہیں وہی ہم خادموں کو بھی کھلارہے ہیں کہ نہیں۔ بس جب حِسّی نعمتوں کا یہ حال ہے تو ایسے ہی جنت میں بھی ان شاء اللہ تعالیٰ معاملہ ہوگا۔
جب اولیاء اللہ کی صحبت کا یہ انعام ہے کہ ان کی صحبت کے فیض سے شقاوت سعادت سے تبدیل ہوجاتی ہے اور قلب میں اعمالِ صالحہ کی زبردست ہمت و توفیق عطا ہوجاتی ہے تو صحبتِ نبوّت کے فیضان کا کیا عالم ہوگا؟ حالتِ ایمان میں جس پر نبوت کی گناہ پڑگئی وہ صحابی ہوگیا اور دنیا کا بڑے سے بڑا ولی بھی ایک ادنیٰ صحابی کے رُتبہ کو نہیں پاسکتا۔ چنانچہ صحبت نبوت کے فیضان سے حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ کو فوراً تنبیہ ہوگئی اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہُوَ ہُرٌّ لِوَجْہِ اللّٰہِ اس غلام کو میں نے اللہ کے لیے آواز کردیا، اس خطا کی تلافی میں۔ معلوم ہوا کہ خطائوں کی تلافی بھی ضروری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’لَوْلَمْ تَفْعَلْ لَلَفَحَتْکَ النَّارُ اَوْ لَمَسَّتْکَ النَّارُ۔‘‘ (مسلم: ۵۱، ج ۲)
اگر تُو ایسا نہ کرتا اور غلام پر یہ رحمت نہ دکھاتا تو جہنم کی آگ تجھے جھلسادیتی اور جلا کے خاک کردیتی۔ یہ کون ہیں؟ صحابی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے والے ہیں۔ آج کس ظالم کا منہ ہے جو کہے کہ میں اتنا تہجد پڑھتا ہوں، صوفی ہوں، اتنا ذکر و فکر کرتا ہوں، میرے غصہ پر کوئی پکڑ نہیں ہوگی۔ ذرا سوچئے! یہ بات سوچنے کی ہے یا نہیں کہ اپنی عبادت پر اتنا ناز کہ ہم نے تہجد پڑھی ہے لہٰذا مسلمانوں کو، اور بھائیوں کو اور بہنوں کو اور بیویوں کو جس طرح چاہو ستائو۔ کوئی قانون نہیں۔ دیکھئے! صحبت یافتۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ کے لیے یہ حکم ہورہا ہے کہ اگر تم نے رحمت نہ کی تو یاد رکھو قیامت کے دن دوزخ کی آگ تم کو لپٹ جائے گی۔ اب کس صوفی کا منہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ میرا غصہ میرے لیے کچھ مضر نہیں۔ میری تو اتنی عبادت ہے، اتنا وظیفہ پڑھتا ہوں، میرے غصہ پر کوئی پکڑ نہیں ہوگی۔ حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ سے زیادہ آپ مقبول ہیں۔ صحابی سے گویا بڑھ گیا۔ یہ صوفی جو ایسی باتیں کرتا ہے۔ یہ گویا دعویٰ کررہا ہے کہ صحابی سے نعوذباللہ اس کا درجہ بڑھ گیا۔
میرے دوستو! لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں مصلح کی کیا ضرورت ہے؟ دیکھئے! صحابی ہیں حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ لیکن مربّی و مصلح کی ضرورت پیش آئی کہ نہیں؟ جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو مربّی کی ضرورت تھی جو انبیاء علیہم السلام کے بعد تمام انسانوں میں سب سے زیادہ افضل ہیں تو ہم لوگوں کا کیا منہ ہے کہ ہم اپنے کو تربیت کا محتاج نہ سمجھیں۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ایک عزیز سے ناراض ہوگئے اور فرمایا خدا کی قسم! اب میں ان پر کبھی احسان نہ کروں گا اور جن سے ناراض ہوئے وہ جنگِ بدر لڑے ہوئے تھے۔ اصحابِ بدر جنگ بدر کی برکت سے اللہ کے یہاں مقبول ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی سفارش فرمائی اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ آیت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی جس کے ترجمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اے صدیق کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ میرا بدری صحابی جس نے جنگِ بدر لڑی ہے، تم اس کی خطا معاف کردو اور میں قیامت کے دن تمہیں معاف کردوں۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت صدیق اکبر نے اپنی قسم توڑ دی اور اس کا کفارہ ادا کیا اور دوسری قسم اُٹھائی کہ وَاللّٰہِ اِنِّیْ اُحِبُّ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لِیْ اللہ کی قسم میں محبوب رکھتا ہوں کہ اللہ مجھے معاف کردے اور میں اپنے عزیز کی خطا کو معاف کرتا ہوں اور فرمایا اب میں پہلے سے بھی زیادہ ان پر احسان کروں گا۔ یہ ہے وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ اللہ کے خاص بندے وہ ہیں جو لوگوں کی خطائوں کو معاف کردیتے ہیں اس کے بعد وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ہے کہ معاف کرنے کے بعد اس پر کچھ احسان بھی کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو محبو رکھتے ہیں۔
اس تفسیر کی تائید میں علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے علی بن حسین رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ ان کی باندی ان کو وضو کرارہی تھی کہ لوٹا ہاتھ سے گِرگیا اور ان کا سر زخمی ہوگیا۔ تیز نظر سے خادمہ کو دیکھا وہ بھی حافظۂ قرآن تھی۔ فوراً یہ آیت پڑھی: ’’وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ ‘‘ اللہ کے خاص بندے وہ ہیں جو غصہ کو پی جاتے ہیں۔ فرمایا: ’’قَدْ کَظَمْتُ غَیْظِیْ‘‘ میں نے اپنا غصہ پی لیا۔ اللہ کا فرمان سنتے ہی مان لیا۔ یہ نہیں سوچا کہ خادمہ کے منہ سے نکل رہا ہے۔ کسی کے منہ سے بھی نکلے، ہے تو خدا کا فرمان۔ چھوٹوں کے منہ سے بڑوں کی جو بات نکل رہی ہے اس کی قدر کرو، لہٰذا فرمایا کہ میں نے غصہ پی لیا۔ اس کے بعد باندی نے یہ آیت تلاوت کردی: ’’وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ‘‘ اور جو لوگوں کو معاف کردیتے ہیں۔ فرمایا: ’’قَدْ عَفَوْتُ عَنْکِ‘‘ میں نے تیری خطا معاف کردی۔ اس کے بعد اس نے کہا: ’’وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحسِنِیْنَ‘‘ اور احسان کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ محبوب رکھتے ہیں۔ فرمایا: جا! میں نے اللہ کے لیے تجھے آزاد بھی کردیا۔
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
اب ایک اور واقعہ عرض کرتا ہوں۔ حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ تبلیغی جماعت کے بانی اور حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حقیقی چچا ہیں۔ شیخ ایک مرتبہ اپنے ملازم پر ناراض ہوگئے اور فرمایا تم نے کیوں ایسی نالائقی کی۔ اس نے کہا: حضرت جی معاف کردو، غلط ہوگئی، انسان ہوں۔ حضرت شیخ نے فرمایا: یہ غلطی تو تم نے ایک درجن بار کی ہے، دو چار دفعہ ہو تو معاف کردوں۔ تم تو بار بار یہی غلطی کررہے ہو۔ میں تمہیں کتنا بھگتوں۔ مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ شیخ کے قریب بیٹھے ہوئے تھے۔ شیخ کے کان میں فرمایا کہ مولانا! اتنا بھگت لو جتنا قیامت کے دن اپنا بھگتوانا ہے یعنی اتنا معاف کردو جتنا اپنا معاف کرانا ہے لہٰذا یہ مت کہو کہ کتنا بھگتوں۔ زیادہ سے زیادہ معاف کردو۔
بعض وقت آدمی غصہ میں کہتا ہے کہ کیا صاحب! یہ شخص تو ہر وقت غلطی ہی کرتا ہے، کوئی کام صحیح نہیں کرتا۔ لیکن بھائی بعضوں کی عقل ہی کم ہوتی ہے۔
حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر کامل عقل مثلاً ۹۸ ڈگری ہے تو بعض بندوں کو خدا کی طرف سے ساڑھے ستانوے ڈگری ہی ملی ہوئی ہے۔ بھولے بھالے نادان سے ہوتے ہیں۔ اپنا بچہ اگر ایسا ہو تو کیا کروگے۔ اس کے ساتھ نرمی و درگذر کا معاملہ کروگے یا نہیں؟ لہٰذا جس کو اللہ نے جتنی عقل دی ہے اس لحاظ سے اس کا محاسبہ اور مواخذہ کرو۔ ۹۷ ڈگری عقل والے سے ۹۸ ڈگری عقل والے کا محاسبہ نہ کرو۔ لیکن یہ جانتے ہوئے بھی غصہ میں کہتے ہیں کہ نہیں صاحب یہ خوب سمجھتا ہے، ہمیں ستانے کے لیے ایسا کرتا ہے۔ ایسی احمقانہ چیزیں شیطان پیدا کرتا ہے۔
اچھا ایک بات اور ہے غصہ والا اپنے کو بہت بڑا آدمی سمجھتا ہے۔ غصہ کی تہہ میں کِبر پوشیدہ ہوتا ہے جس پر غصہ آتا ہے اس کی حقارت ذہن میں ہوتی ہے اور اپنی برتری ثابت ہوتی ہے جس وقت غصہ چڑھتا ہے اس وقت اس کا چہرہ دیکھ لو یا آئینہ سامنے کردو کہ اپنا چہرہ خود دیکھے اور اگر اس کے لب و لہجہ کو ٹیپ کیا جائے اور پھر اسی کو دکھایا جائے کہ جناب کا چہرہ اور لب و لہجہ ایسا تھا تو اس شعر کا مصداق ہوگا ؎
رات شیطاں کو خواب میں دیکھا
اس کی صورت جناب کی سی تھی​
انسان کو اپنی بیماری کا پتہ نہیں چلتا۔ آدمی فوراً کہتا ہے کہ میرا غصہ اللہ کے لیے ہے لیکن اپنا فیصلہ معتبر نہیں ہوتا۔ پہلے کسی پَرکھنے والے کی کسوٹی پر پَرکھئے۔ شیخ مبصر بتائے گا کہ آپ کا غصہ اللہ کے لیے ہے یا نفس کے لیے ہے۔ ہر شخص خود فیصلہ کرلیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ بس ہم ٹھیک ہیں۔ جو کہتا ہے کہ ہم ٹھیک ہیں وہی ’’ناٹھیک‘‘ ہے۔ یعنی ٹھیک نہیں ہے اور جو شخص مصلح سے یہ کہہ دے کہ حضرت آپ کو تجربہ نہیں ہے، آپ تو بھولے بھالے ہیں۔ یہ آدمی جس پر میں غصہ کررہا ہوں ایسا ویسا ہے تو سمجھ لو کہ یہ شیخ پر اعتراض کررہا ہے کہ شیخ گویا بدھو ہے۔ ایسے مرید کو کان پکڑ کر خانقاہ سے باہر نکال دینا چاہئے۔
غصہ میں اگر کسی پر زیادتی ہوجائے فوراً ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے میں شرمانا نہیں چاہئے۔ اس کو راضی کرلو ورنہ قیامت کے دن پچھتانا پڑے گا۔ اور جو غصہ کا علاج اور تلافی کرے ان کا درجہ بھی سن لیجئے۔ میرے مرشد اوّل حضرت شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کو ایک شخص پر غصہ آگیا اور غصہ میں کچھ زیادتی ہوگئی۔ انسان ہی تو ہے چاہے کتنا بڑا ولی اللہ ہو اس سے بھی خطا ہوسکتی ہے۔ وہ آدمی بالکل اَن پڑھ تھے، ہَل جوتنے والے جیسے دیہاتوں میں ہوتے ہیں۔ پھولپور کے قریب ایک گائوں تھا جس کا نام شدنی پور تھا۔ وہ شخص چلاگیا۔ شدنی پور کا رہنے والا تھا۔ بعد میں حضرت کو خیال ہوا کہ مجھ سے زیادتی ہوگئی ہے۔ اتنا غضہ مجھے نہیں کرنا چاہئے تھا۔ عصر کے بعد حضرت سا سے معافی مانگنے تشریف لے گئے۔ وہ گائوں صرف ڈیڑھ میل دور تھا، لیکن حضرت نے مجھ سے فرمایا کہ میں اتنا پریشان ہوا کہ راستہ بھول گیا۔ کھیتوں میں ہوتا ہوا بہت دیر سے اس کے پاس پہنچ گیا۔ اس سے کہا کہ آج مجھ سے تم پر کچھ زیادتی ہوگئی۔ میں نے تمہیں کچھ زیادہ کہہ دیا لہٰذا تم مجھ کو اللہ کے لیے معاف کردو۔ اس نے کہا آپ اتنے بڑے مولانا ہیں اور میں جاہل آدمی ہوں۔ آپ تو میرے باپ کے برابر ہیں، باپ کو تو بیٹے پر حق ہوتا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ قیامت کے دن نہ معلوم کیا حال ہوگا؟ اس دن معلوم ہوگا کہ کون چھوٹا ہے کون بڑا ہے۔ تم جب تک یہ نہ کہوگئے کہ میں نے معاف کردیا۔ میں یہاں سے نہیں ہٹوں گا۔ اس نے دیکھا کہ مولانا بغیر کہلوائے نہیں جائیں تو کہا کہ اچھا! حضرت آپ کا حکم ہے، آپ کا دل خوش کرنے کے لیے کہہ دیتا ہوں کہ معاف کردیا ورنہ آپ کا مجھ پر حق ہے۔ حضرت لوٹ آئے۔ اسی رات کو خواب میں سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ دیکھا کہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک کشتی میں تشریف فرما ہیں اور فرمایا کہ کچھ فاصلہ پر میری کشتی ہے، اس پر میں اکیلا بیٹھا ہوا ہوں۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بآواز بلند حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اے علی(رضی اللہ عنہ)! عبدالغنی کی کشتی کو میری کشتی سے جوڑ دو۔ حضرت نے فرمایا کہ جب میری کشتی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی کشتی سے جوڑی ہے تو اس کی کھٹ سے جو آواز آئی آج تک اس کا مزہ آرہا ہے۔ کانوں میں اس کی لطف و لذت سماگئی۔ حضرت شاعر نہیں تھے، مگر اس مزہ کو شعر میں بیان فرمادیا ؎
مضطرب دل کی تسلّی کے لیے
حکم ہوتا ہے ملادو نائو کو​
دیکھئے! غصہ کی تلافی و ندامت و معذرت پر کتنا بڑا انعام ملا۔
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نوراللہ مرقدہٗ اپنے وعظ میں فرماتے ہیں کہ ایک شخص تھا۔ بیوی نے سالن میں نمک تیز کردیا۔ ہاتھ ہی تو ہے اندازہ نہیں ہوا نمک تیز ہوگیا۔ ہماری بیٹیوں سے اگر غلطی ہوجائے تو ہم کیا چاہتے ہیں؟ کہ داماد معاف کردے، ہماری بیٹیوں کو جب داماد ستاتے ہیں تو ہم بزرگوں سے تعویذ لیتے ہیں۔ وظیفے پوچھتے پھرتے ہیں لیکن ہمارے تحت جو بیویاں ہیں وہ بھی تو کسی کی بیٹیاں ہیں ان پر رحم نہیں آتا۔ اپنی بیٹی پر جب پڑتی ہے تو ہمیں تعویذ یاد آتے ہیں۔ اللہ والوں کے پاس جاتے ہیں اور روتے ہیں کہ داماد بہت ظلم کررہا ہے لیکن ہم اپنی بیویوں کو جو ستاتے ہیں، ذرا ذرا سی بات پر ڈانٹ ڈپٹ، بے چاری گُھٹ گُھٹ کے روتی رہتی ہیں۔ سسرال میں کوئی ان کا ہوتا نہیں۔ باپ بھائی دُور ہوتے ہیں، لیکن سمجھ لیجئے! ان کی آہ لگتی ہے۔ جب بے زبان مرغیوں کو ایذا پہنچ جانے سے ایک مجدد کے قلب پر علوم کی بارش رُک سکتی ہے تو جو لوگ انسانوں کو ستاتے ہیں ان کا کیا حال ہوگا؟
ایک بار پیرانی صاحبہ کہیں باہر تشریف لے گئی تھیں۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ سے کہہ گئی تھیں کہ مرغیوں کو کھول کر دانہ پانی ڈال دیجئے گا۔ حضرت بھول گئے۔ اب جو لکھنے بیٹھے تو سارے مضامین اور معرفت کے سارے دریا بند۔ ایک خط کا جواب بھی نہ لکھ سکے۔ تفسیر بیان القرآن رُک گئی۔ کسی کتاب کی تصنیف نہ ہوسکی۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا کی کہ اے خدا! یہ مضمون کی آمد کیوں بند ہوگئی؟ شاید مجھ سے کوئی خطا ہوگئی ہے۔ آپ دل میں ڈال دیجئے تاکہ میں تلافی کرسکوں۔ اللہ تعالیٰ نے دل میں الہام فرمایا کہ ہماری ایک مخلوق گُھٹ رہی ہے، مرغیاں بغیر دانہ پانی کے بند ہیں۔ ہماری مخلوق کو گُھٹاکر مضامین کیسے ملیں گے؟ حضرت فوراً دوڑے ہوئے گئے، مرغیاں کھول دیں اور ان کو دانہ پانی دیا۔ بس دل شگفتہ ہوگیا اور علوم پھر آنے لگے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ’’جانوروں کی پیٹھ کو منبر مت بناؤ۔‘‘ (ابوداؤد: ص ۳۴۷، ج۱) یعنی گفتگو کرنی ہو تو جانور کی پیٹھ سے اُتر کر بات کرو۔ یہ نہیں کہ جانور کی پیٹھ پر بیٹھے بیٹھے باتیں کررہے ہیں گھوڑے وغیرہ سفر طے کرنے کے لیے ہیں۔ اسلام جانوروں تک پر رحمت فرماتا ہے جب جانوروں کے ستانے کی بھی ممانعت ہے تو میرے دوستو! جو بیویوں کو ستاتے ہیں وہ کس قدر عذاب مول لے رہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’اَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ اِیْمَانًا اَحْسَنُہُمْ خُلْقًا وَخِیَارُکُمْ خِیَارُکْمْ لِنِسَائِ ہِمْ۔ (مشکوٰۃ: ۲۸۲)
ترجمہ: ’’کامل الایمان وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں اور تم میں سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جن کے برتاؤ اپنی بیتیوں کے ساتھ اچھے ہیں۔ معلوم ہوا کہ اخلاق کا معیار یہ ہے کہ جس کا سلوک اپنی بیوی کے ساتھ اچھا ہو۔‘‘
علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے تفسیر رُوح المعانی (ص ۱۴، ج ۵) میں ایک روایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شوہر کریم ہوتے ہیں، ان پر عورتیں غالب آجاتی ہیں۔ غالب ہونے کے معنی یہ ہیں کہ تیز باتیں کرلیتی ہیں، ناز نخرے دکھادیتی ہیں کیونکہ ان کو ناز دکھانے کا بھی حق حاصل ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اے عائشہ! جب تُو مجھ سے خوش ہوتی ہے اور جب رُوٹھی ہوتی ہے تو مجھے پتہ چل جاتا ہے۔ عرض کیا کہ آپ کیسے جان لیتے ہیں؟ فرمایا کہ جب تُو مجھ سے خوش رہتی ہے تو کہتی ہے وَرَبِّ مُحَمَّد۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ربّ کی قسم اور جب رُوٹھی ہوتی ہے تو کہتی ہے وَرَبِّ اِبْرَاہِیْمَ۔ ابراہیم کے ربّ کی قسم۔ (صحیح بخاری: ۷۸۷، ج۲)
معلوم ہوا کہ عورتوں کو تھوڑا سا روٹھنے کا حق ہے۔ یہ ان کا ناز ہے لہٰذا اس کی بھی شریعت نے رعایت رکھی ہے۔ دیکھئے! حدیث میں فرمایا: ’’یَغْلِبْنَ کَرِیْمًا‘‘ یہ عورتیں غالب آجاتی ہیں کریم شوہر پر ’’وَیَغْلِبُہُنَّ لَئِیْمٌ‘‘ اور جو لوگ بداخلاق ہیں وہ ان پر ڈانٹ ڈپٹ مار پیٹ کرکے غالب آجاتے ہیں۔
بعضے علاقوں کے بارے میں معلوم ہوا کہ پہلی رات عورت کو رُعب میں لانے کے لیے بڑی پٹائی کرتے ہیں۔ استغفراللہ۔ کیا جہالت اور ظلم ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے۔
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’فَاُحِبُّ اَنْ اَکُوْنَ کَرِیْمًا مَغْلُوْبًا۔‘‘
میں محبوب رکھتا ہوں کہ میں کریم رہوں چاہے مغلوب رہوں۔
وَلَا اُحِبُّ اَنْ اَکُوْنَ لَئِیْمًا غَالِبًا۔
اور میں بداخلاق ہو کر ان پر غلبہ نہیں حاصل کرنا چاہتا۔​
اور بخاری کی روایت ہے (ص ۷۷۹، ج۲) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عورت مثل ٹیڑھی پسلی کے ہے۔ ‘‘ دیکھئے! ٹیڑھی پسلیاں کام دے رہی ہیں یا نہیں، ان کو سیدھی کروگے تو ٹوٹ جائیں گی، لہٰذا ان کے ساتھ شفقت محبت اور رحمت سے معاملہ کیا جائے تو زندگی جنت کی ہوجاتی ہے۔
حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس عورت نے سالن میں نمک تیز کردیا تھا۔ اس کے شوہر نے اللہ تعالیٰ سے معاملہ کرلیا کہ اے خدا! ہاتھ ہی تو ہے نمک تیز ہوگیا۔ اگر میری بیٹی نمک تیز کردیتی تو میں یہی چاہتا کہ داماد اس کو معاف کردے۔ لہٰذا اے خدا! میں آپ کی رضا کے لیے اس کو جو میری بیوی ہے لیکن آپ کی بندی بھی ہے۔ اس کی نسبت آپ کے ساتھ بھی ہے، اس کو معاف کرتا ہوں۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بے غیرت ہیں وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی سفارش وَعَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ کو رَد کرتے ہیں۔ ابھی ایک ڈی آئی جی یا کمشنر سفارش لکھ دے کہ اپنی بیوی کا خیال رکھنا تو بتائیے کہ ہم لوگ کتنا خیال کریں گے اور اللہ تعالیٰ سفارش نازل فرمارہے ہیں کہ ان سے بھلائی کے ساتھ پیش آئو۔ یہاں ہمارا کیا معاملہ ہے اور کیا ہونا چاہئے ہر شخص اپنی حالت پر غور کرلے۔
لہٰذا اس شخص نے دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے معاملہ کرلیا اور بیوی کو معاف کردیا اور اس کو کچھ نہیں کہا۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب اس کا انتقال ہوگیا تو ایک بزرگ نے اس کو خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ تمہارے ساتھ اللہ نے کیا معاملہ کیا؟ اسنے کہا کہ میاں معاملہ تو بڑا خطرناک تھا۔ بڑے گناہوں کا معاملہ پیش ہوگیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میری ایک بندی نے جس دن سالن میں نمک تیز کردیا تھا اور تم نے میری اس بندی کی خطا معاف کردی تھی جائو۔ اس کے صلہ میں آج تم کو معاف کرتا ہوں۔
بس غصہ کو پی جانا ایک بہت بڑا مجاہدہ ہے کیونکہ غصہ آگ ہے۔ اس کو روکنے میں سخت تکلیف ہوتی ہے، اس لیے اس پر اَجر بھی عظیم ہے اور مجاہدہ کے بقدر مشاہدہ ہوتا ہے۔ بعض لوگوں کو اس مجاہدہ کی بدولت بڑی کرامت حاصل ہوگئی اور اولیاء کی کرامت برحق ہے۔ کَرَامَاتُ الْاَوْلِیَائِ حَقٌّ اسلامی عقائد میں سے ہے، اس لیے کرامت اولیا کا انکار بڑی گمراہی کی بات ہے۔ البتہ کرامت کسی ولی کے اختیار میں نہیں ہوتی کہ جب وہ چاہے خود صادر کرے بلکہ جب اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں، اپنے کسی مقبول بندے کو عطا فرمادیتے ہیں۔ کرامت فعل عبد نہیں ہے فعل معبود ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ بابِ کفالت کے اندر اولیاء اللہ کی کرامت کی حدیث لائے ہیں اور اولیاء اللہ کی کرامت کو بیان کرنے والے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک ولی کی کرامت کو بیان فرمارہے ہیں۔ پیغمبر ایک امتی کی کرامت کو بیان فرمارہے ہیں کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص کو جو اللہ تعالیٰ کے مقبول اور ولی تھے ایک ضرورت پیش آئی۔ انہوں نے ایک شخص سے ایک ہزار دینار قرضہ مانگا۔ قرض دینے والے نے کہا کہ کیا تمہارے پاس کوئی گواہ ہے؟ انہوں نے کہا : کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا۔‘‘ اللہ تعالیٰ باعتبار شاہد کے کافی ہیں یعنی شاہد کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کافی ہے پھر اس نے کہا کوئی کفیل اور ذمہ دار لائو کہ اگر تم نہ دو تو ہم کس سے وصول کریں؟ تب انہوں نے جواب دیا: ’’کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلاً۔‘‘ اللہ تعالیٰ ہی ہمارا وکیل اور کارساز ہے، وہی ہمارا کفیل ہے۔ یہ دو مضمون سن کر اس نے کہا: ’’صَدَقْتَ‘‘ تم نے سچ کہا۔ تم اپنے قول میں صادق ہو اور فوراً ایک ہزار دینار قرض دے دیا اور وہ دریا پار چلے گئے اور اپنی ضرورت کو پورا کیا۔
جس دن قرض ادا کرنے کا وعدہ تھا اس دن وہ دینار لے کر پھر آئے لیکن کوئی سواری نہ ملی۔ بے بے چارے بے چین تھے کہ کوئی کشتی ملے تو دریا پار جاکر اس کا قرض دے دیں۔ جب کوئی سواری نہ ملی تو انہوں نے لکڑی کا ایک موٹا سا کندالیا، اس میں سوراخ کیا اور ایک ہزار دینار میں رکھ دیئے۔ اوپر سے کیل لگاکر مضبوطی سے بند کردیا اور اللہ کے بھروسہ پر دریا میں ڈال دیا اور کہا یااللہ! آپ کو معلوم ہے کہ میں نے فلاں شخص سے قرضہ لیا تھا اور میں نے بہت کوشش کی کہ مجھے کوئی سواری مل جائے لیکن نہ ملی بس آپ اس کو حفاظت سے اس تک پہنچادیجئے جس سے میں نے قرض لیا تھا۔ اب ہوائوں کے تھپیڑوں میں لکڑی کا وہ بڑا سا ٹکڑا چل رہا ہے۔ کہیں اور بھی جاسکتا تھا۔ یہ کرامت تھی کہ ہوائوں کے تھپیڑوں سے اس بستی میں پہنچ گیا۔ اُدھر وہ صاحب انتظار کررہے تھے کہ شاید کسی کشتی سے وہ شخص میرا مال لے کر آجائے کہ اچانک دیکھا کہ ایک لکڑی کا ٹکڑا بہتا ہوا آرہا ہے۔ وہ انہوں نے اپنی بیوی کے لیے لے لیا کہ چلو چولہا گرم کرنے کا سامان اللہ نے بھیج دیا۔ بس اس پر کلہاڑی جو ماری تو ایک ہزار دینار اس میں سے نکل آئے اور ایک پرچہ بھی اس میں رکھا ہوا تھا کہ اے شخص! مجھ کو سواری نہیں ملی لہٰذا مجبوراً میں اللہ کے بھروسہ پر یہ بھیج رہا ہوں۔ اس کے بعد ان کو کشتی بھی مل گئی۔ کشتی پر بیٹھ کر وہ پھر ایک ہزار دینار لائے کہ ممکن ہے کہ پہلے دینار نہ ملے ہوں۔ لہٰذا جب انہوں نے پیش کئے تو اس نے کہا کہ آپ نے تو پہلے ہی بھیج دیے تھے اور سارا واقعہ بیان کیا کہ لکڑی کے اندر سے اس طرح سارا روپیہ مل گیا۔ فَانْصَرَفَ بِاَلْفِ دِیْنَارٍ رَاشِدًا پس نہایت ہی خوش اور اللہ تعالیٰ کے اس فضل اور کرامت پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے واپس ہوگئے۔ (بخاری شریف کتاب الکفالۃ: ص ۳۰۶، ج۱)
اس لئے اولیاء اللہ کی کرامت برحق ہے لیکن لوازم ولایت میں سے نہیں ہے۔ بعضے بے وقوف سمجھتے ہیں کہ ہر ولی کے لئے کرامت لازم ہے۔ ولی کے لئے اہتمامِ تقویٰ، اتباعِ سنت، اتباعِ شریعت یہ چیزیں تو لازم ہیں لیکن عصمت بھی لازم نہیں ہے کہ کبھی ان سے خطا ہی نہ ہو۔ نبوت کے لئے تو عصمت لازم ہے لیکن ولایت کے لئے کبھی خطا کا صدور منافی ولایت نہیں۔ بشرطیکہ وہ اس کی تلافی کرے، معافی مانگ لے۔ اللہ سے توبہ کرلے، استغفار کرلے۔
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس دس سال تک ایک شخص رہا تھا۔ اس نے حضرت سے کوئی کرامت نہیں دیکھی۔ ہوا پر اُڑتے ہوئے، پانی پر بغیر کشتی کے چلتے ہوئے نہیں دیکھا تو مایوس ہوکر واپس ہونے لگا اور کہا کہ حضرت دس سال تک میں نے آپ کے اندر کوئی کرامت نہیں پائی، لہٰذا واپس جارہا ہوں۔
حضرت جنید رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اے شخص تُو نے دس سال کے اندر مجھ سے کوئی کام خلافِ شریعت اور خلافِ سنت ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس نے کہا کہ حضرت دس سال تک میں نے آپ کا کوئی کام خلافِ شریعت اور خلافِ سنت نہیں پایا۔ اس پر حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ نے ایک آہ کھینچی اور فرمایا آہ! جس غلام نے دس سال تک اپنے مالک کو ایک لمحہ کے لئے ناراض نہیں کیا، اس سے بڑھ کر تُو کیا کرامت چاہتا ہے؟
حضرت ملاعلی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’الاستقامۃ فوق الف کرامۃ‘‘ سنت و شریعت پر استقامت ایک ہزار کرامت سے افضل ہے۔
میں یہ عرض کررہا تھا کہ غصہ کو ضبط کرنے سے اور مخلوق کی ایذائوں کی برداشت کرنے سے بعض بزرگوں کو بڑی کرامت عطا ہوگئی۔ حضرت شاہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ شیر پر چلتے تھے اور جنگل کی لکڑی کاٹ کر شیر پر رکھتے تھے۔ اور اگر کبھی شیر شرارت کرتا تھا تو زندہ سانپ کا کوڑا تھا۔ اس سے شیر کی پٹائی کرتے تھے۔ خراسان سے ایک شخص ان سے بیعت ہونے خرقان ہوگیا۔ لیکن ان کی بیوی بڑی تیزی مزاج تھیں۔ پوچھا کیسے آئے؟ کہا کہ حضرت سے مرید ہونے آیا ہوں۔ کہنے لگیں: لاحول ولاقوۃ الّا باللّٰہ مجھ سے زیادہ اس پیر کا حال دنیا کیا جان سکتی ہے؟ رات دن میں اس کے ساتھ ہوں، بالکل بنا ہوا مکّار ہے، تم کہاں چکر میں آگئے؟ تمہارے دماغ میں عقل بھی ہے یا نہیں؟ ایسی باتیں سنائیں کہ وہ تو رونے لگا کہ میرا ہزار میل کا سفر بے کار ہوگیا۔ محلہ والوں نے کہا کہ ان بیوی مزاج کی تیز ہے، خبردار! بدگمانی مت کرو۔ جائو! شیخ جنگل سے لکڑیاں لے کر آرہے ہوں گے۔ وہاں دیکھا کہ شیر پر بیٹھے ہوئے حضرت شاہ ابوالحسن خرقانی تشریف لارہے ہیں۔
مولانا جلال الدین رومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شیخ کو کشف ہوگیا کہ یہ بیگم کی باتیں سن کر باغم آرہا ہے یعنی غمگین ہے۔ شیخ ہنسے اور فرمایا کہ بھائی کچھ پریشان نظر آرہے ہو۔ کیا بات ہے۔ کہنے لگا کہ حضرت آپ کے گھر میں تو بڑی تلخ مزاج ہے۔ ایسی بیوی سے آپ نے کیوں شادی کی۔ تو شیخ نے فرمایا کہ یہ جو مجھے شیر کی سواری ملی ہے اور زندہ سانپ کا کوڑا ملا ہے یہ کرامت اسی خاتون کی تکلیفوں پر صبر کا انعام ہے۔
اور اب مولانا رومی رحمہ اللہ کی زبانی سنئے کہ شاہ ابوالحسن خرقانی رحمہ اللہ نے فرمایا:
گر نہ صبر می کشیدے بارِ زن
کے کشیدے شیرِ نر بے گار من​
اگر میرا صبر اس عورت کی تکلیفوں کے بوجھ کو نہ اُٹھاتا تو بھلا یہ شیرِ نر کب میری بے گاری کرتا اور میرا غلام بنتا؟
عادت اللہ یہی ہے کہ جس کو کوئی نعمت دیتے ہیں مجاہدہ کراکے دیتے ہیں۔ حضرت مرزا مظہرجانِ جاناں کتنے نازک مزاج تھے۔ دُشمن نے جب ان کو گولی ماری کسی نے پوچھا حضرت مزاج کیسے ہیں؟ فرمایا کہ گولی سے تو کوئی تکلیف نہیں، لیکن گندھک کی بدبو سے سخت تکلیف ہورہی ہے۔ دہلی کی جامع مسجد سے نماز پڑھ کر واپس ہوتے تھے۔ اگر راستہ میں کوئی پلنگ ٹیڑھا پڑا ہوا دیکھ لیا تو سر میں درد ہوگیا۔ رضائی میں اگر دھاگے ٹیڑھے ڈال دیئے تو ساری رات نیند نہیں آئی۔ دہلی کا بادشاہ حاضرِ خدمت ہوا اور پانی پی کر کٹورا صراحی پر ترچھا رکھ دیا۔ حضرت کے سر پر درد ہوگیا۔ پھر اس نے عرض کیا کہ حضرت آپ کی خدمت کے لیے میں ایک خادم دینا چاہتا ہوں تو فرمایا کہ اب تو میں خاموش تھا تم نے پانی پی کر کٹورا صراحی پر ترچھا رکھ دیا جس سے میرے سر میں درد ہوگیا۔ تمہارا خادم میں کیا قبول کروں جیسے تم ہو ایسا ہی تمہارا خادم ہوگا۔
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
ان مرزا مظہرجانِ جاناں کو الہام ہوا کہ دلّی میں ایک نہایت بدمزاج، غصہ والی اور بداخلاق عورت ہے۔ اگر تم اس سے نکاح کرلو تو سارے عالم میں ہم تمہارا ڈنکا پٹوادیں گے۔ اہل اللہ کو الہام ہوجاتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بس صرف آواز نہیں آتی ورنہ ہر وقت دل میں باتیں ہوتی رہتی ہیں کہ یہ کرلو، یہ نہ کرو ؎
قولِ اورا لحن نے آواز نے​
اسی کو خواجہ صاحب نے رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ؎
تم سا کوئی ہمدم کوئی دمساز نہیں ہے
باتیں تو ہیں ہر دم مگر آواز نہیں ہے
ہم تم ہی بس آگاہ ہیں اس ربطِ خفی سے
معلوم کسی اور کو یہ راز نہیں ہے​
حضرت مرزا مظہرجانِ جاناں نے اللہ تعالیٰ سے سودا کرلیا۔ اہل اللہ تو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی مرضی پر اپنے دل و جان قربان کرنے کی راہیں تلاش کرتے رہتے ہیں ؎
ان کی مرضی پر مری قربان جاں
اللہ اللہ میں تھا اِس قابل کہاں
جو تُو مشتری ہے تو اے جان عالم
بہ نوک سنانت جگر می فروشم
بہ تیغ ادائے تو سَرمی فروشم​
ایک کابل آیا۔ حضرت نے فرمایا کہ جائو گھر سے کھانا لے آئو۔ آواز دے کر کہاں کہ حضرت نے کھانا منگایا ہے کھانا دے دو۔ بس پھر کیا تھا۔ حضرت کو خوب بُرا بھلا کہنا شروع کردیا کہ پہلے سے کیوں نہیں منگایا؟ ایک گھنٹہ سے کھانا لیے بیٹھی ہوں اور وہاں مجلس ملفوظات و ارشادات ہورہی ہے۔ بڑے پیر بنے بیٹھے ہیں اور ہمیں اذیت پہنچارہے ہیں۔ بندوں کے حقوق کا خیال نہیں۔ پیر کیا ہے، مکّار ہے وغیرہ وغیرہ۔ کابلی نے چُھرا نکال لیا، مگر پھر خیال آیا کہ یہ تو میرے شیخ کی بیوی ہے، اس لیے فوراً رکھ لیا اور اپنی زبان میں کہا تم ہمارے شیخ کا بی بی ہے، اس لیے چھوڑ دیا ورنہ ابھی کام تمام کردیتا اور آکر عرض کیا: حضرت ایسی کڑوی عورت سے آپ نے کیوں شادی کی۔ فرمایا کہ بیوقوف یہ سارے عالم میں مظہرجانِ جاناں کو جوڈنکا پٹ رہا ہے، یہ اسی عورت کی برکت سے ہے۔ اس کی ایذائوں پر صبر کرتا ہوں اور اس صبر پر اللہ تعالیٰ نے مجھے استقامت عطا فرمائی ہے۔ یہ اسی کا انعام ہے۔
دوستو! ایمان لانے کے بعد اللہ کے راستہ پر جمے رہنا، اسی کا نام استقامت ہے۔
اَنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا۔​
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
مکمل وعظ پی ڈی ایف میں آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے نیچے دی گئی تصویر پر کلک کیجئے​

 

خادمِ اولیاء

وفقہ اللہ
رکن
جزاک اللہ و بارک اللہ ارمغاں بھائی
نہایت احسن انداز سے حضرت والا دامت برکاتہم کایہ وعظ شیئر کرنے کا بہت شکریہ
دل بہت خوش ہوگیا۔ اللہ آپ کو برکتوں سے نوازے
 
Top