علاجِ کبر (سلسلہ مواعظ حسنہ نمبر 5)

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
سلسلہ مواعظ حسنہ نمبر ۵

[align=center]علاجِ کبر

واعِظ:
شیخ العرب و العجم عارف باللہ حضرتِ اقدس مولاناالشاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم العالیہ

جامع و مرتب:
حضرت سیّد عشرت جمیل میر صاحب مدظلہ (خادمِ خاص حضرت والا دامت برکاتہم العالیہ)

ناشر:
کتب خانہ مظہری (و خانقاہ امدادیہ اشرفیہ)، گلشنِ اقبال، کراچی، پاکستان[/align]

نوٹ: پیشِ نظر وعظ ’’علاجِ کبر‘‘ حضرت والا دامت برکاتہم العالیہ کے چار مواعظ کا مجموعہ ہے جو مختلف تاریخوں اور مختلف اوقات میں مسجدِ اشرف خانقاہ امدادیہ اشرفیہ میں بیان فرمائے۔ یہ مجموعہ تکبر کی اصلاح کے لیے نہایت عجیب اور کیمیا اثر ہے، جس میں قرآن و حدیث کی روشنی میں اور بزرگوں کے واقعات کے ساتھ اس مرض کا علاج نہایت مؤثر اور دلنشیں انداز میں بیان فرمایا گیا ہے۔ ۔۔۔ اس رسالہ کوابتداء تا انتہا حضرت والا دامت فیوضہم نے خود ملاحظہ فرما لیا ہے۔ (از جامع و مرتب، ملخصاً)
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہٖ الَّذِیْنَ اصطَفٰی اَمَّا بَعْدُ فَاَ عُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اِنَّہٗ یُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِیْنَ۔ وَقَالَ تَعَالٰی وَلَہٗ اْکِبْرَیَائُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔ وَقَالَ تَعَالٰی اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْئًا۔​
اللہ سبحانہٗ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
’’بے شک اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں سے محبت نہیں فرماتے۔‘‘​
یعنی جو لوگ اپنے کو کسی درجہ میں بڑا سمجھتے ہیں اللہ تعالیٰ کی محبت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ بڑائی آئی اور اللہ تعالیٰ کی محبت ٹوٹ گئی۔ سارا معاملہ ختم ہوگیا۔ لہٰذا جب اللہ تعالیٰ متکبر سے محبت نہیں فرماتے تو وہ غیر محبوب ہوا۔ اس قضیہ کا عکس کرلیجیے تو یہ مطلب نکلے گا کہ اللہ تعالیٰ کو ان سے ناراضگی ہے۔ ایک آدمی کہتا ہے کہ میں تم سے محبت نہیں کرتا۔ اس قضیہ کا عکس کیا جائے تو یہ مطلب نکلے گا کہ ناراضگی ہے۔ پس جو لوگ اپنے کو بڑا سمجھتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی محبت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجاتے ہیں جب تک کہ توبہ نہ کریں۔ ’’اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِیْنَ۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نہ تو محبت کرتا ہے اور نہ آئندہ کرے گا جو لوگ کہ متکبر ہیں اور متکبر رہیں گے یعنی جب تک توبہ نہ کریں گے اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی محبت سے محروم رہیں گے۔
حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک جملہ جو ملفوظات کمالات اشرفیہ میں ہے۔ اس آیت کی بہترین تفسیر ہے۔ فرماتے ہیں کہ جب بندہ اپنی نظر میں حقیر ہوتا ہے کہ میں دنیا میں سب سے زیادہ نالائق و گنہگار ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی کسی عبادت کا حق مجھ سے ادا نہیں ہورہا ہے اور سر سے پیر تک میں قصور وار ہوں تو اس وقت وہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں معزز ہوتا ہے۔ بڑا ہوتا ہے۔ جب اپنی نظر میں وہ برا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی نظر میں بھلا ہوتا ہے اور جب اپنی نظر میں وہ بھلا ہوتا ہے اللہ کی نظر میں وہ برا ہوتا ہے۔ لہٰذا سوچ لینا چاہیے کہ ہم اپنی نظر میں بھلے ہوجائیں تو فائدہ ہے یا ہم اللہ کی نظر میں بھلے ہوجائیں تو ہمارا فائدہ ہے انسان اپنی عقل سے فیصلہ کرلے۔
آگے اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اصل بڑائی کا حق بھی تو تم کو نہیں ہے۔ فرماتے ہیں ’’وَلَہُ الْکِبْرِیَائُ‘‘ بڑائی اللہ ہی کو زیبا ہے صرف اللہ ہی کے لیے خاص ہے۔ لام بھی تخصیص کا اور ’’تقدیم ماحقہ التاخیر یفید الحصر‘‘ اللہ تعالیٰ کا یہ اسلوبِ بیان خود بتاتا ہے ہ کبریائی اور بڑائی صرف اللہ کا حق ہے جس میں کسی مخلوق کو دخل نہیں ۔ لہٰذا ’’وَلَہُ الْکِبْرِیَائُ‘‘ کا یہ ترجمہ صحیح نہیں ہوگا کہ اللہ کے لیے بڑائی ہے بلکہ ترجمہ یہ ہوگا کہ بڑائی صرف اللہ ہی کے لیے ہے اور کسی مخلوق کے لیے بڑائی نہیں۔ وَلَہُ الْکِبْرِیَائُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ‘‘ اور اسی کو بڑائی ہے آسمان و زمین میں ’’وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ‘‘ اور وہ زبردست طاقت والا اور زبردست حکمت والا ہے۔
اب یہاں ان دو اسماء کے نازل کرنے میں کیا خاص بات ہے۔ ننانوے ناموں میں سے یہاں عزیز و حکیم کیون نازل فرمایا؟ بات یہ ہے کہ بڑائی کہ وجوہ صرف دہ ہی ہوتی ہیں۔ زبردست طاقت اور زبردست طاقت کا حسنِ استعمال یعنی حکمت اور قاعدہ سے طاقت کا استعمال لہٰذا ان ناموں کو نازل فرما کر اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ میری بڑائی کی وجہ یہ ہے کہ میں زبردست طاقت رکھتا ہوں، جس چیز کا اردہ کرلوں بس کن کہتا ہوں اور وہ چیز وجود میں آجاتی ہے۔ ’’کُنْ فَیَکُوْنُ۔‘‘ اور میری زبردست طاقت کے ساتھ ساتھ میری زبردست حکمت، دانائی، سمجھ اور فہم کار فرما ہوتی ہے اور جیسا کہ وہاں طاقت کا استعمال ہونا چاہیے۔ اس طریقہ سے میری طاقت حکمت کے ساتھ استعمال ہوتی ہے۔
دیکھئے اگر کسی گھر میں کوئی لڑکا کا زبردست طاقت والا ہوجائے لیکن ہو بیوقوف تو پھر کسی کی خیریت نہیں ہے۔ کیونکہ اس کو اندازہ ہی نہیں کہ طاقت کو کہاں استعمال کرنا چاہیے۔ کبھی اباکو گھونسہ لگادیا، کبھی چھوٹے بھائی کو لگادیا۔ کبھی اماں کو پیٹ دیا۔ اس لیے بڑائی کا وہ مستحق ہے جو زبردست طاقت کو زبردست حکمت کے ساتھ استعمال کرے اور وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم زبردست طاقت والے اور زبردست حکمت والے ہیں۔
اور جو احادیث اس کی شرح کرتی ہیں ان میں سے ایک حدیث قدسی یہ ہے جس کو ملا علی قاری رحمہ اللہ نے (مرقاۃ: جلد ۹، ص ۳۰۹ پر مسند احمد، ابو داود و ابن ماجہ )کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اپنے بندوں سے:
’’اَلْکِبْرِیَائُ رِدَائِیْ فَمَنْ نَازَ عَنِیْ رِدَائِیْ قَصَمْتُہٗ۔‘‘
بڑائی میری چادر ہے جو اس میں گھسنے کی کوشش کرے گا میں اس کی گردن توڑدوں گا۔​
اور تیسری آیت جو حضرت حکیم الامت نے خطبات الاحکام میں عجب و کبر کے بیان میں تلاوت فرمائی وہ ہے:
’’اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْئًا۔‘‘
’’اور یاد کرو جب جنگِ حُنین میں اپن کثرت پر تم کو ناز ہوا تو وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی۔‘‘​
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
طائف اور مکہ کے درمیان میں ایک وادی ہے جس کانام حنین ہے۔ علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی اپنی تفسیر مظہری (ج۴، ص۱۵۴) میں تحریر فرماتے ہیں کہ غزوہ حنین میں کافروں کی تعداد چار ہزار تھی اور مسلمانوں کی تعداد بارہ ہزار تھی۔ لہٰذا بعض مسلمانوں کو اپنی کثرت پر کچھ نظر ہوگئی کہ ہم لوگ آج تعداد میں بہت زیادہ ہیں بس آج تو بازی مارلی آج تو ہم فتح کرہی لیں گے اور ان کے منہ سے نکل گیا کہ آج ہم کسی طرح مغلوب نہیں ہوسکتے یعنی اسباب پر ذرا سی نظر ہوگی۔ اپنی کثرت تعداد پر کچھ ناز سا پیدا ہوگیا کہ ہم آج تعداد میں کفار سے بہت زیادہ ہیں۔ آج تو فتح ہوہی جائے گی۔ چنانچہ شکست ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہاری شکست کی وجہ یہی ہے کہ تمہیں اپنی کثرت بھلی معلوم ہوئی اور ہماری نصرت سے نظر ہٹ گئی لیکن تھوڑی دیر کے بعد جب انہوں نے توبہ و استغفار کی تو دوبارہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم آگیا۔ پھر فوراً مدد آگئی اور اللہ تعالیٰ نے دوبارہ فتح مبین نصیب فرمائی۔
کبھی بڑائی بڑے خفیہ طور سے دل میں آجاتی ہے۔ خود انسان کو پتہ نہیں چلتا کہ میرے دل میں تکبر ہے۔ کبھی آدمی کے دل میں بڑائی ہوتی ہے اور زبان پر تواضع ہوتی ہے کہ میں تو کچھ بھی نہیں ہوں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بعض لوگ اپنے منہ سے اپنی خوب حقارت بیان کرتے ہیں میں کچھ نہیں ہوں صاحب۔ حقیر ناچیز بندہ ہوں لیکن اگر کوئی کہہ دے کہ واقعی آپ کچھ نہیں ہیں۔ آپ حقیر بھی ہیں اور ناچیز بھی ہیں تو پھر دیکھئیے ان کا چہرہ فق ہوجاتا ہے کہ نہیں اور دل میں ناگواری محسوس ہوگی۔ یہی دلیل ہے کہ یہ دل میں اپنے آپ کو حقیر نہیں سمجھتال۔ حضرت فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں کی زبانی تواضع بھی تکبر سے پیدا ہوتی ہے کہ اس کو اپنی بڑائی کا ذریعہ بناتے ہیں تاکہ لوگوں میں خوب شہرت ہوجائے کہ فلاں صاحب برے متواضع ہیں اپنے کو کچھ نہیں سمجھتے۔ اس تواضع اور خاکساری کا منشا تکبر اور حب جاہ ہے۔ چنانچہ اگر لوگ اس کی تعظی نہ کریں تو اس کو ناگواری ہوتی ہے یہی دلیل ہے ک یہ تواضع اللہ کے لیے نہیں تھی ورنہ لوگوں کی تعظیم اور عدم تعظیم اس کے لیے برابر ہوتی۔
اس لیے یہ بڑائی بہت دن کے بعد دل سے نکلتی ہے۔ تکبر کا مرض بہت مشک سے جاتا ہے۔ اسی بڑائی کو نکالنے کے لیے بزرگانِ دین،مشایخ اور اللہ والوں کی صحبت اٹھانی پڑتی ہے۔ شیخ کے ساتھ ایک زمانہ گذارا جاتا ہے۔ پھر وہ رگڑ رگڑ کر بڑائی نکال دیتا ہے اور خصوصًا وہ شیخ جو ذرا ٹرّا بھی ہو یعنی ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتا ہو پھر تو وہاں بہت جلد بڑائی نکل جاتی ہے۔ جیسے ہمارے میر صاحب کا شعر ہوا ہے۔ میر صاحب کو پچھلے جمعہ کو بھرے مجمع میں جو ڈانٹ پڑی تو انہوں نے ایک شعر کہا ؎
ہائے وہ خشمگیں نگاہ قاتلِ کِبر و عجب و جاہ​
بھرے مجمع میں جب شیخ ڈانٹ دیتا ہے۔ استاد ڈانٹ دیتا ہے تو کیسی اصلاح ہوتی ہے جس کو بہت عمدہ تعبیر کیا ہے ماشاء اللہ نظر نہ لگے ان کو
ہائے وہ خشمگیں نگاہ قاتلِ کِبر و عجب و جاہ
اس کے عوض دل تباہ میں تو کوئی خوشی نہ لوں​
شیخ کی غضبناک نگاہیں قاتلِ کبر و عجب و جاہ ہیں، وہ عجب و کبر اور جاہ کو قتل کردیتی ہیں۔ اس کے عوض دل تباہ یعنی اے دلِ تباہ! اس کے بدلہ میں مجھے دنیا کی کوئی خوشی نہیں چاہیے۔ یہ بڑی عظیم الشان نعمت ہے کہ جس کا نفس مٹ جائے۔ حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ حکیم الامت مجدد الملت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں جب حاضر ہوئے تو ایک پرچہ پر اپنی حاضری کا مقصد ایک شعر میں لکھ کر بھیج دیا وہ شعر یہ تھا ؎
نہیں کچھ اور خواہش آپ کے در پر میں لایا ہوں
مٹادیجے مٹادیجے میں مٹنے ہی کو آیا ہوں​
اپنے نفس کو مٹانا یہی سلوک کا حاصل ہے۔ علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کا علم معمولی نہیں تھا۔ مشرقِ وسطیٰ میں جس کو آپ مڈل ایسٹ کہتے ہیں ان کے علم کا غلغلہ مچا ہوا تھا۔ زبردست خطیب، بہترین ادیب، بہترین عربی داں، عربی ان کے لیے ایسی تھی جیسی ہماری آپ کی اردو، بلکہ ان کی اردو سے بھی زیادہ ان کی عربی اچھی تھی۔ اس کے باوجود جب حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا ک حضرت تصوف کسی چیز کا نام ہے؟ تو حضرت نے فرمایا ک آپ جیسے فاضل کو مجھ جیسا طالب علم کیا بتاسکتا ہے۔ البتہ جو اپنے بزرگوں سے سنا ہے اسی سبق کو تکرار کرتا ہوں یعنی اسی کو دوبارہ دہراتا ہوں۔ دیکھئیے یہ تھی حضر کی شانِ فنائیت و تواضع، فرمایا کہ آپ جیسے فاضل کو مجھ جیسا طالب علم کیا بتاسکتا ہے۔ اتنا بڑا مجدد زمانہ اور آفتابِ علم اکابر علماء کا شیخ اپنے کو طالب علم کہہ رہا ہے۔
تکرار کے معنی اردو میں جھگڑے کے آتے ہیں۔ اگر آپ کسی گائون میں جائیں تو آپ یہ کبھی نہ کہیے کہ میں تکرار کرنا چاہتا ہوں۔ طالب علم تو اپنی کتاب کے سبق کو دوبارہ دہرانے کو تکرار کہتے ہیں، تکرار کے معنی ہیں بار بار لیکن جھگڑے میں بھی بار بار ایک دوسرے کو وہی ایک بات کہتا ہے کہ تو اُلّو گدھا، دوسرا کہتا ہے تو الّو گدھا، کیونکہ ایک لفظ کا بار بار تکرار ہوتا ہے اس لیے جھگڑے کا نام بھی تکرار رکھ دیا ہے۔ کہتے ہیں کہ صاحب آج تو لالو کھیت میں دو آدمیوں میں تکرار ہوگئی لیکن علمی ماحول میں تکرار کے معنی ہیں سبق کا دہرانا۔
تو حضرت نے فرمایا کہ میں اسی سبق کو دہراتا ہوں وہ کیا سبق ہے؟ اس سبق کا حاصل اور خلاصہ کیا ہے؟ اپنے کو مٹادینا۔ فرمایا تصوّف نام ہے اپنے کو مٹادینے کا۔ جس دن یہ یقین ہوجائے کہ میں کچھ نہیں بس اس دن وہ سب کچھ پاگیا۔ جس کو یہ احساس ہوا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں اس کو سب کچھ مل گیا اور یہ کب ہوتا ہے؟ جب دل میں اللہ کی عظمت کا آفتاب بلند ہوتا ہے تب تکبر کے ستارے فنا ہوتے ہیں۔ جب شیر سامنے آتا ہے تب جنگل کی لومڑیوں کی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ کبر و عجب لومڑیاں ہیں جب شین سامنے نہیں ہوتا تو اکڑتی پھرتی ہیں لیکن جب اللہ تعالیٰ کی محبت کا شیر دل میں غرّائے اور اللہ اپنی محبت کا سورج دل میں چمکائے اس وقت میں بندہ کیسے اترائے! جس دل پر اللہ تعالیٰ کی عظمت کا انکشاف ہوجاتاہے پھر وہ تکبر نہیں کرسکتا۔
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
مولانا شاہ وصی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے اکابر خلفاء میں سے تھے۔ ان کی مجلس کو جن لوگوں نے دیکھا ہے بتائے ہیں کہ حضرت حکیم الامت کی مجلس کی بالکل نقل تھی۔ وہ فرماتے ہیں کہ دیکھو حق سبحانہٗ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْھَا‘‘
کہ جب بادشاہ میں فاتحانہ داخل ہوتے ہیں تو اس کو برباد کردیتے ہیں ۔
’’وَجَعَلُوْا اَعِزَّۃَ اَھْلِھَا اَذِلَّۃً۔‘‘
اور اس کے معزز لوگوں کو گرفتار کرلیتے ہیں ذلیل کردیتے ہیں۔ یعنی بڑے بڑے لوگوں کو بڑے بڑے سرداروں کو گرفتار کرلیتے ہیں تاکہ کبھی بغاوت نہ کرسکیں۔
حضرت فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ جس کے قلب میں اپنی عزت کا اور اپنی عظمتوں کا جھنڈا لہراتے ہیں جس کے دل کی بستی کو اپنے لیے قبول فرماتے ہیں اس دل کے کبر کے چوہدری کو، عجب کے چوہدری کو اور ریا کے سردار کو گرفتار کرلیتے ہیں۔ اس کے نفس کو مٹادیتے ہیں۔ لہٰذا کبر اور نسبت مع اللہ جمع نہیں ہوسکتے۔ وہ شخص ہرگز صاحبِ نسبت نہیں ہوسکتا جس کے دل میں رائی کے برابر بھی تکبر ہو۔
اس لیے حضرت حکیم الامت مجدد الملت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ اشرف علی تمام مسلمانوں سے ارذل ہے، سارے مسلمانوں سے کمتر ہے فی الحال۔ یعنی اس حالت میں بھی سب مسلمان مجھ سے اچھے ہیں کیونکہ کیا معلوم کہ کس کی خوبی اللہ کے یہاں پسند ہے۔ اللہ ہی جانتا ہے اور فرمایا کہ تمام کافروں سے اور جانوروں سے میں بد تر ہوں فی المال یعنی انجام کے اعتبار سے یہ دو جملے خو ب یاد کرلیجیے کہ میں تمام مسلمانوں سے بدتر فی الحال۔ اس موجودہ حالت میں میں تمام مسلمانوں سے برا ہوں ۔ دلیل یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی مسلمان کے کسی ادنیٰ فعل سے خوش ہوجائے اور اس کے تمام بڑے بڑے گناہوں کو معاف کردے اور دوسری دلیل کیا ہے کہ ہوسکتا ہے میری کسی بات سے اللہ ناراض ہو اور میری تمام نیکیوں پر پانی پھیر دے۔ یہ دو جملے بہت عجیب ہیں۔ ان میں تکبر کا علاج بھی ہے جو اپنے آپ کو اتنا حقیر سمجھے گا اس میں تکبر نہیں آسکتا کہ تمام مسمانوں سے بدتر ہوں فی الحال اور تمام کافروں سے اور جانوروں سے بدتر ہوں فی المآل۔ یعنی انجام کے اعتبار سے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی کا خاتمہ خراب ہوجائے اور جس کا خاتمہ خراب ہوگیا کفر پر مرگیا تو جانور بھی توا س سے اچھا ہوا کیونکہ جانور سے کوئی حساب کتاب نہیں اور موت سے اپنے کو کافر سے بدترکیسے سمجھیں؟ اس کا طریقہ کیا ہے؟ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ کافر جس کو ہم حقیر سمجھتے ہیں اس کا ایمان پر خاتمہ ہوجائے۔ آخر میں وہ کلمہ اسلام کرلے۔ اس لیے مولانا رومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ؎
ہیچ کافر را بخواری منگرید
کہ مسلمان بودنش باشد امید​
کسی کافر کو بھی حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھو کیونکہ مرنے سے پہلے ابھی اس کے مسلمان ہونے کی امید باقی ہے لیکن حقیر نہ سمجھنے کے معی یہ نہیں کہ اس کے کفر سے نفرت نہ کی جائے۔ حقیر سمجھنا اور ہے لیکن کفر سے نفرت کرنا واجب ہے۔ کفر سے، فسق سے، اللہ کی نافرمانی سے نفرت کرنا ہر مسلمان کے لیے واجب ہے،لیکن کافر اور فاسق کو حقیر سمجھنا حرام ہے۔ نفرت کرنا واجب اور حقیر سمجھنا حرام۔ کوئی کہے کہ صاحب یہ تو مشکل مسئلہ ہے۔ نہیں! بالکل آسان ہے۔ اگر کوئی شہزادہ منہ پر روشنائی لگالالے تو آپ شہزادہ کو حقیر سمجھیں گے یا روشنائی سے نفرت کریں گے؟ ظاہر بات ہے کہ روشنائی سے نفرت کریں گے۔ کیونکہ ممکن ہے کہ ابھی صابن سے منہ دھوکر پھر روشن چہرہ کے ساتھ آسکتاہے۔ ایسے ہی کافر کے کفر سے تو ہم کو نفرت ہے لیکن اس کو حقیر سمجھنا حرام ہے کیونکہ ممکن ہے کہ ابھی کلمہ پڑھ کر یہ ولی اللہ ہوجائے۔ حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ جو صاحب نسبت ہیں وہ تو سارے جہاں سے اپنے کو بدتر سمجھتے ہیں۔
امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ تفسیر کبیر (ج۱۶، ص۱۷۴) میں تحریر فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف فرما تھے کہ اچانک حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ آتے ہوئے دکھائی دیئے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’ھٰذَا اَبُوْ ذَرٍّ قَدْ اَقْبَلَ‘‘ یہ جو آرہے ہیں ابو ذر غفاری ہیں۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اَوْتَعْرِفُوْنَہٗ؟ کیا آپ ان کو جانتے ہیں؟ آپ تو آسمانی مخلوق ہیں۔ مدینہ کے لوگوں کو آپ کیسے جان گئے؟ ابو ذر غفاری کو آپ نے کیسے پہچان لیا؟ عرض کیا : ’’ھُوَ اَشْھَرُعِنْدَنَا مِنْہُ عِنْدَکُمْ۔‘‘ ’’مدینہ میں ان کی جتنی شہرت ہے اس سے زیادہ یہ آسمان میں ہم فرشتوں کے درمیان مشہور ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’بِمَا ذَانَالَ ھٰذِہِ الْفَضِیْلَۃَ؟‘‘’’یہ فضیلت ان کو کیسے ملی؟‘‘ جبرئیل علیہ اسلام نے عرض کیا: ’’ان کو یہ فضیلت دو اعمال سے ملی ہے ایک تو قلبی ہے اور ایک قالبی۔ ایک دل کا عمل ہے اور ایک جسم کا عمل ہے۔ دل کا عمل کیا ہے؟ ’’لِصِغْرِہٖ فِیْ نَفْسِہٖ‘‘ یہ دل میں اپنے کو بہت حقیر سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو یہ ادا بہت پسند ہے، جو بندہ اپنے کو چھوٹا سمجھتا ہے۔ حقیر سمجھتا ہے اللہ تعالیٰ کو اس کی یہ ادا بہت پسند آتی ہے کہ میرا بندہ بندگی کا حق ادا کررہا ہے۔ بندہ ہوکر اکڑے، غلام ہوکر اکڑے یہ بات بندگی کے خلاف ہے۔
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
اور دوسرا عمل ان کا یہ ہے ’’وَکَثْرَۃِ قِرَائَ تِہٖ قُلْ ھُوَاللّٰہ اَحَدٌ۔ ‘‘کہ یہ قل ھواللہ (سورۃ اخلاص) کی تلاوت بہت کرتے ہیں۔ ان دو اعمال کی برکت سے ان کی آسمان کے فرشتوں میں شہرت ہے۔
حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ مسجد میں تھے۔ کسی نے اعلان کیا کہ اس مسجد میں جو سب سے زیادہ نالائق بدترین گنہگار اور سب سے برا انسان ہو وہ جلدی سے مسجد کے باہر آجائے۔ اس مسجد میں جتنے نمازی تھے ان میں جو سب سے بڑے بزرگ تھے حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سب سے پہلے وہ باہر آکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ تمام مسلمانوں میں میں ہی بدترین مسلمان ہوں۔ اللہ اکبر! یہ شان تھی!۔ آج ہم دو رکعت پڑھ لیں ، ذرا سی تلاوت کرلیں، تھوڑی سی نفلیں پڑھ لیں، بس سمجھ گئے کہ ہم ٹھیکیدار ہیں جنت کے اور سب کو حقیر سمجھنے لگے کہ ہمارے مقابلہ میں کوئی کچھ نہیں۔ ایک یہ اللہ والے تھے کہ سب سے زیادہ اپنے کو حقیر سمجھتے تھے۔ اس وقت کے بزرگ حضرت سقطی رحمۃ اللہ علیہ کوکسی نے خبر دی کہ آج جنید نے یہ کلام کیا ہے۔ فرمایا کہ اسی چیز نے تو جنید کو جنید بنایا ہے۔ یعنی اپنے کو سب سے حقیر سمجھتے ہیں جب ہی تو وہ اس مرتبہ کو پہنچے ہیں ؎
ازیں برملائک شرف داشتند
کہ خود رابہ ازسگ نہ پند اشتند​
اولیاء اللہ فرشتوں سے اس وجہ سے بازی لے جاتے ہیں۔ فرشتوں سے زیادہ ان کو عزت اس لیے ملتی ہے کہ اپنے کو کتوں سے بھی بہتر نہیں سمجھتے۔ یہ کون کہہ رہا ہے؟ شیخ شہاب الدین سہروردی کا پہلا خلیفہ، سلسلہ سہروریہ کا پہلا خلیفہ حضرت شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ اور فرمایا کہ میرے شیخ، سہروریہ سلسلہ کے شیخ اول حضرت شہاب الدین سہروردی رحمۃاللہ علیہ مجھے دو نصیحت فرماتے تھے ؎
مرا شیخ دانائے فرخ شہاب
دو اندرز فرمود از روئے تاب​
میرے عقلمند شیخ فرخ شہاب نے مجھے دو موتی نصیحت کے عطا فرمائے۔
یکے آں کہ برغیر بد بیں مباش​
پہلی نصیحت یہ فرمائی کہ اپنے اوپر استحسان کی نظر مت ڈالو کہ میں اچھا ہوں۔ اپنے کو اچھا مت سمجھو۔ یہ دو قیمتی نصیحت فرمائی کہ دوسروں پر برائی کی نظر نہ ڈالو اور اپنے رپ بھلائی کی نظر نہ ڈالو۔ یعنی دوسروں کو برا نہ سمجھو اور اپنے کو اچھا نہ سمجھو۔
سید الطائفہ سید الاولیا، امیر الاولیاء حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ اس وقت جتنے اولیاء ہیں سب کی گردن پر میرا قدم ہے۔
’’وَاَقْدَامِیْ عَلیٰ عُنُقِ الرِّجَالِ‘‘
اللہ نے ان کو وہ درجہ دیا تھا۔ وہ فرماتے ہیں ؎
گہے فرشتہ رشک برد بر پاکی ما
گہہ خندہ زند دیو بہ ناپاکی ما​
کبھی تو میں اپنے کو فرشتوں سے افضل پاتا ہوں۔ فرشتہ میری پاکی پر رشک کرتا ہے اور کبھی میری نالائقی پر شیطان بھی ہنستا ہے۔
ایمان چو سلامت بہ لب گور بریم
اَحْسَنْتُ بریں چُستی و چالاکی ما​
جب میں ایما کو سلامتی کے ساتھ قبر میں جائوں گا تب اپنی چستی و چالاکی تعریف کروں گا۔ اس وقت اپنی تہجد و نوافل پر خوش ہوں گا کہ الحمدللہ میں کامیات ہوگیا۔ نتیجہ نکلنے سے پہلے، رزلٹ آؤٹ ہونے سے پہلے جو طالب علم غرور و شیخی کرتاہے انتہائی بے وقوف ہے جب خاتمہ ایمان پر ہوجائے اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمادیں ک جائو جنت میں، میں تم سے راضی ہوں، خوش ہوں، پھر جتنا چاہو اچھلو کودو اور اچھلتے کودتے جنت میں داخل ہوجائو لیکن ابھی کیا پتہ کہ ہمارا کیا حشر ہونے والا ہے۔ ابھی کس بات پر اپنے کو بڑا سمجھیں، ابھی کسی منہ سے اپنی تعریف کریں۔ کیامنہ ہے ہمارا کہ دنیا میں اپنی تعریف کریں۔ ابھی تو فیصلہ کا انتظار ہے۔
ہم ایسے رہے یا کہ ویسے رہے
وہاں دیکھنا ہے کہ کیسے رہے​
تکبر کے علاج کے لیے حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ کا ایک جملہ کافی ہے۔ حضرت حکیم الامت کا وہ جملہ یاد کرلیجئے کہ اتنا بڑا مجدد زمانہ، ڈیڑھ ہزار کتابوں مصنف، بڑے بڑے علماء کا شیخ، فرماتے ہے کہ اشرف علی ہر وقت غمگین رہتا ہے کہ نہ جانے قیامت کے دن اشرف علی کا کیا حال ہوگا؟
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ امام فخرالدین رازی نے لکھا ہے کہ ایک بزرگ کا انتقال ہورہا تھا۔ لوگ انہیں کلمہ کی تلقین کررہے تھے کہ کلمہ پڑھ لیں۔ اتنے مین انہوں نے کہا کہ ابھی نہیں، ابھی نہیں، جب ہوش آیا تو لوگوں نے پوچھا کہ حضرت ہم تو آپ کو کلمہ پڑھا رہے تھے لیکن آپ ابھی نہیں، ابھی نہیں، کیوں کہہ رہے تھے، فرمایا کہ شیطان مجھ سے یہ کہہ رہا تھا کہ تو نجات پاگیا، میرے ہاتھ سے نکل، میں یہ کہہ رہا تھا کہ ابھی تو روح جسم میں ہے ابھی میں نے تجھ سے نجات نہیں پائی، جب کلمہ پر میر ا خاتمہ ہوجائے اور روح کلمہ ے کر ایمان کے ساتھ جسم سے الگ ہوجائے اس وقت میں تجھ سے نجات پائوں گا۔ تو میں شیطان سے کہہ رہا تھا ابھی نہیں، ابھی نہیں، ابھی جسم میں جان باقی ہے۔ ابھی تو مجھ کو بہکا سکتا ہے۔
اور ایک عالم سے کہا کہ تم اپنے علم سے بچ گئے۔ اس اللہ والے عالم نے کہا کہ ارے اپنے علم سے نہیں اللہ کی رحمت سے بچ گیا۔ کہا کہ کمبخت جاتے جاتے بھی مجھے چکر دے رہا ہے کہ اپنے علم سے بچ گئے تاکہ میری نظر اپنے علم پر ہوجائے اور اللہ پر نہ رہے۔ دیکھئیے اس طرح یہ خبیث خاتمہ خراب کرانا چاہتا ہے فوراً فرمایا کہ میں علم سے نہیں بچا اے خدا آپ کی رحمت سے بچا ہوں اور شیطان سے کہا مردود بھاگ جا یہاں سے۔ جس پر اللہ کا کرم ہو شیطان اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور یہ انہیں کو ملتا ہے جو سارے جہان سے زیادہ اپنے کو حقیر سمجھتے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے جس کو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے خطبات الاحکام میں حضرت امام بیہقی رحمہ اللہ سے نقل فرمایا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں۔
’’مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَہُ اللّٰہُ فَھُوَ فِیْ نَفْسِہٖ صَغِیْرٌ وَّفِیْ اَعْیُنِ النَّاسِ عَظِیْمٌ۔ وَمَنْ تَکَبَّرَ وَضَعَہُ اللّٰہُ فَھُوَ فِیْ اَعْیُنِ النَّاسِ صَغِیْرٌ وَّفِیْ نَفْسِہٖ کَبِیْرٌ حَتّٰی لَھُوَاَھْوَنُ عَلَیْھِمْ مِنْ کَلْبٍ اَوْ خِنْزِیْرٍ۔‘‘ (مشکوٰۃ: ۴۳۴)
فرماتے ہیں ’’مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ‘‘ جو اللہ کے لیے اپنے نفس کو مٹاتا ہے جس نے اللہ کے لیے تواضع اختیار کی، اپنے نفس کو مٹایا رَفَعَہُ اللّٰہُ اللہ تعالیٰ اس کو بلندی دیتا ہے فَھُوَ فِیْ نَفْسِہٖ صَغِیْرٌ بس وہ اپنے نفس میں حقیر ہوتا ہے تواضع کی وجہ سے اپنے دل میں تو اپنے کو چھوٹا سمجھتا ہے لیکن اس فنائیت کی برکت سے اللہ اس کو لو گوں کی نظر میں عظیم کردیتا ہے۔ عزت دیتا ہے تمام مخلوق میں اس کی عظمت اور بڑائی ڈال دیتا ہے۔ ’’وَفِیْ اَعْیُنِ النَّاسِ عَظِیْمٌ‘‘ اپنے نفس میں تو اپنے کو حقیر سمجھا مگر اس تواضع کا کیا انعام ملا؟ تمام لوگوں میں اس کو عظمت عطا ہوگئی ساری دنیا کے انسانوں میں اللہ تعالیٰ اس کو عظمت دیتے ہیں۔
’’وَمَنْ تَکَبَّرَ وَضَعَہُ اللّٰہُ‘‘ اور جو اپنے کو بڑا سمجھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو گرادیتے ہیں اور جس کو خدا گرادے پوری کائنات میں اس کو کون اٹھادے۔ جس کو اللہ ذلیل کرے اس کو پوری کائنات میں کوئی عزت نہیں دے سکتا، کیونکہ جو بندہ اپنے کو بڑا سمجھتا ہے حقیقت میں وہ بڑا نہیں ہے۔ جس کا مادہ تخلیق باپ کی منی اور ماں کا حیض ہو وہ کیسے بڑا ہوسکتا ہے؟ اس لیے وَمَنْ تَکَبَّرَ فرمایا تکبر باب تفعّل سے ہے جس میں خاصیت تکلف کی ہوتی ہے۔ یعنی وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے بڑانہیں ہے بہ تکلف بڑا بن رہا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ اس کو گرادیتے ہیں ذلیل کردیتے ہیں۔
لیکن اللہ تعالیٰ کے لیے جب یہ صفت آتی ہے تو وہان اس کے یہ معنی نہیں ہوں گے۔ قرآن پاک میں ہے ’’اَلْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکبِّرُ۔‘‘ عزیز معنی طاقت والا، جبار کے معنی ظالم کے نہیں ہیں جیسا کہ عام لوگ سمجھتے ہیں کہ فلاں بڑا ظالم ہے جابر ہے۔ جبّار کے معنی ہیں ٹوٹی ہڈی کو جوڑنے والا اور اپنے بندوں کی بگڑی بنانے والا (روح المعافی: پ۲۸، ص۶۳) ’’اَلَّذِیْ یُصْلِحُ اَحْوَالَ خَلْقِہٖ بِقُدْرَتِہِ الْقَاھِرَۃَ۔‘‘ جو اپنے بندو کی ہر حالت کو بنانے پر قادر ہو۔ انتہائی خراب حالت کسی بندہ کی ہوتو اس کی منتہائے تباہی اور منتہائے تخریب کو اللہ تعالیٰ کے ارادۂ تعمیر کا نقطہ آغاز کافی ہے۔ بس وہ ارادہ فرمالیں کہ مجھے اپنے اس بندہ کو سنوانا ہے وہ اسی وقت اللہ والا بن جائے گا۔
علامہ آلو سی تفسیر روح المعافی میں تحریر فرماتے ہیں کہ اس آیت مبارکہ میں متکبر کے معنی صاحبِ عظمت کے ہیں۔ اگرچہ یہ بات تفعل سے لیکن تکلف کی خاصیت جو کہ عموماً باب تفعل کا خاصہ ہے یہاں ہر گز جائز نہیں ہوگی بلکہ یہاں نسبت اکی الماخذ ہے یعنی صحاب عظمت (پ۲۸، ص۶۳) اللہ تعالیٰ عظمت والے ہیں لہٰذا اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ متکبر کا ترجمہ ہمیشہ صاحب عظمت کیا جائے گا کیونکہ بڑائی صرف اللہ ہی کے لیے خاص ہے سوائے اللہ کے کوئی بڑا نہیں ہے اور جو بندہ اپنے کو بڑا بنائے گا اللہ تعالیٰ اس کو گرادیں گے۔
میرے دوستو! جسے خدا گرائے اسے کون اٹھاسکتا ہے۔ ہاتھی خدا کی ایک مخلوق ہے وہ اگر کسی انسان کو سونڈ میں لپیٹ لے اور اسے گرانا چاہے تو محمد علی کلے بھی گریں گے، رستم بھی گرے گا۔ بڑے سے بڑا پہلوان بھی گرے گا۔ جب ایک مخلوق کی طاقت کا یہ حال ہے تو حق تعالیٰ کی قدرت کا کیا عالم ہوگا! پس جس کو خدا گرائے اس کو کون اُٹھائے اور جس کو اللہ رکھے اس کو کون چکھے اور جس اللہ نہ رکھے اس کو ساری دنیا چکھے۔ یہ آخری جمہ میرا اضافہ ہے۔ پرانا محاورہ یہ ہے کہ جس کوا للہ رکھے اس کو کون چکھے۔ اختر نے یہ اضافہ کردیا کہ جس کو اللہ نہ رکھے سار دنیا اس کو چکھے یعنی جس کی حفاظت خدا نہ کرے وہ ساری دنیا کے لات گھونسے کھائے گا۔ جہاں جائے گا ذلیل ہوگا۔ جو اپنے کو بڑا سمجھتا ہے ۔ تکبر کرتا ہے اکڑکے چلتا ہے تو اس کی چال، اس کی رفتار، اس کی گفتار، اس کی زندگی کے ہر شعبہ اس کا تکبر شامل ہوتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں کہ متکبر انسان لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل ہوجاتا ہے ۔ ’’فَھُوَ فِیْ اَعْیُنِ النَّاسِ صَغِیرٌ۔‘‘ تمام دنیا کے انسانوں میں اللہ تعالیٰ اس کو ہلکا چھوٹا اور حقیر کردیتا ہے۔ لوگ ہر طرف سے اسے کہتے ہیں کہ بہت ہی نالائق ہے بڑا متکبر ہے۔ اینٹھ کے چلتا ہے۔ ’’وَفِیْ نَفْسِہٖ کَبِیْرٌ‘‘ مگر اپنے دل میں وہ اپنے کو خوب بڑا سمجھتا ہے کہ میری عظمتوں سے لوگ واقف نہیں ہیں ۔ میری عظمتوں کی لوگ قدر نہیں کرتے۔ میرے علم و عمل کو نہیں پہنچاتے۔ اس قسم کی باتیں شیطان اس کے دل میں ڈال دیتا ہے سمجھتا ہے کہ بس ’’ہم چنیں مادیگرے نیست‘‘ مجھ جیسا کوی دوسرا نہیں ہے۔ ہمارے ایک دوست کہتے تھے کہ جو کہتا ہے کہ ہم چنیں مادیگرے نیست۔ وہ دراصل یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ’’ہم چنیں ’’ڈنگرے‘‘نیست‘‘ کہ مجھ جیسا کوئی ڈنگر یعنی جانور نہیں ہے۔
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
تو حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں کہ جو شخص اپنے کو بڑا سمجھتا ہے اللہ اس کو گرادیتا ہے پس وہ لوگوں کی نظروں میں ذلیل اور اپنے دل میں کبیر ہوتا ہے۔ یعنی اپنے دل میں وہ اپنے کو بڑا سمجھتا ہے لیکن ساری دنیا کی نظروں میں حقیر اور ذلیل ہوجاتا ہے۔ ’’حَتّٰی لَھُوَ اَھْوَنُ عَلَیْھِمْ مِنْ کَلبٍ اَوْخِنْزِیْرٍ۔‘‘ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو لوگوں کی نظروں میں کتے اور سور سے بھی زیادہ ذلیل کردیتا ہے۔ ایسی خظرناک بیماری ہے یہ تکبر، اس کو سوچیئے کہ یہ تو سمجھ رہا ہے کہ میں بہت بڑا ہوں، بڑی عزت والا ہوں لیکن لوگوں کی نگاہوں میں کتے اور سور سے بھی زیادہ ذلیل ہے۔
اس لیے متکبر کے ساتھ صدقہ ہے۔ یعنی متکبر کے سامنے زیادہ تواضع اور خاکسار مت دکھائیے، دل میں تو اس کو تحقیر نہ ہو بلکہ اس وقت دل میں اپنی ہی حقارت پیش نظر ہو لیکن بطاہر اس کا زیادہ ارکرام نہ کیجئے کہ کیونکہ اگر اس کا زیادہ اکرام کیاجائے گا تو اس کا مرض تکبر اور بڑھ جائے گا۔
بادشاہ تیمور لنگ جو لنگڑا تھا جب تخت شاہی پر بیٹھتا تھا تو مجبوراً ایک پیر پھیلالیتا تھا۔ علامہ تفتازانی رحمہ اللہ علیہ جب اس کے پاس پہنچے تو بادشاہ نے اپنی ٹانگ ان کی طرف کی ہوئی تھی وہ مجبور تھا لیکن یہ جب بیٹھے تو انہوں نے بھی اپنی ٹانگ بادشاہ کی طرف کردی تیمور نے کہا کہ میں تو معذور ہوں مرالنگ است یعنی میری ٹانگ میں لنگ ہے تو علامہ نے فرمایا کہ مراننگ است مجھے ننگ ہے۔ یعنی مجھے غیرت آتی ہے کہ ایک جاہل میری طرف پائوں پھیلائے اس میں میرے علم کی توہین ہے۔ بادشاہوں کے ساتھ یہ معاملہ تھا۔ علماء ایسے مستغنی ہوتے تھے۔ ا
اور ایک بادشاہ ایک بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا وہ بزرگ لیٹے ہوئے تھے۔ اٹھ کے بھی نہیں بیٹھے۔ ایسے ہی لیٹے لیٹے اس ہاتھ ملالیا۔ اس بادشاہ کا خادم شیعہ تھا۔ اس نے کہا کہ یہ آپ نے پیر پھیلاکر لیٹنا کب سے سیکھ لیا۔ فرمالیا کہ جب سے میں اپنا ہاتھ سمیٹ لیا تو پیر پھیلانا سیکھ لیا۔ یعنی مخلوق کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتا اس نے اس کی خوشامد اور چاپلوسی سے مستغنی ہوں۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ بیماری بہت خطرناک ہے اور اس کے علاج کے لیے خانقاہوں کی ضرورت ہے۔ بڑے بڑے علماء نے اہل اللہ سے تعلق جوڑا کہ ہمارا نفس مٹ جائے اور مٹنے سے جو پھر ان کو مقبولیت عطا ہوئی ایسی شہرت و عزت اللہ نے دی کہ قیامت تک ان کا نام زندہ رہے گا۔ تکبر سے عزت نہیں ملتی اور تکبر کا مقصد عزت حاصل کرنا ہی تو ہے لیکن اس راستہ سے خدا عزت نہیں دیتا بلکہ گردن مروردیتا ہے۔ اگر کسی کو عزت ہی لینی ہے تو اپنے کو مٹائے پھر دیکھیئے کہ اللہ تعالیٰ کیسی عزت دیتا ہے لیکن یہ مٹانا عزت کے لیے نہ ہو بلکہ اللہ کے لیے ہو۔ مَنْ تَوَاضَعَ کے بعد لِلّٰہِ فرمایا اس کے بعد رَفَعَہُ اللّٰہُ ہے۔ معلوم ہوا کہ تواضع پر رفعت و عزت اس وقت ملے گی جب یہ تواضع اللہ کے لیے ہو۔ جس نے اللہ کے لیے اپنے کو گرادیا اللہ اس کو عزت دیتا ہے۔
حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ نعمت صوفیاء کے اندر خاص ہوتی ہے کہ بزرگوں کی صحبت میں رہ کر اپنے نفس کو مٹاتے چلے جاتے ہیں۔ بہت کچھ ہوتے ہیں لیکن اپنے کو کچھ نہیں سمجھتے۔ حضرت مولانا محمد احمد صاحب کا شعر ہے ؎
کچھ ہونا مرا ذلت و خواری کا سبب ہے
یہ ہے مرا اعزاز کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں​
خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذوب رحمہ اللہ فرماتے ہیں ؎
ہم خاک نشینوں کو نہ مند پ بٹھاؤ
یہ عشق کی توہین ہے اعزاز نہیں ہے​
ہمارے بزرگوں نے اپنے کو مٹاکر دکھایا اور ہم کو بندگی و عبدیت کا سبق دے گئے۔ حضرت حکیم الامت مجدد الملت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ میرٹھ میں تشریف لے جارہے تھے۔ حضرت حکیم الامت کے خلیفہ حکیم مصطفیٰ صاحب نے دوڑ کر بھنگی سے کہا کہ میرا پیر آرہا ہے جھاڑو مت لگائو گرد لگ جائے گی۔ حضرت نے دیکھ لیا بہت ڈانٹا فرمایا کہ حکیم مصطفیٰ صاحب! میں کوئی فرعون نہیں ہوں۔ وہ میونسپلٹی کا ملازم ہے۔اپنی سرکاری ڈیوتی پر ہے آپ کو شرعاً ہرگز جائز نہیں کہ اشرف علی کے لیے اس کو سرکاری ڈیوٹی سے منع کریں۔ وہ اپنی سرکاری ڈیوٹی کی تنخواہ لیتا ہے۔ ہمارا ہرگز حق نہیں بنتا کہ اس کے کام میں خلل ڈالیں۔ دیکھئے یہ تھے اللہ والے، سبحان اللہ! سبحان اللہ!
یہ عرفانِ محبت ہے، یہ برہان محبت ہے
کہ سلطان جہاں ہو کر بھی بے نام و نشاں رہنا​
اور ایک شخص نے حضرت کو عبا پیش کیا۔ آپ لوگ سمجھتے ہیں کہ عبا کیاہے؟ وہ جُبّہ جو علماء جمعہ کے دن پہنتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا کہ ارے بھائی یہ بڑے لوگوں کا لباس ہے میں نہیں پہنوں گا۔ میرا کرتا پاجامہ ہی ٹھیک ہے اس نے کہا کہ حضرت آپ بھی تو بڑے ہیں۔ فرمایا میں کیا بڑا ہوں ابھی تو میرے ایک خلق کی بھی اصلاح نہیں ہوئی۔ یہ ہیں اللہ والے جو اپنے کو اتنا حقیر سمجھتے ہیں اور یہی ان کی بڑائی کی دلیل ہے۔
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
حضرت شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں نے ایک ہندو چمار کو جو ہندوستان میں زمیندارورں کی زمین پر کاشتکاری کرتے ہیں غصہ میں کچھ زیادہ بات کہ دی پھر جاکر اس کافر سے معافی مانگی کہ قیامت کے دن کیا پتہ کیا حال ہوگا۔ زمینداروں نے کہا کہ آپ زمینداری نہیں کرسکتے یہاں تو چماروں کو مان بہن کی گالی دی جاتی ہے ان کو تو بے گناہ دس ڈنڈے لگائو تب یہ ٹھیک رہتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا کہ میں ایسی زمینداری نہیں کرسکتا کہ کل قیامت کے دن میرا حال بگڑ جائے۔
لوگوں نے یہاں تک ستایا کہ آخر میں حضرت نے ترکِ وطن فرمایا۔ اپنا گائوں ہی چھوڑدیا اور آکر اعظم گڑھ کی تحصیل پھولپور میں رہنے لگے اور جب مدرسہ قائم کیا تو حضرت کے پاس کچھ نہیں تھا۔ آٹھ دس فٹ کا ایک گڑھا کھودا اور اس میں بال و بچوں کو لے کر رہے، دوپہر کو اس کے اوپر چٹائی ڈال لیتے تھے۔ پیشاب پاخانہ کے لیے کھیت میں جاتے تھے کوئی مکان نہیں تھا۔ سوچئے کتنا مجاہدہ کیا ہوگا۔ جب ان بزرگوں کے مجاہدات سامنے آتے ہیں تو رونا آجاتا ہے۔ جب بارش ہوئی تو گڑھے میں پانی بھر گیا۔ جو نشیمن تھا وہ بھی اجڑ گیا۔ پھر قصبہ میں جاکر دو چار روز پناہ لی۔ اس طرح ابتدا ہوتی ہے۔ ہم لوگ چاہتے ہیں کہ پہلے ہی روز قالین آجائے، پہلے ہی سب کچھ بن جائے مدرسہ چٹائیوں سے شروع ہوتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ آہستہ آہستہ بنوادیتا ہے۔ اخلاص کے ساتھ ٹوٹی ہوئی چٹائیاں بھی اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول ہیں اور اخلاص نہ ہو تو بڑی بڑی عمارتیں بے کار ہیں۔ اللہ کے یہاں ان کی کوئی قیمت نہیں۔
تو ہمارے بزرگوں نے ایسے ایسے مجاہدات کیے، اپنا کو مٹایا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے کیسا نوازا۔ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ ہمارے مولوی عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو ذکر اللہ نے بالکل مٹادیا ہے۔ کوئی ان کو دیکھے تو پہچان نہیں سکتا کہ یہ عالم بھی ہیں۔ حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ صوفیا کی یہی ادا خاص ہے کہ وہ اپنے نفس کو مٹاتے ہیں، بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی اپنے کو کچھ نہیں سمجھتے۔ جیسا کہ مولانا شاہ محمد احمد صاحب فرماتے ہیں ؎
یہ فیضانِ محبت ہے یہ احسانِ محبت ہے
سراپا داستاں ہوتے ہوئے بے داستاں رہنا
قیامت ہے ترے عاشق کا مجبور بیاں رہنا
زباں رکھتے ہوئے بھی اللہ اللہ بے زباں رہنا​
کیا شعر ہے سبحان اللہ! فرمایا ؎
نہیں رہتے ہیں ہم کیوں، چاہیے ہم کو جہاں رہنا
کوئی رہنے میں رہنا ہے یہاں رہنا وہاں رہنا​
ہوٹل میں چائے پی لی، اخبار پڑھ لیا۔ یہاں بیٹھ گئے، وہاں بیٹھ گئے۔ یہ تو زندگی ضایع کرنا ہے۔ ارے! رہنا وہ ہے جو اللہ کے ساتھ رہنا ہو، ہر وقت باخدا رہنا ہو۔ خدائے تعالیٰ کے ساتھ ہماری جان اور ہمارا دل چپکا رہے۔ کسی وقت ان سے غفلت نہ ہو۔ یہ شعر میں نے لندن کے ایک مہمان حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم کے برادرِ نسبتی ڈاکٹر محمود شاہ کو سنایا جو ہردوئی آئے ہوئے تھے۔ فرمایا کہ دو گھنٹے کے وعظ کا جو اثر ہوتا ہے اس شعر نے مجھ پر وہ اثر کیا ہے ؎
نہیں رہتے ہیں ہم کیوں، چاہیے ہم کو جہاں رہنا
کوئی رہنے میں رہنا ہے یہاں رہنا وہاں رہنا​
جہاں رہنے کا کیا مطلب ہے؟ یعنی اللہ والا بن کر رہو، جو سانس خدا کی یاد میں گذر جائے اسی کو زندگی سمجھو۔ میرا ایک شعر ہے ؎
وہ مرے لمحات جو گذرے خدا کی یاد میں
بس وہی لمحات میری زیست کا حاصل رہے​
جو سانس اللہ کی یاد میں گذر جائے وہی زندگی کا حاصل اور نچوڑ ہے ورنہ سب ختم، باقی ساری چیزیں فانی ہیں۔ یہ بڑی بڑی وزارتیں، کمشنریاں، یہ بڑے بڑے تاج و سلطنت جب قبر کے نیچے جنازہ اُترے گا تب ان کی حقیقت کھلے گی۔ تب پتہ چلے گا کہ ساتھ کیا لے کر آئے۔ وہی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سلاطین مغلیہ کو خطاب کرتا ہے۔ یہ تھے اللہ والے جو بادشاہوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ فرماتے ہیں ؎
دلے دارم جواہر پارئہ عشق است تحویلش​
اے تخت و تاج کے مالکان! اے سلطنتِ مغلیہ کے وارثو! سن لو کہ ولی اللہ محدث دہلوی سینہ میں ایک دل رکھتا ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کی محبت کے جواہر پارے اور موتی چھے ہوئے ہیں۔
کہ دارد زیر گردوں میر ساما نے کہ من دارم​
ولی اللہ جو سلطنت رکھتا ہے اس کے مقابلہ میں تمہاری کیا سلطنت ہے۔ آسمان کے نیچے مجھ سے بڑا رئیس اور مجھ سے بڑا سلطنت والا کوئی ہو تو آئے۔ دہلی کی جامع مسجد میں سلاطین مغلیہ کے سامنے یہ شعر پڑھ رہے ہیں۔ دوستو! غریبوں کو ہم خطاب کرلیں یہ بات کچھ مشکل نہیں۔ لیکن ایک مولوی منبر پر بیٹھ کر بادشاہوں کو اس طرح سے خطاب کرے یہ بات اس وقت نصیب ہوتی ہے جب کوئی دولت سینہ میں ہوتی ہے۔ جس کے سامنے بادشاہوں کے تخت و تاج ہیچ نظر آتے ہیں تب یہ توفیقِ خطابت ہوتی ہے۔
حاصل اس شعر کا یہ ہے کہ مرنے کے بعد تمہارے تخت و تاج کہیں ہوں گے، تمہارے سر کے بال کہیں ہوں گے، کان کہیں ہو گے، جسم کہیں ہوگا۔ دنیا والوں کی کمائی دنیا ہی میں کام آتی ہے حالانکہ پردیس کی کمائی وطن میں کھائی جاتی ہے۔ دنیا کے پردیس سے نیک اعمال کی کرنسی وطنِ آخرت بھجوادی جائے۔ اصل کمائی یہ ہے۔ باقی سب فکر چھوڑ دو کہ بچوں کا کیا ہوگا۔ بچوں کی فکر میں اتنا غمگین مت ہو جاؤ کہ اللہ کی یاد میں اور اللہ والوں کی صحبت میں کم بیٹھو، اس لیے کہ اگر اللہ کو منظور نہیں ہے تو ہماری کمائی نیلام ہوجائے گی اور بچے مقروض کے مقروض رہیں گے۔ آپ نے نہیں دیکھا کہ بہت سے لوگ بچوں کے لیے بہت کچھ چھوڑ گئے لیکن وہ بچے اپنی نالائقی اور نافرمانی کی وجہ سے شراب و کباب اور بدمعاشیوں کی وجہ سے ایسی بلا میں مبتلا ہوئے کہ جو کچھ ان کے پاس تھا سب ختم ہوگیا۔ باپ کی محنت والی کمائی مفت میں گنوائی۔
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
اس لیے ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ اولا دکا غم مت کرو، اپنے اللہ کو راضی کرو اور اولاد کو نیک بنانے کی کوشش کرو۔ اگر یہ نیک ہوں گے تو اللہ خود ان کی مدد کرے گا اور اگر نافرمان ہوں گے تو تمہاری کمائی ان کے کچھ کام نہ آئے گی اور بُرے مصرف میں جائے گی اور اگر تم محنت کرکے اللہ والے بن گئے تو تمہاری نیکیوں سے تمہاری اولاد پر بھی رحمت ہوگی۔
مفتی محمد حسن صاحب امرتسری رحمۃ اللہ علیہ بانی جامعہ اشرفیہ لاہور نے فرمایا کہ دیکھو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’وَاَمَّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلٰمَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی الْمَدِیْنَۃِ وَکَانَ تَحْتَہٗ کَنْزٌ لَّہُمَا‘‘
اور وہ دیوار جو دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے کزانہ چھپا ہوا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے حضرت خضر علیہ السلام کو حکم دیا کہ یہ دیوار سیدھی کردو کہیں گر نہ جائے۔
’’فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنْ یَّبْلُغَآ اَشُدَّہُمَا وَیَسْتَخْرِجَا کَنْزَہُمَا‘‘​
پس آپ کے ربّ نے ارادہ کیا کہ یہ دیوار اس وقت تک قائم رہے جب تک یہ بچے بالغ نہ ہوجائیں اور اپنا خزانہ نہ لے لیں۔ دیکھئے! یہ رعایت ہورہی ہے، اللہ تعالیٰ غیب سے ان یتیم بچوں کی مدد کرہا ہے۔ تو فرماتے ہیں کہ میں نے ان بچوں کی مدد کیوں کی۔ وَکَانَ اَبُوْہُمَا صَالِحًا کیونکہ ان کا باپ نیک تھا اور باپ کون سا تھا۔ کَانَ الْاَبُ السَّابِعُ (روح المعانی: ج ۱۶، ص ۱۳) ساتواں باپ تھا۔ اللہ تعالیٰ ایسے کریم باوفا ہیں کہ جو اُن کا بن جائے اس کی سات پشت تک رحمت نازل فرماتے ہیں۔ اس لیے دوستو! سب سے مبارک مسلمان وہ ہے جو اپنے اللہ کو راضی کرلے اور ہر وقت اس غم اور فکر میں مبتلا رہے کہ سر سے پیر تک میرا کوئی شعبۂ حیات اللہ کی نافرمانی میں نہ ہو۔
تو میں یہ عرض کررہا تھا کہ یہ تکبر کا مرض اتنا خطرناک مرض ہے کہ ایک شخص تہجد پڑھتا ہے، اشراق پڑھتا ہے، تبلیغ میں چلّے لگاتا ہے، بخاری شریف پڑھاتا ہے مگر جب مرا تو دل میں تکبر لے کر گیا۔ قیامت کے دن اس کا کیا حال ہوگا۔ وہ حدیث سن لیجئے۔ مسلم شریف کی روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ لَایَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ فَقَالَ رَجُلٌ اِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ اَنْ یَّکُوْنَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَّنَعْلُہٗ حَسَنًا قَالَ اِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ ط (صحیح مسلم: ج ۱، ص ۶۵)
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جنت میں وہ شخص داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے برابر بھی تکبر ہوگا۔ یعنی جس کے دل میں ذرّہ کے برابر بھی بڑائی ہوگی ایسا شخص جنت میں نہ جائے گا۔
یہ وہ زبردست ایٹم بم ہے کہ سو برس کا تہجد، سو برس کی زکوٰۃ، سو برس کے حج اور عمرے، سو برس کی نفلیں اور تلاوت، سو برس کی عبادت، ساری زندگی کے اعمال کو ہیروشیما کردیتا ہے۔ جیسے ایٹم بم کا وہ ذرّہ جس نے جاپان کے ہیروشیما کو تباہ کیا تھا۔ یہ تکبر کا ذرّہ تمام عبادات کو ضایع کردیتا ہے۔ یہ ایسا ایٹم بم ہے کہ سارے اعمال ضایع۔
اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل نہیں فرمائیں گے اور ایک روایت میں ہے کہ یہ شخض جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا جب کہ اس کی خوشبو میلوں دُور تک جائے گی۔ اتنا خطرناک مرض ہے۔
کیوں صاحب اگر معلوم ہوجائے کہ ہمارے گھر میں بم رکھا ہوا ہے تو آپ کیا کرتے ہیں؟ بم کو ناکارہ کرنے کے لیے آپ کس سے مدد لیتے ہیں؟ پولیس کے اس دستہ کا کیا نام ہے؟ ب ڈسپوزل اسکواڈ! آپ تھانہ میں فون کرتے ہیں۔ ایس پی کو فون کرتے ہیں کہ ہمارے گھر میں بم ہے لہٰذا جلدی سے بم ڈسپوزل اسکواڈ یعنی بم کو ناکارہ کرنے والا پولیس کا دستہ جلدی بھیجئے۔ تو آپ بم ڈسپوزل اسکواڈ کو کیوں تلاش کرتے ہیں، اس لیے کہ اس کے پاس ایسے اسلحے اور ہتھیار ہوتے ہیں جس سے اس کو ناکارہ کردیتے ہیں۔
اب یہ بتائیے کہ جس کے دل میں تکبر کا بم رکھا ہوا ہے اس کو کیا کرنا چاہیے؟ دل سے تکبر کے بم کو نکالنے والا دستہ کون ہے؟ اہل اللہ، مشایخ اور بزرگانِ دین ہیں۔ ان کو تلاش کیجئے۔ ان کو اپنا دل دکھائیے۔ اپنے کو پیش تو کیجئے کہ کہیں ہمارے دل میں یہ بم تو چھپا ہوا نہیں ہے۔ اگر ہوگا تو وہ نکال دیں گے۔ ان کے پاس اس کے علاج اور ترکیبیں ہیں جن پر عمل کرنے سے دل پاک و صاف ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بصیرت عطا فرماتے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جیسے ہی تھانہ بھون کی خانقاہ میں کوئی داخل ہوتا ہے تو پہلی نظر جب اس پر پڑتی ہے اس کی سب بیماری سمجھ میں آجاتی ہے۔ یہ علم غیب نہیں، تجربہ ہے۔ عالم الغیب تو صرف خدائے تعالیٰ کی ذات ہے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ اس کی چال سے اور چہرے سے پتہ چل جاتا ہے کہ اس میں فلاں بیماری ہے۔ ارے بھائی! اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ حکیم لوگ بھی بتادیتے ہیں آنکھ پیلی ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ اس کو یرقان ہے۔ چہرہ زیادہ لال ہے تو سمجھ جاتے ہیں کہ اس کو فالج گرنے والا ہے، بہت زیادہ خون بڑھ گیا ہے، ہائی بلڈ پریشر والا مریض چہرہ سے پہچان لیا جاتا ہے۔
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
سیدنا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بدنگاہی کرکے ایک شخص آیا تھا، دیکھتے ہیں فرمایا:
’’مَابَالُ اَقْوَامٍ یَتَرَ شَّحُ مِْ اَعْیُنِہِمُ الزِّنَا‘‘
کیا حال ہے ایسی قوم کا جن کی آنکھوں سے زنا ٹپکتا ہے۔ تو سیّدنا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیسے سمجھ لیا۔ ہر گناہ کا اثر اس کی آنکھوں پر، چہرہ پر، اس کی چال پر پڑتا ہے اور تکبر والے کی تو چال ہی عجیب ہوتی ہے۔ اُس کی چال ہی سے آپ سمجھ لیں گے کہ یہ شخص متکبر ہے۔
اور اللہ والوں کی کیا شان ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا‘‘
میرے خاص بندے زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں۔ اپنے کو زلیل کرکے، مٹاکر، ان کی چال بتاتی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کے سامنے دبے جارہے ہیں اور متکبر کی چال بتاتی ہے کہ اس کے دل میں بڑائی ہے، اکڑ کے چلتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے متکبرو! تم اتنی زور سے زمین پر پائوں رکھتے ہو لیکن تم زمین کو پھاڑ نہیں سکتے ہو اور نہ پہاڑ سے زیادہ لمبے ہوسکتے ہو جو گردن تان کر چل رہے ہو۔
وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا ط
زمین پر اتراتا ہوا مت چل کیونکہ تو زمین کو پھاڑ نہیں سکتا اور بے وقوف ہے جو اتنی گردن تان رہا ہے تو پہاڑوں کی لمبائی کو نہیں پہنچ سکتا۔

مکمل وعظ پی ڈی ایف میں آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے نیچے دی گئی تصویر پر کلک کیجئے​

 

ابو دجانہ

وفقہ اللہ
رکن
جزاک اللہ۔۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو۔۔ بد نظری۔۔اور۔۔ غرور و تکبر سے۔۔اپنے امان میں رکھیں۔۔
۔۔
آمین۔۔
 

خادمِ اولیاء

وفقہ اللہ
رکن
ماشاء اللہ،جزاک اللہ،حیاک اللہ، ایدک اللہ۔اخی ارمغاں
اللہ آپ کو خوش رکھیے، آپ نے کمال کردیا
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت والا دامت برکاتہم کا درد دل کا ایک ذرہ عطا فرمائے۔
والسلام:
 
Top