”لباس بھی گفتگو کرتا ہے“

پیامبر

وفقہ اللہ
رکن
اس کا نام آمنہ ہے۔ وہ یونیورسٹی کی طالبہ ہے۔ وہ پہلے بھی میرے پاس آتی رہتی ہے۔ اورمجھ سے مختلف موضوعات پر گفتگو کرتی ہے۔ اس بار جب وہ میرے ہاں آئی تو کچھ الجھی ہوئی اور پریشان دکھائی دے رہی تھی، میں نے اس سے وجہ پوچھی تو کہنے لگی: مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آرہی۔ میں نے پوچھا: کس بات کی؟ بتائو، شاید میں تمھاری کچھ مدد کر سکوں۔ کہنے لگی: جب بھی میں بازار یا کسی مارکیٹ جانے کے لیے گھر سے نکلتی ہوں تو نوجوان مجھے گھورتے ہیں، جملے کستے ہیں اور مختلف حرکتوں اور باتوں کے ذریعے سے اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں، حالانکہ میں ایک معزز اور پاکباز لڑکی ہوں۔ مجھ میں اللہ کا خوف بھی ہے۔ میرے والدین نے میری اچھی تربیت کی ہے۔ پھر بھی نہ جانے میرے ساتھ تقریباً ہر بار ہی ایسا کیوں ہوتا ہے۔
میں نے کہا: میں تمھیں ایک بات کہنا چاہتی ہوں مگر سوچ رہی ہوں کہ کہوں یا نہ کہوں۔ وہ کہنے لگی: سوچنا کیسا؟ جو کہنا چاہتی ہیں کہیں۔ میں نے کہا: دراصل اس بات کا تعلق تمھاری ذاتی زندگی اور شخصی آزادی سے ہے اور ہو سکتا ہے کہ میری بات تمھیں عجیب لگے۔ کہنے لگی: آپ جو کہنا چاہتی ہیں کھل کے کہیں۔ میں خود آپ کے پاس آئی ہوں اورآپ سے سوال کر رہی ہوں۔ میں نے کہا: اچھا ٹھیک ہے، پھر میری بات ذرا توجہ سے سننا۔
تم نے ابھی اپنے بارے میں جو کچھ کہا وہ بالکل صحیح ہے مگر ایک چیز ایسی ہے جس کی طرف تم نے توجہ نہیں دی۔ اس نے پوچھا: وہ کیا؟ میں نے کہا: ’’تمھارا لباس۔‘‘ یہ سن کر اسے بہت حیرت ہوئی۔کہنے لگی: میرا لباس! بھلا اس بات کا میرے لباس سے کیا تعلق؟ بس یہ ہے کہ میرا لباس عمدہ اور خوبصورت ہوتا ہے۔ میں سکارف بھی پہنتی ہوں، میں نے کہا: تم صحیح کہہ رہی ہو۔ لیکن لڑکوں کی نظر اور لڑکیوں کی نظر میں فرق ہوتا ہے۔ کہنے لگی: کیا مطلب؟ اپنی بات ذرا کھول کر بیان کریں۔
میں نے کہا: تمھارا لباس تنگ، چست ہوتا اور زرق برق ہے۔ لڑکے جب کسی لڑکی کو اس طرح کے لباس میں دیکھتے ہیں جو تنگ اور چست ہو اوراس سے لڑکی کے جسم کے اعضا نمایاں ہوتے ہوں، تو وہ اس کا پیچھا کرتے ہیں۔ اس پر طرح طرح کے فقرے کستے اور ڈائیلاگ بولتے ہیں کہ شاید اس طرح وہ اس لڑکی سے دوستی کرنے میں کامیاب ہوجائیں یا اس سے کوئی تعلق بنالیں۔ کہنے لگی: میرے ساتھ جو ایسا ہوتا ہے کیا اس کی وجہ بھی یہی ہے؟ میں نے کہا: اگر تمھیں میری بات کا ثبوت چاہیے تو تجربہ کر کے دیکھ لو، ایک بار تم اسی طرح کا لباس پہن کر بازار جائو اور دوسری بار کھلا لباس پہن کر جس میں سادگی ہو اور جسم کے اعضا نمایاں نہ ہوں اور دونوں بار اپنے ساتھ پیش آنے والی صورت حال نوٹ کرو۔ تمھیں خود ہی اندازہ ہو جائے گا کہ دوسری بار تمھیں اپنے لباس کی وجہ سے اتنی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا، جتنی پریشانی کا سامنا تنگ اور چست لباس کی صورت میں کرنا پڑا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لباس بھی گفتگو کرتا ہے اور نوجوان لڑکوں سے یہ کہتا ہے: ’’آئو، مجھ سے باتیں کرو۔‘‘ اس نے بڑے تعجب سے کہا: بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ میں نے کہا: دیکھو، مردوں میں خواتین کی خوبصورتی کی طرف میلان ایک فطری بات ہے۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں یہ ارشاد فرمایا ہے: {زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ مِنَ النِّسَآئِ} ’’لوگوں کے لیے خواہشات کی محبت مزین کردی گئی ہے، یعنی عورتوں سے…۔‘‘لیکن اس طبعی اور فطری میلان کا ایک طریقہ بھی بتا دیا گیا ہے، یعنی مرد اور عورت کا باہم ازدواجی رشتے سے منسلک ہوجانا۔ اس طبعی خواہش کی تکمیل کے لیے آتی جاتی لڑکیوں کو گھورنا، ان پر فقرے اچھالنا یا اسی طرح کے اور بھونڈے طریقے استعمال کرنا قطعاً درست نہیں۔
دیکھو! لباس کی ہیئت و کیفیت، اس کی ڈیزائننگ اور رنگ ڈھنگ مرد کے عورت کی طرف فطری میلان کو مزید بڑھا دیتی ہیں… کچھ دیر توقف کے بعد میں نے پھر کہا: اچھا کبھی تم نے غور کیا کہ لباس باہم رابطے کا ایک ذریعہ ہے؟… میں شاید ایسے اپنی بات نہ سمجھا پائوں، لہٰذا میں تمھیں کچھ مثالیں دیتی ہوں۔ تم کسی شخص کو اس سے بات کیے بنا محض اس کی وردی سے پہچان سکتی ہو کہ یہ جہاز کا کیپٹن ہے، یہ ڈاکٹر ہے، یہ انجینئر ہے، یہ مکینک ہے اور یہ خاکروب وغیرہ ہے۔ ایسے ہی اگر تمھارے لیے کسی نوجوان کا رشتہ آئے تو تم محض اس کا لباس دیکھ کر اس کی شخصیت کے بارے میں بہت کچھ اندازہ لگا سکتی ہو، بالکل یہی صورت اس لڑکی کے ساتھ پیش آتی ہے جس پر لڑکے فقرے کستے ہیں اور اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیونکہ اس لڑکی کا لباس انھیں ایسا کرنے کو کہہ رہا ہوتا ہے۔ شیطان کا ہدف ہے کہ وہ نوجوان لڑکیوں کو بے لباسی کی طرف لائے۔ اس سلسلے میں اس کی ابتدائی چال یہ ہے کہ وہ تنگ لباس کو نہایت خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے تاکہ جذبات کو انگیخت ہو اور فتنہ پیدا ہو۔ اور یہی کچھ اس نے ہمارے ماں باپ آدم و حواiکے ساتھ کیا تھا کہ انھیں بے لباس کر دیا تھا۔ یہ بے لباسی اور عریانیت شیطان کے بنیادی اہداف میں سے ہیں۔
میری یہ باتیں سن کر وہ کہنے لگی: آپ کی باتیں مجھے بہت عجیب لگ رہی ہیں۔ میں نے کہا: یہ عجیب نہیں ہیں،حقیقت یہ ہے کہ جو لڑکی سمجھدار ہوتی ہے وہ خود کو شیطانی افکار کا شکار نہیں ہونے دیتی۔ وہ ایسا نہیں کرتی کہ وہ خود کو شہوات کے بازار میں لاکر پیش کر دے۔ بلکہ وہ اپنی نفسانی وجسمانی خوبصورتی کی حفاظت کرتی ہے۔ وہ روحانی طور پر خود کو مکمل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ان دو نوجوانوں میں کتنا فرق ہے جن میں سے ایک اخلاقی بلندیوں پر فائز ہو اور دوسرا اخلاقی گراوٹ اور پستیوں کا شکار ہو! تمھیں چاہیے کہ تمھارا شمار اخلاق و کردار کے اعتبار سے بلند لوگوں میں ہو۔
کہنے لگی: مگر میں برہنہ تو نہیں ہوتی۔ میں نے کہا:تمھیں اندازہ ہے کہ چست اور تنگ لباس عریانیت کی بہ نسبت نوجوانوں کو زیادہ برانگیختہ کرتا ہے۔ اس سے جسم کے خدوخال نمایاں ہوجاتے ہیں جس سے نوجوانوں میں مزید حصوں کو دیکھنے کے شیطانی خیالات جنم لینے لگتے ہیں۔ اس طرح لباس انھیں اکسانے کا باعث بنتا ہے اور باقی کسر حرکات اورجملے بازی پوری کر دیتے ہیں۔ میری یہ باتیں سن کر وہ کچھ سوچنے لگی۔ پھر جب وہ بولی تو کہا: آپ کی باتوں نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ میں اپنے لباس کا انداز بدل لوں۔
میں نے اپنی بات کو اورزیادہ واضح کرنے کے لیے اس سے کہا: اچھا مجھے یہ بتائو کہ ایک چھوٹا بچہ تمھارے پاس آئے، اس کا لباس پھٹا پرانا ہو تو تم اس کے بارے میں کیا سوچو گی؟ کہنے لگی: یہی کہ یہ فقیر اور ضرورت مند ہے، میں نے کہا: ٹھیک ہے، پھراس کے بعد کیا کرو گی؟ کہنے لگی: میں اسے کوئی صدقہ، خیرات وغیرہ دے دوں گی۔ میں نے کہا: دیکھا، تم صرف اس کے لباس سے اندازہ کر لو گی کہ یہ فقیر ہے اوراسے صدقہ وغیرہ دو گی، حالانکہ اس نے تم سے کچھ کہا نہیں، اپنی ضرورت اپنی زبان سے بیان نہیں کی مگر تمھیں پتا چل گیا ، بالکل ایسے ہی جب نوجوان لڑکے لڑکیوں کو اس قسم کا لباس پہنے دیکھتے ہیں تو وہ طرح طرح کے جملے بازی کرتے ہیں۔ لہٰذا لباس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان لڑکیوں کا احترام اپنی جگہ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کا لباس ان نوجوان لڑکوں کو یہ دعوت دے رہا ہوتا ہے کہ ’’آئو! ہمیں دیکھو۔‘‘ جبکہ انھیں اس کا احساس ہی نہیں ہوتا، یہ سب لاشعوری طور پر ہو رہا ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ ان لڑکیوں کے ساتھ ایسا رویہ اپناتے ہیں۔
میری اس تفصیلی وضاحت پر اس نے میرا شکریہ ادا کیا۔ اوربالآخر ہم دونوں کی گفتگو اس خلاصے پر ختم ہوئی کہ ’’لباس بھی گفتگو کرتا ہے۔‘‘
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
“ان لڑکیوں کا احترام اپنی جگہ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کا لباس ان نوجوان لڑکوں کو یہ دعوت دے رہا ہوتا ہے کہ ’’آئو! ہمیں دیکھو۔‘‘ جبکہ انھیں اس کا احساس ہی نہیں ہوتا، یہ سب لاشعوری طور پر ہو رہا ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ ان لڑکیوں کے ساتھ ایسا رویہ اپناتے ہیں“

صحیح بالکل صحیح اللھم انی اعوذ بک من فتنہ النساء
 

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جب اتنی دیدہ دلیری سے دعوت نظارہ ملے گی تو اس دور کے سب نوجوان ولی اللہ تو ہیں نہیں کہ لاحول ولاقوۃ الا باللہ پڑھ کر آنکوں کو جھکالیں اور جب شہد کو کھلے عام لے کر گھوما جائے گا تو مکھیاں تو ضرور بیھٹیں گی اور اگر شہد کو اچھی طرح سے ڈھانپ کے لیجایا جائے گا تو مکھیوں سے محفوظ رہے گا یہی حال لڑکیوں کا ہے اگروہ اچھی طرح پردہ کر کے گھر سے باہر نکلیں تو نگاہ بد سے محفوظ رہ سکتی ہیں ۔

شئیرنگ پہ شکریہ
 
Top