دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی

أضواء

وفقہ اللہ
رکن
دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی

دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی


شور برپا ہے خانہء دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی


بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی


تو شریک سخن نہیں ہے تو کیا
ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی


یاد کے بے نشاں جزیروں سے
تیری آواز آرہی ہے ابھی


شہر کی بے چراغ گلیوں میں
زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی


سو گئے لوگ اس حویلی کے
ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی


تم تو یارو ابھی سے اٹھ بیٹھے
شہر میں رات جاگتی ہے ابھی


وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی


ناصر کاظمی

55d304653afda786503e663f8256a05b.gif
 

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
تم تو یارو ابھی سے اٹھ بیٹھے
شہر میں رات جاگتی ہے ابھی

وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی

واہ واہ بہت خوب جناب
 
Top