امام حرم شیخ محمد بن عبداللہ السبیل

مبصرالرحمن قاسمی

وفقہ اللہ
رکن
شیخ محمد بن عبداللہ بن محمد بن عبدالعزیز آل عثمان نجد میں رہائش پذیر قبلیے بنی زید سےتعلق رکھتےہیں، بنی زید عرب کے مشہور قبلیے قحطان کی ایک شاخ ہے۔ شیخ محمد ''السُبَیل'' کے لقب سے مشہور ہے۔
پیدائش اور تعلیم وتربیت:
شیخ کی پیدائش سال 1345 ھ میں سعودی عرب کے علاقے قصیم کے شہر بکیریہ میں ہوئی، حفظ قرآن کی تکمیل اپنے والد محترم اور شیخ عبدالرحمن الکردیدیس کے پاس کی، نیز مکہ مکرمہ میں رابطہ عالم اسلامی کے رکن شیخ سعدی یاسین لبنانی سے بھی قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی ۔
شیخ نے علوم شرعیہ اور علوم عربیہ کی تعلیم روایتی طریقے کے مطابق اپنے شہر کے علماء کے پاس مساجد میں جاکر حاصل کی، شیخ سبیل کے شیوخ اور اساتذہ میں شہر بکیریہ کے قاضی شیخ محمد بن مقبل، اور شیخ کے حقیقی بھائی مسجد حرام کے مدرس شیخ عبدالعزیز ابن سبیل وغیرہ شامل ہیں۔شیخ سبیل نے ابتدائی شرعی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لئے مملکت سعودی عرب کے علاقے بریدہ کا سفر کیا ، اورعلاقے قصیم کی عدالتوں کے سربراہ شیخ عبداللہ بن محمد بن حمید سے علم دین حاصل کیا، اسی طرح شیخ سبیل نے مکہ مکرمہ میں اپنے زمانے کے مشہور محدثین شیخ عبدالحق ہاشمی اور شیخ ابو سعید عبداللہ ہندی سے اجازت حدیث حاصل کی۔
میدان عمل میں :
شیخ نے وزارۃ المعارف اور دیگر تعلیمی اداروں میں تقریبا ۲۰ برس تک دریسی خدمات سر انجام دیں ، سال 1385 ھ میں شیخ سبیل حرم مکی میں امام وخطیب اور صدرالمدرسین مقرر ہوئے،اور سال 1390 ھجری میں حرم مکی میں مذہبی امور سے متعلق کمیٹی کے نائب سربراہ مقرر ہوئے، اور پھر سال 1411ھ میں حرمین شریفین میں عمومی امور سے متعلق کمیٹی کے سربراہ بنائے گئے۔ شیخ سبیل رابطہ عالم اسلامی میں فقہ اکیڈمی کے روز اول سےرکن ، اسی طرح مملکت سعودی عرب میں کبار علماء کمیٹی کے رکن ہیں۔شیخ، حرم مکی میں علوم شرعیہ اور علوم عربیہ کی تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔
اسفار:
شیخ سبیل نے اسلامی دنیا کے اکثر ممالک میں دعوتی دورے کئے، اندرون سعودی عرب سمیت بیرونی ممالک میں منعقدہ متعدد دینی کانفرنسوں میں شرکت کی۔
تالیفات:
شیخ سبیل کے حرم مکی میں دیئے گئے خطبات کتابی شکل میں متعدد جلدوں میں منظر عام پر آئے، اسی طرح آپ نے مختلف موضوعات پر رسالے لکھے ہیں جن میں چوری کی حد، راعی اور رعایا اور قادیانیت شامل ہیں، شیخ سبیل شعروشاعری سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں،آپ کا ایک شعری دیوان بھی منظر عام پر آیا ہے۔
 
Top