امام حرم شیخ سدیس

مبصرالرحمن قاسمی

وفقہ اللہ
رکن
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبدالرحمن بن عبدالعزیز السدیس حفظہ اللہ عالم اسلام کی ایک ہمہ گیرشخصیت، داعی، مصلح اور محقق ہےں، آپ کی پرسوز تلاوت پاک سے دنیا بھر میں قرآن کریم کو سیکھنے ، سمجھنے اور عمل پیرا ہونے کا بے پناہ شو ق پیدا ہوا۔ نتیجتاً ایشیا اور افریقہ سمیت متعدد عرب ممالک میں حفظ ِقرآن حکیم کے بے شمار طلباءنے آپ کی پرسوز آواز کو سن کر مکمل قرآن حفظ کیا، اسی طرح آپ کے فکرآموز اور محققانہ خطبات عالمِ اسلام کی رہنمائی میں مؤثر ثابت ہوئے۔
شیخ ڈاکٹر عبدالرحمن بن عبدالعزیز سدیس کا تعلق سعودی عرب کے علاقے قصیم کے مشہور قبیلے عنیزہ سے ہے۔آپ کی پیدائش1382ہجری میں ریاض میں ہوئی، بارہ برس کی عمر میں شیخ عبدالرحمن بن عبداللہ آل فریان کی سرپرستی میں حفظ قرآن کریم مکمل کیا اور شیخ محمد عبدالماجد ذاکر کے پاس قرآن کریم کا دورہ کیا، آپ کو ان اساتذہ کے علاوہ متعدد شیوخ کے پاس قرآن کریم سنانے کا شرف حاصل ہے۔
آپ کا بچپن ریاض میں گذرا، ابتدائی تعلیم مدرسہ مثنی بن حارثہ سے حاصل کی، اس کے بعد معھد الریاض العلمی میں اگلاتعلیمی مرحلہ مکمل کیا جہاں آپ نے شیخ عبداللہ المنیف، شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن التویجری وغیرہ مشہور مشائخ سے تعلیم حاصل کی۔
1399ھ میں ریاض کے المعھد العلمی میں امتیازی درجات سے کامیاب ہوئے اور اس کے بعد آپ نے ریاض شریعہ کالج میں تعلیم حاصل کی اور یہاں سے 1403ھ میں فراغت حاصل کی۔
شریعہ کالج میں مشہور شیوخ سے استفادہ کیا جن میں شیخ صالح العلی، شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ، مفتی عام شیخ صالح بن عبدالرحمن، شیخ فھد الحمین، شیخ ڈاکٹر صالح بن غانم السدلان وغیرہ شامل ہیں۔
شریعہ کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ متعدد شیوخ کے سامنے بھی زانوئے تلمذتہہ کیا ، فضیلةالشیخ علامہ عبدالعزیز ابن باز ، فضیلةالشیخ علامہ عبدالرزاق عفیفی ، فضیلةالشیخ علامہ ڈاکٹر صالح الفوزان، شیخ عبدالرحمن بن ناصر البراک اور شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ الراجحی رحمھم اللہ سے براہ راست علوم حدیث وقرآن کی تعلیم حاصل کی۔
میدان عمل میں
تعلمی سلسلہ ختم ہونے کے بعد عملی زندگی میں آپ نے سب سے پہلے تدریس شروع کی، انہیں فراغت کے بعد شریعہ کالج میں ہی معاون مدرس کی حیثیت سے مقرر کردیا گیا۔
اس کے بعد آپ نے ریاض سیٹی کی متعدد مساجد میں امامت وخطابت کے فرائض بھی انجام دیئے، حرم مکی میں امامت کے منصب پر فائز ہونے سے قبل آپ جامع فضیلةالشیخ علامہ عبدالرزاق میں امام وخطیب تھے۔
شریعہ کالج میں معاون مدرس کے ساتھ ساتھ آپ نے معہد امام الدعوہ العلمی میں بھی تدریسی خدمات انجام دیں۔
ان تمام عملی مراحل کے بعد سن 1404 میں آپ کی زندگی کے عظیم دور کا آغاز ہوا جب آپ کے نام حرم مکی میں امام وخطیب کے انتخاب کا شاہی فرمان جاری ہوا،اور اسی برس ماہ شعبان کی کسی تاریخ کو نمازعصر سے آپ نے امامت شروع کی اور اسی برس ماہ رمضان سے حرم مکی کے منبر سے آپ نے پہلی دفعہ خطبہ دیا۔
سن 1408ہجری میں امام محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی سے اصول فقہ میں امتیازی درجے سے ماسٹرس کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کے مقالے کا عنوان تھا ” شرعی دلائل سے متعلق اصولی مسائل میں ابن قدامہ اور امام غزالی کا اختلاف” فضیلةالشیخ علامہ عبدالرزاق عفیفی کی طبیعت ناساز ہونے کے بعد فضیلةالشیخ ڈاکٹر عبدالرحمن الدرویش نے آپ کے مقالے کااشراف کیا۔
اصول فقہ میں ماسٹرس کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد آپ ام القری یونیورسٹی مکہ مکرمہ کے شریعہ کالج کے شعبہ قضا میں لیکچرار بنے۔اسی اثناءسن 1416ھ میں آپ نے ام القری یونیورسٹی سے استاد احمد فھمی ابوسنہ کی نگرانی میں اصول فقہ کے عنوان کے تحت ڈاکٹریٹ مکمل کی۔
دعوتی سرگرمیاں:
شیخ سدیس حرم مکی میں امامت وخطابت کے ساتھ ساتھ درس وتدریس کے بھی فرائض انجام دیتے ہیں، اس سلسلے میں سن 1416ھ میں ایک شاہی فرمان جاری ہوا جس کی روسے شیخ سدیس کو حرم مکی میں مغرب کی نماز کے بعد عقیدہ، فقہ ، تفسیر اور حدیث کے دروس دینے اور ایام حج میں فتاوی دینے کی اجازت دی گئی۔
شیخ نے اندرون اوربیرون ملک کئی مقامات کے لیے دعوتی اسفار کیے۔ جن میں عرب اور غیرعرب ممالک شامل ہیں، اسی طرح آپ نے دنیا بھر میں مختلف سیمیناروں، کانفرنسوں ، مساجد اور اسلامی مراکز کی افتتاحی تقاریب میں شرکت کی۔
آپ متعدد تعلیمی، دعوتی اور خیراتی کمیٹیوں اور اداروں کے رکن بھی ہیں۔ آپ کے مقالات اور رسائل مختلف ذرائع ابلاغ کی زینت بنتے ہیں۔
تحقیق وتالیف:
آپ نے درس وتدریس اور تصانیف کے ذریعے تعلیمی میدان میں بھی اہم کردار ادا کیا، تحقیقات اور رسائل پر مشتمل آپ کی متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہے اور بعض زیرطباعت ہیں۔
(مزید معلومات کے لئے شیخ سدیس کی شخصی ویب سائٹ: http://alsudays.com/)
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
شیخ نے جب پاکستان کا دورہ کیا۔ اس وقت میں شیخ کے پیچھے نماز نہ ادا کر سکا۔ الحمداللہ اللہ پاک نے حرم میں بلاکر شیخ کے پیچھے نماز پڑھنے کا شرف بخشا۔ اس کے بعد الحمداللہ اللہ نے شیخ سے مصافحہ کا شرف بھی بخشا۔ اور دعا کی درخواست کی۔

جب شیخ حرم میں نماز پڑھاتے ہیں۔ تو ایسا محسوس ہوتا ہے۔ کہ پورا حرم ان کی آوز سے گونج اٹھاہے۔ انتہائی خوبصورت آوز کے مالک ہیں۔ آج کل زیادہ حرم میں مغرب کی نماز پڑھاتے ہیں۔ اب تو رمضان ہے۔ اس لیے رش کی وجہ سے نہیں آتے۔ یاد رہے کہ دوارن نماز شیخ پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا تھا۔ اللہ پاک نے شیخ کو محفوظ رکھا تب سے شیخ کی سکیورٹی انتہائی سخت کردی گئی ہے۔ آج کل شیخ کی سکیورٹی میں کماندوز تعینات ہیں۔ آج بھی پوری دنیا میں شیخ کی تلاوت سنی جاتی ہے۔ لوگ شیخ کی تلاوت سن کر دلوں کا سکون محسوس کرتے ہیں
 

مبصرالرحمن قاسمی

وفقہ اللہ
رکن
امام حرم ڈاکٹر شیخ اسامہ

ڈاکٹرشیخ اسامہ بن عبداللہ بن عبدالغنی حرم مکی میں امام وخطیب ہیں، آپ کے والد عبداللہ بن عبدالغنی رحمہ اللہ بھی حرم مکی میں امام تھے، آپ کا نسبی تعلق قضاعہ کے قبیلۂ بلی سے ہے۔ شیخ اسامہ کی پیدائش ماہ رجب کی پہلی تاریخ سال 1375 ھ کو مکہ مکرمہ کے مشہور پہاڑ جبل کعبہ کے جوار میں واقع محلہ حارۃ الباب میں ہوئی۔ مکہ مکرمہ ہی میں پرورش پائے اور سرزمین پاک کے مدرسوں میں ابتدائیہ، ثانویہ اور اعلی تعلیم حاصل کی، آپ نے اپنے والد محترم مشہور عالم دین سابق امام حرم شیخ عبداللہ بن عبدالغنی کی سرپرستی میں تعلیمی مراحل کی تکمیل کی۔

اعلی تعلیم:
آپ نے سال 1997ھ میں ام القری یونیورسٹی مکہ مکرمہ سے شریعت اسلامیہ میں بی اے کی ڈگری حاصل کی، سال 1402ھ میں مذکورہ یونیورسٹی سے شریعت اسلامیہ میں ایم اے کیا، اور سال 1408 ھجری میں ام القری یونیورسٹی کے شریعہ فیکلٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

امام موصوف کو دنیا بھر کے معروف محدثین اور مستندعلماء کرام سے اجازت حدیث کا شرف حاصل ہے۔ آپ نے کتب صحاح ستہ،موطا اور دیگر امہات الکتب میں محدث علامہ عبیداللہ مبارکپوری، محدث ِجلیل علامہ ابوالفیض علم الدین یاسین بن محمد الفادانی اور شیخ الحدیث مظاہرالعلوم سہارنپور علامہ شیخ محمد حیات سنبھلی سے اجازت حاصل کیں، اسی طرح آپ نے علم تجوید میں علامہ شیخ محمود عبدالرحمن الیحی سے اجازت حاصل کی۔

آپ نے اپنے والد کے پاس حفظ قرآن کی تکمیل کی، اور بروایت حفص ان سے تجوید کی اجازت حاصل کی، اسی طرح آپ نے اپنے والد سے حدیث، فقہ اور سیرت کی متعدد کتابیں بھی پڑھیں۔

آپ کے شیوخ اور اساتذہ میں استاد ڈاکٹر محمد الصادق عرجون ، استاد ڈاکٹر محمد ابوشہبہ ، استاد شیخ عبدالرحمن بن حسن، استاد ڈاکٹر احمد بن محمد ، استاد مصطفی التازی، اور استاد علامہ عبداللہ البسام رحمہم اللہ شامل ہیں۔

میدان عمل میں:
شیخ اسامہ سال 1399ھ میں ام القری یونیورسٹی کے شریعہ اور دراسات اسلامیہ کالج کے شعبہ اسلامی قانون میں معاون لیکچرار مقرر ہوئے۔ سال 1403ھ میں اسی کالج میں پروفیسر متعین ہوئے، سال 1409 ھ میں ام القری یونیورسٹی کے دعوت اصول دین کالج کے شعبے کتاب وسنت میں استاد مقرر ہوئے، اور پھرمسلسل تین بار دعوت اصول دین کالج میں شعبہ کتاب وسنت کے صدر بنائے گے۔

حرم مکی میں:
سال 1410ھ ماہ ربیع الآخر کی 29 تاریخ کو آپ کے نام مسجد حرام میں صحیحین ، علوم حدیث، عقیدہ واسطیہ، اور موطا امام مالک اور دیگر امہات الکتب کی تدریس کے لئے شاہی فرمان جاری ہوا،اور تاحال شیخ اس ذمہ داری کو سرانجام دے رہے ہیں۔

3 ربیع الاول 1414 ھ کو وزیر حج واوقاف شیخ عبدالوہاب بن احمد کے حکم کے مطابق شیخ کو مکہ مکرمہ کی ایک مسجد میں امام وخطیب مقرر کیا گیا۔

سن1418ھ میں شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازکی ایما پر رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کی تاسیسی کونسل کے رکن بنائے گئے۔ اسی طرح آپ دو برس تک عالم اسلامی کے زیرنگرانی قرآن وسنت سے متعلق کمیٹی کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل رہے۔

تالیفات اور تحقیقات:
شیخ اسامہ الخیاط نے مختلف تحقیقی اور علمی موضوعات پر قلم اٹھایا ہے، تنقید،فقہی تجزیے اور شخصی ارتقاء پر مشتمل آپ کی دس سے زائد کتابیں منظر عام پر آئیں، مختلف ممالک سے شائع ہونے والےرسالوں میں بھی شیخ سرگرم حصہ لیتے ہیں ، نیز شیخ کی تقاریر ریڈیو سے بھی نشر ہوتی ہیں۔

دعوتی اسفار:
آپ نے مملکت سعودی عرب سمیت متعدد ممالک میں منعقدہ دینی اور علمی کانفرنسوں اور سیمناروں میں شرکت کی اور آ پ نے مصر، تونس، ترکی،ملیشیا، ہالینڈسمیت برطانیہ کے دعوتی اسفار کیے۔

(شیخ کی تلاوت اور خطبات کے لئے دیکھئے)

http://www.islamway.com/?iw_s=Quran&iw_a=view&id=22
 
Top