ناممکن

محمد یوسف

وفقہ اللہ
رکن
ہاتھی کے بچے کو پیر میں زنجیر ڈال کے پالا جاتا ہے ،
وہ زنجیر توڑنے کی کافی دن کوشش کرتا ہے لیکن ہمت ہار کے چھوڑ دیتا ہے ۔
جب وہ بڑا اور طاقتور ہو جاتا ہے تو وہی زنجیر ہوتی ہے جو ہلکی کوشش سے ٹوٹ سکتی ہے ، مگر ہاتھی کے دماغ میں وہی ہوتا ہے کہ یہ ناممکن ہے ۔
ناممکن صرف وہ ہے جسے دماغ ناممکن کہہ دے
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
تبھی کہتے ہیں کہ ہر کام میں نفسیات کا ضرور دخل ہوتا ہے۔ اس مناسبت سے ایک واقعہ کہیں پڑھا سنا تھا کہ:
ایک ماسٹر صاحب کے پاس کچھ بچے پڑھتے تھے، ایک دن بچوں نے آپس میں کہا کہ آج چھٹی کرنی چاہیے اور پھر ایک پروگرام ترتیب دیا۔ جب ماسٹر صاحب کمرے میں آئے تو ایک بچہ کھڑا ہوکر کہنے لگا:ماسٹر جی! آپ کا چہرہ زرد سا ہوا لگتا ہے کہیں بخار تو نہیں؟ ماسٹر نے ڈانٹ کر بٹھا دیا۔ کچھ ہی دیر بعد ایک دوسرا لڑکا کھڑا ہوا اور کہنے لگا: ماسٹر جی! آپ کے چہرے سے لگتا ہے کہ آپ کو بخار ہے۔ ماسٹر نے اسے بھی چپ کرا کے بٹھا دیا مگر خود سوچ میں پڑ گیا۔ اسی طرح سب بچے ترتیب وار اُٹھتے گئے اور کہتے گئے، بالآخر ماسٹر اپنے کو محسوس کرنے لگا کہ واقعی مجھے تو بخار ہے، بچے سچ ہی کہہ رہے ہیں اور پھر کراہنے بھی لگا، اور بچوں کو کہا کہ جاؤ! آج چھٹی کرو۔ جب بچے اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹے تو مائیں بہت حیران ہوئیں کہ آج بچے کیوں جلدی واپس آ گئے؟ بچوں نے کہا کہ ماسٹر جی کو بخار ہے۔ سب مائیں پریشان کہ پہلے تو اچھے بھلے ٹھیک ٹھاک تھے یہ اچانک کیا ہو گیا۔ وہ سب ماسٹر جی کی خیریت دریافت کرنے جانے لگیں، اور وہاں ماسٹر جی چارپائی پر لیٹے ہوئے کراہ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ مجھے بہت سخت بخار ہے۔۔۔۔۔۔۔
 
Top