ق
قاسمی
خوش آمدید
مہمان گرامی
[size=x-large]
میں کاندھلہ میں پیدا ہو ئے اور ۲۶ /جولائی ۱۹۷۴ء کو لاہور میں واصل الی الحق ہو ئے ۔ ابتدائی تعلیم خانقاہ تھانہ بھون میں حاصل کی اعلیٰ تعلیم مظاہر علوم سہارنپور اور دارالعلوم دیوبند میں حاصل کی ۔اساتذہ میں علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ علامہ شبیر احمد عثمانی ،مفتی عزیز الرحمٰن عثمانی اور مولانا محمد رسول خاں ہزاروی بھی شامل ہیں ،سلوک ومعرفت کی تعلیم امام العصر علامہ انور شاہ کشمیری اورحکیم الامت حضرتت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی ۔مختلف اوقات میں مدرسہ امینہ دہلی، دارالعلوم دیوبند ، حیدرآباد دکن ،جامعہ عباسیہ بھاولپور ،جامعہ اشرفیہ لاہور میں اپنے علمی فیوض جاری کئے ۔
مختلف موضوعات پر دو درجن سے زائد عالمانہ ،محققانہ تصانیف چھوڑیں ۔اہم کتابیں یہ ہیں
التعلیق الصبیح شرح مشکوٰۃ المصابیح۔ کلمۃ اللہ فی حیات روح اللہ۔ الکلام الوثوق فی تحقیق ان القرّن۔
مسلک ختام فی ختم نبوہ سید الانام۔ کلام اللہ غیر مخلوق ۔ اسلام اور مرزائیت کا اصولی اختلاف۔ سیرۃ المصطفےٰ ۳ جلد یں۔ القول المحکم فی نزولی عیسیٰ ابن مریم ۔ مختصر القاری بحل مشکلات البخاری ۔ دعاوی مرزا ۔اسلام اور نصرانیت ۔
معارف القرآن ۵ جلدیں ۔ شرح مقامات عربی ۔
الحمد للہ رب العٰلمین والعاقبۃ للمتقین والصلوٰۃ والسلام علیٰ سیدنا ومولانا محمد خاتم الانبیا ء والمرسلین وعلیٰ اٰلہ واصحابہ وازواجہ وذریاتہ اجمعین اما بعد
بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں مبتیلا ہیں کہ مرزائی اور قادیانی مذہب اسلام سے کوئی علیحدہ مذہب اسلام ہی کی ایک شاخ ہے اور دیگر اسلامی فرقوں کی طرح یہ بھی ایک اسلامی فرقہ ہےاس لئے یہ لوگ قادیانیوں کو مرتد اوردائرہ اسلام سے خارج سمجھنےمیں تامل کر تے ہیں یہ بلکل غلط ہے ان لوگوں کی یہ غلط فہمی سرا سراصول اسلام سے لاعلمی اور بے خبری پر مبنی ہے یہ مسلمان کی جہالت کی انتہاہے کہ اسے اسلام اور کفر میں فرق نہ معلوم ہوا ۔ جاننا چاہئےکہ ہرملت اور مذہب کے کچھ اصول اور عقائد ہوتے ہیں کہ جن کی بنا پر ایک مذہب دوسرے مذہب سے جدا اور ممتاز سمجھا جاتا ہے اسی طرح اسلام کے بھی کچھ بنیادی اصول اور عقائد ہیں کہ ان اصول اور عقائد ہیں کہ ان اصول اور عقائد کے اندر رہ کر جو اختلاف ہو وہ فروعی اختلاف ہے اور جو اختلاف ان مسلمہ اصول اور عقائد کی حدود سے نکل کر ہو وہ اصولی اختلاف کہلاتا ہے اور اس اختلاف سے وہ شخص دائرہ اسلام سے خارج او مر تد سمجھا جاتا ہے ۔
اس مختصر تحریر میں ہم نہایت اختصار کےساتھ یہ بتلاناچاہتے ہیں کہ قادیانی مذہب ، مذہب اسلام کے اصول اور عقائد کس درجہ متصادم اور مزاحم ہے تاکہ یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہوجائے کہ اسلام اور مرزائیت کا اختلاف اصولی اختلاف ہے مرزائی مذہب کے اصول اور عقائد مذہب اسلام کے عقائد کے بالکل مبائن اورط مخالف ہیں بالکل ایک دوسرے کی جد اور نقیض ہیں مذہب اسلام اور مرزائیت ایک جا نہیں ہوسکتے ۔ فاقول با للہ التو فیق وبیدہ از مۃ التحقیق
مرزائیوں کے نزدیک بھی اسلام اور مرزائیے کا اختلاف اصولی اختلاف ہے فروعی نہیں
یہ بات بالکل غلط ہے کہ ہمارے اور غیر احمدیوں کے درمیان کو ئی فروعی اختلاف ہے کسی مامورمن اللہ کا انکا کفر ہو جاتا ہے ، ہمارے مخالف حضرات مرزا صاحب کی ما موریت کے منکر ہیں بتاؤ یہ اختلاف فروعی کیونکر ہوا قرآن مجید میں تو لکھا ہے لا نفرق بین احد من رسلہ ۔ لیکن حضرت مسیح مو عود کے انکار میں تو تفرقہ ہو تا ہے ۔ نہج المصلی ۔ مجموعہ فتویٰ احمدیہ ص ۲۷۴
تمام مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں یعنی آخری نبی ہیں جیسا کہ نص قرآنی ما کان محمد ابا احمد من رجا لکم ولٰکن رسول اللہ وخاتم النبین اور احادیث متواترہ اور اجماع صحابہ وتا بعین اور امت محمدیہ نے تیرہ سو برس کے تمام علماء متقدمین اور متا خرین کے اتفاق سے یہ مسلم ہے کہ نبوت ورسالت محمد رسول ﷺ پر ختم ہو چکی ہے ۔یہ اسلام کا اساسی اور بنیادی عقیدہ ہے جس میں کسی اسلامی فرقہ کا اختلاف نہیں۔
مرزا غلام احمد کہتا ہے کہ نبوت حضور ﷺ پر ختم نہیں ہوئی آپ کے بعد بھی نبوت کا دروازہ کھلا ہوا ہے گویا کہ مرزا صاحب کے زعم میں حضور خاتم النبین نہیں ہے بلکہ فاتح النبین ہیں یعنی نبوت کا دروازہ کھو لنے والے ہیں۔
حضور ﷺ کے وصال کے بعد امت محمدیہ میں جو سب سے پہلے اجماع ہوا وہ اسی مسئلہ پر ہوا کہ جو شخص محمد رسول ﷺ کے بعد دعویٰ نبوت کر ے اس کو قتل کیا جائے ۔ اسود عنسی نے حضور ﷺ کے زمانہ حیات میں دعویٰ نبوت کیا حضور ﷺ نے ایک صحابی کو اسکے قتل کیلئے روانہ فر مایا صحابی نے جاکر اسود عنسی کا سر قلم کیا۔ مسیلمہ کذاب نے بھی دعویٰ نبوت کیا صدیق اکبر نے نے خلافت کے بعد سب سے پہلا کام جوکام کیا وہ یہ تھا کہ مسیلمہ کذاب کے قتل اور اسکی جماعت کے مقابلہ اور مقابلہ کیلئے خالد بن سیف اللہ کی سر کردگی میں صحابہ کرام کا ایک لشکر روانہ کیا کسی صحابی نے مسیلمہ سے یہ سوال نہیں کیا کہ تو کسی قسم کی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے ، مستقل نبوت کا مدعی ہے یا ظلی اور بروزی نبوت کا مدعی ہے اور نہ کسی نے مسیلمہ کذاب سے اس نبوت کے دلائل اور برا ہین پو چھے اور نہ کو ئی معجزہ دکھلانے کا سوال کیا ۔ صحابہ کرام کا لشکر میدان کا رزار میں پہو نچا مسیلمہ کذاب کیساتھ چالیس ہزار جوان تھے خالد بن ولید سیف اللہ نے جب تلوار پکڑی تو مسیلمہ کے اٹھائیس ہزار جوان مارے گئے اور خود مسیلمہ مارا گیا خالد بن ولید مظفر ومنصورمدینہ منورہ واپس ہو ئے اور مال غنیت مجاہدین پر قسیم کیا گیا ۔ مسیلمہ کے بعد طلیحہ نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس کے قتل کیلئے بھی حضر ت خالد رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا ۔ فتوح الشام ص ۱۰۲
اسکے بعد خلیفہ عبد الملک عہد میں حارث نامی ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا خلیفہ وقت نے علماء صحابہ وتابعین کے متفقہ فتوے سے اس کو قتل کر کے سولی پر چڑھا دیا اور کسی نے اس سے دریافت نہ کیا کہ تیری نبوت کی کیا دلیل ہے اور نہ کوئی بحث اور نہ کوئی مناظرہ کی نوبت اور نہ معجزات اور دلائل طلب کئے ۔
قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ شفا ء میں ایک واقعہ کو نقل کر کے لکھتے ہیں ۔
وفعل ذلک غیر واحذ من الخلفا والملوک ۔ بہت سے خلفا ء اور سلاطین نے مدعیان نبوت کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کیا ہے ۔ خلیفہ ہارون رشید کے زمانہمیں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ، خؒیفہ ہارون رشید نے علماء کے متفقہ فتوے سے اسکو قتل کیا ۔ خلاصہ یہ کہ قرون اولیٰ سے لے کر اس وقت تک تمام اسلامی عدالتوں اور درباروں کا یہی فیصلہ رہا ہے کہ مدعی نبوت اور اسکے ماننے والے کافر اور مرتد اور واجب القتل ہیں اب بھی مسلمانان پاکستان کی وزرا ، حکومت سے استدعا ہے کہ خلفا ئے راشدین اور سلاطین اسلام کی سنت پر عمل کر کے دین اور دنیا کی عزت حاصل کریں۔
قتل مرتد کے متعلق مرزائی خلیفہ اول حکیم نور الدین کے فتوے
مجھے ( حکیم نور الدین صاحب کو )خدا نے خلیفہ بنایا ہے اور نہ تمہارے کہنے سے معزول ہو سکتا ہوں اور نہ کسی میں اتنی طاقت ہے کہ وہ معزول کر دے اگر تم زیادہ زور دوگے تو یاد رکھو میرے پاس ایسے خالد بن ولید ہیں جو تمہیں مرتدوں کی طرح سزا دیں گے ۔
رسالہ تشحیدذ الاذہان قادیان جلد ۹ نمبر ۱۱ص ۱۴ بابت ماہ نومبر ۱۹۱۴ء ۔ اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ خلیفہ نورا لدین صاحب کے نزدیک بھی مر تد کی سزا قتل ہے اس لئے مخالفین کو خالد بن ولید کی اتباع میں اس سنت کے جاری کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں ۔
مرزائیوں کے نزدیک قادیان کی حاضری بمنزلہ حج کے ہے اور مکہ مکرمہ جانا اس لئے نا جائز ہے کہ وہاں قادیانیوں کو قتل کر دینا جا ئز ہے ۔
چناچہ مرزامحمودصاحب خلیفہ ثانی ایک خطبہ جمعہ میں تقریر کرتے ہو ئے کہتے ہیں ! آج جلسہ کا پہلا دن ہے اور ہمارا جلسہ بھی حج کی طرح ہے ۔ حج خدائے تعالیٰ نے مومنوں کی ترقی کے لئے مقرر کیا تھا آج احمدیوں کے لئے دینی لحاظ سے تو حج مفید ہے مگر اس سے جو اصل غرض یعنی قوم کی ترقی تھی وہ انہیں حاضل نہیں ہو سکتے کیونکہ حج کا مقام ایسے لوگوں کے قبضہ میں ہے جو احمدیوں کو قتل کر دینا بھی جائز سمجھتے ہیں اس لئے خدا تعالیٰ نے قادیان کو اس کام کیلئے مقرر کیا ہے ۔معلوم ہوا کہ علماء حرمین کے نزدیک قادیانی مرتد اور واجب القتل ہیں۔
اس وصیت اور طرزِ عمل سے ظاہر ہے کہ قائد اعظم کا مذہب وہی تھا جو حضرت شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی کا تھا اور پاکستان اسی قسم کی اسلامی حکومت ہے کہ جس قسم کا اسلام شیخ الاسلام کا تھا ۔ مولانا شبیر احمد عثمانی اسی پاکستان کے شیخ الاسلام تھے اور ساری دنیا کومعلوم ہے کہ شیخ الاسلام عثمانی مرزائی جماعت کو مرتد اور خارج اسلام سمجھتے تھے اور ان کی نظر میں مسیلمہ پنجاب کا وہی حکم تھا جو شریعت میں یمامہ کے مسیلمہ کذاب کا ہے شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی کی تحریرات اس بارہ میں صاف اور واضح ہیں ۔
تمام روئے زمین کے کلمہ گو مسلمان مرزائیوں کے نزدیک کافر اور جہنمی اور اولا الزنا ہیں۔
مرزا صاحب کا عقیدہ ہے کہ اگرب کوئی شخص قرآن وحدیث کے ایک ایک حرف پر بھی عمل کرے مگر مرزا صاحب کو نبی نہ مانے تو وہ ایسا ہی کافر ہے جیسے یہود ونصاریٰ اور دیگر کفار اور مرزا صاحب کے تمام منکر اولاد الزنا ہیں ۔ قادیانی مذہب ص ۱۳۲
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن کریم معجزہ ہے یعنی حد اعجاز کو پہونچا ہوا ہے ۔کوئی بھی اس کا مثل نہیں لا سکتا ہے ۔ مرزا صاحب اور مرزائی جماعت کا عقیدہ ہے کہ مرزا صاحب کا کلام بھی معجزہ ہے ۔ مرزا صاحب اپنے قصیدہ اعجازیہ کو قرآن کی طرح معجزہ قرار دیتے تھے ۔ مزائیوں کے نزدیک مرزا صاحب کی وحی پر ایمان لانا ایسا ہی فر ض ہے جیسے قرآ ن پر ایمان لان فر ض ہے اور جس طرح قرآن کریم کی تلاوت عبادت ہے اسی طرح مرزا صاحب کی وحی اور الہامات کی تلاوت بھی عبادت ہے ۔ معلوم نہیں کہ کیا مرزا صاحب کے انگریز ی الہامات کی بھی قرآن کی طرح تلاوت ،عبادت ہے یا نہیں ۔واللہ اعلم
اب ظاہر ہے کہ قرآن کریم کے بعد کسی اور کتاب پر ایمان لانا فر ض ہو تو قرآن کریم اللہ کی آخری کتاب نہ ہو گی مرزا صاحب فر ماتے ہیں
[/size]
اسلام اور مرزائیت کا اصولی اختلاف
حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی
سابق شیخ التفسیر دارالعلوم دیوبند
حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی
سابق شیخ التفسیر دارالعلوم دیوبند
مصنف
شیخ التفسیر مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ ۱۹۰۰ءمیں کاندھلہ میں پیدا ہو ئے اور ۲۶ /جولائی ۱۹۷۴ء کو لاہور میں واصل الی الحق ہو ئے ۔ ابتدائی تعلیم خانقاہ تھانہ بھون میں حاصل کی اعلیٰ تعلیم مظاہر علوم سہارنپور اور دارالعلوم دیوبند میں حاصل کی ۔اساتذہ میں علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ علامہ شبیر احمد عثمانی ،مفتی عزیز الرحمٰن عثمانی اور مولانا محمد رسول خاں ہزاروی بھی شامل ہیں ،سلوک ومعرفت کی تعلیم امام العصر علامہ انور شاہ کشمیری اورحکیم الامت حضرتت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی ۔مختلف اوقات میں مدرسہ امینہ دہلی، دارالعلوم دیوبند ، حیدرآباد دکن ،جامعہ عباسیہ بھاولپور ،جامعہ اشرفیہ لاہور میں اپنے علمی فیوض جاری کئے ۔
مختلف موضوعات پر دو درجن سے زائد عالمانہ ،محققانہ تصانیف چھوڑیں ۔اہم کتابیں یہ ہیں
التعلیق الصبیح شرح مشکوٰۃ المصابیح۔ کلمۃ اللہ فی حیات روح اللہ۔ الکلام الوثوق فی تحقیق ان القرّن۔
مسلک ختام فی ختم نبوہ سید الانام۔ کلام اللہ غیر مخلوق ۔ اسلام اور مرزائیت کا اصولی اختلاف۔ سیرۃ المصطفےٰ ۳ جلد یں۔ القول المحکم فی نزولی عیسیٰ ابن مریم ۔ مختصر القاری بحل مشکلات البخاری ۔ دعاوی مرزا ۔اسلام اور نصرانیت ۔
معارف القرآن ۵ جلدیں ۔ شرح مقامات عربی ۔
الحمد للہ رب العٰلمین والعاقبۃ للمتقین والصلوٰۃ والسلام علیٰ سیدنا ومولانا محمد خاتم الانبیا ء والمرسلین وعلیٰ اٰلہ واصحابہ وازواجہ وذریاتہ اجمعین اما بعد
بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں مبتیلا ہیں کہ مرزائی اور قادیانی مذہب اسلام سے کوئی علیحدہ مذہب اسلام ہی کی ایک شاخ ہے اور دیگر اسلامی فرقوں کی طرح یہ بھی ایک اسلامی فرقہ ہےاس لئے یہ لوگ قادیانیوں کو مرتد اوردائرہ اسلام سے خارج سمجھنےمیں تامل کر تے ہیں یہ بلکل غلط ہے ان لوگوں کی یہ غلط فہمی سرا سراصول اسلام سے لاعلمی اور بے خبری پر مبنی ہے یہ مسلمان کی جہالت کی انتہاہے کہ اسے اسلام اور کفر میں فرق نہ معلوم ہوا ۔ جاننا چاہئےکہ ہرملت اور مذہب کے کچھ اصول اور عقائد ہوتے ہیں کہ جن کی بنا پر ایک مذہب دوسرے مذہب سے جدا اور ممتاز سمجھا جاتا ہے اسی طرح اسلام کے بھی کچھ بنیادی اصول اور عقائد ہیں کہ ان اصول اور عقائد ہیں کہ ان اصول اور عقائد کے اندر رہ کر جو اختلاف ہو وہ فروعی اختلاف ہے اور جو اختلاف ان مسلمہ اصول اور عقائد کی حدود سے نکل کر ہو وہ اصولی اختلاف کہلاتا ہے اور اس اختلاف سے وہ شخص دائرہ اسلام سے خارج او مر تد سمجھا جاتا ہے ۔
اس مختصر تحریر میں ہم نہایت اختصار کےساتھ یہ بتلاناچاہتے ہیں کہ قادیانی مذہب ، مذہب اسلام کے اصول اور عقائد کس درجہ متصادم اور مزاحم ہے تاکہ یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہوجائے کہ اسلام اور مرزائیت کا اختلاف اصولی اختلاف ہے مرزائی مذہب کے اصول اور عقائد مذہب اسلام کے عقائد کے بالکل مبائن اورط مخالف ہیں بالکل ایک دوسرے کی جد اور نقیض ہیں مذہب اسلام اور مرزائیت ایک جا نہیں ہوسکتے ۔ فاقول با للہ التو فیق وبیدہ از مۃ التحقیق
مرزائیوں کے نزدیک بھی اسلام اور مرزائیے کا اختلاف اصولی اختلاف ہے فروعی نہیں
یہ بات بالکل غلط ہے کہ ہمارے اور غیر احمدیوں کے درمیان کو ئی فروعی اختلاف ہے کسی مامورمن اللہ کا انکا کفر ہو جاتا ہے ، ہمارے مخالف حضرات مرزا صاحب کی ما موریت کے منکر ہیں بتاؤ یہ اختلاف فروعی کیونکر ہوا قرآن مجید میں تو لکھا ہے لا نفرق بین احد من رسلہ ۔ لیکن حضرت مسیح مو عود کے انکار میں تو تفرقہ ہو تا ہے ۔ نہج المصلی ۔ مجموعہ فتویٰ احمدیہ ص ۲۷۴
پہلا اختلاف
مسلمانوں کے نبی اور رسول محمد عربی فداہ امی وابی ﷺ ہیں اور مرزائیوں کے نبی مرزا غلام احمد قادیانی ہیں اور طاہر ہے کہ نبی ہی کے بدلنے سے قوم اور مذہب جدا سمجھا جاتا ہے،مسلمانوں کی قوم یہود اور نصاریٰ سےاسی لئے جدا ہے کہ انکا نبی ان کے نبی کے علاوہ ہے حالانکہ مسلمان بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہیں ۔ جو شخص فقط حضرت موسی یا فقط حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان رکھے اور محمد ﷺ پر ایمان نہ لائے وہ یہودی اور عیسائی مسلمان اس طرح محمدی نہیں کہلاسکتا اور جو یہودی اور عیسائی محمد ﷺ پر ایمان لے آئے وہ یہودی اور عیسائی نہیں رہتا بلکہ مسلمان محمدی کہلاتا ہے ۔
اسی طرح جو شخص مرزا غلام احمد پر ایمان لائے وہ مسلمان اور محمدی نہیں کہلا سکتا اس لئے کہ نئے پیغمبر پر ایمان لا نیکی وجہ سے پہلے پیغمبر کی امت سے خارج ہو جاتا ہے اور نئے نبی کی امت میں داخل ہو جاتا ہے معلوم ہوا کہ تمام مرزائی مرزا غلام احمد کو نبی ماننے کی وجہ سی محمد ﷺ کی امت اور دین اسلام سے خارج ہو چکے ہیں ان کو مسلمان اور محمدی کہنا جائز نہیں ان کو مرزائی اور غلامی اور قادیانی کہا جا ئیگا اور ان کا دین اسلام نہیں ہو گا بلکہ ان کا دین مرزائی دین ہو گا۔
دوسرا اختلافمسلمانوں کے نبی اور رسول محمد عربی فداہ امی وابی ﷺ ہیں اور مرزائیوں کے نبی مرزا غلام احمد قادیانی ہیں اور طاہر ہے کہ نبی ہی کے بدلنے سے قوم اور مذہب جدا سمجھا جاتا ہے،مسلمانوں کی قوم یہود اور نصاریٰ سےاسی لئے جدا ہے کہ انکا نبی ان کے نبی کے علاوہ ہے حالانکہ مسلمان بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہیں ۔ جو شخص فقط حضرت موسی یا فقط حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان رکھے اور محمد ﷺ پر ایمان نہ لائے وہ یہودی اور عیسائی مسلمان اس طرح محمدی نہیں کہلاسکتا اور جو یہودی اور عیسائی محمد ﷺ پر ایمان لے آئے وہ یہودی اور عیسائی نہیں رہتا بلکہ مسلمان محمدی کہلاتا ہے ۔
اسی طرح جو شخص مرزا غلام احمد پر ایمان لائے وہ مسلمان اور محمدی نہیں کہلا سکتا اس لئے کہ نئے پیغمبر پر ایمان لا نیکی وجہ سے پہلے پیغمبر کی امت سے خارج ہو جاتا ہے اور نئے نبی کی امت میں داخل ہو جاتا ہے معلوم ہوا کہ تمام مرزائی مرزا غلام احمد کو نبی ماننے کی وجہ سی محمد ﷺ کی امت اور دین اسلام سے خارج ہو چکے ہیں ان کو مسلمان اور محمدی کہنا جائز نہیں ان کو مرزائی اور غلامی اور قادیانی کہا جا ئیگا اور ان کا دین اسلام نہیں ہو گا بلکہ ان کا دین مرزائی دین ہو گا۔
تمام مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں یعنی آخری نبی ہیں جیسا کہ نص قرآنی ما کان محمد ابا احمد من رجا لکم ولٰکن رسول اللہ وخاتم النبین اور احادیث متواترہ اور اجماع صحابہ وتا بعین اور امت محمدیہ نے تیرہ سو برس کے تمام علماء متقدمین اور متا خرین کے اتفاق سے یہ مسلم ہے کہ نبوت ورسالت محمد رسول ﷺ پر ختم ہو چکی ہے ۔یہ اسلام کا اساسی اور بنیادی عقیدہ ہے جس میں کسی اسلامی فرقہ کا اختلاف نہیں۔
مرزا غلام احمد کہتا ہے کہ نبوت حضور ﷺ پر ختم نہیں ہوئی آپ کے بعد بھی نبوت کا دروازہ کھلا ہوا ہے گویا کہ مرزا صاحب کے زعم میں حضور خاتم النبین نہیں ہے بلکہ فاتح النبین ہیں یعنی نبوت کا دروازہ کھو لنے والے ہیں۔
امت محمدیہ میں سب سے پہلا اجماع
حضور ﷺ کے وصال کے بعد امت محمدیہ میں جو سب سے پہلے اجماع ہوا وہ اسی مسئلہ پر ہوا کہ جو شخص محمد رسول ﷺ کے بعد دعویٰ نبوت کر ے اس کو قتل کیا جائے ۔ اسود عنسی نے حضور ﷺ کے زمانہ حیات میں دعویٰ نبوت کیا حضور ﷺ نے ایک صحابی کو اسکے قتل کیلئے روانہ فر مایا صحابی نے جاکر اسود عنسی کا سر قلم کیا۔ مسیلمہ کذاب نے بھی دعویٰ نبوت کیا صدیق اکبر نے نے خلافت کے بعد سب سے پہلا کام جوکام کیا وہ یہ تھا کہ مسیلمہ کذاب کے قتل اور اسکی جماعت کے مقابلہ اور مقابلہ کیلئے خالد بن سیف اللہ کی سر کردگی میں صحابہ کرام کا ایک لشکر روانہ کیا کسی صحابی نے مسیلمہ سے یہ سوال نہیں کیا کہ تو کسی قسم کی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے ، مستقل نبوت کا مدعی ہے یا ظلی اور بروزی نبوت کا مدعی ہے اور نہ کسی نے مسیلمہ کذاب سے اس نبوت کے دلائل اور برا ہین پو چھے اور نہ کو ئی معجزہ دکھلانے کا سوال کیا ۔ صحابہ کرام کا لشکر میدان کا رزار میں پہو نچا مسیلمہ کذاب کیساتھ چالیس ہزار جوان تھے خالد بن ولید سیف اللہ نے جب تلوار پکڑی تو مسیلمہ کے اٹھائیس ہزار جوان مارے گئے اور خود مسیلمہ مارا گیا خالد بن ولید مظفر ومنصورمدینہ منورہ واپس ہو ئے اور مال غنیت مجاہدین پر قسیم کیا گیا ۔ مسیلمہ کے بعد طلیحہ نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس کے قتل کیلئے بھی حضر ت خالد رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا ۔ فتوح الشام ص ۱۰۲
اسکے بعد خلیفہ عبد الملک عہد میں حارث نامی ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا خلیفہ وقت نے علماء صحابہ وتابعین کے متفقہ فتوے سے اس کو قتل کر کے سولی پر چڑھا دیا اور کسی نے اس سے دریافت نہ کیا کہ تیری نبوت کی کیا دلیل ہے اور نہ کوئی بحث اور نہ کوئی مناظرہ کی نوبت اور نہ معجزات اور دلائل طلب کئے ۔
قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ شفا ء میں ایک واقعہ کو نقل کر کے لکھتے ہیں ۔
وفعل ذلک غیر واحذ من الخلفا والملوک ۔ بہت سے خلفا ء اور سلاطین نے مدعیان نبوت کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کیا ہے ۔ خلیفہ ہارون رشید کے زمانہمیں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ، خؒیفہ ہارون رشید نے علماء کے متفقہ فتوے سے اسکو قتل کیا ۔ خلاصہ یہ کہ قرون اولیٰ سے لے کر اس وقت تک تمام اسلامی عدالتوں اور درباروں کا یہی فیصلہ رہا ہے کہ مدعی نبوت اور اسکے ماننے والے کافر اور مرتد اور واجب القتل ہیں اب بھی مسلمانان پاکستان کی وزرا ، حکومت سے استدعا ہے کہ خلفا ئے راشدین اور سلاطین اسلام کی سنت پر عمل کر کے دین اور دنیا کی عزت حاصل کریں۔
عزیز یکہ از در گہش سر بتافت ۔۔۔۔۔۔ بہر در کہ شد ہیچ عزت نیافت
قتل مرتد کے متعلق مرزائی خلیفہ اول حکیم نور الدین کے فتوے
مجھے ( حکیم نور الدین صاحب کو )خدا نے خلیفہ بنایا ہے اور نہ تمہارے کہنے سے معزول ہو سکتا ہوں اور نہ کسی میں اتنی طاقت ہے کہ وہ معزول کر دے اگر تم زیادہ زور دوگے تو یاد رکھو میرے پاس ایسے خالد بن ولید ہیں جو تمہیں مرتدوں کی طرح سزا دیں گے ۔
رسالہ تشحیدذ الاذہان قادیان جلد ۹ نمبر ۱۱ص ۱۴ بابت ماہ نومبر ۱۹۱۴ء ۔ اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ خلیفہ نورا لدین صاحب کے نزدیک بھی مر تد کی سزا قتل ہے اس لئے مخالفین کو خالد بن ولید کی اتباع میں اس سنت کے جاری کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں ۔
قادیانیوں کو حج بیت اللہ کی ممانعت کی وجہ
مرزائیوں کے نزدیک قادیان کی حاضری بمنزلہ حج کے ہے اور مکہ مکرمہ جانا اس لئے نا جائز ہے کہ وہاں قادیانیوں کو قتل کر دینا جا ئز ہے ۔
چناچہ مرزامحمودصاحب خلیفہ ثانی ایک خطبہ جمعہ میں تقریر کرتے ہو ئے کہتے ہیں ! آج جلسہ کا پہلا دن ہے اور ہمارا جلسہ بھی حج کی طرح ہے ۔ حج خدائے تعالیٰ نے مومنوں کی ترقی کے لئے مقرر کیا تھا آج احمدیوں کے لئے دینی لحاظ سے تو حج مفید ہے مگر اس سے جو اصل غرض یعنی قوم کی ترقی تھی وہ انہیں حاضل نہیں ہو سکتے کیونکہ حج کا مقام ایسے لوگوں کے قبضہ میں ہے جو احمدیوں کو قتل کر دینا بھی جائز سمجھتے ہیں اس لئے خدا تعالیٰ نے قادیان کو اس کام کیلئے مقرر کیا ہے ۔معلوم ہوا کہ علماء حرمین کے نزدیک قادیانی مرتد اور واجب القتل ہیں۔
تیسرا اختلاف
تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اخروی نجات کیلئے محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانا کافی ہے مرزائی جماعت کا عقیدہ ہے کہ کہ نجات کا دارومدار
مرزا غلام احمد پر ایمان لانے پر ہے جو شخص مرزا غلام احمد پر ایمان نہ لائے وہ کافر ہے اور ابدی جہنم کا مستحق ہے نہ اسکے ساتھ نکاح جائز اور نہ ہی اسکی نماز درست ہے ۔
مرزا صاحب کے متبعین کے سوا دنیا کے پچاس کروڑ مسلمان کافر اور اولا د الزنا ہیں ۔ چناچہ اسی بنا پر چودہری ظفر اللہ نے قائد اعظم کے نماز جنازہ میں شرکت نہیں کی کہ ظفر اللہ کے نزدیک قائد اعظم کافر اور جہنمی تھے ۔
قائد اعظم کی وصیت یہ تھی کہ میری نماز جنازہ شیخ الا سلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ پڑھائیں ۔ چنا چہ وصیت کے مطابق شیخ الاسلام نے تمام ارکان دولت اور مسلمانان ملت کی موجودگی میں قائد اعظم کا جنازہ پڑھا اور اپنے دست مبارک سے ان کو دفن کیا ۔
قائد اعظم کا مذہبتمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اخروی نجات کیلئے محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانا کافی ہے مرزائی جماعت کا عقیدہ ہے کہ کہ نجات کا دارومدار
مرزا غلام احمد پر ایمان لانے پر ہے جو شخص مرزا غلام احمد پر ایمان نہ لائے وہ کافر ہے اور ابدی جہنم کا مستحق ہے نہ اسکے ساتھ نکاح جائز اور نہ ہی اسکی نماز درست ہے ۔
مرزا صاحب کے متبعین کے سوا دنیا کے پچاس کروڑ مسلمان کافر اور اولا د الزنا ہیں ۔ چناچہ اسی بنا پر چودہری ظفر اللہ نے قائد اعظم کے نماز جنازہ میں شرکت نہیں کی کہ ظفر اللہ کے نزدیک قائد اعظم کافر اور جہنمی تھے ۔
قائد اعظم کی وصیت یہ تھی کہ میری نماز جنازہ شیخ الا سلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ پڑھائیں ۔ چنا چہ وصیت کے مطابق شیخ الاسلام نے تمام ارکان دولت اور مسلمانان ملت کی موجودگی میں قائد اعظم کا جنازہ پڑھا اور اپنے دست مبارک سے ان کو دفن کیا ۔
اس وصیت اور طرزِ عمل سے ظاہر ہے کہ قائد اعظم کا مذہب وہی تھا جو حضرت شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی کا تھا اور پاکستان اسی قسم کی اسلامی حکومت ہے کہ جس قسم کا اسلام شیخ الاسلام کا تھا ۔ مولانا شبیر احمد عثمانی اسی پاکستان کے شیخ الاسلام تھے اور ساری دنیا کومعلوم ہے کہ شیخ الاسلام عثمانی مرزائی جماعت کو مرتد اور خارج اسلام سمجھتے تھے اور ان کی نظر میں مسیلمہ پنجاب کا وہی حکم تھا جو شریعت میں یمامہ کے مسیلمہ کذاب کا ہے شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی کی تحریرات اس بارہ میں صاف اور واضح ہیں ۔
تمام روئے زمین کے کلمہ گو مسلمان مرزائیوں کے نزدیک کافر اور جہنمی اور اولا الزنا ہیں۔
مرزا صاحب کا عقیدہ ہے کہ اگرب کوئی شخص قرآن وحدیث کے ایک ایک حرف پر بھی عمل کرے مگر مرزا صاحب کو نبی نہ مانے تو وہ ایسا ہی کافر ہے جیسے یہود ونصاریٰ اور دیگر کفار اور مرزا صاحب کے تمام منکر اولاد الزنا ہیں ۔ قادیانی مذہب ص ۱۳۲
چوتھا اختلاف
مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی تفسیر وہی معتبر ہے جو حضور پرنور ﷺ نے فر مائی اور اس کےبعد صحابہ وتا بعین کی تفسیر کا درجہ ہے مرزا صاحب کا عقیدہ یہ ہے
کہ قرآن کی تفسیر وہی معتبر ہے جو میں بیان کروں اگر چہ وہ تمام احادیث متواترہ اور صحابہ اور تابعین اور امت محمدیہ کے تمام علماء کے خلاف ہو ۔
پانچواں اختلافمسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی تفسیر وہی معتبر ہے جو حضور پرنور ﷺ نے فر مائی اور اس کےبعد صحابہ وتا بعین کی تفسیر کا درجہ ہے مرزا صاحب کا عقیدہ یہ ہے
کہ قرآن کی تفسیر وہی معتبر ہے جو میں بیان کروں اگر چہ وہ تمام احادیث متواترہ اور صحابہ اور تابعین اور امت محمدیہ کے تمام علماء کے خلاف ہو ۔
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن کریم معجزہ ہے یعنی حد اعجاز کو پہونچا ہوا ہے ۔کوئی بھی اس کا مثل نہیں لا سکتا ہے ۔ مرزا صاحب اور مرزائی جماعت کا عقیدہ ہے کہ مرزا صاحب کا کلام بھی معجزہ ہے ۔ مرزا صاحب اپنے قصیدہ اعجازیہ کو قرآن کی طرح معجزہ قرار دیتے تھے ۔ مزائیوں کے نزدیک مرزا صاحب کی وحی پر ایمان لانا ایسا ہی فر ض ہے جیسے قرآ ن پر ایمان لان فر ض ہے اور جس طرح قرآن کریم کی تلاوت عبادت ہے اسی طرح مرزا صاحب کی وحی اور الہامات کی تلاوت بھی عبادت ہے ۔ معلوم نہیں کہ کیا مرزا صاحب کے انگریز ی الہامات کی بھی قرآن کی طرح تلاوت ،عبادت ہے یا نہیں ۔واللہ اعلم
اب ظاہر ہے کہ قرآن کریم کے بعد کسی اور کتاب پر ایمان لانا فر ض ہو تو قرآن کریم اللہ کی آخری کتاب نہ ہو گی مرزا صاحب فر ماتے ہیں
انچہ بشنوم زوحی خدا ۔۔ خدا پاک دانمش از خطا
ہمچو قرآن منزہ اش دانہ ۔۔ از خطا طا ہمیں است ایمانم
در ثمن ص ۲۸۷ مصنف مرزا غلام احمد قادیانی۔ جاری ہےہمچو قرآن منزہ اش دانہ ۔۔ از خطا طا ہمیں است ایمانم
[/size]