السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبر کاتہ!
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دل اور صوبہ پنجاب کا دارالحکومت لاہور پوری دنیا میں ایک مشہور شہر ہے۔ قسمت سے یہ میرا شہر بھی ہے۔ دنیا بہر سے سیاح اس شہر کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ اور کہاوت مشہور ہے۔ "جنے لاہور نی ویکھے یا او جمے یا ای نہیں" (جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا) تو میں نے سوچا کیونکہ اراکین الغزالی کو اس شہر کی سیر کرائی جائے۔ چلیں آئیے آپ کو آج لاہور کی تفصیلی سیر کراتا ہوں۔
لاہور کا شمار دنیا کے قدیم اور اہم ترین شہروں میں کیا جاتا ہے۔ زندہ دلان لاہور کے روایتی جوش و جذبے اور بے مثال زندہ دلی کے باعث اسے بجا طور پر پاکستان کا دل کہا جاتا ہے اس وقت ساٹھ لاکھ آبادی کے ساتھ یہ ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ یہ صوبہ پنجاب کا دارالحکومت اور صوبائی سیاسی، ثقافتی، تعلیمی اور صنعتی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ اپنے باغات اور قدرتی حسن کے باعث اسے عروس البلاد کہا جاتا رہا ہے۔ مغربی جانب بہنے والے دریائے راوی نے اس کے حسن کو دوبالا کر دیا ہے۔ مغل شہنشاہ جہانگیر کی ملکہ نور جہاں نے لاہور کے بارے میں کہا تھا
لاہور رابجان برابر خریدہ ایمجاں دارایم و جنت دیگر خریدہ ایم
لاہور کی تاریخ ہزاروں سال پر پھیلی ہوئی ہے۔ روایت کے مطابق راجہ رام کے بیٹے راجہ لوہ نے شہر لاہور کی بنیاد رکھی اور یہاں ایک مضبوط قلعہ تعمیر کیا۔ پھر اس کے بعد دسویں صدی عیسوی تک یہ شہر ہندو راجائوں کے زیرنگیں رہا۔ گیارہویں صدی میں یہ علاقہ اسلام کی روشنی سے منور ہوا جب سلطان محمود غزنوی نے پنجاب فتح کرکے ایاز کو لاہور کا گورنر مقرر کیا۔
شہاب الدین غوری نے 1186ء میں لاہور کو فتح کیا۔ بعدازاں یہ خاندان غلاماں 1206)ئ۔1290ئ( خاندان خلجی1290)ئ۔1320ئ( تغلق خاندان1320)ئ۔1414ئ( سید خاندان1414)ئ۔1451ئ( اور لودھی خاندان1451)ئ۔1526ء ( کے تحت رہا۔ ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں ابراہیم لودھی کو شکست دیکر مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ مغلوں نے اپنے دور میں لاہور میں کئی باغات لگوائے عظیم الشان عمارات اور مساجد تعمیر کروائیں۔ علاوہ ازیں اکبر اعظم نے شاہی قلعہ کو ازسرنو تعمیر کروایا۔ شاہجہان نے شالامار باغ تعمیر کروایا جس کو اپنی خوبصورتی کے باعث عالمی شہرت حاصل ہے۔1646ء میں شہزادی جہاں آرا نے دریائے راوی کے کنارے چوبرجی باغ تعمیر کروایا جس کے مین دروازے کے آثار چوبرجی کے نام سے موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ شہزادی اس باغ میں آ کر شاعری کیا کرتی تھی۔1673ء میں اورنگ زیب عالمگیر نے بادشاہی مسجد تعمیر کروائی جوکہ شاہ فیصل مسجد اسلام آباد کے بعد دنیا کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس کا صحن528 فٹ چوڑا اور 538 فٹ لمبا ہے جس میں ایک لاکھ افراد بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مسجد کے چار میناروں میں سے ہر ایک کی بلندی 176 فٹ ہے۔1739ء میں نادر شاہ اور 1751ء میں احمد شاہ ابدالی نے لاہور پر قبضہ جمایا۔ بعدازاں 1765ء میں سکھوں نے لاہور کو فتح کرکے اسے تین حصوں میں تقسیم کر لیا۔ ایک حصہ پر لبنا سنگھ، دوسرے پر رنجیت سنگھ اور تیسرے حصہ پر گوجر سنگھ کی حکومت تھی، 1799ء میں رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کر کے پنجاب، سرحد، ملتان اور کشمیر کے علاقوں پر مشتمل ایک سکھ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ سکھوں نے اپنے عہد کے دوران مسلمانوں کے مذہبی مقامات بالخصوص مساجد کی بے حرمتی کی۔ بادشاہی مسجد کو بطور اصطبل اور بارود خانہ استعمال میں لایا گیا، انگریزوں نے 1849ء میں سکھوں کو شکست دیکر پنجاب کو برطانوی سلطنت میں شامل کر لیا انہوں نے 1947ء تک برصغیر پاک وہند پر حکومت کی اور ملک میں کئی اصطلاحات کیں۔ اس حوالے سے درج ذیل اقدامات قابل ذکر ہیں۔
… 1851ء میں مزار میاں میر کے نزدیک نئی چھائونی قائم کی گئی۔ کچھ عرصہ بعد مال روڈ تعمیر کی گئی اور سیکرٹریٹ قائم کیا گیا۔
…1861ء میں لاہور ریلوے اسٹیشن کی عمارت تعمیر کی گئی۔
…1862ء میں لارنس گارڈن باغ جناح تعمیر کیا گیا۔
…1864ء میں گورنمنٹ کالج اور 1888ء میں لاء کالج قائم کیا گیا۔
…1875ء میں میو سکول آف آرٹس قائم کیا گیا۔
…1882ء میں واٹر ورکس کا نظام قائم کیا گیا اور پنجاب یونیورسٹی کا افتتاح ہوا۔
…1883ء میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کی عمارت تعمیر کی گئی۔
…1885ء میں پنجاب پبلک لائبریری، ایچی سن کالج اور ایف ایس سی کالج قائم ہوئے۔
…1889ء میں چیف کورٹ (ہائی کورٹ) کا افتتاح کیا گیا۔
…1897ء میں پہلا روزنامہ ’’اخبار عام‘‘ جاری کیا گیا۔
…1923ء دی میکلیگن انجینئرنگ کالج(انجینئرنگ یونیورسٹی) قائم کیا گیا۔
…1927ء ہیلے کالج آف کامرس قائم کیا گیا۔
…1938ء اسمبلی ہال کا افتتاح کیا گیا۔
…1940ء حمید نظامی نے پندرہ روزہ نوائے وقت کا اجراء کیا۔
23 مارچ1940ء کو شہر لاہور کو ایک منفرد اعزاز حاصل ہوا کیونکہ اس روز آل انڈیا مسلم لیگ نے قائداعظم کی صدارت میں قرار داد پاکستان منظور کی جس کے نتیجے میں 14 اگست 1947ء کو مسلمانوں کو اپنا الگ آزاد ملک مل گیا، اسی روز ممتاز صحافی حمید نظامی نے پندرہ روزہ’’نوائے وقت‘‘ جاری کیا جس کو دو سال بعد ایک روزنامے کا درجہ دے دیا گیا جو کہ اب نامور صحافی جناب مجید نظامی کی ادارت میں ملک کا سب سے بڑا روزنامہ ہے قیام پاکستان کے بعد بھی لاہور قومی سیاست میں اہم کردار کا حامل رہا ہے۔ فروری1974ء میں اس شہر نے دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کی میزبانی کی۔ پرانا لاہور شاہی قلعہ کے ساتھ واقع ہے۔ ابتداء میں اس کے گرد ایک فصیل موجود تھی جس میں تیرہ دروازے تھے جوکہ سکھوں کے عہد تک غروب آفتاب کے بعد بند کر دیئے جاتے تھے۔ ان میں سے کچھ دروازوں کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ تیرہ دروازوں کے نام یہ ہیں۔ بھاٹی دروازہ، ٹکسالی دروازہ، روشنائی دروازہ، مستی دروازہ، اکبری دروازہ، کشمیری دروازہ، شیرانوالہ دروازہ، یکی دروازہ، دہلی دروازہ، موچی دروازہ، شاہ عالمی دروازہ، لوہاری دروازہ اور موری دروازہ۔بیسویں صدی میں پرانے لاہور کے مضافات میں کئی جدید بستیوں کا اضافہ ہوا جوکہ اب تک جاری ہے اب شہر برکی روڈ، بیدیاں روڈ، فیروز پور روڈ، ملتان روڈ، جی ٹی روڈ اور رائے ونڈ روڈ پر دور تک وسعت اختیار کر چکا ہے نئی بستیوں میں مزنگ، اچھرہ، مسلم ٹائون لاہور کینٹ، صدر بازار، مغلپورہ، دھرمپورہ، گلبرگ، ماڈل ٹائون، فیصل ٹائون، ٹائون شپ، گرین ٹائون، ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی، اقبال ٹائون، گلشن راوی، سمن آباد، سبزہ زار سکیم، مصطفے ٹائون، جوہر ٹائون، تاجپورہ سکیم، تاج باغ، واپڈا ٹائون بحریہ ٹائون اور ویلنشیا وغیرہ شامل ہیں۔لاہور میں کئی صوفیائے کرام اور بزرگان دین کے مزارات ہیں ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لاہور ایک بہت بڑا شہر بن چکا ہے۔ اس حوالے سے اس کی ثقافتی، سیاسی، سماجی اور تجارتی سرگرمیاں پہلے کی نسبت بہت بڑھ گئی ہیں۔
بادشاہی مسجد لاہور
بادشاہی مسجد 1673 میں اورنگزیب عالمگیر نے لاہور میں بنوائی۔ یہ عظیم الشان مسجد مغلوں کے دور کی ایک شاندار مثال ہے اور لاہور شہر کی شناخت بن چکی ہے۔ یہ فیصل مسجداسلام آباد کے بعد پورے پاکستان کی دوسری بڑی مسجد ہے، جس میں بیک وقت 60 ہزار لوگ نماز ادا کرسکتے ہیں۔ اس مسجد کا انداز تعمیر جامع مسجد دلی سے بہت ملتا جلتا ہے جو کہ اورنگزیب کے والد شاہجہان نے 1648 میں تعمیر کروائی تھی۔
ہندوستان کے چھٹے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر تمام مغلوں میں سے سب سے زیادہ مزہبی بادشاہ تھے۔ انھوں نے اس مسجد کو اپنے سوتیلے بھائی مضفر حسین، جن کو فداے خان کوکا بھی کہا جاتا تھا، کی زیر نگرانی تعمیر کروایا۔ 1671 سے لیکر 1673 تک مسجد کی تعمیر کو دو سال لگے۔ مسجد کو شاہی قلعہ کے برعکس تعمیر کیا گیا، جس سے اس کی مغلیہ دور میں اہمیت کا پتہ لگتا ہے۔ اس مسجد کے بننے کے ساتھ ہی ساتھ اورنگزیب نے اس کے دروازے کے برعکس شاہی قلعہ میں بھی ایک باوقار دروازے کا اضافہ کیا، جس کو عالمگیری دروازہ کہا جاتا ہے۔
جوں جوں وقت گزرتا گیا، مسجد کو متعدد وجوہات کی بنا پر نقصانات پہنچتے گئے۔ 1850 سے اس کی مرمت کا آغاز ہوا، لیکن یہ مرمت نامکمل تھیں۔ آخرکار مکمل مرمت 1939ء میں شروع ھوئی اور 1960 میں مکمل کی گئی جن پر 48 لاکھ روپے صرف ہوئے۔ اس مرمت کی وجہ سے مسجد ایک بار پھر اپنی اصلی حالت میں واپس آگئی۔
22 فروری، 1974ء کو لاہور میں منعقدہ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر 39 سربراہانِ مملکت نے جمعہ کی نماز اس مسجد میں ادا کرنے کی سعادت حاصل کی۔
اس مسجد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب چادر مبارک ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین مبارک اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک رکھے ہوئے ہیں۔
ساتھ صدر جنرل ضیاءالحق کے ہاتھ سے لکھا ہوا قرآن پاک بھی اسی مسجد میں موجود ہے۔
لاہور رابجان برابر خریدہ ایمجاں دارایم و جنت دیگر خریدہ ایم
لاہور کی تاریخ ہزاروں سال پر پھیلی ہوئی ہے۔ روایت کے مطابق راجہ رام کے بیٹے راجہ لوہ نے شہر لاہور کی بنیاد رکھی اور یہاں ایک مضبوط قلعہ تعمیر کیا۔ پھر اس کے بعد دسویں صدی عیسوی تک یہ شہر ہندو راجائوں کے زیرنگیں رہا۔ گیارہویں صدی میں یہ علاقہ اسلام کی روشنی سے منور ہوا جب سلطان محمود غزنوی نے پنجاب فتح کرکے ایاز کو لاہور کا گورنر مقرر کیا۔
شہاب الدین غوری نے 1186ء میں لاہور کو فتح کیا۔ بعدازاں یہ خاندان غلاماں 1206)ئ۔1290ئ( خاندان خلجی1290)ئ۔1320ئ( تغلق خاندان1320)ئ۔1414ئ( سید خاندان1414)ئ۔1451ئ( اور لودھی خاندان1451)ئ۔1526ء ( کے تحت رہا۔ ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں ابراہیم لودھی کو شکست دیکر مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ مغلوں نے اپنے دور میں لاہور میں کئی باغات لگوائے عظیم الشان عمارات اور مساجد تعمیر کروائیں۔ علاوہ ازیں اکبر اعظم نے شاہی قلعہ کو ازسرنو تعمیر کروایا۔ شاہجہان نے شالامار باغ تعمیر کروایا جس کو اپنی خوبصورتی کے باعث عالمی شہرت حاصل ہے۔1646ء میں شہزادی جہاں آرا نے دریائے راوی کے کنارے چوبرجی باغ تعمیر کروایا جس کے مین دروازے کے آثار چوبرجی کے نام سے موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ شہزادی اس باغ میں آ کر شاعری کیا کرتی تھی۔1673ء میں اورنگ زیب عالمگیر نے بادشاہی مسجد تعمیر کروائی جوکہ شاہ فیصل مسجد اسلام آباد کے بعد دنیا کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس کا صحن528 فٹ چوڑا اور 538 فٹ لمبا ہے جس میں ایک لاکھ افراد بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مسجد کے چار میناروں میں سے ہر ایک کی بلندی 176 فٹ ہے۔1739ء میں نادر شاہ اور 1751ء میں احمد شاہ ابدالی نے لاہور پر قبضہ جمایا۔ بعدازاں 1765ء میں سکھوں نے لاہور کو فتح کرکے اسے تین حصوں میں تقسیم کر لیا۔ ایک حصہ پر لبنا سنگھ، دوسرے پر رنجیت سنگھ اور تیسرے حصہ پر گوجر سنگھ کی حکومت تھی، 1799ء میں رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کر کے پنجاب، سرحد، ملتان اور کشمیر کے علاقوں پر مشتمل ایک سکھ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ سکھوں نے اپنے عہد کے دوران مسلمانوں کے مذہبی مقامات بالخصوص مساجد کی بے حرمتی کی۔ بادشاہی مسجد کو بطور اصطبل اور بارود خانہ استعمال میں لایا گیا، انگریزوں نے 1849ء میں سکھوں کو شکست دیکر پنجاب کو برطانوی سلطنت میں شامل کر لیا انہوں نے 1947ء تک برصغیر پاک وہند پر حکومت کی اور ملک میں کئی اصطلاحات کیں۔ اس حوالے سے درج ذیل اقدامات قابل ذکر ہیں۔
… 1851ء میں مزار میاں میر کے نزدیک نئی چھائونی قائم کی گئی۔ کچھ عرصہ بعد مال روڈ تعمیر کی گئی اور سیکرٹریٹ قائم کیا گیا۔
…1861ء میں لاہور ریلوے اسٹیشن کی عمارت تعمیر کی گئی۔
…1862ء میں لارنس گارڈن باغ جناح تعمیر کیا گیا۔
…1864ء میں گورنمنٹ کالج اور 1888ء میں لاء کالج قائم کیا گیا۔
…1875ء میں میو سکول آف آرٹس قائم کیا گیا۔
…1882ء میں واٹر ورکس کا نظام قائم کیا گیا اور پنجاب یونیورسٹی کا افتتاح ہوا۔
…1883ء میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کی عمارت تعمیر کی گئی۔
…1885ء میں پنجاب پبلک لائبریری، ایچی سن کالج اور ایف ایس سی کالج قائم ہوئے۔
…1889ء میں چیف کورٹ (ہائی کورٹ) کا افتتاح کیا گیا۔
…1897ء میں پہلا روزنامہ ’’اخبار عام‘‘ جاری کیا گیا۔
…1923ء دی میکلیگن انجینئرنگ کالج(انجینئرنگ یونیورسٹی) قائم کیا گیا۔
…1927ء ہیلے کالج آف کامرس قائم کیا گیا۔
…1938ء اسمبلی ہال کا افتتاح کیا گیا۔
…1940ء حمید نظامی نے پندرہ روزہ نوائے وقت کا اجراء کیا۔
23 مارچ1940ء کو شہر لاہور کو ایک منفرد اعزاز حاصل ہوا کیونکہ اس روز آل انڈیا مسلم لیگ نے قائداعظم کی صدارت میں قرار داد پاکستان منظور کی جس کے نتیجے میں 14 اگست 1947ء کو مسلمانوں کو اپنا الگ آزاد ملک مل گیا، اسی روز ممتاز صحافی حمید نظامی نے پندرہ روزہ’’نوائے وقت‘‘ جاری کیا جس کو دو سال بعد ایک روزنامے کا درجہ دے دیا گیا جو کہ اب نامور صحافی جناب مجید نظامی کی ادارت میں ملک کا سب سے بڑا روزنامہ ہے قیام پاکستان کے بعد بھی لاہور قومی سیاست میں اہم کردار کا حامل رہا ہے۔ فروری1974ء میں اس شہر نے دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کی میزبانی کی۔ پرانا لاہور شاہی قلعہ کے ساتھ واقع ہے۔ ابتداء میں اس کے گرد ایک فصیل موجود تھی جس میں تیرہ دروازے تھے جوکہ سکھوں کے عہد تک غروب آفتاب کے بعد بند کر دیئے جاتے تھے۔ ان میں سے کچھ دروازوں کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ تیرہ دروازوں کے نام یہ ہیں۔ بھاٹی دروازہ، ٹکسالی دروازہ، روشنائی دروازہ، مستی دروازہ، اکبری دروازہ، کشمیری دروازہ، شیرانوالہ دروازہ، یکی دروازہ، دہلی دروازہ، موچی دروازہ، شاہ عالمی دروازہ، لوہاری دروازہ اور موری دروازہ۔بیسویں صدی میں پرانے لاہور کے مضافات میں کئی جدید بستیوں کا اضافہ ہوا جوکہ اب تک جاری ہے اب شہر برکی روڈ، بیدیاں روڈ، فیروز پور روڈ، ملتان روڈ، جی ٹی روڈ اور رائے ونڈ روڈ پر دور تک وسعت اختیار کر چکا ہے نئی بستیوں میں مزنگ، اچھرہ، مسلم ٹائون لاہور کینٹ، صدر بازار، مغلپورہ، دھرمپورہ، گلبرگ، ماڈل ٹائون، فیصل ٹائون، ٹائون شپ، گرین ٹائون، ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی، اقبال ٹائون، گلشن راوی، سمن آباد، سبزہ زار سکیم، مصطفے ٹائون، جوہر ٹائون، تاجپورہ سکیم، تاج باغ، واپڈا ٹائون بحریہ ٹائون اور ویلنشیا وغیرہ شامل ہیں۔لاہور میں کئی صوفیائے کرام اور بزرگان دین کے مزارات ہیں ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لاہور ایک بہت بڑا شہر بن چکا ہے۔ اس حوالے سے اس کی ثقافتی، سیاسی، سماجی اور تجارتی سرگرمیاں پہلے کی نسبت بہت بڑھ گئی ہیں۔
بادشاہی مسجد لاہور
بادشاہی مسجد 1673 میں اورنگزیب عالمگیر نے لاہور میں بنوائی۔ یہ عظیم الشان مسجد مغلوں کے دور کی ایک شاندار مثال ہے اور لاہور شہر کی شناخت بن چکی ہے۔ یہ فیصل مسجداسلام آباد کے بعد پورے پاکستان کی دوسری بڑی مسجد ہے، جس میں بیک وقت 60 ہزار لوگ نماز ادا کرسکتے ہیں۔ اس مسجد کا انداز تعمیر جامع مسجد دلی سے بہت ملتا جلتا ہے جو کہ اورنگزیب کے والد شاہجہان نے 1648 میں تعمیر کروائی تھی۔
ہندوستان کے چھٹے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر تمام مغلوں میں سے سب سے زیادہ مزہبی بادشاہ تھے۔ انھوں نے اس مسجد کو اپنے سوتیلے بھائی مضفر حسین، جن کو فداے خان کوکا بھی کہا جاتا تھا، کی زیر نگرانی تعمیر کروایا۔ 1671 سے لیکر 1673 تک مسجد کی تعمیر کو دو سال لگے۔ مسجد کو شاہی قلعہ کے برعکس تعمیر کیا گیا، جس سے اس کی مغلیہ دور میں اہمیت کا پتہ لگتا ہے۔ اس مسجد کے بننے کے ساتھ ہی ساتھ اورنگزیب نے اس کے دروازے کے برعکس شاہی قلعہ میں بھی ایک باوقار دروازے کا اضافہ کیا، جس کو عالمگیری دروازہ کہا جاتا ہے۔
جوں جوں وقت گزرتا گیا، مسجد کو متعدد وجوہات کی بنا پر نقصانات پہنچتے گئے۔ 1850 سے اس کی مرمت کا آغاز ہوا، لیکن یہ مرمت نامکمل تھیں۔ آخرکار مکمل مرمت 1939ء میں شروع ھوئی اور 1960 میں مکمل کی گئی جن پر 48 لاکھ روپے صرف ہوئے۔ اس مرمت کی وجہ سے مسجد ایک بار پھر اپنی اصلی حالت میں واپس آگئی۔
22 فروری، 1974ء کو لاہور میں منعقدہ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر 39 سربراہانِ مملکت نے جمعہ کی نماز اس مسجد میں ادا کرنے کی سعادت حاصل کی۔
اس مسجد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب چادر مبارک ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین مبارک اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک رکھے ہوئے ہیں۔
ساتھ صدر جنرل ضیاءالحق کے ہاتھ سے لکھا ہوا قرآن پاک بھی اسی مسجد میں موجود ہے۔
Last edited: