آیے پاکستان کے دل لاہور کی سیر کریں

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبر کاتہ!
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دل اور صوبہ پنجاب کا دارالحکومت لاہور پوری دنیا میں ایک مشہور شہر ہے۔ قسمت سے یہ میرا شہر بھی ہے۔ دنیا بہر سے سیاح اس شہر کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ اور کہاوت مشہور ہے۔ "جنے لاہور نی ویکھے یا او جمے یا ای نہیں" (جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا) تو میں نے سوچا کیونکہ اراکین الغزالی کو اس شہر کی سیر کرائی جائے۔ چلیں آئیے آپ کو آج لاہور کی تفصیلی سیر کراتا ہوں۔


لاہور کا شمار دنیا کے قدیم اور اہم ترین شہروں میں کیا جاتا ہے۔ زندہ دلان لاہور کے روایتی جوش و جذبے اور بے مثال زندہ دلی کے باعث اسے بجا طور پر پاکستان کا دل کہا جاتا ہے اس وقت ساٹھ لاکھ آبادی کے ساتھ یہ ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ یہ صوبہ پنجاب کا دارالحکومت اور صوبائی سیاسی، ثقافتی، تعلیمی اور صنعتی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ اپنے باغات اور قدرتی حسن کے باعث اسے عروس البلاد کہا جاتا رہا ہے۔ مغربی جانب بہنے والے دریائے راوی نے اس کے حسن کو دوبالا کر دیا ہے۔ مغل شہنشاہ جہانگیر کی ملکہ نور جہاں نے لاہور کے بارے میں کہا تھا
لاہور رابجان برابر خریدہ ایمجاں دارایم و جنت دیگر خریدہ ایم
لاہور کی تاریخ ہزاروں سال پر پھیلی ہوئی ہے۔ روایت کے مطابق راجہ رام کے بیٹے راجہ لوہ نے شہر لاہور کی بنیاد رکھی اور یہاں ایک مضبوط قلعہ تعمیر کیا۔ پھر اس کے بعد دسویں صدی عیسوی تک یہ شہر ہندو راجائوں کے زیرنگیں رہا۔ گیارہویں صدی میں یہ علاقہ اسلام کی روشنی سے منور ہوا جب سلطان محمود غزنوی نے پنجاب فتح کرکے ایاز کو لاہور کا گورنر مقرر کیا۔
شہاب الدین غوری نے 1186ء میں لاہور کو فتح کیا۔ بعدازاں یہ خاندان غلاماں 1206)ئ۔1290ئ( خاندان خلجی1290)ئ۔1320ئ( تغلق خاندان1320)ئ۔1414ئ( سید خاندان1414)ئ۔1451ئ( اور لودھی خاندان1451)ئ۔1526ء ( کے تحت رہا۔ ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں ابراہیم لودھی کو شکست دیکر مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ مغلوں نے اپنے دور میں لاہور میں کئی باغات لگوائے عظیم الشان عمارات اور مساجد تعمیر کروائیں۔ علاوہ ازیں اکبر اعظم نے شاہی قلعہ کو ازسرنو تعمیر کروایا۔ شاہجہان نے شالامار باغ تعمیر کروایا جس کو اپنی خوبصورتی کے باعث عالمی شہرت حاصل ہے۔1646ء میں شہزادی جہاں آرا نے دریائے راوی کے کنارے چوبرجی باغ تعمیر کروایا جس کے مین دروازے کے آثار چوبرجی کے نام سے موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ شہزادی اس باغ میں آ کر شاعری کیا کرتی تھی۔1673ء میں اورنگ زیب عالمگیر نے بادشاہی مسجد تعمیر کروائی جوکہ شاہ فیصل مسجد اسلام آباد کے بعد دنیا کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس کا صحن528 فٹ چوڑا اور 538 فٹ لمبا ہے جس میں ایک لاکھ افراد بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مسجد کے چار میناروں میں سے ہر ایک کی بلندی 176 فٹ ہے۔1739ء میں نادر شاہ اور 1751ء میں احمد شاہ ابدالی نے لاہور پر قبضہ جمایا۔ بعدازاں 1765ء میں سکھوں نے لاہور کو فتح کرکے اسے تین حصوں میں تقسیم کر لیا۔ ایک حصہ پر لبنا سنگھ، دوسرے پر رنجیت سنگھ اور تیسرے حصہ پر گوجر سنگھ کی حکومت تھی، 1799ء میں رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کر کے پنجاب، سرحد، ملتان اور کشمیر کے علاقوں پر مشتمل ایک سکھ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ سکھوں نے اپنے عہد کے دوران مسلمانوں کے مذہبی مقامات بالخصوص مساجد کی بے حرمتی کی۔ بادشاہی مسجد کو بطور اصطبل اور بارود خانہ استعمال میں لایا گیا، انگریزوں نے 1849ء میں سکھوں کو شکست دیکر پنجاب کو برطانوی سلطنت میں شامل کر لیا انہوں نے 1947ء تک برصغیر پاک وہند پر حکومت کی اور ملک میں کئی اصطلاحات کیں۔ اس حوالے سے درج ذیل اقدامات قابل ذکر ہیں۔

… 1851ء میں مزار میاں میر کے نزدیک نئی چھائونی قائم کی گئی۔ کچھ عرصہ بعد مال روڈ تعمیر کی گئی اور سیکرٹریٹ قائم کیا گیا۔
…1861ء میں لاہور ریلوے اسٹیشن کی عمارت تعمیر کی گئی۔
…1862ء میں لارنس گارڈن باغ جناح تعمیر کیا گیا۔
…1864ء میں گورنمنٹ کالج اور 1888ء میں لاء کالج قائم کیا گیا۔
…1875ء میں میو سکول آف آرٹس قائم کیا گیا۔
…1882ء میں واٹر ورکس کا نظام قائم کیا گیا اور پنجاب یونیورسٹی کا افتتاح ہوا۔
…1883ء میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کی عمارت تعمیر کی گئی۔
…1885ء میں پنجاب پبلک لائبریری، ایچی سن کالج اور ایف ایس سی کالج قائم ہوئے۔
…1889ء میں چیف کورٹ (ہائی کورٹ) کا افتتاح کیا گیا۔
…1897ء میں پہلا روزنامہ ’’اخبار عام‘‘ جاری کیا گیا۔
…1923ء دی میکلیگن انجینئرنگ کالج(انجینئرنگ یونیورسٹی) قائم کیا گیا۔
…1927ء ہیلے کالج آف کامرس قائم کیا گیا۔
…1938ء اسمبلی ہال کا افتتاح کیا گیا۔
…1940ء حمید نظامی نے پندرہ روزہ نوائے وقت کا اجراء کیا۔

23 مارچ1940ء کو شہر لاہور کو ایک منفرد اعزاز حاصل ہوا کیونکہ اس روز آل انڈیا مسلم لیگ نے قائداعظم کی صدارت میں قرار داد پاکستان منظور کی جس کے نتیجے میں 14 اگست 1947ء کو مسلمانوں کو اپنا الگ آزاد ملک مل گیا، اسی روز ممتاز صحافی حمید نظامی نے پندرہ روزہ’’نوائے وقت‘‘ جاری کیا جس کو دو سال بعد ایک روزنامے کا درجہ دے دیا گیا جو کہ اب نامور صحافی جناب مجید نظامی کی ادارت میں ملک کا سب سے بڑا روزنامہ ہے قیام پاکستان کے بعد بھی لاہور قومی سیاست میں اہم کردار کا حامل رہا ہے۔ فروری1974ء میں اس شہر نے دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کی میزبانی کی۔ پرانا لاہور شاہی قلعہ کے ساتھ واقع ہے۔ ابتداء میں اس کے گرد ایک فصیل موجود تھی جس میں تیرہ دروازے تھے جوکہ سکھوں کے عہد تک غروب آفتاب کے بعد بند کر دیئے جاتے تھے۔ ان میں سے کچھ دروازوں کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ تیرہ دروازوں کے نام یہ ہیں۔ بھاٹی دروازہ، ٹکسالی دروازہ، روشنائی دروازہ، مستی دروازہ، اکبری دروازہ، کشمیری دروازہ، شیرانوالہ دروازہ، یکی دروازہ، دہلی دروازہ، موچی دروازہ، شاہ عالمی دروازہ، لوہاری دروازہ اور موری دروازہ۔بیسویں صدی میں پرانے لاہور کے مضافات میں کئی جدید بستیوں کا اضافہ ہوا جوکہ اب تک جاری ہے اب شہر برکی روڈ، بیدیاں روڈ، فیروز پور روڈ، ملتان روڈ، جی ٹی روڈ اور رائے ونڈ روڈ پر دور تک وسعت اختیار کر چکا ہے نئی بستیوں میں مزنگ، اچھرہ، مسلم ٹائون لاہور کینٹ، صدر بازار، مغلپورہ، دھرمپورہ، گلبرگ، ماڈل ٹائون، فیصل ٹائون، ٹائون شپ، گرین ٹائون، ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی، اقبال ٹائون، گلشن راوی، سمن آباد، سبزہ زار سکیم، مصطفے ٹائون، جوہر ٹائون، تاجپورہ سکیم، تاج باغ، واپڈا ٹائون بحریہ ٹائون اور ویلنشیا وغیرہ شامل ہیں۔لاہور میں کئی صوفیائے کرام اور بزرگان دین کے مزارات ہیں ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لاہور ایک بہت بڑا شہر بن چکا ہے۔ اس حوالے سے اس کی ثقافتی، سیاسی، سماجی اور تجارتی سرگرمیاں پہلے کی نسبت بہت بڑھ گئی ہیں۔
بادشاہی مسجد لاہور
بادشاہی مسجد 1673 میں اورنگزیب عالمگیر نے لاہور میں بنوائی۔ یہ عظیم الشان مسجد مغلوں کے دور کی ایک شاندار مثال ہے اور لاہور شہر کی شناخت بن چکی ہے۔ یہ فیصل مسجداسلام آباد کے بعد پورے پاکستان کی دوسری بڑی مسجد ہے، جس میں بیک وقت 60 ہزار لوگ نماز ادا کرسکتے ہیں۔ اس مسجد کا انداز تعمیر جامع مسجد دلی سے بہت ملتا جلتا ہے جو کہ اورنگزیب کے والد شاہجہان نے 1648 میں تعمیر کروائی تھی۔

ہندوستان کے چھٹے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر تمام مغلوں میں سے سب سے زیادہ مزہبی بادشاہ تھے۔ انھوں نے اس مسجد کو اپنے سوتیلے بھائی مضفر حسین، جن کو فداے خان کوکا بھی کہا جاتا تھا، کی زیر نگرانی تعمیر کروایا۔ 1671 سے لیکر 1673 تک مسجد کی تعمیر کو دو سال لگے۔ مسجد کو شاہی قلعہ کے برعکس تعمیر کیا گیا، جس سے اس کی مغلیہ دور میں اہمیت کا پتہ لگتا ہے۔ اس مسجد کے بننے کے ساتھ ہی ساتھ اورنگزیب نے اس کے دروازے کے برعکس شاہی قلعہ میں بھی ایک باوقار دروازے کا اضافہ کیا، جس کو عالمگیری دروازہ کہا جاتا ہے۔

جوں جوں وقت گزرتا گیا، مسجد کو متعدد وجوہات کی بنا پر نقصانات پہنچتے گئے۔ 1850 سے اس کی مرمت کا آغاز ہوا، لیکن یہ مرمت نامکمل تھیں۔ آخرکار مکمل مرمت 1939ء میں شروع ھوئی اور 1960 میں مکمل کی گئی جن پر 48 لاکھ روپے صرف ہوئے۔ اس مرمت کی وجہ سے مسجد ایک بار پھر اپنی اصلی حالت میں واپس آگئی۔

22 فروری، 1974ء کو لاہور میں منعقدہ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر 39 سربراہانِ مملکت نے جمعہ کی نماز اس مسجد میں ادا کرنے کی سعادت حاصل کی۔
اس مسجد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب چادر مبارک ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین مبارک اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک رکھے ہوئے ہیں۔
ساتھ صدر جنرل ضیاءالحق کے ہاتھ سے لکھا ہوا قرآن پاک بھی اسی مسجد میں موجود ہے۔

Badshahi_Mosque_July_1_2005_pic32_by_Ali_Imran_%281%29.jpg

Mosque_minare_amjad_2006.JPG
 
Last edited:

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
شاہی قلعہ لاہور۔

قلعہء لاہور، جسے مقامی طور پر شاہی قلعہ بھی کہا جاتا ہے، یہ قلعہ شہر کے شمال مغربی کونے پر واقع ہے۔ گو کہ اس قلعہ تاریخ زمانہء قدیم سے جا ملتی ہے لیکن اس کی ازسرِ تعمیر مغل بادشاہ اکبر اعظم (1605-1556) نے کروائی جبکہ اکبر کے بعد آنے والی نسلیں بھی تزئین و آرائش کرتی رہیں۔ لہذٰا یہ قلعہ مغلیہ فنِ تعمیر و روایت کا ایک نہایت ہی شاندار نمونہ نظر آتاہے۔ [1] قلعے کے اندر واقع چند مشہور مقامات میں شیش محل، عالمگیری دروازہ، نولکھا محل اور موتی مسجد شامل ہیں۔ 1981ء میں یونیسکو نے اس قلعے کو شالامار باغ کے ساتھ عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔ یہ قلعہ بادشاہی مسجد لاہور کے بلکل سامنے واقع ہے۔
Lahore_Fort.jpg

Alamgiri_Gate.jpg

65886_3999702281510_86136993_n.jpg
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
شالامار باغ لاہور۔

شالیمار باغ یا شالامار باغ مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے لاہور میں 1641ء-1642ء میں تعمیر کرایا۔

باغ کے گرد اینٹوں کی ایک اونچی دیوار ہے۔ باغ ایک مستطیل شکل میں ہے۔ شمال سے جنوب کی طرف 658 میٹر اور مشرق سے مغرب کی طرف 258 میٹر ہے۔باغ 3 حصوں میں بٹا ہوا ہے اور تینوں کی بلندی ایک دوسرے سے علیحدہ ہے۔ ایک حصہ دوسرے سے 4.5 میٹر تک بلند ہے۔ تینوں حصوں کے فرح بخش، فیض بخش اور حیات بخش ہیں۔ باغ کو ایک نہر سیراب کرتی ہے۔ باغ میں 410 فوارے ہیں، 5 آبشاریں اور باغ میں آرام کے یۓ عمارتیں ہیں اور مختلف اقسام کے درخت ہیں۔
Shalamar_Garden_July_14_2005-Sideview_of_marble_enclosure_on_the_second_level.jpg

Shalamar_Garden_July_14_2005-South_wall_pavilion_with_fountains.jpg
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
مقبرہ جہانگیر۔لاہور

مقبرہ جہانگیر لاہور کو مغلیہ عہد میں تعمیر کئے گئے مقابر میں ایک بلند مقام حاسل ہے ۔ یہ دریائے راوی لاہور کے کنارے باغ دلکشا میں واقع ہے۔ جہانگیر کی بیوہ ملکہ نور جہاں نے اس عمارت کا آغاز کیا اور شاہ جہان نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ یہ مزار پاکستان میں مغلوں کی سب سے حسین یادگار ہے۔

اس کے چاروں کونوں پر حسین مینار ہیں۔ قبر کا تعویذ سنگ مر مر کا ہے اور اس پر عقیق، لاجورد، نیلم، مجان اور دیگر قیمتی پتھروں سے گل کاری کی گئی ہے۔ دائین بائیں اللہ تعالٰیٰ کے ننانوے نام کندہ ہیں۔ سکھ عہد میں اس عمارت کو بہت نقصان پہنچایا گیا ۔ اس عمارت میں سفید سنگ مر مر سے بنایاگیا سہہ نشین اکھاڑ کر سکھ امرتسر لے گئے ۔ اس طرح عمارت کے ستونوں اور آرائشات میں استعمال کئے گئے قیمتی جواہرات نکال لئے گئے تاہم آج بھی یہ عمارت قابل دید ہے ۔ مقبرہ کا وہ حصہ جہاں شنہشاہ دفن ہے ایک بلند چبوترہ بنایا گیا ہے ۔ اند ر داخل ہونے کا ایک ہی راستہ ہے ۔ مزار کے چاروں جانب سنگ مر مر کی جالیاں لگی ہوئی ہیں جو کہ سخت گرم موسم میں بھی مقبرہ کو موسم کی حدت سے محفوظ رکھتی ہیں۔ مقبرہ جہانگیر میں نور جہاں نے ایک خوبصورت مسجد بھی تعمیر کرائی۔ اس مقبرہ میں نور جہاں نے کافی عرصہ رہائش بھی کی ۔ اس لئے یہاں رہائشی عمارات بھی تعمیر کئی گئیں۔
Jehangir-Tomb_travel-guide-of-lahore_nexpk.jpg

ملکہ نور جہاں کا مقبرہ
5.jpg
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
شاعر مشرق جناب علامہ محمد اقبالؒ کا مقبرہ
مقبرہ علامہ اقبال، سادہ مگر پروقار عمارت ہے، جو پاکستان کے شہر لاہور میں واقع ہے۔ یہ مقبرہ، لاہور کے حضوری باغ میں بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ لاہور کے درمیان واقع ہے جہاں یہ دونوں عظیم تعمیرات آمنے سامنے واقع ہیں۔ اس عمارت پر ہمہ وقت پاکستان رینجرز کے اہلکاروں کا پہرہ رہتا ہے۔ عمارت کی طرز تعمیر افغان اور مورش طرز تعمیر پر بنیاد رکھتی ہے اور اسے مکمل طور پر لال پتھر سے تعمیر کیا گیا ہے۔ یہاں ہر روز ہزاروں لوگ شاعر اور فلسفی علامہ محمد اقبال کو خراج تحسین پیش کرنے ان کے مزار پر حاضری دیتے ہیں۔
Allama_Iqbals_Tomb_East_wall_close-up_July_1_2005.jpg

Inside_allama_iqbals_tomb.jpeg

Allama_Iqbals_Tomb_North_wall_July_1_2005.jpg
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
مقبرہ قطب الدین ایبک
(دور حکومت 1206ء تا 1210ء)
برصغیر کا پہلا مسلمان بادشاہ جس نے دہلی میں اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی جو دہلی سلطنت کے نام سے مشہور ہوا۔ نسلاً ترک تھا۔ ایک سوداگر اس کو ترکستان سے خرید کر نیشا پور لے آیا اور قاضی فخرالدین عبدالعزیز کے ہاتھوں فروخت کردیا۔ جس نے اس کو سلطان شہاب الدین غوری کی خدمت میں پیش کیا۔ سلطان نے کثیر رقم دے کر اسے خرید لیا۔ شکل و صورت قبیح ہونے علاوہ ایک چھنگلیا بھی ٹوٹی ہوئی تھی۔ اس لیے لوگ اس کو ایبک شل (خستہ انگشت) کہتے تھے۔

قطب الدین نے رفتہ رفتہ اپنی صلاحیتوں کا سکہ سلطان پر بٹھا کر اس کا قرب حاصل کر لیا۔ 1192ء میں سلطان محمد غوری نے دہلی اور اجمیر فتح کرکے قطب الدین کو ان کا گورنر مقرر کیا۔ اگلے سال سلطان نے قنوج پر چڑھائی کی۔ اس جنگ میں قطب الدین ایبک نے اپنی وفا داری اور سپہ گری کا ایسا ثبوت دیا کہ سلطان نے اس کو فرزند بنا کر فرمان فرزندی اور سفید ہاتھی عطا کیا۔ قطب الدین کا ستارہ اقبال چمکتا گیا۔ اور اسکی فوجیں گجرات، راجپوتانہ، گنگا جمنا کے دوآبہ، بہار اور بنگال میں نصرت کا پرچم لہراتی ہوئی داخل ہوئیں ۔ جب سلطان محمد غوری 15 مارچ 1206ء کو جہلم کے قریب، گکھڑوں کے ہاتھوں مارا گیا تو ایبک نے جون 1206ء کو لاہور میں اپنی تخت نشینی کا اعلان کر دیا۔

قطب الدین ایبک کی گورنری کا زمانہ فتوحات میں گزرا تھا۔ تخت پر بیٹھ کر اس نے امور سلطنت پر توجہ دی۔ اس کا بیشتر وقت نوزائیدہ اسلامی سلطنت میں امن و امان قائم رکھنے میں گزرا۔ عالموں کا قدر دان تھا۔ اور اپنی فیاضی اور دادودہش کی وجہ سے تاریخ میں لکھ بخش کے نام سے مشہور ہے۔ نومبر 1210ء میں لاہور میں چوگان (پولو) کھیلتے ہوئے گھوڑے سے گر کر راہی ملک عدم ہوا اور انار کلی کے ایک کوچے (ایبک روڈ) میں دفن ہوا۔
QutubuddinAibakMausoleum.JPG
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
مینار پاکستان لاہور۔
مینار پاکستان لاہور، پاکستان کی ایک قومی عمارت/یادگار ہے جسے لاہور میں عین اسی جگہ تعمیر کیا گیا ہے جہاں 23 مارچ 1940ء میں قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں تاریخی قرارداد پاکستان منظور ہوئی۔ اس کو یادگار پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ اس جگہ کو اس وقت منٹو پارک کہتے تھے جو کہ سلنطت برطانیہ کا حصہ تھی۔ آج کل اس پارک کو اقبال پارک کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔
مینار پاکستان کی تعمیر کے سلسلہ میں 1960ء میں اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اور اسی کمیٹی کی منظور شدہ سفارشات اور ڈیزائن پر اس مینار کی تشکیل ہوئی تھی۔
مینار پاکستان کا ڈیزائن ترک ماہر تعمیرات نصر الدین مرات خان نے تیار کیا۔ تعمیر کا کام میاں عبدالخالق اینڈ کمپنی نے 23 مارچ 1960ء میں شروع کیا۔ اور 21 اکتوبر 1968ء میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر کی کل لاگت 75 لاکھ روپے تھی ۔
مینار پاکستان 18 ایکڑ رقبے پر محیط ہے۔ مینار کی بلندی 196 فٹ ہے اور مینار کے اوپر جانے کے لیے 324 سیڑھیاں ہیں جبکہ اس کے علاوہ جدید لفٹ بھی نصب کی گئی ہے۔
مینار کا نچلا حصہ پھول کی پتیوں سے مشہابہت رکھتا ہے۔ اس کی سنگ مرمر کی دیواروں پر قرآن پاک کی آیات،قائد اعظممحمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کے اقوال اور مسلمانوں کی آزادی کی مختصر تاریخ کندہ ہے۔ اس کے علاوہ قرارداد پاکستان کا مکمل متن بھی اردو اور بنگالی دونوں زبانوں میں اس کی دیواروں پر کندہ کیا گیا ہے۔
مینار پر جو خطاطی کی گئی ہے وہ حافظ محمد یوسف سدیدی، صوفی خورشید عالم، محمد صدیق الماس رقم، ابن پروین رقم اور محمد اقبال کی لکھی ہوئی ہے۔
مینار پاکستان کے احاطے میں پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کا مزار بھی ہے۔
مینار پاکستان کے اردگرد خوبصورت سبزہ زار، فوارے، راہداریاں اور ایک جھیل بھی موجود ہے۔
38_big.jpg

Minar_-e_Pakistan_at_Night.jpeg

156197108170219176126292168411706577169166.jpg
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
باغ جناح لاہور۔
باغ جناح، پاکستان کے صوبہ پنجاب میں لاہور کے مقام پر ایک تاریخی باغ ہے۔ یہ اس سے پہلے لارنس گارڈن یا لارنس باغ کہلایا کرتا تھا۔ یہاں سبزہ زار، نباتانی باغ اور ایک مسجد کے علاوہ جناح لائبریری بھی واقع ہے جو کہ وکٹوریا بلڈنگ میں قائم کی گئی ہے۔
یہ لاہور میں لارنس روڈ پرلاہور چڑیا گھر کے قریب واقع ہے جو کہ پنجاب کے گورنر ہاؤس اور مال روڈ کے بالمقابل ہے۔
بنیادی طور پر یہ باغ ایک نباتاتی باغ تھا جو کہ کیو گارڈن کے تعمیرات کے حوالے سے جانا جاتا تھا۔ اس کا نام لارنس گارڈن تھا جو کہ جان لارنس کے نام پر رکھا گیا تھا جو کہ 1864ء سے 1869ء تک ہندوستان کے وائسرائے نامزد رہے۔یہاں وائسرائے کا مجسمہ بھی نصب تھا، جو کہ بعد میں وایل اور لانڈنڈری کالج شمالی آئرلینڈ میں منتقل کر دیا گیا۔
جناح باغ جو کہ 141 ایکڑ کے رقبے پر قائم ہے اس سے پہلے لاہور کے چڑیا گھر میں شامل تھا۔ اب یہاں صرف نباتاتی وسائل ہی دستیاب ہیں۔ یہ پاکستان کے چند انتہائی اہم اور خوبصورت ترین نباتاتی باغات میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس باغ میں تقریباً 150 مختلف اقسام کے درخت، 140 اقسام کی جھاڑیاں، 50 قسم کی بیلیں، 30 قسموں کے یک سمتی درخت اور 100 مختلف قسم کے سرسبز پودوں کی اقسام ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً ایک ہزار اقسام سے زائد موسمی اور سالانہ بنیادوں پر کاشت کردہ پھولوں کی اقسام بھی شامل ہیں۔ اس باغ کا شمار دنیا کے انتہائی بہترین باغات میں ہوتا ہے۔ اس باغ میں تین نرسریاں اور چار نالی دار مصنوعی پہاڑیوں کا رقبہ بھی شامل ہے۔
اس باغ میں دو کتب خانے بھی تعمیر کیے گئے ہیں، جو کہ جناح لائبریری اور دارالسلام کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ اس باغ میں موجود نباتاتی وسائل بارے چوہدری محمد طارق (ڈائریکٹر) اور محمد رمضان رفیق (زرعی افسر) نے مشترکہ طور پر ایک کتاب بھی تحریر کی ہے ۔ اس کتاب میں یہاں موجود پودوں، درختوں، بیلیوں اور پھولوں بارے تمام مقامی اور بین الاقوامی اہمیت کی سائنسی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
13920409000270_PhotoL.jpg

13920409000287_PhotoL.jpg
13920409000260_PhotoL.jpg
13920409000262_PhotoL.jpg
13920409000273_PhotoL.jpg
13920409000283_PhotoL.jpg
13920409000280_PhotoL.jpg
13920409000278_PhotoL.jpg
13920409000277_PhotoL.jpg
 
Top