شِیخ رفیق طاہر کی ابلیسی آڈیالوجی اورمحدث فورم کا دجل

qureshi

وفقہ اللہ
رکن

ہر کام کرنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے ،اور سب سے خوبصورت طریقہ آپ ﷺ کا طریقہ ہے
بندہ نے کچھ عرصہ قبل حضرت مولانا اللہ یار خان ؒ جو کہ خود راہ سلوک میں ایک اہلحدیث صوفی حضرت عبد الرحیم ؒ کے شاگرد
ہیں۔علم سلوک پر ان سےپوچھے گئے سولات اور جوابات مختلف فورم پر پیش کئے ، چونکہ یہاں پر محدث" اور دیگر ایک دو فورم
اہل حدیث حضرات کہ ہیں ،بندہ نے وہاں بھی یہ لنک دیا ۔" محدث " کی انتظامیہ نے بے ایمانی دجل اور فریب سے کام لیتے ہوئے سوال
رہنے دئے اور جواب منکر تصوف رفیق طاہر کے پیش کر دئے ،بندہ نے ادھر جواب دیا ،مگر حسب معمول "محدث" نے جواب
شو نہیں ہو نے دئیے۔وہ مختلف سوالات ہیں ،شیخ رفیق طاہر نے اپنی جہالت کا خوب مظاہر ہ کیا۔میں صرف ایک سوال کے
جواب کے متعلق عرض کرونگا ،اور منکرین تصوف کی حقیقت پیش کرونگا ،اور شیخ رفیق طاہر سے کہتا ہو کہ اگر آپ سچے ہو
یا کوئی علمی دلیل ہے تو پیش کرو ،ورنہ خدا کا خوف کرو ،کیا آپ نے اللہ کو جواب نہیں دینا ۔اب سوا ل یہ تھا:۔
سوال 8:۔ فنا فی الرسول ' فنا فی اللہ اور بقا باللہ اور دیگر مراقبات کی بھی کوئی حقیقت ہے؟ صوفیائے کرام کے نزدیک ان کے حصول و تحصیل کی کیا صورت ہے؟ کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے ؟ کیا وہ طریقہ آپ ہم کو لکھ کر ارسال کر سکتے ہیں؟ کہ ہم بھی ان کو حاصل کر کے خدا کے خاص بندوں میں داخل ہو جائیں۔ آپ سے دور افتادہ ہیں' مہربانی کر کے تفصیل سے لکھیں ' نیز کشفِ ملائکہ و جن و قبور جن جن وظائف سے حاصل ہو جاتے ہیں وہ بھی مفصل لکھنا مہربانی ہو گی' میں آپ کے حلقہ کا آدمی ہوں۔
حضرت مولانا اللہ یار خان ؒ کا جواب:۔
:۔ فنا فی الرسول ‘ فنا فی اللہ اور بقا باللہ سلوک کے وہ منازل ہیں کہ ہزاروں اللہ کے بندے ان کے حصول کے لئے کوشاں رہے‘ مجاہدے اور ریاضتیں کرتے رہے اور یہی آرزو لے کر دنیا سے رخصت ہوئے‘ ان منازل کے حصول کے لئے سچی تڑپ انسان کی سعادت کی بہت بڑی دلیل ہے۔ مگر یہ منازل صرف زبانی اوراد و وظائف سے حاصل نہیں ہوتے ۔ یہ قلب اور وح کا معاملہ ہے اور صرف ذکرِ لسانی سے تصفیہ قلب ارو تزکیہ باطن نہیں ہو پاتا‘ بلکہ ان منازل کے حصول کے لئے دوسری شرائط ہیں ‘ سب سے پہلے اصلاح قلب کی ضرورت ہے ‘ اور اس کی صورت یہ ہے کہ ذکرِ قلبی کثرت سے کیا جائے اتباعِ شریعت اور اتباعِ سنت کا اہتمام کیا جائے ۔ اصلاحِ قلب ایسا کمال ہے جو شیخِ کامل کی رہنمائی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔مولوی ہر گز نشد مولائے رومتا غلام شمس تبریزی نشدمولوی اس وقت تک مولانا روم نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ شمس تبریز ( جیسے بزرگ اور ولی اللہ) کی غلامی نہ اختیار کر لے۔اورکیمیا پیدا کن ازمشت گلے بوسہ زن برآستاں کاملےاس ایک مشت مٹی کے وجود کو \" کسی کامل کی بارگاہ میں بوسہ زن ہو کر \"سونا بنا دے۔ہست محبوبے نہاں اندر دلت چشم اگر داری بیا بنما ئمت ایک محبوب تیرے دل کے اندر پوشیدہ ہے۔ اگر دل کی آنکھ رکھتا ہے تو آ تجھ کو دکھاؤں۔شیخِ کامل کی راہنمائی میسر آ جائے تواتباع سنت کا اہتمام لازمی طور پر کیا جائے۔محال است سعدی کہ راہ صفا تواں رفت جز در پے مصطفیٰاے سعدی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق وابستہ کئے بغیر تصوف کی راہ اختیار کرنا محال اور ناممکن ہے۔شیخِ کامل اس راہ پر اس ترتیب سے چلاتا ہے کہ سب سے پہلے لطائف کراتا ہے‘ جب وہ منور ہو جاتے ہیں تو مراقبہ احدیت کراتا ہے‘ جب یہ رابطہ خوب مضبوط ہو جائے تو شیخ اپنی روحانی قوت سے مراقبہ معیت پھر اقربیت کراتا ہے۔ پھر دوائرِ ثلاثہ ‘ پھر مراقبہ اسمِ الظاہر و الباطن۔ یہ مراقبات عالمِ ملکوت سے گزار کر شیخِ کامل کراتا ہے۔ پھر مراقبہ سیرکعبہ ‘ سیر صلواۃ پھر سیر قرآن ‘ اس کے بعد مراقبہ فنا فی الرسول لراتا ہے اور دربارِ نبوی ؐ میں حاضری ہوتی ہے۔ فنا فی الرسول کا مطلب یہ ہے کہ آدمی حضورِ اکرم ﷺ کی محبت اور آپ کی سیرت میں فنا ہو جائے۔ پھر شیخِ کامل توجہ روحانی سے فنا فی اللہ اور بقا باللہ کا مراقبہ کراتا ہے‘ یہ ذکرِ لسانی سے حاصل نہیں ہو سکتے ‘ بلکہ شیخ ِ کامل کی توجہ سے ذکرِ قلبی کرنے سے یہ مقامات حاصل ہوتے ہیں۔ مراقبہ فنا بقا میں عجیب سی کیفیت ہوتی ہے سالک کا وجود زمین پر ہوتا ہے اور روحانی طور پر یوں محصوص کرتا ہے کہ عرشِ بریں پر اللہ تعالیٰ کے سامنے سر بسجود ہے اور سبحان ربی الاعلی اور سبحان ربی العظیم کہہ رہا ہے ‘ عرشِ معلیٰ اللہ تعالیٰ کے ذاتی انوار و تجلیات کا مہبط ہے۔ وہ انوار و تجلیات سرخ سنہری معلوم ہوتے ہیں۔ کائنات کی کیفیت یوں معلوم ہوتی ہے کہ ہر چیز شجر ‘ حجر ‘ حیوان ‘ ملائکہ سبحان ربی الاعلی اور سبحان ربی العظیم پکار رہے ہیں‘ ایک گونج اٹھتی ہے اور سالک پر سب چیزوں سے غفلت طاری ہو جاتی ہے۔کائنات کی ہر چیز کا تسبیح و تمہید کہنا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں۔قد فطر اللہ الجمادات علی تسبیحہ و تمحیدہ و تنزیہ لطافا و تسبیحھا تسبیح حقیقیاسی طرح انسانوں کے متعلق بھی تسبیح کے یہی الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ مخلوق دو قسم کی ہے ‘ ذوی العقول اور غیر ذوی العقول ۔ ذوی العقول یعنی انسان معرفتِ الہیٰ اور عبادتِ الہیٰ کے لئے پیدا ہوا ہے ‘ اور غیر ذوی العقول اللہ کی تسبیح و تحلیل کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ہمارے سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ میں ایک مراقبہ جمادات و اشجار بھی ہے ‘ میں یہ مراقبہ نہیں کرایا کرتا۔ کیونکہ خام آدمی کے لئے نقصان کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس مراقبہ میں پتھروں اور درختوں ‘ پانی اور ہوا کی بولی سکھائی جاتی ہے او ر صوفی کامل ان غیر ذی روح چیزوں سے کلام کر سکتا ہے اور ان کی کلام سمجھ سکتا ہے۔ملائکہ ‘ جنات ‘ شیاطین اور روح سے کلام ہونا تو سلوک کی ابتدائی باتیں ہیں ‘ ہاں اس سلسلے میں طبائع انسانی کے اختلاف کی وجہ سے نتائج بھی مختلف ہوتے ہیں۔ بعض سالک ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں سلوک میں منازلِ بالا حاصل ہو جاتیں ہیں ‘ حتیٰ کہ عالمِ امر اور عالمِ حیرت کے منازل بھی طے کر لیتے ہیں‘ مگر انہیں مشاہدات نہیں ہوتے ‘ یہ بھی اللہ کی شان ہے اور اس میں بھی اللہ کی کوئی حکمت پنہاں ہوتی ہے ‘ بعض ایسے ہوتے ہیں جنہیں بالکل ابتداء میں مشاہدات کی نعمت عنائت فرما دیتا ہے ‘ ایسے لوگوں کو روئت اشکال کا مراقبہ بھی کرایا جاتا ہے۔ اس مراقبہ میں روح کی اصل شکل بھی جو بعد موت ہو گی سامنے آ جاتی ہے ‘ اس مادہ پرستی کے دور میں بہت کم ایسے آدمی ملتے ہیں جن کی روح انسانی شکل پر ہو ‘ نعوذ باللہ من ذالک۔ علمائے قشر ایسی باتوں کا انکار کر دیتے ہیں ‘ اس کی وجہ عدم علم ہے ‘ ایسے انکشافات بالخصوص کشف قبور کے متعلق شبہ کی گنجائش تو حال کی سائنس کی ایجادات نے چھوڑی ہی نہیں ‘ مثال کے طور پر ٹیلی ویژن کو لیجئے۔ ٹیلی وژن اسٹیشن اور رسیونگ سیٹ کے درمیان طویل مسافت کے باوجود آواز بھی سنائی دیتی ہے ۔ تصویر بھی سامنے آ جاتی ہے اور آدمی کی تمام حرکات و سکنات بھی نظر آتی ہیں ‘ اسی طرح کشف قبور میں جب روح سے کلام ہوتی ہے تو روح بھی سامنے آ جاتی ہے اس کی کلام بھی سنائی دیتی ہے۔جمادات میں شعورکے موجود ہونے کاثبوت رآن و حدیث میں موجود ہے۔قال اللہ تعالیٰ : تسبح لہ السموات السبع والارضاور:۔وان من شئی الا یسبح بحمدہ ولکن لا تفقھون تسبیحھماور:۔الم تر ان اللہ یسجد لہ من فی السموات ومن فی الارض والشمس القمر والنجوم والجبال والشجر والدواب وکثیر من الناس وکثیر حق علیہ عذاب‘بعض مفسرین کا قول ہے کہ سجدہ سے دلالت علی الصانع مراد ہے مگر یہ قول درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ الناس کے ساتھ کثیر کی قید نے اس تاویل کو اڑا دیا ہے ‘ کیونکہ صانع پر تو تمام جہان دلالت کرتا ہے مصنوع دال علی الصانع ہوتا ہے اور کثیر من الناس سے ظاہر ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں جو دال علی الصانع نہیں اور یہ بات اصولاً غلط ہے مصنوع ہو اور دال علی الصانع نہ ہو یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ اس لئے یہ قول غلط ٹھہرا ‘ لہٰذا سجدہ اور تسبیح حقیقی ثابت ہوئی۔ترمذی اور ابن ماجہ میں حدیث موجود ہے۔عن سھل بن سعد قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما من مسلم تلبیی الا لبی ما عن یمینہ وشمالہ من حجر والشجر او صدر حتی نقطع الارض من ھھتا وھھنا۔حضرت سہل ؓ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مسلم تلبیہ کہتا ہے تو اس کے دائیں بائیں کے تمام پتھر درخت ڈھیلے تک تلبیہ کہتے ہیں۔ حتیٰ کہ مشرق سے مغرب تک تمام تلبیہ کہتے ہیں۔ (حاجی کی تلبیہ سن کر)۔اس حدیث سے اہلِ کشف کے اس کشف کی تصدیق ہوتی ہے کہ جمادات میں شعور اور حس موجود ہے ‘ جس سے وہ تلبیہ کی آواز سنتے ہیں اور خود کلام کرتے ہیں۔اور ابو داؤد میں ہے۔عن ابی ھریرہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان الحصاۃ تناشد اللہ الذی یخرجہا من المسجد لید عھا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ کوئی شخص مسجد حرام سے کنکریاں اٹھا کر باہر لے جانا چاہے تو وہ کنکریاں اس کو خدا کا واسطہ دیتی ہیں کہ وہ انھیں وہیں رہنے دے باہر نہ لے جائے۔یہ حدیث بھی اہلِ کشف کی تصدیق کرتی ہے کہ کنکریوں میں شعور اور ادراک ہوتا ہے۔ایک حدیث بخاری اور ترمذی میں آئی ہے۔عن انس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان احد جبل یجنا ونحبہ‘ احد ایک ایسا پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔اس حدیث میں محبت کا لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جمادات میں شعور اور حس موجود ہے۔ نحبہ سے محبت حقیقی مراد ہے تو یحبنا میں بھی محبت کا لفظ حقیقی معنوں پر محمول ہو گا۔ ہاں مسئلہ ظنی ہے داخل عقائد نہ ہو گا۔جمادات اور اشجار کو تسبیح و تحلیل ‘ تحمید و تنزیہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور وہ اپنا مقصدِ تخلیق پورا کر رہے ہیں‘ مگر انسان جو معرفتِ الٰہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے وہ خدا سے غافل ہو گیا ہے۔ انسان اگر اپنا مقام پہچان لے اور قربِ الٰہی اور رضائے الٰہی کے حصول میں لگ جائے تو اس کی دنیا بھی سنور جائے اور آخرت بھی بن جائے اور اس کا واحد ذریعہ ذکرِ الٰہی کی کثرت ہے۔یہ خیال رہے کہ مشاہدات ‘ مکالمات ‘ اور مکاشفات کا حاصل ہو جانا یا جمادات اور ارواح سے کلام کر لینا کمال کی چیز نہیں اصل کمال قربِ الٰہی اور رضائے الٰہی کا حصول مقصود ہے۔اللہ کی اطاعت اور عبادت اس لئے صوفی کامل کے لئے ضروری ہے کہ مشاہدات وغیرہ تمام چیزوں سے صرفِ نظر کرتا ہوا اپنی منزلِ مقصود یعنی قربِ الٰہی کی طرف بڑھتا چلا جائے اور یہ مقصد شیخ کامل کی رہبری سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔
شیخ رفیق طاہر کا دجل پڑھیے:
یہ سب کے سب شیطانی عمل ہیں ‘ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم اسکی کوئی دلیل نہیں ہے ۔
صوفیا کے نزدیک انکے حصول کے مختلف طریقے ہیں ۔ جو کہ سبھی ابلیسی آڈیالوجی کے حامل ہیں ۔
شیخ رفیق طاہر صاحب اگر آپ سلوک کے شعبہ کو جانتے نہیں تو بجائے بکواسات کرنے کہ خاموشی اختیار کر لیتے،سید نذیر حسین دہلوی
جو کہ مسلک اہل حدیث کے بانی ار صوفی ہیں ،مسلک اہل حدیث کے مشہور عالم صوفی سید عبد اللہ غزنویؒ کی وفات پر لکھتے
ہیں الحیات بعد الممات میں ہے:۔
سید عبد اللہ غزنوی ؒ اور میاں سید نذیر حسینؒ کے درمیان تا حیات گہرے روابط رہے۔جب سید عبد اللہ غزنویؒ نے دارفانی سے کوچ فرمایا تومیاں صاحب کے تعزیتی خط کا تذکرہ الحیات بعد الممات میں یو ں ملتا ہے:۔
’’مولانا عبد اللہ قدس سرہ چونکہ متشرع صوفی تھی انکی تعزیت میں خط انکے بیٹوں کو لکھا وہ یہ ہے :۔
از عاجز محمدسید نذیر حسین بامطالعہ گرامی مولوی عبد اللہ ،مولوی احمد ،مولوی عبد الجبار سلمہم ا للہ تعالیٰ با لخیر۔بعد ازا سلام علیکم و رحمۃ اللہ برکا تہ واضح باد کہ از خبر انتقال جامع خیر و برکات موجب تاسف و الم کمال روداد انا للہ وا نا الیہ راجعون۔اللھم اغفر لہ وا رحم وادخلہ جنت
الفردوس
دا عبد اللہ فنا فی اللٰہ شد از جناب باریش تسلیم باد
چشمہ فی کرامت شان او رونق افزا چشمہ تکریم باد
الرحم الراحمین آں صاحبان را بر جادہٗ شریعت بمیراث پدری فائز کناد وا یں عاجز و بدعا عافیت
دارین شما بدر گاہ کبریا مستد عی می باشد قبول فرما یند زیادہ سلام خیر الختام‘‘؂۲
مکتوب میں دئے گئے اشعار کے متعلق مولانا بہاری فرماتے ہیں:۔
’’یقینی طور پر یہ بات نہیں کہی جا سکتی کہ آپ شعر بھی کہتے تھے،مگر حضرت عبد اللہ غزنوی ؒ کی تعزیت پرجو خط انکے صاحبزادوں کے نام بھیجا تھا،اس میں غالباً یہ قلم برداشتہ تھا۔ ‘ ‘ ؂۳
سید عبد اللہ غزنوی ؒ اور سید نذیر حسین دہلوی ؒ کے درمیان بہت محبت وعقیدت تھی،اس لیے میاں صاحب فرمایا کرتے تھے :۔
’’ہزاروں شا گردوں میں بس دو عبد اللہ ملے جو اپنی نظیر آپ تھے،ایک عبد اللہ غزنوی اور دوسرے عبد اللہ غازی پوری‘‘۔(الحیات بعد الممات)
سیخ رفیق طاہر صاحب کیا سید نذیر حسین دہلوی ؒ اور دیگر اہل حدیث صوفی یہ سب ابلیسی آڈیالوجی کے حامل تھے؟؟؟
یقینا نہیں تھے ،مگر منکرین تصوف کے ابلیس ہونے میں کوئی شک نہیں۔
 

qureshi

وفقہ اللہ
رکن
عجیب بات شیخ رفیق طاہر نے پوری امت کے اہل تقوی کو ابلیسی آڈیالوجی کا حامل قرار دیا جس میں امام غزالیؒ ،امام ابن قیم ،مجدد الف ثانی
شاہ ولی اللہ حتی کے صوفیاء اہلحدیث بھی شامل ہیں ،مگر بندہ نے جن آئینہ دکھایا تو دیکئھے کیسی مرچیں لگنا شروع ہو گئی ہیں ،آپ اہل
اللہ کو ابلیس کہے اور ہم ۔۔۔۔آہ بھی کریں تو ہو جاتے بدنام۔۔۔
http://www.siratulhuda.com/forum/th...آڈیالوجی-اورمحدث-فورم-کا-دجل.7719/#post-25488
 
Top