آپ کے شرعی مسائل

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی


آپ کے شرعی مسائل
بسم اللہ الرحمن الرحیم

۱۱؍ جولائی ۲۰۱۴ءفقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی

زکاۃ کا مال اور زکاۃ کی شرح
سوال:- زکوۃ کی شرح کی بنیاد کیا ہے ، یہ آمدنی کا ڈھائی فیصد ہے یا بجٹ کا ؟ (نظیر سہروردی ، راجیونگر)
جواب:- شریعت نے ہر طرح کے مال میں زکاۃ واجب قرار نہیں دی ہے ؛بلکہ کچھ مالوں میں زکوۃ رکھی گئی ہے ، جانورں میں بکرے بکریاں ، گائے بیل ، بھینس اور اونٹ ، کرنسی خواہ کسی ملک کی ہو ، سامانِ تجارت ، خواہ کسی چیز کی تجارت ہو اورزرعی پیداوار ، یہ مال خواہ اصل دولت ہو یا اس کی بچت ، صاحب نصاب ہونے کی تاریخ کے وقت جتنا بھی مال موجود ہو ، اس کی زکاۃ واجب ہے ، اس میں اصل دولت اور بچت کی کوئی تفریق نہیں ، زرعی پیداوار کی زکاۃ میں چوںکہ سال کاگزرنا ضروری نہیں ؛ اس لئے ہر فصل میں اس فصل کی پیداوار پر زکاۃ دینی ہوگی ، زکاۃ کی شرح سونا چاندی ،روپے اور مال تجارت میں ڈھائی فیصد ہے ، زرعی پیداوار میں کبھی پانچ فیصد اور کبھی دس فیصد ، اور جانوروں میں مختلف جانوروں کے حساب سے الگ الگ شرحیں ہیں ۔


ڈھائی فیصد واجب ہونے کا ثبوت
سوال:- یہ جو بات کہی جاتی ہے کہ ساڑھے باون تولہ چاندی میں زکاۃ واجب ہوتی ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ زکوۃ ڈھائی فیصد ادا کرنی ضروری ہے، کیا یہ بات حدیث سے ثابت ہے یا قرآن مجید میں اس کا ذکر ہے ؟(ابو سعید ، مہدی پٹنم)
جواب:- حدیث میں یہ بات آئی ہے کہ دوسو درہم میں پانچ درہم زکوۃ واجب ہوگی ، جو اضافہ ہوگا اس کے حساب سے ہوگا :’’ فإذا کانت مائتي درہم ففیہا خمسۃ دراہم ، فما زاد فعلی حساب ذلک ۔۔۔ ‘‘ (سنن أبي داؤد ، کتاب الزکاۃ ، باب في زکاۃ السائمۃ ، حدیث نمبر : ۱۵۷۴)
درہم چاندی کا سکہ ہوا کرتاتھا اور دو سو درہم ہندوستان کے قدیم اوزان کے مطابق ساڑھے باون تولہ (بحساب ۱۲؍ گرام = ۱ تولہ) چاندی کا ہوتا تھا ، موجودہ اوزان میں اس کی مقدار ۶۱۲ گرام سے کچھ زیادہ ہے ؛ اس لئے یہ بات کہی جاتی ہے کہ ساڑھے باون تولہ چاندی میں زکوۃ واجب ہوگی ، اسی حدیث میں اس بات کی بھی صراحت آگئی کہ درہم میں بطور زکوۃ چالیسواں حصہ واجب ہے ، اور چالیسواں حصہ ڈھائی فیصد ہوتا ہے ، غرض کہ زکوۃ کے سلسلہ میں یہ دونوں باتیں حدیث سے ثابت ہیں۔


نصاب میں اضافہ اور سال کا گذرنا
سوال:- میرے پاس دس تولہ سونا پہلے سے ہے ، جس پر سال گذرچکا ہے ، مزید دس تولہ ادھر حاصل ہوا ہے ، جس پر سال نہیں گذرا تو اب مجھے دس تولہ کی زکاۃ ادا کرنی ہوگی یا بیس تولہ کی ؟ (عبد الشکور ، مانصاحب ٹینک)
جواب:- زکوۃ کے واجب ہونے کے لئے سال کا گذرنا ضروری ہے ؛ لیکن یہ اس وقت جب کہ وہ پہلی مرتبہ نصاب کا مالک ہوا ہو ، ایک دفعہ جب آدمی صاحب نصاب ہوجائے تو اس میں جو اضافہ ہو، اس پر سال گذرنا ضروری نہیں ؛ لہٰذا جب پہلے سے دس تولہ سونا آپ کے پاس موجود تھا ، جس پر سال گذرچکا ہے اور اس پر دس تولہ کا اضافہ ہوا ہے توا گرچہ دس تولے پر ابھی سال نہیں گذرا ہے ، پھر بھی اس پورے بیس تولہ کی زکوۃ ادا کرنی ہوگی ۔


زکوۃ پورے نصاب پر ہے
سوال:- سونا دس تولے موجود ہوں تو دس تولے پر زکوۃ ہے یا ساڑھے سات تولے پر ؟ اور ساڑھے سات تولے سے زائد سونے پر زکوۃ ہے یا مکمل ساڑھے سات تولہ پر ؟ ( کبیر احمد ، مانصاحب ٹینک )
جواب:- دس تولہ سونا موجود ہو تو پورے دس تولہ پر زکوۃ واجب ہوگی ، سونے کا نصاب ساڑھے سات تولے ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ساڑھے سات تولہ سے کم پر زکوۃ نہیں ہوگی ، لیکن جب ساڑھے سات تولہ ہوجائے یا اس سے بڑھ جائے تو اس پورے سونا پر زکوۃ واجب ہوگی ۔


مقدار نصاب سے زیادہ زکوۃ
سوال:- فقیر ومحتاج شخص کو مقدار نصاب زکوۃ دینے کو علماء مکروہ قرار دیتے ہیں ؛ لیکن بعض دفعہ مستحق زکوۃ کثیر العیال ہوتا ہے اور آج کل چاندی کے نصاب کے لحاظ سے نصاب کی قیمت بہت کم ہو جاتی ہے ، اگر اتنی کم رقم اسے دی جائے تو اس کی ضروریات پوری نہیں ہو سکیں گی ؟ ( محمد بشیر اللہ ، امیر پیٹ )
جواب:- فقہاء نے جہاں ایک شخص کو نصاب کی مقدار زکوۃ دینے کو مکروہ قرار دیا ہے ، وہیں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر مقروض ہو یا اس کا کنبہ بڑا ہو کہ کنبہ کے تمام افراد پر اگر رقم تقسیم کر دی جائے تو فی کس مقدار نصاب سے کم رقم پڑتی ہو تو اس میں کچھ حرج نہیں :
’’وکرہ إعطاء فقیر نصابا إلا إذا کان مدیونا ٔوصاحب عیال لوفرقہ علیھم لایخص کلا نصاب ‘‘ (رد المحتار: ۳/۳۰۳)
اس طرح ایسے ضرورت مند شخص کے لئے کئی نصاب ادا کرنے کی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے ۔


زکوۃ کا حساب کس کیلنڈر سے ؟
سوال:- زکوۃ کا سالانہ حساب شمسی مہینہ سے کریں یا قمری مہینہ سے ؟کیوںکہ دونوں کے درمیان چند سالوں میں ایک سال کافرق ہو جاتا ہے ۔( محمد فہیم الدین ، ٹولی چوکی )
جواب : شریعت میں جو احکام ماہ و سال سے متعلق ہیں، ان میں مہینہ سے چاند کا مہینہ مراد ہے ، چاہے روزہ ، حج اور عدت کے مسائل ہوں ، یازکاۃ کے ؛ کیوں کہ قرآن مجید میں چاند کو اوقات اور مدت کے جاننے کا ذریعہ قرار دیا ہے : {قل ہي مواقیت للناس و الحج}(البقرۃ: ۱۸۹ ) اور رسول اللہ ا نے فرمایا کہ مہینہ کبھی ۲۹ ؍ دن کاہوتا ہے اورکبھی تیس دن کا ، ظاہر ہے کہ یہ کیفیت قمری مہینوں کی ہی ہوتی ہے ، فقہاء نے بھی اس کی صراحت کی ہے کہ زکاۃ میں چاند کے مہینہ کا اعتبار ہوگا اور اسی لحاظ سے ایک سال کی مدت شمار کی جائے گی ۔


استعمال کی گاڑیاں اور زکوۃ
سوال:- میرے پاس گھریلو استعمال کے لئے ایک کار تین لاکھ روپے کی اور دو موٹر سائیکل ہیں ، جس کی قیمت ایک لاکھ روپے ہے ، جو استعمال میں ہے اور ایک کار چھ ماہ قبل سات لاکھ روپے میں لیاہوں تاکہ موٹر سائیکل نکال کر اسے استعمال کریں ، ان میں سے کس پر زکوۃ واجب ہے ؟ ( محمد سمیع الدین ، بازار گھاٹ )
جواب:- سونے چاندی کے علاوہ جو اشیاء استعمال کے لئے ہوں ، ان میں زکوۃ واجب نہیں ، خواہ وہ کتنی ہی قیمتی ہوں ، اس لئے آپ نے جو گاڑیاں استعمال کے لئے لی ہیں ، ان پر زکوۃ نہیں ہے ، ہاں تجارت کے لئے اگر آپ نے ان گاڑیوں کو خرید کیا ہوتا تو ان پر زکوۃ واجب ہوتی ۔


کرایہ کے مکان پر زکوۃ
سوال:- میرے پاس ایک فلیٹ ہے جس کی آج قیمت پندرہ لاکھ روپے ہے ، اس کا ماہانہ کرایہ تین ہزار روپے آرہا ہے ، کیا اس کے کرایہ پر زکوۃ واجب ہے یا اس کی قیمت پر ؟ (محمد سمیع الدین ، بازار گھاٹ )
جواب: – کرایہ پر لگائی جانے والی چیزوں میں زکوۃ نہیں ہے ، خواہ مکان ہو ، گاڑی ہو ، یاکوئی اور قابل استعمال چیز ؛ لہٰذا آپ کے فلیٹ کی اصل قیمت پر زکوۃ نہیں ہے ، بلکہ جس دن آپ زکوۃ کا حساب کریں ، اس دن کرایہ کی جو رقم بچی ہوئی آپ کے پاس موجود ہو یا بینک وغیرہ میں محفوظ ہو ، دوسرے پیسوں کے ساتھ ملاکر اس میں زکوۃ واجب ہوگی ۔


کرایہ کی رقم میں زکوۃ
سوال:- ہمارے تین مکانات کرایہ پر ہیں ، ایک مکان ڈھائی لاکھ میں رہن پر ہے ، سیلر کی زمین کا کچھ حصہ بھی کرایہ پر دیا ہے ، دوسری جگہ خود ہم لوگوں نے کارخانہ کے لئے جگہ کرایہ پر لے رکھی ہے ، اسی سیلرکے کرایہ سے کارخانہ کی جگہ کا کرایہ ادا کیاجاتا ہے ، اب تین مکانوں کا ایڈوانس کرایہ تیس ہزار روپے پر ہم لوگ زکوۃ نکالتے ہیں ، ماہانہ کرایہ تینوں مکانات کا جو نو ہزار روپے آتا ہے ، اسی سے روز مرہ کی ضروریات پوری ہوتی ہیں ، کیا اس پر سالانہ حساب سے زکوۃ واجب ہے ؟ (سمیع الدین قادری ، بازار گھاٹ)
جواب:- جو چیزیں کرایہ پر لگائی جائیں ، ان کی اصل قیمت پر زکوۃ واجب نہیں ، البتہ ہر سال زکوۃ کا حساب کرنے کے لئے جو تاریخ آپ نے مقرر کررکھی ہے ، اس تاریخ میں جو رقم بچ رہے ، اس میں دوسری رقوم کے ساتھ ساتھ اس پر بھی زکوۃ واجب ہے ، اس لئے آپ صرف یہ دیکھیں کہ جس دن زکوۃ کا حساب کرتے ہیں ، اس دن تیس ہزار اڈوانس اور نو ہزار ماہانہ میں کیا رقم بچ رہتی ہے ، اگر وہ دوسری رقوم اور سونا چاندی کے ساتھ مل کر مقدار نصاب کو پہنچ جائے ، تو ان کی زکوۃ ادا کردیں، جو رقم پہلے خرچ ہوچکی ، ان کی زکوۃ واجب نہیں اور اگر یہ رقم مقدار نصاب کو نہیں پہنچتی ہو ، یا پہنچتی ہو ؛ لیکن قرض اتنا باقی ہو کہ اس کو ادا کرنے کے بعد مقدار نصاب نہیں رہ پاتی ہو ، تو اس میں زکوۃ واجب نہیں ۔


پگڑی اور ایڈوانس کی زکوۃ
سوال:- مالک مکان و دکان کرایہ دار سے پگڑی یا ڈپازٹ کے طور پر ایک خطیر رقم حاصل کرتے ہیں ، اس رقم کی زکوۃ واجب ہوگی یا نہیں ، اور مالک مکان پر واجب ہوگی یا کرایہ دار پر ؟ (عبد الشکور ، مانصاحب ٹینک)
جواب:- پگڑی کی رقم کی حیثیت موجودہ دور کے اہل علم کے نقطۂ نظر کے مطابق حق قبضہ کے معاوضہ کی ہے ، یعنی جب مالک مکان پگڑی لے کر کسی کو مکان کرایہ پر دیتا ہے تو وہ حق ملکیت اپنا باقی رکھتا ہے اور حق قبضہ کرایہ دار سے فروخت کردیتا ہے ؛ لہٰذا پگڑی مکان دار کی ہوگی ، رقم پر کرایہ دار کا کوئی حق باقی نہیں رہتا ؛ اس لئے اس کی زکوۃ کرایہ دار پر واجب نہیں ہوگی ؛ بلکہ مالک مکان جس تاریخ کو زکوۃ کا حساب کیا کرتا ہے ، اس تاریخ کو پگڑی کی رقم میں سے جتنی رقم باقی رہ جائے اس پردوسری رقموں کے بشمول زکوۃ واجب ہوگی ۔
کرایہ دار ایڈوانس کے طور پر جو رقم ادا کرتا ہے ، وہ اصل میں تو امانت ہے ؛ اس لئے اس میں مالک مکان کو تصرف نہیں کرنا چاہئے ؛ لیکن عملاً ایسا نہیں ہوتا ؛ بلکہ مالک مکان اس میں تصرف کیا کرتا ہے تو اگر ایڈوانس کی رقم بطور امانت لی گئی ہو اور طے پایا ہو کہ مکان خالی کرنے پر ہی رقم واپس کی جائے گی تو اس رقم کی حیثیت رہن کی ہے ، کرایہ دار پر اس کی زکوۃ واجب نہیں ہوگی ؛ کیوںکہ مال رہن میں زکاۃ واجب نہیں ہوتی ، اور اگر مالک نے اس رقم کو خرچ کئے بغیر محفوظ رکھا ہے تو اس پر بھی زکوۃ واجب نہیں ہوگی ؛ کیوںکہ وہ اس کا مالک نہیں ہے ، اور اگر اس نے اس رقم میں تصرف کرلیا اور دوسرے اموال کے ساتھ خلط ملط کردیا تو اس کے تمام پیسوں پر زکاۃ واجب ہوگی ؛ کیوںکہ یہ رقم اب اس کی ملکیت میں آگئی ؛ البتہ جس سال وہ اس رقم کو واپس کرے گا ، اس سال زکوۃ ادا کرنے میں قرض کی رقم منہا ہوجائے گی ۔ واللہ أعلم ۔


نابالغ کے مال میں زکوۃ
سوال:-ہم نے اپنے بچوں کے نام کچھ رقم بینک میں کرائی ہے، یہ بچے چار، چھ اور آٹھ سال کے ہیں، یہ رقم ایک خاص عمر تک پہنچنے کے بعد ان بچوں کو ملے گی، کیا اس رقم میں بھی زکوۃ واجب ہوگی؟(حسن الدین، مہدی پٹنم)
جواب:- زکوۃ ایک عبادت ہے اور عبادتیں بالغوں پر واجب ہوتی ہیں، اس لئے جو رقم آپ نے اپنے بچوں کے نام سے محفوظ کردی ہیں اور ان کو اس کا مالک بنادیا ہے، اس میں زکوۃ واجب نہیں ہوگی: ’’شرط افتراضہا: عقل و بلوغ و إسلام و حریۃ‘‘(درمختار مع الرد: ۳؍۴۷۱)، بالغ ہونے کے بعد اگر اس رقم پر سال گذر جائے تو اس وقت ایک سال کی زکوۃ واجب ہوگی، البتہ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ بینک میں رقم فکسڈ پازٹ کرانا اور اس پر سود حاصل کرنا جائز نہیں ہے اور اگر کرادیا ہو تو رقم وصول کرلی جائے اور اصل جمع شدہ رقم سے زائد جو رقم ملے اسے بلا نیت ثواب غرباء پر خرچ کردیاجائے۔( بشکریہ بصیرت فیچرس)


3
Leave a Reply
 

نورمحمد

وفقہ اللہ
رکن
جزاک اللہ ۔ ۔ ۔

قاسمی صاحب ۔ ۔ عنوان میں اگر لفظ " زکوۃ " کا اضافہ کردیں تو بہتر ہوگا۔۔ میری رائے ہے ۔ ۔ ۔ ( کہ سارے مسائل زکوۃ سے متعلق ہیں )
 
Last edited by a moderator:

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
جزاک اللہ ۔ ۔ ۔

قاسمی صاحب ۔ ۔ عنوان میں اگر لفظ " زکوۃ " کا اضافہ کردیں تو بہتر ہوگا۔۔ میری رائے ہے ۔ ۔ ۔ ( کہ سارے مسائل زکوۃ سے متعلق ہیں )
بصیرت ڈاٹ کوم پر "عنوان"جس طرح تھابعینہ نقل کر دیا گیا ہے۔شکریہ
 
Top