پہاڑو! تم میرے رستے میں آئو یہ نہیں ہوگا ؟

محمد یوسف صدیقی

وفقہ اللہ
رکن
پہاڑو! تم میرے رستے میں آؤیہ نہیں ہوگا؟

( پروفیسر محمد افضل ضیاء)

جب تک مسلمان ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں تلوار تھامے آگے بڑھتے رہے ، فاصلے سمٹتے رہے اور منزلیں طے ہوتی رہیں ۔ کامرانیاں آگے بڑھ بڑھ کر ان کے قدم چومتی رہیں لیکن یہ وہ وقت تھاجب مسلمانوں نے قرآن کو محض حصولِ برکت کا ذریعہ نہیں بنایا تھا۔ یہ اس دور کا قصہ ہے جب قرآ ن قسمیں کھانے کا ذریعہ نہیں بناتھا۔ یہ اس عہد کی کہا نی ہےجب قرآ ن زندوں کی جان نکالنے کے لیے نہیں بلکہ مردہ ضمیروں میں حیات آفریں انقلاب برپا کرنے کے لیےپڑھاجاتا تھا۔ مسلمان اس کی تلاوت سے اپنی زبانوں کو حلاوت بخشتے تو ان کے چہرے نکھر نکھر کر منور ہوجاتے تھے۔ وہ اس کے مطالب ومعانی پر غور وفکر کرتے تو قرآ ن ان نحیف ونزاربدنوں میں کرنٹ پیدا کردیا کرتا تھاجس سے ان کی زندگی واقعی زندگی بن جاتی تھی۔ وہ نحیف ونزار جسموں کے مالک تھے لیکن ان کے دلوں میں ایمانی حرارت کا ٹانک ایسی قوت پید اکردیتا تھاکہ قیصر و کسری سے پنجہ آزمائی کے لیے تیار ہوجاتے تھے اورکفر تمام تر سروسامانیوں کے باوجود ان سے لرزہ براندام رہتا تھا۔ مسلمان قرآن کریم کی تعلیمات کے سانچے میں زندگی ڈھال لیتے تھے تو دنیا میلی نظر سے ان کی طرف دیکھنے کی جرات نہیں کرتی تھی۔ اللہ کے بندے جب تک اللہ کے نائب رہے دنیا پر ان کی حکومت کا سکہ رواں رہا۔ یہ قدم بڑھاتے تو پہاڑ ان کی ہیبت سے سمٹ کر رائی بن جاتے تھے ، صحرا اوردریا ان کی ٹھوکرسے دونیم ہوجاتے تھے ۔ ان اہل ِ ایمان میں سے ہر ایک کہہ سکتا تھا:

ہواؤ تم مجھے اونچا اڑاؤ یہ توہونا ہے پہاڑو تم میرے رستے میں آؤو یہ نہیں ہوگا

بحر و بر پر ان کی حکمرانی تھی، جنگلی جانور ان کا کہا مانتے تھے، دریا انہیں رستے دیتے تھے اور شیر ان کے پہرے دار ہوتے تھے۔
چمکتی ہوئی تلواریں ان کے ہاتھوں میں اس لیے نہیں تھیں کہ وہ دہشت گردی کی علامت تھے۔ وہ دنیا سے اپنی حکومت کا سکہ منوانے کے لیے نہیں، اللہ کی کبریائی کا اقرار کرانے کے لیے نکلتے تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ عزیر ؑ کی خدائی کے دعویداروں کایسوع مسیح کی الوہیت کا نعرہ بلند کرنے والوں سے کوئی جھگڑا نہیں ، انہیں معلوم تھا کہ لکڑی کی مورتیاں پوجنے والے پتھر کے مجسموں کے پجاریوں سے کوئی بیر نہیں رکھتے۔ وہ آگاہ تھے کہ درختوں کے سامنے سربسجود ہونے والے قبروں کی پرستش کرنے والوں سے الرجک نہیں ۔ کھڑوں کی عبادت کرنے والےپڑوںسے مرادیں مانگنے والوں سے بھی ایسی شدید مخاصمت نہیں ،اگرچہ ان کے دلوں میں اختلاف وافتراق ہے ۔ ان کی صفوں میں انتشار وانفصال کی فرماں روائی ہے۔ ان کے ذہن یکسو ہیں لیکن انہیں اس امر سے بھی واقفیت تھی کہ لاالہ الا اللہ کا اسلامی نعرہ دنیائے کفر کی تمام انواع واقسام کےلیےناقابل برداشت ہے۔ کلمہ توحید کا تقاضا یہ ہے کہ تمام معبودان ِ باطلہ کی بے بسی کا اقرار پہلےکیا جائے اور اللہ کی الوہیت کے گیت بعد میں گائے جائیں ۔ جبکہ دنیا کاماحول ہر دور میں ایسا رہا ہے کہ جب بھی اللہ واحد کا تذکرہ کیا جائے توآخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل گھٹنے لگتے ہیں اورجونہی غیر خدا کا ذکر ہو وہ بغلیں بجائے لگتے ہیں۔
ہندوئوں کےلیے سکھ قابل برداشت ہیں۔ یہود فرزندانِ تثلیث سےبرسرِ پیکار نہیں ہوں گے۔ زرتشت بدھ مت سے نفرت نہیں کریں گے۔ مجوس آریہ سماج کے مقابلہ میں کبھی نہیں آئیں گےلیکن جیسے یہ مسلمہ حقیقت ہےکہ اختلافات کے باوجود یہ لوگ ایک دوسرے سے دست بگریباں نہیں ہوتے۔ اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ یہ سب اسلام اورفرزندانِ اسلام کو چند لمحوں کےلیےبھی برداشت نہیں کرسکتے ۔ ادیان باطلہ سے تعلق رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام ایسےٹھوس حقائق کا مجموعہ ہے جن میں سے کسی ایک حقیقت کا بھی کسی دانشمند اور صاحب فہم وفراست کے لیے انکار ممکن نہیں۔ دنیا پر یہ بات کھل چکی ہےکہ اسلام کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے مذہب کا وجود برقرار نہیں رہ سکتا۔ سورج کے مقابلہ میں اگر چھوٹے چھوٹے مٹی کے دیے ، موم کے چراغ اوربرقی قمقمے اپنا وجود نہیں منواسکتے تو اسلام کےلافانی اصولوں اورروشن تعلیمات کے مقابلہ میں موہوم نظریات اورفرضی گورکھ دھندے بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔
باطل پر یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ اسلام کی حقانیت کا سامنا نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام کی لاریب تعلیمات گرجوں اورکلیسائوں کے مبلغین کوبھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں ۔ ادیانِ باطلہ اسلام کے سورج کے سامنے ٹمٹماتے ہوئے چراغ ہیں ، یہ بجھے کہ بجھے۔
اب مسلمانوں کو زیر کرنے کےلیےپلاننگ ہوئی۔ مسلمان کے پاس دو ہتھیار تھے قرآن اورتلوار، طاغوتی طاقتوں نے اس کے ہاتھ سے دونوں ہتھیار چھیننے چاہے، مسلمان اس پر آمادہ نہ ہوئے۔ کفار نے محسوس کیا کہ مسلمان کواس طرح نہتہ کرناناممکن ہے تو انہوں نےپینترا بدلا ۔ اب قرآن مسلمانوں کے ہاتھ میں رہا لیکن یہ دعوت وتبلیغ کا نصاب نہ رہا۔ مسلمان قرآن پڑھتے رہے لیکن اس کے مطالب ومعانی سے روگردانی کی جانے لگی۔ قرآ ن کی تلاوت میں اجر وثواب تلاش کیا جانے لگالیکن اس پر عمل میں سستی سےکام لیاجانے لگا۔ رفتہ رفتہ قرآ ن کو ریشمی غلافوں اور عمدہ طاقچوں میں سجانے کا رواج چل نکلا۔ قرآن کریم کوحصولِ برکت اورمردوں کی بخشش کا ذریعہ جان کر ا س کی تلاوت کےلیے تقریبات کا اہتمام ہونے لگا۔ شادی میں بیٹیوں کو اعلی کاغذ اورعمدہ جلد والے قرآن کریم کے نسخے دینے کی رسم چل گئی، لیکن قرآن ترستا رہا کہ دلہن کس دن اس کی ورق گردانی کرے گی۔
مسلمان کہلانے والوں نے عقائد و عبادات میں بھی قرآن سے رہنمائی لینی چھوڑدی۔ من مانی کا ایسا رواج پڑا کہ آہستہ آہستہ معیشت ، معاشرت،ثقافت، سیاست، عدالت،تجارت اور زندگی کے دیگر شعبوں سے بھی قرآن نکالادے دیاگیا۔ ہر اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن سے ہوتا ہے لیکن کسی اجلاس میں قرآن کی بات نہیں کی جاسکتی۔ ہر گھر میں تبرکا ً قرآنی آیات ڈیکوریشن پیس کے طور پر آویزاں کی جاتی ہیں لیکن انہیں سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ گویا قرآن کریم کو انقلاب آفریں کتاب اورکوڈ آف لائف کے طور پر نہیں بلکہ رسمی طور پر استعمال میں لایا جانے لگا۔
رہی تلوار ، کافر قوتوں نے واویلاشروع کردیا کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیل رہاہے اور مسلمانوں کی صفوں میں چھپے دین دشمن ایجنٹ مشورے دینے لگے ۔ دنیا میں اب رہی نہیں کارگر۔ جب مسلمانوں نےجہاد کے قیامت تک جاری رہنے کے دلائل دیئے تو کہا گیا اس دور میں تلوارنہیں جدید ہتھیار آزمانے کی ضرورت ہے۔ جدید ہتھیاروں میں سب سے بڑا ہتھیار ایٹمی توانائی ہے جب مسلمان اس سے مالامال ہوگئے تو انہیں ا س کی قیمت اورافادیت کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہوئے اس کی حفاظت پر مامور کردیا گیا ۔ ایٹم بم بنانے والے محسن کے بجائے مجرم قرار پائے۔ ہیرو زیرو قرار دیئے گئے۔ جہاد سے روگردانی کے مشوروں سے جب ہم نہتے ہوگئے نہ ہمارے ہاتھ میں قرآن رہا نہ تلوار رہی تو اب ہمارے ایمان کی آزمائش کی جارہی ہے۔ اب قرآن کی بے حرمتی کرکے یہ جائزہ لینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ملتِ اسلامیہ کے کتنے فیصد سپوت ابھی تک اپنے ایمان میں حرارت والی چنگاریاں رکھتے ہیں۔ طاغوتی طاقتوں کو شاید اندازہ نہیں کہ قرآن کریم کے سانچے میں زندگی ڈھالنے والا مسلمان تو اعلی درجے کا مسلمان ہوتا ہے۔ دنیا میں بے عمل سے بے عمل اورادنی سے ادنی مسلمان بھی قرآن کی بے حرمتی پر سیخ پاہوجاتا ہے۔ جذبہ جہا د سے سرشار مسلمان تو اول نمبر کا مسلمان ہوتا ہے جو کفار ومشرکین کے خلاف ہر وقت مسلح رہتا ہےاور وقت آنے پر سودوزیاں سے ماوراء ہو کر اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے میدان میں کود جاتا ہے لیکن مسلما ن مسلمان ہی ہوتا ہےوہ مجاہد نہ ہو ، نمازی نہ ہو ، حاجی نہ ہو تو بھی وہ معرکہ حق و باطل میں یہ نعرہ لگاتے ہو ئے کود پڑتا ہے:

ہری ہے شاخِ تمنا ابھی جلی تو نہیں دبی ہے آگ جگر میں ابھی مگر بجھی تو نہیں
جفا کی تیغ سے گردن وفا شعاروں کی کٹی ہے بر سرِ میداں مگر جھکی تو نہیں​

کافر دنیا جان چکی کہ مسلمان جنگ سے نہیں گھبراتے بلکہ دیوانہ وار مقتل کی طرف لپکتے چلے جاتے ہیں۔ کفن بردوش سر بکف کٹ کٹ کے مرنے اور مر مر کے کٹنے میں یہ عجیب طرح کی لذت محسوس کرتے ہیں۔ بچے یتیم ہونے کا انہیں ڈر نہیں ۔ بیویوں کے بیوہ ہونے کی انہیں فکر نہیں۔ کاروبار اجڑنے سے نہ نہیں ڈرتے۔ افغانستان میں آہن وآتش کی بارش سے یہ نہیں گھبرائے۔
فلسطین اورکشمیر میں ان کی نسلیں گاجراور مولی کی طرح کٹتی رہیں ان کے پائے ثبات میں ذرا بھی ڈگمگاہٹ نہیں آئی۔ عراق میں کشت و خون کا بازار گرم ہوا، مسلمانوں کے خون کے ساتھ ہولی کھیلی گئی لیکن ان کے جذبات کی گرمی میں کمی نہیں آئی۔ ابو غریب جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑیوں سے معصوم بیٹیوں کی فلک شگاف چیخیں اور دلدوز آہیں دنیا بھر میں پھیل گئیں لیکن مجاہدین کےسچے جذبوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ برفانی سیلوں پر اہلِ ایمان کو لٹانے کے تجربات ناکام ہو چکے ۔ غلبہ اسلام کےلیے جہاد کرنے والوں کے مونہوں پر گندگی سے لتھڑے ہوئے زنانہ انڈر ویئر چڑھائے گئے تو وہ تائب نہیں ہوئے۔ امریکی فوجی خواتین عریانی کے لباس میں پیراستہ ہو کر انہیں ورغلاتی رہیں یہ راہِ مستقیم سے نہیں بھٹکے۔ انہیں ننگا کرکے ان پر خونخوار کتےچھوڑے گئے ان کی استقامت میں فرق نہیں آیا بلکہ دنیا بھر میں یہ تحقیق شروع ہوگئی کہ مسلمان آخر کیو ں نہیں ڈرتا، وہ موت پر فریفتہ کیوں ہے؟ قرآن کریم کا قاری قرآن ہی کا ہو کر کیوں رہ جاتا ہے؟ اس جستجو نے قرآن کریم کے نسخوں کی مانگ میں اضافہ کردیاہے۔ قرآن کریم کا مطالعہ کرنے پر دنیا بھر کو مجبور کردیا ہے۔
اب شیطانی ٹولہ "کھسیانی بلی کھمبا نوچے ""کا ترجمان بن کر قرآن کی بے حرمتی پر اتر آیاہے۔ اس کے مقدس نسخوں کو پھاڑنے، اسے بوٹوں سے ٹھکرانے اور اس کے مقدس اوراق کوگٹر میں بہانے کی مکروہ سازشیں ہوچکی ہیں۔ کوتاہ قامت کور چشم اوربد مغزکافر ان بے ہودہ حرکات سے اسلام کوزیر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ اسلام مغلوب ہونے کےلیےنہیں ، غالب ہونے کے لیے آیا ہے۔ دبنا اورمٹنا اس کی فطرت میں ہی نہیں ۔ یہ اپنا سکہ منوانے اور دنیا پر چھاجانے کےلیےآیا ہے۔
کس دور میں اسے دبانے کی کوشش نہیں کی گئی؟ کس عہد میں اس کے خلاف سازشوں کے جال نہیں بنے گئے؟ کس زمانے میں اسے پنپنے اور فروغ پانے کےلیےآزادی دی گئی؟ کافر قوتوں نے کس صدی میں، چلیے کس سال میں، بلکہ کس مہینے ، کس ہفتے ،کس دن، کس گھنٹے، کس منٹ اور کس سیکنڈ میں اسے عروج پانے کے لیےخوشگوار ماحول فراہم کیا؟ اجنبیت کے ماحول میں شروع ہو نے والا اسلام ہر دور میں سازشوں، مخالفت کے جھگڑوں ، مخاصمت کے طوفانوں میں پھیلتا رہا، اس کی لَو بڑھتی گئی۔ اسے جتنا زیر کرنے کی کوششیں کی گئیں یہ اتنا ہی ابھر تا رہا ۔
اسلام کے دامن میں فطرت نے لچک دی ہے اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیدیں گے

ہر دور کا کفر دینِ حق کے داعیوں کو آگے بڑھنے سے روکنے کےلیےانہیں پابند سلاسل کرتا رہا ۔ اہل قلم کے ہاتھوں کو زنجیروں سے جکڑتا رہا۔ ان کی زبانیں بند کرکے آواز ہ حق کو دبانے کی کوشش کرتا رہا ۔ مساجد ومدارس کے ماحول سے خائف رہا اور انہیں ختم کرنے کے منصوبہ بندی کرتا رہا ، قرآن کریم کی عظمتوں اور اس کی اثر آفرینیوں سے مرعوب رہا اور قرآن کی صداقتوں سے ٹکراتے ہو ئے اس کی بے حرمتی کی مذموم جسارتیں کرتا رہا۔ قرآن اللہ کاکلام ہے۔ یہ پھیلتا ہی گیا،اس کی روشنی بڑھتی رہی ، کتاب کی شکل میں محفوظ قرآن سینوں میں محفوظ ہوتا گیا ، نسلیں گزر گئیں ، کفر کے ظالم پنجوں نے اسے جتنا دبانے کی کوشش کی قرآن معصوم بچوں کے سینوں میںمحفوظ ہوتا رہا ۔ دنیا بھر سے کافر طاقتیں قرآ ن کریم کے تمام اوراق تلف کرنے میں خدانخواستہ کامیاب ہو بھی جائیں تو سینوں میں قرآن کو کیسے مٹایا جائے گا۔
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھا یا نہ جائے گا
 
Top