خطبہ جمعۃ المبارک (ابن سلطان)

محمد یوسف صدیقی

وفقہ اللہ
رکن
للہ الاسماء الحسنیٰ

(الرب)

نحمدہ و نصلی ونسلم علیٰ سید الانبیاء وخاتم النبین وعلیٰ آلہ واصحابہ اجمعین
امابعد فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
وللہ الاسماء الحسنیٰ فادعوہ بھا

اور اللہ کے لیے ہیں نام اچھے اچھے پس

ان ناموں کے ساتھ اسے ہی پکارو (اعراف:180)

وقال تعالیٰ فی مقام آخر: الحمد للہ رب العالمین
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو
تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ (الفاتحہ)
سامعین گرامی قدر! قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کے ذاتی نام اللہ کے بعد صفاتی ناموں میں ’’الرحمان‘‘ کا درجہ معلوم ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوا:
قل ادعوا للہ او دعوا لرحمن
ا للہ کہہ کے پکارو یا رحمان کہہ کرپکارو(پکارو صرف اسی کو ) (بنی اسرئیل:110)
یہاں اللہ کے بعد رحمان کا تذکرہ ہے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم میں بھی اللہ کے بعد رحمان کا ذکر ہوا۔
سورہ حشر میں ارشاد ہوا:
ھو اللہ الذی لا الٰہ الا ہو عالم الغیب والشھادۃ ھو الرحمان الرحیم
(الحشر: 22)
اس آیت میں بھی اسماء حسنیٰ میں سب سے پہلے ’’ الرحمان ‘‘کو ذکرکیا گیا ہے۔
امام الانبیائﷺ نے اللہ کے محبوب اور پسندیدہ ناموں کے تذکرے میں دو نام ذکر فرمائے یعنی عبداللہ اور عبد الرحمن ۔ یہاں بھی اللہ کے بعد ’’رحمان‘‘ نام کا تذکرہ فرمایا مگر میں اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام ’’رحمان‘‘ سے پہلے ’’الرب‘‘ پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ’’اللہ ‘‘ کے بعد اسم ’’رب‘‘ کو قرآن نے سب صفاتی ناموں سے زیادہ ذکر فرمایا ہے۔
’’الرحمان‘‘ قرآن مجید میں 57بار آیا ہے اور ’’رب، ربی، ربنا، ربک، ربکم ‘‘ وغیرہ کے لفظوں میں 962مرتبہ آیا ہے۔ ’’ربک‘‘ 242مرتبہ، ’’ربکم‘‘ 119بار، ’’ربکما‘‘33مرتبہ، ’’ربی‘‘ 101بار، ’’رب‘‘67مرتبہ اور اس کے علاوہ دیگر صفاتِ الہیہ کے ساتھ بھی کئی مرتبہ آیا ہے۔
دوسری وجہ:قرآن کریم کی ابتدائی سورت ۔۔۔سورۃ الفاتحہ کے آغاز میں ’’الحمد للہ ‘‘اسم ذات کے بعد اسی صفاتی نام کا تذکرہ ہوا اور فرمایا: ’’رب العالمین‘‘
تیسری وجہ:قرآن مجید میں تقریبا تمام دعائیں جن میں رحمتِ الٰہی کا سوال ہو یا مغفرت و غفران کی طلب ہو وہ دعائیں اسی نام یعنی ’’ رب‘‘ سے شروع ہوتی ہیں۔ ’’ربنا اغفرلی و لوالدی‘‘،’’رب اغفر و ارحم و انت ارحم الراحمین‘‘ علاوہ ازیں قرآن مجید میں بیان کردہ ہر دعا کا آغاز اسی صفت ’’رب‘‘ سے ہوا۔
ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار
ربنا ھب لنا من الدنک رحمۃ
ربنا لا توأخذنا ان نسینا او اخطٔانا
ربنا اننا سمعنا منادیا ینادی للایمان
چوتھی وجہ: اللہ کے نام ’’رب‘‘ کا تذکرہ صفاتی ناموں میں سب سے پہلے بیان کرنے کی وجہ۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ عالمِ ارواح میں تمام اولاد آدم سے اسی کا عہد لیا گیا تھا۔
واذ اخذ ربک من بنی آدم من ظہورہم ذریتہم
و اشہدہم علیٰ انفسہم الست بربکم قالوا بلیٰ
شہدنا ان تقولوا یوم القیٰمۃ انا کناعن ھذا غافلین
(اس واقعہ کو یاد کرو)جب آپ کے پروردگار
نے نکالا اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو اور
خود انہی کو ان کی جانوں پر گواہ بنایا (اور کہا ) کیامیں
تمہارا رب نہیں ہوں سب نے جواب میں کہا کیوں
نہیں ہم سب گواہی دیتے ہیں (یہ اس لیے ہوا) تاکہ
تم قیامت کے دن یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے بے خبر تھے (اعراف: 172)
پھر انبیاء ؑکو مبعوث فرماکر ہر زمانے میں اسی وعدہ ’’الست بربکم‘‘ کی یاد دہانی کروائی گئی۔
حضرت نوح ؑ نے قوم کے لچر اعتراض اور بد زبانی کے جواب میں فرمایا:
یا قوم لیس بی ضلالۃ ولٰکنی رسول من رب العالمین
اے میری قوم! میں گمراہ نہیں ہوں بلکہ
میں تو رب العالمین کا فرستادہ ہوں (اعراف:61)
حضرت ہود ؑ کو قوم نے کم عقلی کا طعنہ دیا تو انہوں نے جواب میں کہا:
یا قوم لیس بی سفاھۃ ولٰکنی رسول من رب العالمین
اے میری قوم! مجھ میں ذرا برابر بھی کم عقلی نہیں
بلکہ میں رب العالمین کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں (اعراف: 67)
حضرت سیدنا ابراہیم ؑ نے قوم کو بر ملا فرمایا:
فانہم عدولی الا رب العالمین
(جنہیں تم اور تمہارے آباء و اجداد پوج
رہے ہیں وہ سب )میرے دشمن ہیں بجز
سارے جہانوں کے پروردگار کے (شعرائ: 77)
نمرود کے شاہی دربار میں سیدنا ابراہیمؑ نے رب کا تعارف کروایا کیونکہ وہ اسی میں جھگڑرہا تھا۔
الم تر الیٰ الذی حاج ابراہیم
فی ربہ ان اٰتاہ اللہ الملک
کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھاجو ابرہیم
سے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا رہاتھا
سیدنا ابرہیمؑ نے فرمایا:
ربی الذی یحی و یمیت
میرا رب وہ ہے جو زندہ
کرتا ہے اور مارتا ہے
موسی ؑ کوہِ طور پر پہنچے، آواز آئی:
انی انا اللہ رب العالمین
اے موسی! یقینا میں ہی تیرا اللہ
ہوں سارے جہانوں کا پروردگار ہے (قصص:30)
پھر حکم ہو اکہ فرعون کے دربار میں جا کر نعرۂ تکبیر لگائیے او ر کہیے:
انا رسول رب العالمین
بلاشبہ ہم ( میں اور ہارون )
رب العالمین کے بھیجے ہوئے ہیں (شعرائ: 66)
فرعون نے جواب میں جب پوچھا:
وما رب العالمین
رب العالمین کیا (چیز )ہے
تو سیدنا موسی ؑ نے رب العالمین کا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا:
رب السموات و الارض وما بینھما
ربکم و رب آبائکم الاولین
رب المشرق و الغرب و ما بینھما (شعرائ:24,26,28)
سیدنا موسی ؑ کے قتل کا فیصلہ ہوا تو پارلیمنٹ میں رجل مومن نے تقریر کرتے ہوئے کہا:
اتقتلون رجلا ان یقول ربی اللہ
کیا تم ایک شخص (موسی) کو محض
اس بات پر قتل کرنا چاہتے ہو کہ
وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے (المومن: 28)
فرعون نے سیدنا موسی ؑ کے معجزات کو جادو کہا، مقابلے میں کئی جادوگروں کو لے کر آیا، جادو گر عصائے موسی ؑ کے کرشمے کو دیکھ کر سمجھ گئے کہ یہ جادو نہیں ہے تو انہوں نے اعلانِ ایمان کرتے ہوئے کہا:
آمنا برب العالمین
رب موسی ھارون
ہم رب العالمین پر ایمان لائے
یعنی موسی اور ھارون کے رب پر (شعرائ: 47,48)
فرعون نے ایمان قبول کرنے پر جادوگروں کوجان سے مارنے کی دھمکی دی تو جادوگر جواب میں کہنے لگے:
لا ضیر انا الیٰ ربنا منقلبون
کوئی حرج نہیں ہم تو اپنے رب کی طرف پلٹنے والے ہیں (شعرائ: 62 )
سیدنا موسی ؑ اپنی قوم کو لے کر مصر سے نکلے، فرعون نے اپنے لشکر کے ساتھ تعاقب کیا بحر قلزم پر پہنچے ، بنی اسرائیل گھبرائے اور کہا:
انا لمدرکون
یقینا ہم پکڑے گئے ہیں
ایسے وقت میں سیدنا موسی ؑ نے بڑے اطمینان اور حوصلے سے کہا:
کلا ان معی ربی سیہدین
ہرگز نہیں! یقین مانو میرا رب میرے
ساتھ ہے وہ ضرور مجھے راہ دکھا ئے گا (شعرائ: 62)
حضرت سیدنا عیسی ؑ ماں کی گود میں بولے سب سے پہلے اپنی عبدیت کا تذکرہ کیاپھر والدہ محترمہ کی پاکدامنی کا اعلان فرمایا اور آخر میں کہا:
ان اللہ ربی و ربکم فاعبدوا ھذا ْصراط مستقیم
میر ا اور تم سب کا پروردگار صرف اللہ ہے
تم سب اسی کی عبادت کرو یہی سیدھا راستہ ہے (مریم:36)
قرآ ن ۔۔۔رب : تمام انبیاء ؑ کرام اپنے اپنے دور میں اپنی اپنی امت کے سامنے رب کا تعارف پیش کر کے انہیں الست بربکم والا عہد و پیمان یاد لاتے رہے۔ مگر اما م الانبیاء ﷺ پر نازل ہونے والے قرآن نے بڑے عجیب ، بہترین ، نرالے اور حسین انداز میں رب کا تعارف کروایا۔
سورت الانعام میں فرمایا:
بدیع السموات والارض انی
یکون لہ ولد و لم تکن صاحبۃ
و خلق کل شئی و ھو بکل شئی علیم
وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے
اللہ کی اولاد کیسے ہو سکتی ہے حالانکہ
اس کی بیوی نہیں ہے اور اللہ نے ہر چیز
کو پید اکیا اور وہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے (الانعام: 101)
ذلکم اللہ ربکم لا الہ الا ہو خالق کل
شئی فاعبدوہ وھو علیٰ کل شئی وکیل
یہ ہے رب تمہارا اس کے علاوہ معبود کوئی
نہیں ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے تو تم اسی
کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز کا کارساز ہے (الانعام: 102)
ایک اور جگہ پر ارشاد ہوا:
خلق السموات والارض بالحق یکور الیل علی النہار
و یکور النہار علی الیل و سخر الشمس و القمر کل یجری
لاجل مسمی الا ہو العزیز الغفار
خلقکم من نفس واحدۃ ثم جعل منہا زوجہا و انزل لکم
من الانعام ثمٰنیۃ ازواج یخلقکم فی بطون امہاتکم خلقامن
بعد خلق فی ظلمات ثلات ذلکم اللہ ربکم لہ الملک لا الہ
الا ہو فانی تصرفون
نہایت اچھی تدبیر سے اس نے آسمانوں اور زمین کوبنایا
وہ رات کو دن پر اور دن کو رات پر لپیٹ دیتا ہے اوراس
نے سورج کو کام پر لگا رکھا ہے ہر ایک مقرر مدت تک چل
رہا ہے یقین مانوکہ وہی زبردست اور مغفرت کرنے والا
ہے اس نے تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا ہے پھر اسی
سے اس کا جوڑا پیدا کیااور تمہارے لیے جوپایوں میں سے
آٹھ نر و مادہ اتارے وہ تمہیںتمہاری مائوں کے پیٹوں میں
ایک بناوٹ کے بعددوسری بناوٹ پربناتا ہے تین اندھیرں
میں یہی اللہ تعالیٰ تمہارارب ہے اسی کے لیے بادشاہت ہے
ا س کے سوا کوئی معبود نہیں پھر تم کہاںبھٹک رہے ہو (الانعام:5,6)
سامعین گرامی قدر: میں اس سلسلہ میں مزید کتنی آیتیں پیش کروں کہ نبی آخر الزمانﷺ پر اترنے والی لاریب کتاب نے اولاد آدم کو رب کا تعارف کتنے حسین انداز میں کرایا ہے۔
صاحب ذوق حضرات سورت المومن آیت نمبر 62,65سورت فاطر آیت نمبر 11سورت انبیاء آیت نمبر 92سورت الانعام آیت نمبر102دیکھ سکتے ہیں ۔
انبیاء کرام ؑ کی دعائیں :قرآن کریم نے انبیاء کرام ؑ کی کئی دعائوں کا تذکرہ فرمایاہے وہ تمام دعائیں ’’رب ‘‘اور’’ ربنا‘‘ سے شروع ہوتی ہیں۔
سیدنا آدم ؑ نے دعا مانگتے ہوئے کہا:
ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا و ترحمنا لنکونن من الخاسرین
اے ہمارے پالنہار! ہم نے اپنا نقصان کیا ہے اگرتو
ہماری مغفرت نہیں کرے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گاتو
واقعی ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے (الاعراف:23)
سیدنا نوح ؑ نے دعا مانگتے ہوئے کہا:
رب لا تذر علیٰ الارض من الکافرین دیارا
اے میرے رب! تو روئے زمین
پر کسی کافر کو رہنے سہنے والا نہ چھوڑ (نوح: 26)
سیدنا ابراہیم ؑ کی تمام دعائیں اسی نام سے شروع ہوتی ہیں:
ربنا تقبل منا
ربنا و اجعلنا مسلمین لک
ربنا و ابعث فیہم رسولا منہم
(بقرۃ:127,128)
اولاد مانگتے ہوئے عرض کیا:
رب ھب لی من الصالحین
رب اجعلنی مقیم الصلوۃ
ربنا اغفرلی ولوالدی
سیدنا یوسف ؑ نے یوں دعا مانگی:
رب السجن احب الی مما یدعوننی الیہ
اے میرے رب! جس بات کی طرف یہ عورتیں
بلا رہی ہیں اس سے تو مجھے جیل خانہ بہت پسند ہے (یوسف: 33)
رب قد آتیتنی من الملک
اے پروردگار! تو نے مجھے بادشاہی عطا فرمائی (یوسف:101)
حضرت ایوب ؑ کے بارے ارشاد ہوا:
و ایوب اذ نادیٰ ربہ
اور ایوب کی اس حالت کو یاد کرو
جب اس نے اپنے رب کو پکارا (انبیائ:83)
حضرت زکریا ؑ نے یوں دعا مانگی:
رب ھب لی من لدنک ذریۃ طیبۃ
اے میرے رب! مجھے اپنے پاس
سے پاکیزہ اولاد عطا فرما (آل عمران: 38)
امام الانبیائﷺ کی دعائیں بھی’’ رب‘‘ اور’’ ربنا‘‘ کے لفظوں سے شروع ہوتی ہیں:
قل اعوذ بر الفلق
قل اعوذ برب الناس
ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ
ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا
اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہاسے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا یہ کلمات مصیبت اور سختی کے وقت کہا کرو:
اللہ اللہ ربی لا اشرک بہ شیئا
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے صبح اور شام کے وقت کہا:
رضیت باللہ ربا و بالا سلام دینا و بمحمد رسولا
اللہ قیامت کے دن یقینا اس شخص سے راضی ہو جا ئیں گے۔
قرآن میں کسی مقام پر آیا:
رب السموات و رب العرش العظیم
سات آسمانوں کا رب اور عرش
عظیم کا رب (کون ہے؟ ) (مومنون:86)
کہیں فرمایا:
رب العرش الکریم
(مومنون:116)
ایک جگہ پر فرمایا:
رب المشرقین و رب المغربین
(الرحمان:17)
رب کا معنی:رب کا مادہ ’’ر،ب،ب‘‘ہے جس کا ابتدائی اور بنیادی معنی تربیت اور پرورش کا ہے۔ پروان چڑہانا اور نشو نما دینا۔
ربیب اور ربیبہ اس لڑکے اور لڑکی کو کہتے ہیں جسے کوئی شخص پال رہا ہو۔ اس بچے کو بھی ربیب کہتے ہیں جو پچھ لگ ہو یعنی جس عورت سے شادی کی ہے اس عورت کی پہلے خاوند سے اولاد ہو۔
پالنے والی دایہ کو بھی عربی میں ربیبہ کہتے ہیں۔ عربی زبان میں سوتیلی ماں کو رابہ کہتے ہیں اس لیے کہ وہ بچے کی حقیقی ماں نہیں ہوتی مگر بچے کی پرورش کرتی ہے۔راب سوتیلے والد کو کہا جاتا ہے۔
رب کا معنی و مفہوم صرف پرورش کرنا ، پالنا نہیں ہے بلکہ رب کا ایسا وسیع اور گہرا مفہوم ہے جس کی ادائیگی کے لیے اردو اور پنجابی میں کوئی لفظ نہیں ہے۔
علامہ بیضاوی ؒ نے رب کا معنی کیا ہے:
تبلیغ الشئی الیٰ کمالہ شیئا فشیئا
اہل سنت کے لغت کے مشہور امام راغب ؒ نے معنی کیا ہے:
انشاء الشئی حالا فحالا الیٰ حد التمام
فارسی میں اس کا ترجمہ ہوگا: چیز ے را بتدریج بحد کمال رے اسانیدن۔
اردو میں کہیں گے دنیا کی ہر شئی کو سیڑھی بہ سیڑھی ، درجہ بدرجہ اور منزل بہ منزل نشو نما دے کر حد کمال تک پہنچا دینا ۔ جیسے ایک باغبان پہلے بیج بوتا ہے جب ا س بیج سے کونپل نکل کر شاخ کی صورت اختیار کر لیتی ہے تو باغبان اسے پانی دیتا ہے جب پودا بڑا ہو جاتا ہے تواسے قلم کرتا ہے، مقصد باغبان کا ہوتا ہے کہ پودا اپنے کمال کو پہنچے ۔ جب وہ کمال کو پہنچتا ہے تو وہ پتے اور پھل پھول لاتا ہے۔اسی طرح مالک حقیقی (اللہ رب العالمین ) بھی اپنی مخلوق کی پرورش بایں طور کرتا ہے کہ کائنات کی جس چیز کو زندگی کے جس موڑ پر اورجس وقت جس طرح کی چیز ضرورت ہوتی ہے وہی چیز اپنی قدرت سے عطا کرتا ہے۔
کیا تم نہیں جانتے ہو ؟ کہ ماں کے پیٹ میں اور تین اندھیروں میں جب بچے کے وجود میں روح پھونکی جاتی ہے اور اسے بھوک اور پیاس محسوس ہونے لگتی ہے ،وہ مانگنے کے قابل نہیں ہوتا ، بول نہیں سکتا، ہاتھ اٹھا نہیں سکتا، جو ہستی اس بچے کی رمزیں سمجھ کر ماں کا خون ناف کے ذریعہ اس کی خوراک بنا دیتا ہے اسے رب کہتے ہیں۔ ماں کے پیٹ سے باہر آنے کے بعد جب دایہ اس کے ناف والے راستے کو کاٹ دیتی ہے اور بچہ رونے لگتا ہے تو جو ذات اس کے کان میں کہتی ہے کہ گھبرا نہیں ایک راستہ خوراک والا واپس لیا ہے تو تیری ماں کی محبت بھری چھاتی میں دودھ کی دو نہریں جاری کردی ہیں اسے رب کہتے ہیں۔
قرآ ن کریم نے اس طرف اشارہ کیا ہے:
ولقد خلقنا الانسان من سلٰلۃ من طین
ثم جعلنٰہ نطفۃ فی قرار مکین
ثم خلقنا النطفۃ علقۃ فخلقنا العلقۃ مضغۃ فخلقنا
المضغۃ عظٰما فکسونا العظام لحما ثم انشانٰہ خلقا
اخر فتبٰرک اللہ احسن الخالقین
بلاشک ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا
پھر ہم نے اسے نطفہ بنایا ایک محفوظ مقام میں پھرہم
نے نطفے کو خون کا لوتھڑا بنایا پھر ہم نے خون کے لوتھڑے
کو (گوشت کی )بوٹی بنادیا پھر ہم نے بوٹی کوہڈی بنادیا
پھر ہم نے ہٖڈیوں پر گوشت چڑھا دیاپھر ہم نے اسے
ایک دوسری ہی مخلوق بنا دیا پس برکت والی ذات اللہ کی
ہے جو تمام صناعوں سے بڑھ کر ہے۔ (المومنون: 12,13,14)
اللہ تعالیٰ رب ہے جو ہر ایک کی تربیت کر رہا ہے ، اسے دنیوی منافع کے حاصل کرنے کے طور طریقے ودیعت کر رہا ہے ۔ قربان جائوں دو دن کے بچے کو ماں کے پستان سے دودھ چوسنے کا طریقہ سمجھادیا۔ بلی اور کتیا کے بچوں کویہ بھی سمجھا دیا کہ تمہاری غذا کہا ں ہے؟ اور اسے حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ مرغی کے چوزوں کو سمجھا یا کہ خطرات کے بادل منڈلائیں اور اوپر سے چیل حملہ آور ہو تو تمہاری پناہ گاہ ماں کے پروں کے نیچے ہے۔
وہی رب ہے جس نے ہر چیز کی پرورش کا بہترین انتظام کیا ہے۔ تم نے کبھی نہیں دیکھا ؟ کہ چڑیا ابھی انڈا دینے نہیں پاتی کہ آنے والے بچوں کے لیے چڑیا اور چڑا گھر تیار کرتے ہیں پھر انہیں کون سمجھا رہا ہے؟ کہ گھونسلہ اس طرح بنائو کہ انڈے اور بچے گرنے نہ پائیں اور معصوم اور نازک بچوں کو تنکے نہ ستائیں پھر وہ انڈوں کو اپنے پروں میں چھپائے رکھتے ہیں ، جب بچے نکلتے ہیں تو دور دور سے ان کے لیے نرم غذا (چھوٹے چھوٹے کیڑے ) تلاش کرکے لاتے ہیں، میلوں سے بچوں کی کشش انہیں کونسلے کی طرف لولٹنے پر مجبور کرتی ہے۔ حد ہے رب نے تربیت کی کہ چڑیا کا چار دن کا بے پر و شعوربچہ جب بیٹ کرتا ہے تو گھونسلے سے باہر کی طرف رخ کرتا ہے ۔ یہ ادب اور ایسے سلیقے بچے کو کون سکھارہا ہے؟
رب بمعنی مالک: رب کا اساسی اوربنیادی معنی پرورش کرنا ، تربیت کرنا، نشوو نما دینا اور پروان چڑہانا ہے۔ اسی معنی کے نتیجے میں رب مالک کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے:
سبحان ربک رب العزت عما یصفون
تیرا رب جو عزت و اقتدار کا مالک ہے ان تمام
نقائص سے پاک ہے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں (صافات: 182)
ایک موقع پر مشرکین سے پوچھا گیا:
من رب السموات السبع و رب العرش العظیم
ساتوں آسمانوں کا اور عرش عظیم کا مالک کون ہے؟ (مومنون: 86)
ایک جگہ پر ارشاد ہوا:
فلیعبدوا رب ھذا لبیت
لہذا انہیں چاہیے کہ اس گھر کے مالک کی عبادت کریں (قریش: 3)
رب بمعنی مطاع، حاکم، متصرف، سردار:قرآن کریم نے یہود و نصاریٰ کے ایک نظریے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
اتخذوا احبارہم و رہبانہم اربابا من دون اللہ
انہوں نے اللہ کے بجائے اپنے
علماء اور درویشوں کو رب بنا لیا (توبہ: 31)
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ جو عیسائیت سے اسلام کی طرف آئے تھے انہوں نے یہ آیت سن کر عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہم میں سے کوئی بھی اپنے علماء او ربزرگوں کو رب نہیں مانتا تھا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: حرام و حلال کے معاملات میں بلادلیل ان کی اطاعت کرنا او ران کے فیصلوں کومان لینا یہی رب ماننا ہے۔
حضرت ہوسف ؑ نے رہائی پانے والے قیدی سے کہا:
اذکرنی عند ربک
اپنے رب (مراد بادشاہ ، حاکم ) سے میرا ذکر کرنا (یوسف: 42)
یہی رہائی پانے والا قیدی جب یوسف ؑ کی رہائی کا پروانہ لے کر جیل پہنچا تو حضرت یوسف ؑ نے فرمایا:
ارجع الیٰ ربک
اپنے رب کے پاس واپس چلے جائو
(کیونکہ مصری لوگ بادشاہ کو امر و نہی
کا مالک سمجھتے تھے اور اس کی فوقیت و
سرداری و بالادستی کو مانتے تھے ) (یوسف: 50)
یاد رکھیے! رب کا لفظ جب غیر اللہ کے لیے استعمال ہوگا تو وہ کسی طرف نسبت کے ساتھ ہوگا۔ یعنی کسی کی طرف مضاف ہوگا جیسے: ’’اذکرنی عند ربک ‘‘، ’’ارجع الیٰ ربک ‘‘ یا ’’رب البیت‘‘ گھرکا مالک ،’’ رب المال ‘‘مال کا مالک، ’’رب الغنم‘‘ ، ’’رب ابل ‘‘ اونٹ اور بکری کامالک۔
علامہ ابن کثیر ؒ نے لکھا ہے:
ولا یستعمل الرب لغیر اللہ بل بالاضافۃ
غیر اللہ کے لیے رب کا لفظ استعمال نہیں
کیا جاتا ہاں اضافت کے ساتھ ہو سکتا ہے
(جیسے رب البیت، رب المال )
امام راغب ؒ نے فرمایا:
ولا یقال الرب مطلقا الا للہ المتکفل بمصلحۃ الموجودات
اور مطلق طور پر (یعنی اضافت کے بغیر )
رب صرف اللہ پر بولا جاتا ہے جو تمام مخلوق
کی مصلحتوں کا کفیل اور ضامن ہے
رب کی جمع ارباب ہے۔ سیدنا یوسف ؑ نے فرمایا:
ء ارباب متفرقون خیر ام اللہ الواحد القہار
کیا کئی معبود جدا جدا بہتر ہیں یا اللہ اکیلا غالب؟ (یوسف: 39)
اللہ تعالیٰ کی ربوبیت دو طرح سے ظہور پذیر ہو رہی ہے۔ ایک ہے ربوبیت ِ عامہ ، جس سے بلا تفریق سب فائدہ اٹھارہے ہیں۔ جیسے : زمین، سورج، چاند، ستارے اور ربوبیت کی دوسری قسم ہے ربوبیت ِ خاصہ جو فرق سے عطا ہو رہی ہے۔ جیسے: روزی ، دولت، اولاد، عزت، صحت، حکومت وغیرہ۔
ْذہن میں رکھیے ! رب کا معنی صرف پرورش کنندہ نہیں ہے بلکہ اسی معنی کے نتیجے میں وہ مالک ، آقا، منتظم، مدبر، مطاع، متصرف، وکیل، ان سب معنوں میں وہ کائنات کا رب ہے۔ کائنات اور العالمین کے احاطہ میں کون کون سے عالَم اور کتنے جہان ہیں ان کو کوئی نہیں جانتا ۔ رب العالمین نے خود فرمایا:
وما یعلم جنود ربک الا ہو
اور تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا (المدثر: 31)
وما علیناالا البلاغ المبین
 
Top