بیت بازی کا کھیل

محمد شہزاد حفیظ

وفقہ اللہ
رکن
یہ ہیں خاموش اگر، اس کو غنیمت جانو
یونہی جذبات میں ہلچل نہیں ڈھونڈا کرتے

پیچھے کھائی ہے تو آگے ہے سمندر گہرا
مسئلہ ایسا ہو تو پھر حل نہیں ڈھونڈا کرتے
 

سیما

وفقہ اللہ
رکن
رفیقِ زندگی تھی اب انیسِ وقتِ آخر ہے
ترا اے موت ہم یہ دوسرا احسان لیتے ہیں​
 

محمد شہزاد حفیظ

وفقہ اللہ
رکن
بادباں کھول کے کشتی کو خدا پہ چھوڑا
اُس کی تقدیر ہے ڈُوبے یا کنارے ٹھہرے

ایسے روشن ہوئے آنکھوں میں تیری یاد کے چاند
جیسے پلکوں پہ کہیں آ کے ستارے ٹھہرے
 

سیما

وفقہ اللہ
رکن
یہ کس مقام پہ سوجھی تھجے بچھڑنے کی
کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے


اب پھر سے ،،ی،،
[]---​
 

سیما

وفقہ اللہ
رکن
نہ کر خیال تلافی کہ میرا زخم وفا
وہ زخم ہے جسے اچھا نہ کر سکے تو بھی​

اب پھر سے ،،ی،،
 

سیما

وفقہ اللہ
رکن
اب کے ہم بچھڑے تو شايد کبھي خوابوں ميں مليں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں ميں مليں
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں ميں وفا کے موتی
يہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں ميں مليں​

اگلا شعر ،،ن،،سے شاید؟
 

نورمحمد

وفقہ اللہ
رکن
یاد گر آتی رہے' مٹتے ہیں دل کے فاصلے
تم بھلا دو گر تو دل کے پاس رہتا کون ہے



لو جی . . . پھر "ی" سے ..............................
 

سیما

وفقہ اللہ
رکن
یہ سادگی نہیں تو اُسے اور کیا کہوں
پھر اسماں سے مجھ کو بھلائی کی اس ہے
جانے ھوائے شب کی اداؤں کو کیا ھوا
شوریدہ سر ہے اور دریدہ لباس ہے

کرامت بخاری

اگلا شعر ،،ی،، سے​
 

سیما

وفقہ اللہ
رکن
رنگ شفق سے آگ شگوفوں میں لگ گئی
ساغر ہمارے ہاتھ سے چھلکا تو رو دیئے

خمار بارہ بنکویَ

اب پھر سے ،،ی،،
 

سیما

وفقہ اللہ
رکن
مغموم نے کہا ہے:
یہ خوش نظری خوش نظر آنے کے لئے ہے
اندر کی اداسی کو چھپانے کے لئے ہے

سعود عثمانی
زبردست بہت ہی زبردست:)/\:) :->~~



یہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گزرا
کہ اس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی​
 
Top