بیت بازی کا کھیل

محمد شہزاد حفیظ

وفقہ اللہ
رکن
یہاں کوئی ایسا نہ ملا جس پر جان لٹا دیتے
ہر کسی نے دیا دھوکہ کس کس کو سزا دیتے

اپنا درد دل میں دبائے بیٹھے ہیں
اگر کرتے بیان تو محفل کو رلا دیتے
 

محمد شہزاد حفیظ

وفقہ اللہ
رکن
یہ جوانی جو تیرے نام سے بدنام رہی
اسے اپنانے کی کسی روز جرات کر لے

دے رہا ہے اجالے میری آنکھوں کے عوض
دل کی یہ ضد ہے پھر بھی یہ تجارت کر لے
 

محمد شہزاد حفیظ

وفقہ اللہ
رکن
اس کی جفائیں مجھ کو گھائل نہ کر سکیں
وہ جفا کر کے خود ہی میری ڈھال بھی ہوا

زخموں چور دل تھا لیکن سنبھل گیا
اس زندگی میں بارہا یہ کمال بھی ہوا

 

محمد شہزاد حفیظ

وفقہ اللہ
رکن
یہ مانا ! آدمی بے شک ہے مجبورِ مشیت بھی
مگر تم ساتھ بینائی کے کھو بیٹھے بصیرت بھی

تعجب ہے ہوئے جاتے ہو تم مایُوس کیوں آخر؟
بھُلا دی تم نے اپنے دل سے کیا میری محبت بھی
 

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن
یہ جو پتھروں میں چھپی ہوئی ہے شبیہ یہ بھی کمال ہے
وہ جو آئینے میں ہُمک رہا ہے وہ معجزہ بھی تو دیکھتے

افتخار عارف
 

محمد شہزاد حفیظ

وفقہ اللہ
رکن
دل ہی دل میں ڈرتا ہوں کچھ تجھے نہ ہوجائے
ورنہ راہِ اُلفت میں جائے جان تو جائے

میری کم نصیبی کا حال پوچھتے کیا ہو
جیسے اپنے ہی گھر میں راہ کوئی کھو جائے


(سرور عالم راز سرور)
 

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن
یہ رات بھی تو حقیقت ہے تلخ و تند و درشت
اسے سحر کا تصور مٹا نہیں سکتا
مجھے تو نیند نہیں آئيگی کہ میرا شعور
شبِ سیاہ سے آنکھیں چرا نہیں سکتا

احمد ندیم قاسمی
 

محمد شہزاد حفیظ

وفقہ اللہ
رکن
اک ذرہء حقیر کی قوت تو دیکھئے
تسخیر کائنات کو آساں بنا دیا

رُخ پر ترے ٹھہر کے مری چشم شوق نے
آرائش جمال کو آساں بنا دیا



(سید محمد حنیف اخگر - ہندوستان)
 
Top