بیت بازی کا کھیل

محمد شہزاد حفیظ

وفقہ اللہ
رکن
یہ کیا اندر ہی اندر بجھ رہے ہو
ہواؤں سے رقابت چھوڑ دی کیا

مناتے پھر رہے ہو ہر کسی کو
خفا رہنے کی عادت چھوڑ دی کیا


(لیاقت علی عاصم)
 

محمد شہزاد حفیظ

وفقہ اللہ
رکن
یہ کس کے اشک ہیں اوجِِ فلک تک
کوئی روتا رہا ہے رات بھر کیا

چمن میں ہر طرف آنسو ہیں جاوید
تری حالت کی سب کو ہے خبر کیا


(عبداللہ جاوید)
 

محمد شہزاد حفیظ

وفقہ اللہ
رکن
کلر ٹی وی تو ڈبے سے ہی پہچان جاؤنگی
فرج بھی ساتھ لے آئے تو تم کو مان جاؤنگی

میں ائیر پورٹ پر آؤنگی اپنی جان کو لینے
سوزکی وین بھی لاؤنگی اس سامان کو لینے



:-(||> :-(||> :-(||>
 

محمد شہزاد حفیظ

وفقہ اللہ
رکن
اب اُسکی محبت کی کوئی کیا مثال دے
جس نے کاٹ کہ اپنا پیٹ بچوں کا کھلایا ہوگا

کی تھی سقاوت جس نے عمر بھر بچوں کے لیئے
کیا گزری ہوگی اُس باپ پر جب ہاتھ میں‌ آیا کاسا ہوگا
 

محمد شہزاد حفیظ

وفقہ اللہ
رکن
یاں تو دل ہی نہیں‌ ہے پھر کیا دیں
یہ تو مانا کہ دل رُبا ہیں آپ

کون سا دل نہیں تمہاری جا
جلوہ فرما ہر ایک جا ہیں آپ


(جناب میر مہدی صاحب مجروح دہلوی )
 

محمد شہزاد حفیظ

وفقہ اللہ
رکن
نظارہ منظروں کی کئی پرتوں سے عبارت ہے
کوئی ہو دیدہء بینا نظارے سوچتے ہوں گے

اُنہیں معلوم کب تھا آگ جنگل ہی نگل لے گی
شرارے مثلِ جگنو ہیں، شرارے سوچتے ہوں گے
 

محمد شہزاد حفیظ

وفقہ اللہ
رکن
نیندوں کے دیس جاتے کوئی خواب دیکھتے
لیکن دیا جلانے سے فرصت نہیں‌ ملی

تجھ کو تو خیر شہر کے لوگوں کا خوف تھا
اور مجھ کو اپنے گھر سے اجازت نہیں ملی


(نوشی گیلانی)
 

محمد شہزاد حفیظ

وفقہ اللہ
رکن
رُت متوالی چاند نشیلا رات جواں
گھر کی آمد خرچ یہاں جوڑو مت

ابر جھکا ہے چاند کے گورے مکھڑے پر
چھوڑو لاج لگو دل سے منہ موڑو مت



(عمیق حنفی)
 

محمد شہزاد حفیظ

وفقہ اللہ
رکن
یہ لگ رہا ہے، ابھی گئے ہیں بَرس کے، یادَوں کے کالے بادل
کسی کے حُسنِ نظر کا پرتَو ہے، ورنہ دل میں‌ دَھنک سی کیوں ہے

اگر یہ سمجھا رہے ہو خود کو، کہ زخم اب سارے بھر گئے ہیں
تو رِس رہا ہے لہو کہاں سے، یہ تازہ خوں کی مہک سی کیوں ہے


ضامن جعفری
 
Top