حقیقت ِ کعبہ

qureshi

وفقہ اللہ
رکن
حقیقت ِ کعبہ
حضرت جی سے مراد حضرت العلام مولانا اللہ یار خان ؒ ہیں
( عمرہ 1977ئ)
حضرت جی ؒ نے 1975ء کے ایک مکتوب میں یوں تحریر فرمایا :
’’ گزشتہ سال آنحضرت ﷺ نے آتے وقت فرمایا تھا کہ جب ہجوم نہ ہو تو آنا تا کہ روضۂ اطہر ﷺ کے قریب بیٹھ کر قریب سے فیوضات حاصل کرنا‘ بہت فائدہ ہو گا۔‘‘
حج کے موقع پر رش کی وجہ سے اس قدر قربت اور سکون کے لمحات کہاں ملتے ہیں۔ یہ صرف عمرہ کے دوران ممکن تھا چنانچہ حج ِثانی کے بعد حضرت جیؒ عمرہ کے لئے اکثر بے قراری کا اظہار فرمایا کرتے۔
جون 1976ء میں آپؒ صوبہ سرحد کے دورہ پر تھے ۔ مولوی سلیمان نے عمرہ سے واپسی پر پشاور میں حضور ﷺ کا یہ پیغام دیا کہ آپؒ مع احباب ِ خاص عمرہ کے لئے آئیں تاکہ تکمیل ہو جائے ۔ ساتھیوں کو اطلاع ہوئی تو احباب کی کثیر تعداد عمرہ کے لئے تیار ہو گئی جس کے پیش ِنظر برّی راستے سے سفر کا پروگرام بنا۔ اوائل 1977ء میں بذریعہ بس سفر کے لئے درخواست دی لیکن یہ پروگرام پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ اس وقت حضرت جیؒ کی عمر ستر سال سے متجاوز تھی اور صحت‘ خشکی کے راستے اس طویل سفر کی متحمل بھی نہ تھی ۔ بالآخر طے پایا کہ ہوائی جہاز سے سفر کیا جائے۔ آپؒ کی منظوری سے عمرہ پر ساتھ جانے والے احباب کی حتمی فہرست تیار ہوئی اور مارچ 1977ء میں ویزا کے لئے سعودی سفارت خانے میں درخواستیں جمع کرادیں۔ اس فہرست میں چودہ احباب کے علاوہ گیارہ خواتین بھی تھیں۔
9 مارچ 1977ء کو حضرت جیؒ مع احباب راولپنڈی پہنچے اور اسی روز سفارت خانے سے ویزے بھی مل گئے۔ رات کی فلائٹ سے کراچی روانگی ہوئی۔ دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے ساتھیوں کی کثیر تعداد نے دعاؤں کی درخواست کے ساتھ آپؒ کو اسلام آباد ایئر پورٹ سے رخصت کیا۔ اس وقت برِصغیر کے تمام مشائخ اس طرح ساتھ چل رہے تھے جس طرح بادل ساتھ چل رہے ہوں۔ فلائٹ قریباً گیارہ بجے کراچی پہنچی تو یہاں بھی کراچی کے ساتھی استقبال کے لئے موجود تھے ۔ حضرت جیؒ نے ایئرپورٹ کی مسجد میں مختصر قیام کیا ۔ احرام باندھنے کے بعد اجتماعی دعا ہوئی اور رات پونے دو بجے پی آئی اے کی فلائٹ سے سوئے حجاز روانگی ہوئی۔ جدّہ پہنچے تو نماز ِفجر کا وقت تھا۔ ایئر پورٹ کی مسجد میں نماز ادا کرنے کے بعد ایک طویل اور تھکا دینے والے مرحلے کا آغاز ہوا۔ حصولِ کرنسی اور دیگر انتظامات کے لئے بھاگ دوڑ شروع ہوئی لیکن ہر قدم پر اس قدر رکاوٹوں سے واسطہ پڑا کہ ایئرپورٹ پر کئی گھنٹے صرف ہو گئے۔ منزل کی قربت کے احساس کے ساتھ یہ طویل انتظار خاصا اعصاب شکن تھا۔ اس دوران حضرت جیؒ کا قیام ایئرپورٹ کی مسجد میں ہی رہا۔ بالآخر یہ مرحلہ طے ہوا تو تین ٹیکسیوں میں لبیک اللھم لبیک کے نعروں کے ساتھ سوئے حرم روانگی ہوئی۔ مکۂمکرمہ پہنچے تو رہائش کے لئے حرم کے قریب ہی فندق زمزم میں انتظام ہو گیا جہاں سامان وغیرہ رکھنے کے بعد قبل از نماز ِظہر حرم پاک میں حاضر ہوئے اور نماز ِعصر کے بعد عمرہ کی تکمیل ہوئی۔
اگلے روز جمعۃ المبارک کی وجہ سے حرم پاک میں بہت رش تھا۔ دن کے وقت احباب کا انفرادی طور پر عمروں اور طواف کا سلسلہ جاری رہا لیکن حضرت جیؒ کی معیت میں اجتماعی عمرہ بعد از نماز ِعصر ادا کیا گیا۔
12 مارچ کو دن کے اوّل حصے میں عمرہ کا پروگرام بنا۔ ناشتے کے فوری بعد حضرت جیؒ احباب کے ہمراہ تنعیم میں مسجد ِعائشہ صدیقہؓ پہنچے اور عمرہ کی نیت کی ۔ حضرت جیؒ کے فرمان کے مطابق 10 مارچ کے عمرے کی طرح اس عمرہ کی بھی خاص کیفیات تھیں۔ یہ حضرت جیؒ کا تیسرا عمرہ تھا۔
13مارچ کے عمرہ کا پروگرام معمول سے ذرا مختلف تھا۔ علی الصبح احرام باندھنے کے بعد جبل نور کے لئے روانگی ہوئی۔ حضرت جیؒ ‘ ڈاکٹر غلام مصطفی اور حبیب الرحمن کے ہمراہ جبل ِنور کے دامن میں ٹھہر گئے جبکہ باقی احباب نے غار ِحرا پہ حاضری دی۔
جبل ِنور سے منیٰ کے لئے روانگی ہوئی ۔ حضرت جیؒ مسجد ِخیف پہنچے تو آپؒ کے ارشاد پر ایک صاحب ِکشف ساتھی نے سیّدنا آدم علیہ ا لسلام سے گفتگو کی سعادت حاصل کی ۔ ان کی قبر مبارک کی نشاندہی بھی کی گئی اور احباب نے فاتحہ اور سلام کا تحفہ پیش کیا۔ اسی طرح حضرت نوح علیہ ا لسلام کی قبر مبارک کی نشاندہی کے بعد فاتحہ اور سلام کا تحفہ پیش کیا گیا۔ حضرت جیؒ نے فرمایا کہ ان دو ہستیوں کے علاوہ یہاں مزید گیارہ انبیاء علیہم السلام دفن ہیں۔
منیٰ کے بعد کچھ دیر کے لئے مشعرالحرام اور مزدلفہ میں رکے اور عرفات سے ہوتے ہوئے جبل ِرحمت پہنچے ۔ یہاں نوافل ادا کئے اور عمرہ کی نیت کی۔ جس مقام پر حضرت حو ّا رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی جھونپڑی بنائی تھی اور جہاں حضرت آدم علیہ السلام‘ حضرت حو ّا رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی تلاش میں پہنچے تھے‘ اہلِ بصیرت احباب نے اس جگہ کی نشاندہی کی۔ روایات کے مطابق انہیںمسجد ِنمرہ سے دیکھا تھا اور جنت سے اترنے کے بعد اسی جگہ اکٹھے ہوئے تھے ۔ جبل ِرحمت پر ایک رسول علیہ ا لسلام بھی دفن ہیں۔ حضرت جیؒ نے ان کے مدفن کی بھی نشاندہی کی۔ جبل ِرحمت پر نوافل ادا کئے‘عمرہ کی نیت کی اور واپسی پر چو تھا عمرہ ادا کیا۔
14مارچ کو بھی احباب طواف اور عمروں میں مصروف رہے۔ 15 مارچ کو غار ثور کی زیارت کا پروگرام بنا۔ حضرت جیؒ چند بزرگ ساتھیوں کے ہمراہ دامن کوہ سے واپس آ گئے جبکہ باقی احباب حضرت امیر المکرم کے ہمراہ غارِثورکی زیارت کے لئے ٹھہرگئے۔چڑھائی کے دوران حضرت امیرالمکرم نے نہ صرف ہجرت کے واقعات تفصیلاً بیان فرمائے بلکہ اس راستے اور مقامات کی بھی نشاندہی کی جس پر چلتے ہوئے حضور ﷺ کے پاؤں مبارک زخمی ہوئے تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے آقا ﷺ کو شانوں پر اٹھا لیا اور اسی حالت میںغار ِثور پہنچے۔ حضرت امیر المکرم کی نشاندہی کے باعث احباب کو عین اس جگہ بیٹھنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی جہاں حضور ﷺ نے آرام فرمایا تھا۔
16 مارچ کو احباب‘ حضرت جیؒ کی معیت میں تنعیم گئے اور زیر ِتعمیر مسجد ِعائشہ میں نوافل ادا کرنے کے بعد عمرہ کے لئے حرم پاک لوٹے ۔ ان دنوں بیت اللہ کے اندر تعمیراتی کام ہو رہا تھا اور چند احباب کو بیت اللہ میں داخلہ کی سعادت نصیب ہو چکی تھی۔ حضرت جیؒ احباب کے ہمراہ حرم پہنچے تو بیت اللہ میں داخلے کے لئے لوگوں کا جمِ غفیر تھا۔ ڈیوٹی پرمتعین سپاہی ہجوم کو روک رہے تھے لیکن یہاں کے آداب سے نا آشنا کچھ دیوانے دھکم پیل سے داخلے کے لئے کوشاں تھے ۔ آج مکہ ٔمکرمہ میں قیام کا آخری دن تھا اور حضرت امیر المکرم اس خیال سے پریشان تھے کہ خدا جانے بیت اللہ کے اندر جانے کی سعادت میسر آتی ہے کہ نہیں۔ وہ عام لوگوں سے بلند قامت تھے اور زور ِبازو میں کہیں بڑھ کر لیکن ادب آشنا‘ اس بے قابو ہجوم میں کیونکر شریک ہو سکتے تھے جو بیت اللہ میں داخلے کے لئے دھکم پیل میں مصروف تھا۔ اسی لمحے چند مزدور لوہے کا ایک جنگلا تھامے ملتزم کی طرف بڑھے تو حضرت امیر المکرم بھی حصولِ سعادت کے لئے ا ن میں شامل ہو گئے ۔ لکڑی کے ایک سٹینڈ پر کھڑے ہو کر بیت اللہ میں کام کرنے والوں کو جنگلا تو پکڑا دیا لیکن عین دروازے کے سامنے پہنچ کر اب یہ حسرت کہ خود اندر جانے سے پھر بھی محرومی! نیچے کھڑے سپاہی کہہ رہے تھے کہ اب نیچے اترو ۔ اچانک لوہے کا جنگلا دروازے کے پردے میں اس طرح الجھ گیا کہ کسی کے چھڑوانے سے نہ چھوٹا ۔ جنگلا اس قدر بلندی پر الجھا ہوا تھا کہ عام لوگوں کی دسترس سے باہر تھا۔ حضرت امیر المکرم نے لپک کر جنگلے کو چھڑوانے کی کوشش کی تو درازیٔ قامت کام آ گئی ۔ اس وقت نقشہ کچھ اس طرح سے تھا کہ وہ بلندی پر پنجوں کے بل کھڑے ایک ہاتھ سے ملتزم کے سامنے چھت سے لٹکتی ہوئی رسی کو پکڑے دوسرے ہاتھ سے جنگلے کو پردے سے چھڑوانے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ توفیق ِالٰہی تھی کہ وہ جنگلا جسے سنبھالنا کسی ایک آدمی کے بس کی بات نہ تھی‘ انہوں نے ایک ہاتھ سے دروازے کے اندر دھکیل دیا۔ اندر سے کام کرنے والوں نے جنگلے کو تھاما اور اس کے ساتھ ہی حضرت امیر المکرم بھی بیت اللہ کے اندر داخل ہو گئے۔
حضرت جیؒ بھی ملتزم کے قریب ہی کھڑے تھے۔ آپؒ کے خادم عبداللہ پشاوری نے اندر جانے کے لئے عرض کیا تو حضرت جی ؒ نے فرمایا:
’’ میں کس منہ سے اندر جاؤں‘ آپ لوگ جائیں۔‘‘
یہ فرماتے ہوئے حضرت جیؒ کی آواز میں کپکپاہٹ تھی جو گریہ میں تبدیل ہو گئی۔ آپؒ کی اجازت کے بعد عبداللہ پشاوری اور مزید کئی احباب نے بیت اللہ میں داخلے کی سعادت حاصل کی۔
بیت اللہ میںداخلہ بہت بڑی سعادت خیال کیا جاتا ہے لیکن اصل سعادت یہاں کی حاضری کے دوران حقیقت ِکعبہ کا ادراک ہے خواہ وہ کسی درجہ میں بھی نصیب ہو جائے ۔ بیت اللہ کیا ہے؟ عام دیکھنے والوں کے لئے پتھر سے تعمیر کردہ بلند و بالاعمارت جس کی دیواریں دبیز سیاہ حریر کے پردوں میں ملبوس ہیں۔
حقیقت ِکعبہ کیا ہے؟ اس کا ادراک اگرچہ ہمارے بس کی بات نہیں لیکن حضرت جیؒ کی نگاہ ِحقیقت شناس اور حضرت امیر المکرم کی نگارشات سے حسب ِفکر و استطاعت رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ کعبہ‘ تخلیق ِارض کا نقطہ ٔ آغاز‘ ایک حباب کی مانند جس کے گرد نہ صرف زمین کی وسعتیں پھیلتی چلی گئیں بلکہ تمام عالم ِخلق کا مرکز بھی یہی ہے۔
حضرت امیر المکرم کو بیت اللہ میں داخلے کی سعاد ت ملی تو انہوں نے اس کے ایک ایک ستون کے ساتھ نوافل ادا کئے ۔ نوافل کا سلسلہ ختم ہوا تو باہر سے لوگوں کا ایک ریلہ اندر داخل ہونے کی کوشش میں باب ِملتزم پر امڈ آیا۔ انہیں روکنے کے لئے ڈیوٹی پر مامور سپاہیوں نے باب ِکعبہ بند کر دیا تو حضرت امیر المکرم کو بیت اللہ کے درمیانی ستون کے ساتھ حقیقت ِکعبہ کا مراقبہ نصیب ہوا۔
ان مراقبات کی کیفیات اور مقامات ِ سلوک کی وسعتوں کا ادراک اگرچہ نگاہِ بصیرت ہی سے ممکن ہے لیکن حضرت امیر المکرم نے اس کی وضاحت کچھ اس طرح فرمائی ہے:
’’بیت اللہ تخلیق ِارضی کا نقطۂ آغاز اور عالمِ خلق کا مرکز ہے۔ کرۂ زمین کو سات آسمان محیط ہیں اور جس طرح ایک نقطہ کے گرد کوئی بھی دائرہ اس نقطہ سے لا متناہی وسعت رکھتا ہے‘ اسی طرح پہلا آسمان بھی زمین سے کئی گنا بڑاہے۔ اس طرح وسعتوں کا یہ سلسلہ ہر آسمان کے ساتھ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ( ساتویں آسمان) کے بعد مقام احدیت ہے جو ولایت ِ خاصہ کی پہلی منزل اور زمین سے پچاس ہزار سال کی مسافت پر ہے جبکہ آسمانِ اوّل سے یہ مسافت 36ہزار سال ہے۔ یہاں سے پہلے عرش کی ابتداء ہوتی ہے جس میں قریباً سوا لاکھ منازل ہیں اور ہر دوسری منزل‘ پہلی منزل کو محیط ہے لیکن کسی ایک منزل سے اوپر والی منزل کو دیکھا جائے تو وہ اس طرح نظر آتی ہے جیسے زمین سے کوئی ستارہ۔ اس مثال سے ایک عرش کی موٹائی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہر دو عرشوں کے درمیا ن وسیع خلا ہے اور اسی طرح نو عرش اپنی وسعتوں میں مزید پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ جس طرح پہلا آسمان ساری دنیا کو محیط ہے‘ اسی طرح پہلا عرش ساتوں آسمانوں کو محیط ہے اور مرکز ِ زمین سمیت عرش تک جو کچھ ہے‘ یہ سب عرش کے سامنے ایسے ہے جس طرح کسی صحرا میں ایک انگوٹھی ڈال دی جائے ۔ یہ وسعت پہلے عرش کی ہے جبکہ دوسرا عرش اپنی وسعت میں پہلے عرش سمیت ساری کائنات سے اسی طرح وسیع ہے۔ وسعتوں کے اس پھیلائو سے نویں عرش کی وسعت کو تخیل میں لائیں تو عقل چکرا جاتی ہے جو آٹھوں عرش سمیت تمام مخلوق کو اپنی گود میں اس طرح لئے ہوئے ہے جیسے صحرا میں کوئی انگشتری ۔ نویں عرش کے آخر سے نور کا ایک دھارا شروع ہوتا ہے جو آٹھوںعرش‘ ساتوں آسمان اور زمین میں بیت المقدس سے گزرتا ہوا دوسری جانب ساتوں آسمان اور آٹھوں عرش سے ہوتا ہوا نویں عرش کی آخری حد تک جا پہنچتا ہے۔ یہ ہے بیت المقدس کا امتیازجہاں سجدہ ریز ہونے کی سعاد ت آج عالمِ اسلام سے چھن چکی ہے۔
نویں عرش کے بعددوائر کا آغاز ہوتا ہے جن میں سے ہر دائرہ اپنے سے نیچے والی کائنات کو محیط ہے۔ ان دوائر میں سے اٹھارواں دائرہ حقیقت ِکعبہ ہے جو اپنے سے نیچے سترہ دائروں‘ نو عرش‘ سات آسمان اور زمین کا احاطہ کئے ہو ئے ہے۔ اس دائرے سے بھی نور کا ایک دھارا شروع ہوتا ہے جو اپنے سے نیچے تمام دائروں‘ نوعرش‘سات آسمان اوران تمام وسعتوں کے مرکز بیت اللہ سے ہوتا ہوا دوسری طرف آسمانوں‘ عرش اور سترہ دائروں کے بعد دائرہ حقیقت ِکعبہ سے جا ملتا ہے۔ بیت المقدس سے گزرنے والے نور کے دھارے کے مقابل اس دھارے کی وسعت کیا ہو گی؟ اس کا علم تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کو ہے لیکن آقا ئے نامدار ﷺ نے بیت اللہ اور بیت المقدس کا تقابل یوں فرما دیا کہ بیت المقدس میں ادا کی جانے والی ایک نماز کا اجر پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے جبکہ بیت اللہ کی ایک نماز کا اجر ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔
حقیقت ِکعبہ کی برکات و تجلیات نصیب ہوجائیں تو بجز ذاتِ باری تعالیٰ کچھ یاد نہیں رہتا اور نہ کوئی چیز نظر آتی ہے گویا ساری کی ساری کائنات معدوم ہو گئی ۔
باب ِکعبہ کھلا تو ساتھ ہی یہ مراقبہ بھی ختم ہوا۔اس وقت ہربُنِ مُو سے حضرت جیؒ کے لئے دعائیں نکل رہی تھیں جن کے ذریعے نہ صرف یہ سعادت نصیب ہوئی بلکہ چشم ِ باطن بھی وا ہوئی وگرنہ کہاںحقیقت ِکعبہ اور کہاں یہ ادراکات۔ بیت اللہ سے باہر نکلتے ہی حضرت جیؒ کی خدمت میں یہ کیفیات عرض کیں تو آپؒ نے فرمایا:
حقیقت ِکعبہ تک تمام مخلوق ہے اور مظہرِصفات ہے لیکن دائرۂ حقیقت ِ قرآن عین ذاتی ہے اور غیر مخلوق‘ اس لئے اوپر کا عالم دوسرا ہے اور نیچے کا دوسرا۔‘‘
یہاں حضرت امیرالمکرم کے الفاظ میں یہ وضاحت بھی پیش نظر رہے کہ بالائے عرش جملہ دوائر محض عرُفاً متعارف ہیں ورنہ ان کی حقیقت تو بے چون و چگوں ہے۔ اسی طرح مقامات ِسلوک کے فاصلوں کو زمینی فاصلوں پر محمول نہ خیال کیا جائے۔ ان فاصلوں کو روح کی ذاتی رفتار کے ذریعے بیان کیا گیا ہے یعنی اگر روح اپنی رفتار پر چلتی رہے تو احدیت تک پہنچنے میں پچاس ہزار سال کی مدت چاہیئے۔ خیال رہے کہ روح کی رفتار روشنی کی رفتار سے لاکھوں گنا زیادہ ہے۔ سائنسدان روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزارمیل فی سیکنڈ بتاتے ہیں اور ان کی تحقیقات کے مطابق بعض ستاروں کی روشنی کھربوں سال بعد زمین تک پہنچتی ہے جبکہ ان کا وجود آسمانِ دنیا سے ماورا نہیں۔اب اس کے بعد آسمانوں اور عرشی منازل سے بھی آگے عالمِ امر تک رسائی! یہ اسی صورت ممکن ہے جب شیخ اس پایہ کا ہو کہ جس کی توجہ سے ہزاروں لاکھوں سال ایک لمحہ میں سما جائیں۔ عالم امر کی ان رفعتوں کا تصور کیوں کر ممکن ہو!ایک مرتبہ حضرت امیرالمکرم نے خطاب جمعہ میں فرمایا:
’’عالم امر کی منازل شروع ہوئیں تو ایک صاحب نے حضرت جیؒ کی خدمت میں اپنی کیفیت اس طرح بیان کی:
حضرت! اپنی منازل سے جب زمین پر نگاہ ڈالتا ہوں تو وہ ہتھیلی پر پڑے ہوئے رائی کے ایک دانے کے برابر نظر آنے لگتی ہے۔
حضرت جیؒ نے فرمایا:
یہ تمہیں اتنی بھی نظر نہیں آئے گی۔‘‘
حضرت امیر المکرم بیت اللہ میں مراقب ہوئے توحقیقت ِکعبہ منکشف ہو گئی اور آج انہی کے الفاظ میں ہمیں بھی ایک دھندلا سا تصور نصیب ہوا لیکن جس ہستی کے صدقے میںانہیں یہ اِدراکات نصیب ہوئے تھے‘ بیت اللہ سے باہر نکلے تو نگاہ اسی ہستی کے قدموں سے لپٹ گئی۔ حضرت جیؒ ملتزم کے ساتھ ہی باہر کھڑے تھے ۔ بے ساختہ زبان سے نکلا:
جزاک اللہ کہ چشمم باز کر دی
مرا با جانِ جان ہمراز کر دی
17 فروری کو تہجد کی اذان سے قبل حضرت جیؒ کی معیت میں احباب نے بیت اللہ میں حاضری دی اور طواف ِوداع کے بعد مراقبات کئے۔ نماز ِفجر کے بعد مکہ ٔمکرمہ سے تین ٹیکسیوں کے ذریعے مدینہ ٔمنورہ روانگی ہوئی۔ حضرت جی ؒ ‘حضرت امیر المکرم اور حافظ عبدالرزاقؒ جدہ کے زاہد الامین کی گاڑی میں سوار تھے۔ آپ ؒ کا ارادہ تھا کہ بدر کے راستے سفر کرتے ہوئے کچھ دیر شہدائے بدر کی خدمت میں حاضری دیں گے لیکن گاڑی میں خرابی کی وجہ سے بدر پہنچنے میں تاخیر ہوگئی۔ یہاں پہنچے تو ڈرائیور حضرات جو موقف بدر میں کا فی دیر سے انتظار کر رہے تھے‘ فوراً روانگی پر بضد ہوئے۔ اس طرح میدانِ بدر میں کچھ وقت گزارنے اور شہدائے بدر کی خدمت میں حاضری کی خواہش تو پوری نہ ہوئی‘ البتہ مسجد ِبدر میں نماز ِظہر ادا کرنے کا موقع مل گیا۔
حضرت جیؒ مسجد ِنبویﷺ پہنچے تو نماز ِعصر کی جماعت کھڑی تھی‘ آپؒ مع احباب شریک ہو گئے۔ ادائیگی نماز کے بعد احباب کی خواہش تھی کہ فوراً روضۂ اطہر پر حاضری دی جائے لیکن یہاں جس درگاہ ِعالی کامعاملہ تھا‘ اس کے آداب ملحوظ رکھتے ہوئے اس طویل سفر کے بعد کچھ تیاری کی بھی ضرورت تھی۔ جائے رہائش کا انتظام ہوا تو وہاں سامان رکھا‘ غسل کیا اور سفید لباس پہن کر بعد از نماز ِمغرب باب السلام سے گزرتے ہوئے مواجہ شریف کے سامنے حاضر ہوئے۔ اس مقام پر اکثر عشّاق کو دیکھا ہے کہ وہ جالی مبارک کے قریب تر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہاں بھی اہل اللہ کا معاملہ مختلف نظر آتا ہے۔ لوگوں کے ہجوم کے پیچھے کسی ستون کی آڑ میں منہ چھپائے‘ گویا حوصلہ نہیں پاتے کہ حبیب کبریا ﷺ کے روبرو کھڑے ہوسکیں۔ حضرت امیرالمکرم کے الفاظ میں’’ساتھیوں کے پیچھے منہ چھپائے کھڑا رہا‘‘۔ اس عالم میں بھی وہ حضوری عطا ہوتی ہے کہ درمیان میں کوئی حجاب حا ئل نہیں رہتا۔ اُن کا کرم ہے یہ اُن کا کرم ہے ﷺ!
18 مارچ سیّد الایام تھا۔ نماز ِجمعۃ المبارک مسجد نبویﷺ میں ادا کی جس کے بعد کچھ احباب بئرِ عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ میدانِ اُحد اور خمسہ مساجد کی زیارت کے لئے چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ کی محبوب ہستیوں کے نہ صرف ابدان ہی منبعِ انوارات ہوتے ہیں بلکہ ان کے خون کے ایک ایک قطرے نے جس زمین کو سیراب کیا وہ تاقیامت منور ہو جاتی ہے۔ میدانِ اُحد‘ جبلِ سلع اور جنت ُالبقیع کے مابین انوارات کا ایک دھارا مثلث کی صورت نظر آیا‘ تحقیق پر معلوم ہوا کہ آقائے نامدارﷺ کا ایک خادم میدانِ اُحد میں زخمی ہوا تو ان کے وجود ِمسعود کو جبل ِسلع پر رکھا گیا اور بعد میں جنت ُالبقیع میں تدفین ہوئی۔ یہ تینوں مقامات اس طرح منور ہو گئے کہ آپس میں مربوط ایک نورانی مثلث کی صورت نظر آنے لگے۔
19 مارچ کو حضرت جیؒ نے حسب ِمعمول فجر سے قبل اقامت گاہ پر ہی معمول کرایا۔ اسی موقع پر سعودی عرب میں سلسلۂ عالیہ کے امیر صوفی محمد افضل خانؒ کی روحانی اور ظاہری بیعت ہوئی۔ ظاہری بیعت لیتے ہوئے حضرت جیؒ نے ہدایت فرمائی:
’’ذکرِ نفی اثبات کثرت سے کیا کرو۔
جب کوئی مشکل پیش آئے تو اول آخر تین یا پانچ مرتبہ درود شریف اور درمیان میں اس مشکل کا خیال کرتے ہوئے پانچ مرتبہ یاَمومنُ پڑھیں ۔ اللہ کریم مشکل آسان فرمائے گا۔
سوتے وقت دس بار اور تین سے تیرہ بار سورہ اخلاص پڑھیں اور ہر روز درود شریف کی کم از کم دو تین تسبیحات پڑھا کریں۔‘‘
اسی روز بعد از نماز ِفجر حضرت جیؒ نے احباب کے ہمراہ مسجد ِقبا میں حاضری دی۔ بعد از نماز ِظہر آپؒ نے تمام جماعت کو حضور ِاقدسﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ حضورﷺ نے خصوصی شفقت فرمائی اور خصوصی ہدایات ارشاد فرمائیں‘ اصلاح و تبلیغ کے کام کے لئے تاکید فرمائی اور ارشاد ہوا کہ جس مقصد کے لئے آپ کو بلایا گیا وہ سوموار تک پورا ہوگا۔
20 مارچ کا دن مسجد ِنبویﷺ میں نمازوں کی ادائیگی کے لئے حاضری میں گزرا۔ مغرب اورعشاء کے درمیان باب ِجبریل کے قریب اجتماعی ذکر ہوا جو حضرت جیؒ کی عدم موجودگی میں حضرت امیر المکرم نے کرایا۔
اگرچہ کئی احباب نے 17 مارچ کو میدانِ اُحد میں حاضری دی تھی لیکن 21 مارچ کو حضرت جیؒ کی معیت میں دوبارہ حاضری کی خواہش کی۔ حضرت جیؒ کے لئے الگ سے کار کا بندوبست کیا گیا جس میں آپؒ کے ہمراہ حضرت امیر المکرم اور حافظ عبدالرزاقؒ تھے جبکہ باقی احباب عام سواری کے ذریعے میدانِ اُحد پہنچے۔ تمام میدان جنگ اور جبل احد کا جائزہ لیا گیا۔ عقب سے اس مقام پر بھی گئے جہاں حضورﷺ نے پچاس صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی جماعت کو متعین فرمایا تھا۔ حضرت جیؒ کی توجہ سے اہل ِبصیرت نے اُحد کے سپاٹ میدان٭ میں غزوۂ احد کو بپا ہوتے دیکھا۔ بقول حضرت امیر المکرم:
’’تلواروں کو چمکتے دیکھا‘ سینوں کو پھٹتے دیکھا‘ سروں کو کٹتے دیکھا اور خود اور زرہ کو ٹوٹتے بھی دیکھا۔ وحشی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو سید الشہدا پر نیزہ پھینکتے بھی دیکھا۔ لشکر کفار کو بھاگتے بھی دیکھا۔ خالد جانباز (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو پلٹتے بھی دیکھا اور اس حادثہ کو وقوع پذیر ہوتے بھی دیکھا جس میں جسد ِ نبویﷺ پر دو زرہیں تھیں۔‘‘
میدانِ اُحد کی قدم قدم زیارت کی اور ہر جگہ کی نسبت سے واقعات سامنے آتے چلے گئے۔ آخر میں جبلِ اُحد پر اس غار کی زیارت کی جہاں حضور ِاقدسﷺ نے آرام فرمایا تھا۔ اس جگہ کی بھی زیارت نصیب ہوئی جہاں سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور جگر گوشۂ رسول ﷺ سیّدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رُخ ِانور کو دھویا اور چہرۂ اقدس سے خون صاف کیا۔ یوں تو یہ سارا علاقہ ہی منور ہے لیکن جس مٹی کو جسم اطہر سے یا حضور ﷺ کے مبارک تلووں سے مس ہونے کا شرف حاصل ہوا‘ حضرت امیرالمکرم اس کی شان یوں بیان فرماتے ہیں کہ باقی جگہ کا ہر ذرہ اگر ستاروں کی طرح روشن ہے تو یہ جگہ سورج کو مات کر رہی ہے۔
21 مارچ دیار ِحبیب ﷺ میں آخری دن تھا اور اس روز کے معاملات بھی ایسے تھے جواس سے قبل پیش نہ آئے۔ میدانِ اُحد سے واپس لوٹے تو ظہر کی نماز کے بعد حضرت جیؒ نے قیام گاہ پر اپنے کمرے میں ہی معمول کرایا۔اس معمول کے دوران دربار ِنبویﷺ سے انعامات تقسیم فرمائے گئے۔
22 مارچ کو دیار ِحبیبﷺ سے روانگی تھی۔ بعد از اشراق روانگی کی اجازت حاصل کرنے کے لئے حضرت جیؒ تمام احباب کے ہمراہ مسجد نبویﷺ میں حاضر ہوئے۔ مواجہ شریف کے سامنے کھڑے ہو کر الوداعی سلام پیش کیا۔ اس وقت جدائی کے خیال سے آپؒ کے چہرۂ مبارک پر رنج و الم کے گہرے بادل اور آنکھوں میں امنڈتی ہوئی آنسوؤں کی جھڑی ہویدا تھی لیکن اس ادب گاہ کی نسبت سے ضبط کا دامن تھام رکھا تھا۔ اسی عالم میں شیخین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی خدمت میں حاضری دی اور الوداعی سلام پیش کیا۔ اب مزید کھڑا رہنے کا حوصلہ نہ تھا‘ حضرت جیؒ سیدھے ریاض الجنہ میں آئے اور اس مقام پر مراقب ہو گئے جہاں کھڑکی روضۂ اطہر ﷺ میں کھلتی ہے۔ آنسوؤں کی جھڑی میں روانگی کے لئے اجازت طلب کی۔ آقائے نامدارﷺ نے خصوصی ہدایات ارشاد فرمائیں جن کا تعلق اصلاح ِذات اور دعوتِ دین سے تھا۔
آخری مصافحہ ہوا تو تمام احباب پر رقت طاری ہوگئی۔ یہ انتہائی دردناک نظارہ تھا حضرت جیؒ ‘جو صبر و ضبط کاکوہ ِگراں تھے‘ پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ ضبط کا بند ٹوٹ گیا تو آنسوؤں کے دریا بہہ نکلے۔ مسجد ِنبویﷺ کے آداب‘ پھر ریاض الجنہ اور یہاں بھی اس کھڑکی سے ملحق جو روضۂ اطہرﷺ میں کھلتی ہے‘ ہونٹ تو سی لئے تھے لیکن سینے میں اٹھنے والے رنج و الم کی گھٹی گھٹی سی آواز اور ہچکیوں کو دبانا کسی طور ممکن نہ تھا۔ اسی عالم میں کچھ دیر گزر گئی تو حضرت جیؒ نے اپنے عصا کا سہارالیتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کی اور اکڑوں بیٹھ گئے لیکن اٹھ نہ سکے۔ اسی حالت میں دیر تک آنسوؤں کی جھڑی جاری رہی جس کے بعد طبیعت ذرا سنبھلی تو بوجھل قدموں سے مسجد ِنبویﷺ سے باہر نکلے۔ دیکھنے والوں کے لئے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ دیار ِحبیبﷺ میں یہ آپؒ کی آخری حاضری تھی۔ آقائے نامدارﷺ کی طرف سے جو الوداعی پیغام ملا‘ حافظ عبدالرزاقؒ کی نقل شدہ روایت کے مطابق اس کا مفہوم اس طرح سے تھا:
’’صوفی کا بڑا سرمایہ محبت ِالٰہی ہے اور محبت کا تقاضا محبوب کی اطاعت جو دوچیزوں پر موقوف ہے‘ قرب ِفرائض اور قرب ِنوافل۔‘‘
اس کے بعد احباب نے کئی مرتبہ حضرت جیؒ کے عمرہ کا پروگرام تشکیل دینے کی کوشش کی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
مدینہ ٔمنورہ میں نماز ِظہر ادا کرنے کے بعد جدہ کے لئے روانگی ہوئی تو بدر کا راستہ اختیار کیا گیا تاکہ شہدائے بدر کی خدمت میں حاضری کی خواہش پوری ہو سکے۔ عصر کے وقت بدر پہنچے اور شہدائے بدر کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام پیش کیا۔ اب میدانِ بدر سامنے تھا۔ حضرت جیؒ کی توجہ سے صدیوں قبل بپا ہونے والا معرکۂ حق و باطل اہل ِبصیرت کے سامنے منکشف ہو نے لگا۔ میدانِ بدر آج بھی دیکھنے والوں کا تعلق دور ِنبویﷺ سے جوڑ سکتا ہے‘ اللہ کرے جذبۂ صادق رکھنے والوں کو رہبری کے لئے کوئی مردِ کامل بھی مل جائے۔
بدر سے روانگی کے بعد حضرت جیؒ رات آٹھ بجے جدہ پہنچے ۔ 23 مارچ کا دن بھی جدہ ہی میں گزرا۔ 24 مارچ کو صبح چار بجے ایئر پورٹ پہنچ کر نماز ِفجر ادا کی اور پی آئی اے کے ذریعے ڈیڑھ بجے کراچی آمد ہوئی۔ ظہر اور عصر کی نماز ایئرپورٹ کی مسجد میں ادا کی جہاں مقامی احباب کی کثیر تعداد حضرت جیؒ کی صحبت میں چند لمحات گزارنے کے لئے حاضر تھی۔ یہاں سے مغرب کے بعد اسلام آباد کے لئے روانگی ہوئی۔راولپنڈی میں ایک ساتھی کے ہاں مختصر قیام کے بعد حضرت جیؒ براستہ چکوال‘ چکڑالہ روانہ ہوئے اور رات دو بجے کے قریب مراجعت بخیر ہوئی۔
( حیات جاوداں سے اقتباس)
 
Top