دعوت ولیمہ

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
دعوت ولیمہ

دعوتی غم کے مارے ہو اور دل جلے

ان کو پرواہ کی جب برتی بنے

گوشت مرغے کا ہے گھی کا زردہ بھی ہے

قوم تحقیر میں اپنی یہ غرق ہے

تجھکو دعوت ولیمہ سلام عرض ہے


ایک سادہ رجسٹر رکھا سامنے

کوئی منشی لگا روپئے تھامنے

اس تمسک وتحریر کو کیا کہوں

نام تلائے اس کا میں کیا لکھوں

تجھکو دعوت ولیمہ سلام عرض ہے


عقل ماری گئی رسم جاری ہوئی

ایک ہو ٹل کھلا اور شادی ہو ئی

لینے دینے میں سب وقت ضائع ہوا

یہ خوشی ہی نہیں بلکہ ماتم ہوا

اے مسلماں! ترا کیا یہی فرض ہے

تجھکو دعوت ولیمہ سلام عرض ہے


جنگ میں بھی نمازیں نہیں ترک کیں

وقت آیا تو سب نے نمازیں پڑھیں

حکم مولیٰ کا ہے ہم نے ٹھکرا دیا

بیاہ منگنی میں سب طاق پر رکھ دیا

قلب میں کیا ترے دین کا درد ہے

تجھکو دعوت ولیمہ سلام عرض ہے


عقد میں اب تو بارات ہے لازمی

شرع سنت کو بھولا ہے یہ آدمی

شان وشیخی رہے دین کی فکر کیا؟

اپنے اسلاف کے طرز کا ذکر کیا

ہائے سینے میں ماضی کا ہی درد ہے

تجھکو دعوت ولیمہ سلام عرض ہے


قرض لینے کی اب رسم ہے بن گئی

لیتے شادی میں ہیں بے ضرورت غنی

قرض لینے کی ہے ہم کو حاجت نہیں

پھر بھی ہم منع کرتے کسی کو نہیں

قرض لینے میں ہر آدمی مست ہے

تجھکو دعوت ولیمہ سلام عرض ہے


اے شرافتؔ ! نہ مطلق تو دل گیر ہو

کر نہ افسوس اتنا ، نہ غم گیر ہو

ایسے موقعوں پہ کر خرچ دل کھول کے

بخل ممنوع ہے دل میں یہ سوچ لے

مکھی چوسی نہ اسلام کا طرز ہے

تجھ کو دعوت ولیمہ سلام عرض ہے


لیکن اسراف جا ئز نہیں ہے سنو

اور تبذیر کو بھی اسی میں گنو

ساری دنیا کا ہے اب یہی خاصہ

کبر ونخوت کا چھایا ہر ایک پر نشہ

سوچ لو یہ نہ اسلام کا طرز ہے

تجھ کو دعوت ولیمہ سلام عرض ہے


بر تری اور تعلیٰ کا نہ ہو گماں

جب تلک رہے زمیں تب تلک آسماں

با ہمی یہ تعلق نہ ہوتا اگر

آتی حیوانیت ہر جگہ پر نظر

زندگی خالساری کی ہو شرط ہے

تجھ کو دعوت ولیمہ سلام عرض ہے


جو نہ لازم تھا اس کو کیا لازمی

اب تو دنیا کے ایسے ہوئے آدمی

فرض وواجب کا کا کچھ خیال ان کو نہیں

کر تے من مانی ہر کام میں ہر کہیں

ایسی من مانی کرنا برا فرض ہے

تجھ کو دعوت ولیمہ سلام عرض ہے


میرے آقا نے جو کچھ کہا وہ کیا

ان کا پکڑا جو دامن تو سب کچھ ملا

ہم کو عزت ملی ہم کو شاہی ملی

چھوڑا دامن تو بس رو سیاہی ملی

سوچ لو کتنا سر کش یہی نفس ہے

تجھ کو دعوت ولیمہ سلام عرض ہے


منہ سے کہتے ہیں سنت پہ میرا عمل

پھر بھی ہر کام میں آپ دیتے دخل

نفس سے گویا کہ آپ مغلوب ہیں

اس لئے چاہتے دیگر اسلوب ہیں

فیصلے کو مقر مگر حشر ہے

تجھ کو دعوت ولیمہ سلام عرض ہے


کیا صحابہ کے گھر شادیاں نہ ہوئیں

ان کا کہنا ہے کیا وہ تھیں بالا نشیں

پھول سہرا نہیں با جا گاجا نہیں

زیب وزینت کی تھیں محفلیں نہ سجیں

کرتے بدعت ہیں سب کہتے کیا حرج ہے

تجھ کو دعوت ولیمہ سلام عرض ہے


کھانے پینے کے شوقین ہیں اب سبھی

بعد کھانے کے کے پڑھتے دعا نہ کبھی

لے پلیٹ ہا تھ میں وہ کھڑے ہو گئے

گھوم پھر کر ، ٹہل کر ہیں وہ کھا رہے

دین کا جوش ہر دل میں اب سرد ہے

تجھ کو دعوت ولیمہ سلام عرض ہے


قرض کو لوگ معمولی سمجھے ہیں اب

ہے گناہ اس میں زیادہ نہیں جس کی حد

قرض خواہ مر گیا یا کہ ہم مر گئے

قرض دار ہم تھے لیکن جد ا ہو گئے

کتنا بد خواہ ظالم یہی نفس ہے

تجھ کو دعوت ولیمہ سلام عرض ہے


چھوڑو شیخی ، ریا، کبر اور فخر کو

اپنے مولیٰ کے نقشِ قدم پر چلو

دل کو راحت ملے سرخ روئی ملے

یو نہی دنیا ملے ، یو نہی عقبیٰ ملے

نفس، اپنا نہ غم خوار وہمدرد ہے

تجھ کو دعوت ولیمہ سلام عرض ہے


کفو کا مسئلہ اب چھیڑا ہر کہیں

اپنے آقا نے مانا تھا اس کو نہیں

زیدؔ وزینبؔ کا تھا عقد کیسے ہوا

خود ہی سرور نے رشتہ یہ تھا طئے کیا

ہائے انسان میں اب یہ کیوں فرق ہے

تجھ کو دعوت ولیمہ سلام عرض ہے

سیکڑوں لڑکیاں بیٹھی رو رہیں

شکل وسیرت ہے لیکن جہیز ہے نہیں

دھن کے اے لو بھیو ! بات میری سنو

شرع دیتی نہ اس کی اجازت سنو

کیوں یہ انسان کے دل میں بسی حرص ہے

تجھ کو دعوت ولیمہ سلام عرض ہے


ایک لڑکی تھی دروازے پر کہہ رہی

میری بارات بھی ایک دن آئے گی

ماں کے زیور جو یک دم سے بک جائیں گے

کھیت میرے رہن جب کہ ہو جائیں گے

مفلسوں کی مدد کرنا ہی فرض ہے

تجھ کو دعوت ولیمہ سلام عرض ہے


عقد میں لڑکیوں کے نہ دعور روا

نیوتہ لینا دینا ہے بالکل خطا

یہ مدد ہی نہیں یہ ہے گندہ چلن

ایسی بدعت کریں پھر بھی ہم ہیں مگن

شرع کی رو سے ذلت کی یہ رسم ہے

تجھ کو دعوت ولیمہ سلام عرض ہے


جو تھا کہنا شرافتؔ! کہا میں نے سب

ہم سبھوں کو ہدایت تو دے میرے رب

دین کے راستے پر ہم سیدھے چلیں

شرع کا پاس کر متقی ہم بنیں

قوم بگڑی ہے دل میں یہی درد ہے

تجھ کو دعوت ولیمہ سلام عرض ہے


ایک لڑکی عمر جس کی پچاس تھی

اپنی ہم جو لیوں سے وہ تھی کہہ رہی

تم نے دیکھے ہیں دنیا کے رنگیں چمن

میرے سینے میں سب خواہشیں ہیں دفن

باپ بیٹی کی فریاد سن دنگ ہے

تجھ کو دعوت ولیمہ سلام عرض ہے


ماں نے میری توجہ نہ کی آہ کی

باپ کو تھی ہمیشہ طلب جاہ کی

عمر گزری کسی نے نہ پرواہ کی

اب ضرورت نہیں ہے مجھے بیاہ کی

عمر میری ڈھلی چہرہ بھی زرد ہے

تجھ کو دعوت ولیمہ سلام عرض ہے



ہانکتازیٹ انسان ہے ہر جگہ

بیٹیوںکا بھی کچھ تو سنو فیصلہ

سانولے اور گورے کا جھگڑا یہ کیوں

لڑکیوں سے بھی پو چھا نہیں تم نے کیوں

یہ تو شادی کا یکدم غلط طرز ہے

تجھ کو دعوت ولیمہ سلام عرض ہے


چرندوں پرندوں کا جوڑا ضرور

درندوں کے جوڑوں میں بھی یہ سرور

ہائے ماں باپ کا وہ تکبر غرور

لڑکیوں کے لئے گھر بنایا قبور

عقل سے کام لو بس یہی فرض ہے

تجھ کو دعوت ولیمہ سلام عرض ہے

(بشکریہ ریاض الجنہ ، نومبر ۲۰۱۴

 
Top