تبلیغی جماعت اورالزامات جماعت

جمشید

وفقہ اللہ
رکن
سیانے کہتے ہیں کہ کمتر واقفیت جہالت سے بھی زیادہ خطرناک ہواکرتی ہے۔سیانوں کی یہ بات صد فیصد صحیح ہے یہی وجہ ہے کہ نیم ملا سے ایمان کااورنیم حکیم سے جان کاخطرہ لگارہتاہے۔آدمی کو کسی بھی چیز کے بارے میں فیصلہ پوری اورمکمل معلومات پر کرنی چاہئے۔ادھر ادھر سے کچھ باتیں سن کر اس کو دہرانااورآگے پھیلانا ایمان کے ضعف اورکمزور کی نشاندہی ہے۔ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے
کفی بالمرء کذباان یحدث بکل ماسمع
ایک مخصوص جماعت کے دم قدم کی برکت سے تبلیغی جماعت جیسی غیرنزاعی اورنزاع کی تمام باتوں سے پرہیز کرنے والی جماعت کوبھی متنازعہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔تبلیغی جماعت نہ فروعی مسائل میں الجھتی ہے جو کسی مسلک والوں کواس سے بیر ہواورنہ سیاسی امور میں مداخلت کرتی ہے مختصر لفظوں میں وہ آسمان کے اوپر اورزمین کے نیچے کی باتیں کرتی ہے اسی کی تبلیغ واشاعت کرتی ہے لیکن آج کل کچھ مذہبی اورسیاسی باوے اپنے مفاد کی خاطر تبلیغی جماعت پر نکتہ چینیوں سے باز نہیں آرہے۔
سیاسی باواتوآپ سمجھتے ہی ہیں امریکہ ہے وکی لیکس کے حالیہ انکشاف کے مطابق تبلیغی جماعت القاعدہ کو مدد فراہم کرتی ہے جب کہ برسوں قبل ایف بی آئی نے ایک رپورٹ میں تبلیغی جماعت کو دہشت گرد جماعتوں کی نرسری کہاتھاکہ یہیں سے تیار ہوکر لوگ ادھر ادھر جاتے ہیں۔مذہبی باوا وہ ہیں جو تبلیغی جماعت پر آئے دن کوئی نہ کوئی کتابچہ ،پمفلٹ اوررسالہ شائع کرتے ہیں۔
کچھ مذہبی باوے اسے وہابیت سے تعبیر کرتے ہیں اوران کی نگاہ میں یہ رسول اللہ ﷺ سے محبت نہیں رکھتے آپ ﷺ کی تعظیم نہیں کرتے ۔جب کہ دوسرے مذہبی باوے اسے قبوری ،قبرپرست،وحدت الوجود ی اوربدعتی،مشرک اورپتہ نہیں کیاکیاکہتے ہیں۔تبلیغی جماعت والے مسکراکر ان دونوں طبقوں سے یہ کہتے ہوئے گزرجاتے ہیں کہ
زاہد تنگ نظرنے مجھے کافر جانا
اورکافر یہ سمجھتاہے مسلمان ہوں میں
ہم کسی سے یہ نہیں کہتے کہ وہ تبلیغی جماعت میں شامل ہوجائیں۔یااس کے طریقہ کار سے سوفیصد متفق ہوجائیں لیکن براہ کرم تنقید اورتنقیص کا فرق توبرقراررکھیں۔ تنقید کوتوہین تک تونہ پہنچائیں۔
ایک ایسی جماعت جس سے لاکھوں لوگوں کوہدایت ملی،عمر بھرکے جواری،شرابی کبابی اورپتہ نہیں کن کن گناہوں میں ملوث افراد کی کایاپلٹ ہوگئی۔جودل کل تک رحم سے ناآشناتھااب درد تنہاہی نہیں غم زمانہ کابھی حامل ہے۔ وہ زبان جوگالیوں کے بغیر بات کرنانہ جانتی تھی اب اس زبان سے پھول جھڑتے ہیں۔ وہقدم جوہمیشہ نائٹ کلبوں اورشراب خانوں کی طرف اتھتے تھے اب رات کی تاریکیوں میں مسجد کی جانب اٹھتے ہیں۔
جوحضرات فتویٰ دیتے ہیں ان مفتیوں کوبھی ایک دن اپنے اعمال اورفتاویٰ کا جواب دیناہوگا۔وہاں یہ نہیں چلے گاکہ میں نے فلاں فلاں فن میں اختصاص کیاتھا۔ماجستر(ایم اے)اوردکتوراہ(ڈاکٹریٹ)کیاتھا۔وہاں تودیکھاجائے کہ اخلاص اورایمان کاکیاسرمایہ لے کرآیاہے اوریہ انشاء اللہ حقیقت ہوگی کہ بہت سےمکتب میں الف بے پڑھانے والے استاد جی حافظ جی،بہت سے شیوخ حدیث اوربخاری کادرس دینے والوں سے اعلیٰ مقام پر فائز ہوں گے۔
جوحضرات ان مفتیوں کی بات کو آگے نشرکرتے ہیں پھیلاتے ہیں وہ بھی سوچیں کہ جب قیامت میں خداان سے اس بارے میں سوال کرے گاتوان کے پاس کیاجواب ہوگا کیایہ کہناکافی ہوگاکہ فلاں مفتی اورفلاں مولوی کے کہنے پر میں ایساکیاکرتاتھا۔بالکل نہیں!کل قیامت مین خدا کان، آنکھ اوردل ہرشے کے بارے میں حساب لے گا۔وہاں نہ کوئی فضیلۃ الشیخ ہوگا اورنہ سماحۃ الشیخ ۔نفسی نفسی کاعالم ہوگا۔اس لئے اس نفسی نفسی کے دن کیلئے جوکچھ کریں اپنے دم قدم اوراپنی معلومات کی بنیاد پر کریں۔خاص کرجب بات کسی کو متہم اورمطعون کرنے کی ہو۔
آخر میں ایک مفید کتاب کاتعارف۔یہ کتاب ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر نے تبلیغی جماعت کے تعلق سے لکھی ہے اس میں تبلیغی جماعت کے اصول وقواعد پر مولانا یوسف صاحب نے بہت اچھے طرزپر روشنی ڈالی ہے۔ اگرغیرجانب داری اورتعصب سے خالی ذہن کے ساتھ پڑھیں گے توانشاء اللہ تبلیغی جماعت کے تعلق سے غلط تصورات ختم ہوجائیں گے۔
والسلام
Tableeghi Jamaat ki Dawat (تبلیغی جماعت کی دعوت کے اصول و آداب)
 

سرحدی

وفقہ اللہ
رکن
جزاک اللہ جمشید بھائی
اللہ تعالیٰ نے تبلیغی جماعت کے ذریعہ سے امت مسلمہ کے نوجوانوں کو راہِ ہدایت پر آنے کے لیے ایک بہترین پلیٹ فارم دیا ہے۔ آپ کی بات بالکل درست ہے کہ کئی لوگ تبلیغی جماعت کے ذریعہ سے گندگی کی زندگی سے توبہ کرکے بندگی اختیار کرگئے ہیں۔
تنقید کا مقصد اگر دین اسلام کی سربلندی ہو اور اعتراض کرنے والے یہ ثابت کردیں کہ واقعتا ان کا اختلاف دین اسلام کی سربلندی اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ کا صحیح رُخ مسلمانانِ عالم میں اُجاگر کرانا ہے تو ان کا اعتراض مانا جاسکتا ہے لیکن اگر یہ اعتراض محض اپنی ذات یا اپنی جماعت کا نام کرنے اور ان کے اراکین کی تعداد بڑھانے کے لیے ہو تو پھر اس کو ماننا تو درکنار اس کی طرف دیکھنا بھی مناسب نہیں۔۔
ہماری مصیبت یہ ہے کہ ہمیں موقع محل سمجھ ہی نہیں آتا کہ کہاں پر کیا کرنا چاہیے، بہت سارے مسائل ہمارے غلط سوچ و فکر کی بنیاد پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اور پھر بعد میں سر پیٹتے رہتے ہیں کہ ہائے افسوس ! یوں نہ کیا ہوتا تو اچھا ہوتا۔
جزاک اللہ جمشید بھائی ایک مفید پوسٹ شیئر کرنے کے لیے ۔ اُمید کرتا ہوں کہ یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔۔
 

نورمحمد

وفقہ اللہ
رکن
جزاک اللہ . . . . . .

اللہ تعالی نے ایک طویل مدت کے بعد امت میں ایسا کام شروع کیا ہے . . . اللہ ہم سب کو اس کی قدر کرنے اور اس میں عملی حصہ لینے کی توفیق نصیب کرے . آمین
 
Top