شیخ عبدالقادر جیلانی کی دعوت ایک جائزہ- :2 -فکری اور مذہبی انتشار

دیوان

وفقہ اللہ
رکن
اردو زبان میں حضرت شیخ کے جو تذکرے ملتے ہیں ان میں حضرت شیخ کے بہت تھوڑے حالات ملتے ہیں جب کہ اکثر میں حضرت شیخ کے فضائل اور ان کی کرامتوں کا ذکر زیادہ ملتا ہے۔ان کرامتوں سے تو حضرت شیخ کی شخصیت کا ایک ہی پہلو سامنے آتا ہے لیکن پڑھنے والے کو حضرت شیخ کی تعلیمات اور زندگی کے عملی پہلو سے ناواقفیت رہتی ہے۔ جبکہ حقیقتا بزرگان دین کی زندگیوں کا مطالعہ کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان ان کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں اختیار کر لے اور اس طرح اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو سنوار لے۔ اسی طرح ان کتابوں سے یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ حضرت شیخ جس دور میں پیدا ہوئے اس میں آپ نے امت کی اصلاح کا کام کس طرح کیا، ان کی تعلیمات کیا تھیں اور انہوں نے کن کن خرابیوں کی اصلاح کی۔اگلے صفحات میں اس پہلو سے بھی حضرت کی شخصیت کا جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پڑھیے اور اپنی رائے سے آگاہ فرمایئے۔
-----------------------------------------------------------------------------
فکری و مذہبی انتشار
اسلام اپنے ماننے والوں کو طلب علم پر ابھارتا ہے یہی وجہ ہے مسلمان جب بھی کسی علاقے کو فتح کرتے تو جہاں وہ مسجد قائم کرتے وہیں مدرسے کا قیام بھی ضروری سمجھتے تھے۔ اسی تعلیم اور فکر کا نتیجہ تھا کہ مسلمان جہاں بھی علم پاتے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔چنانچہ ایران، ہندوستان، یونان جس جگہ بھی مسلمان پہنچے وہاں کے علوم اور تصانیف کو حاصل کیا۔ عباسی خلفا کے دور میں بیت الحکمت قائم ہوا جہاں خاص طور پر یونانی فلسفے کا عربی زبان میں ترجمہ کیا جاتا تھا۔ اس یونانی فلسفے سے بعض اہل علم مسلمان جن کی دینی بنیاد کمزور تھی بہت متاثر ہوئے۔ بجائے اس کے کہ وہ اس فلسفے کو اسلام کی تعلیمات پر جانچتے انہوں نے اسلامی تعلیمات کو اس فلسفے کی بنیاد پر جانچنا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں ان کے عقائد میں خرابی پیدا ہوئی، کمزور ذہنوں میں شک و شبہات پیدا ہونے لگے اور مسلمانوں میں مختلف گمراہ فرقے پیدا ہوئے جنہوں نے عقل کو اپنا معیار بنایا اور بے فائدہ اور بے حقیقت باتوں پر بحثیں ہونے لگیں۔ (آج یہی کام مغرب پرست مسلمان کررہے ہیں۔)
سیاسی افراتفری اور فکری انتشار اور بدامنی کا ایک اثر یہ ہوا کہ علوم و فنون کی ترقی رک گئی۔ امت کا درد و غم رکھنے والے علمائے حق گوشہ نشین ہو گئے جس کے نتیجے میں دنیا پرست علما علمی مجلسوں پر چھا گئے اور قرآن و حدیث کے بجائے بے مقصد اور غیر اہم مسائل موضوع بحث بن گئے اور دنیا پرست اور مال و جاہ کے طلب گار علما جو عام لوگوں کی دین سے محبت اور تعلق لیکن ناواقفیت کا فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں اور عوام الناس کو ان فروعی مسائل کو بنیاد بنا کر آپس میں لڑاتے رہے ہیں انہوں نے ان اختلافات کو اس درجے تک پہنچا دیا تھا کہ ایک دوسرے پر حملے کرنا، گھروں کو لوٹنا یہاں تک کہ مخالفین کی قبروں تک کو اکھاڑنے کے واقعات عام تھے۔ گالی گلوچ اور خون خرابہ تو ایک معمولی بات تھی۔ (غور فرمائیں آج بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔)
ان تمام خرابیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان عمل میں سست پڑ گئے، دنیاوی زندگی انہیں پیاری ہوگئی، ان کا آپس کا اتحاد پارہ پارہ ہوگیا، جذبہ جہاد ختم ہوگیا اور وہ اپنی وہ طاقت اور رعب کھو بیٹھے جس سے کفر کی طاقتیں خوف کھاتی تھیں۔
لوگوں کی اخلاقی حالت پر بھی اس کا بہت برا اثر پڑا تھا۔ خود غرضی، لالچ و حرص اور مکر و فریب جیسی خرابیاں عام تھیں۔ بزدلی، خوشامد، چاپلوسی، خیانت، دھوکہ دہی جیسی خرابیاں ان کی زندگیوں کا حصہ بن گئیں تھیں۔ملی و قومی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دی جانے لگی تھی اور اس کی خاطر دین و ایمان تک داؤ پر لگا دیا جاتا تھا۔ حکمرانوں کی زندگیاں گناہوں میں ڈوبی ہوئی تھیں۔اور عوام الناس دنیا داری اور حرص و ہوس میں آلودہ اور ظلم و ستم کا شکار بنے ہوئے تھے۔ اقتدار پرستی اور چند افراد کی بالا دستی نے نئی نئی سازشوں کو جنم دیا۔مذہب سے دوری ایک فیشن بن گیا تھا۔بد امنی عام ہو گئی تھی۔
ان حالات میں ایک ایسی شخصیت کی شدید ضرورت تھی جو نہ صرف امت محمدیہ کی منجدھار میں پھنسی کشتی کو سلامتی کی طرف موڑ دے بلکہ اسے آنے والے طوفانوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بھی بنا سکے۔ یہ ذات شاہ بغداد، محبوب سبحانی، پیران پیر، محی الدین شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی صورت میں اس دنیا میں تشریف لائی۔ یہی وہ ذات بابرکت تھی جس نے امت مسلمہ کی خستہ حالی کو ختم کیا، لوگوں سے مایوسی کو دور کیا، امید کا چراغ روشن کیا اور کشتی اسلام کو بھنور سے نکال کر صحیح سمت میں موڑ دیا۔
حضرت شیخ ۴۸۸ھ میں بغداد میں داخل ہوئے اور تقریباتینتیس (۳۳) سال تک طلب علم اور اصلاح نفس میں گزارے۔اس مدت میں تمام مذکورہ حالات کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے۔ بغداد کی معاشرتی سماجی اور دینی زندگی کے بگاڑ کو دیکھا۔ ظلم و ستم، فحاشی و تن آسانی اور عیش و عشرت میں ڈوبی ہوئی زندگی ان کے سامنے تھی۔ انہوں نے مسلمانوں کی باہمی نااتفاقی اور خانہ جنگی اور دشمنی کو بھی دیکھا، انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ ملک، صوبوں اور شہروں کی حکومت حاصل کرنے کے لیے لوگ سب کچھ کر گزرنے پر آمادہ ہیں۔ انہوں نے درباری اور دنیا پرست علما کا کردار بھی دیکھا جو ذلیل دنیا کی خاطر مسلمانوں کو آپس میں لڑاتے تھے۔ یقینا حضرت شیخ نے ان حالات اور واقعات کا بھرپور اثر قبول کیا اور یہ احساس ان کے دل میں پیدا ہوا کہ ملت اسلامیہ زوال کی زد پر ہے جس سے بچاؤ کے لیے دوسری کوئی قوت عالم اسلام میں سرگرم عمل نہیں ہے۔حضرت شیخ کا ایک ملفوظ ملاحظہ فرمائیں:
’’ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی دیواریں گر رہی ہیں اور پکار رہی ہیں کہ کوئی ہے جو ان کی تعمیر کرے؟ دین محمدی کی نہر خشک ہوا چاہتی ہے۔اللہ کی عبادت اول تو ہوتی ہی نہیں اور کبھی ہوتی بھی ہے تو دکھاوے اور نفاق کے ساتھ ہوتی ہے۔ کوئی ہے جو ان دیواروں کو سیدھا کرنے اور نہر کو وسیع کرنے اور اہل نفاق کو شکست دینے میں مدد کرے؟‘‘ (ملفوظات شیخ)
یہی تعمیر اور امت کو ہلاکت کے بھنور سے باہر نکال کر لانا ہی آپ کا اصلی مقصد تھا۔ یہی آپ کے مواعظ کا اصلی محرک تھا اور اسی لیے آپ نے بغداد کو، جو اس وقت عالم اسلام کا علمی اور روحانی مرکز تھا، اپنی دعوت کا مرکز بنایا تھا تا کہ امت مسلمہ کے قلب میں بیٹھ کر اس کی اصلاح کا کام کیا جائے۔چنانچہ وہ اپنی پوری قوت اور اخلاص کے ساتھ وعظ و ارشاد دعوت و تربیت، اصلاح نفوس اور تزکیہ قلوب کی طرف متوجہ ہوئے۔ انہوں نے ان مسائل کی جڑ پر کلہاڑا چلایا جو امت کو دیمک کی طرح چاٹ رہے تھے۔ انہوں نے توحید خالص، اخلاص کامل، تقدیر پر ایمان، عقیدہ آخرت کی یاد دہانی، اس دنیا کے فانی ہونے اور اس کے مقابلے میں آخرت کی زندگی کی ہمیشگی، نفاق اور حب دنیا کی برائی اور تہذیب اخلاق کی دعوت پر سارا زور صرف کر دیا۔ ان مواعظ اور خطبات کا خواص و عوام پر بہت زبردست اثر پڑا اور وہ بہت جلد راہ راست پر آگئے۔ ہزاروں افراد نے آپ کے ہاتھ پر توبہ کی۔ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ سینکڑوں یہودیوں اور عیسائیوں نے بھی اسلام قبول کیا۔
آپ نے صرف واعظانہ کام ہی نہیں کیا بلکہ مجاہدانہ سرگرمیاں بھی آپ کی شخصیت کا حصہ رہیں۔ گو براہ راست آپ نے ان سرگرمیوں میںحصہ نہیں لیا لیکن تاریخ سے ثابت ہے کہ ان کے دور میں بلکہ بعد میں بھی عالم اسلام میں جو جذبہ جہاد بیدار ہوا اس کے پیچھے حضرت شیخ ہی کی تحریک جہاد کام کر رہی تھی۔ اس بات کے ثبوت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ مجاہد اسلام نور الدین زنگیؒ کے دربار میں حضرت شیخ کے مدرسہ قادریہ کے فارغ ہونے والوں کو اعلی عہدے حاصل تھے مثلاً: قطب الدین نیشاپوری اور شرف الدین عبدالمومن شوردہ۔اسی طرح حامد بن محمود حرانی جو حضرت شیخ ہی کے شاگرد تھے نور الدین زنگیؒ کے دربار میں قاضی کے عہدے پر فائز تھے۔ ایک اور شاگرد علی بن برداون بن زید کندی بھی نور الدین زنگی کے دربار میں خاص قدر و منزلت حاصل تھی۔
فاتح بیت المقدس صلاح الدین ایوبیؒ کے دربار میں بھی حضرت شیخ کے شاگرد موجود تھے مثلاً: زین الدین علی بن ابراھیم بن نجا دمشقی جو حضرت شیخ کے شاگرد تھے صلاح الدین ایوبی کے مشیروں میں شامل تھے۔ فتح بیت المقدس کے وقت ابن نجا اور موفق الدین بن قدامہ اور ان کے بھائی محمد صلاح الدین ایوبی کے ہمراہ تھے اور یہ تمام لوگ حضرت شیخ کے شاگرد تھے۔
ہندوستان میں جہاد کا پرچم شہاب الدین غوری نے بلند کیا۔ اس جہاد کے پیچھے بھی حضرت شیخ کے فیض یافتہ خواجہ معنی الدین چشتیؒ کی کوشش کار فرما تھی۔حضرت خواجہ حضرت شیخ کے آخری سالوں میں بغداد پہنچے تھے اور وہیں سے لوٹ کر آپ نے ہندوستان کا سفر کیا تھا اور پھر اجمیر کو اپنا مرکز بنایا۔یہ علاقہ اس وقت کفر و شرک کا بہت بڑا مرکز تھا۔ وہیں سے آپ نے شہاب الدین غوری کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دی۔آپ کے بعد آپ کے خلفا نے اپنی دعوتی اور تبلیغی کوششوں سے پورے ہندوستان کو نور اسلام سے منور کر دیا۔
یہ انہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ حضرت شیخ کی زندگی ہی میں عیسائیوں کو شکستیں ہونے لگیں ا ور ان کے وصال کے چند سال کے بعد پورا عالم اسلام عیسائیوں کی یلغار کے مقابلے میں سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہو گیا۔حضرت شیخ کی وفات ۵۶۱ھ میں ہوئی اور اس کے تین چار سال بعد ہی سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے صلیبیوں کو شکست دے دی۔ اس کے کچھ عرصہ کے بعد شہاب الدین غوری نے ہندوستان میں بت پرستوں کو روند کر اسلام کا پرچم بلند کیا۔
حضرت شیخ کی تمام کرامتوں کو ایک پلڑے میں رکھا جائے اور دوسرے پلڑے میں آپ کی ان کوششوں کو جس کے نتیجے میں ہزاروں بھٹکے ہوئے راہ راست پر آگئے اور گلشن اسلام میں دوبارہ بہار آگئی۔ اسلام کے اصل عقائد اور تعلیمات واضح ہو گئیں امت مسلمہ عمل و جہاد کی طرف لوٹ آئی تو یقینا یہی پلڑا بھاری ہوگا اور یہی آپ کی سب سے بڑی کرامت مانی جائے گی۔ لیکن آج حضرت شیخ کی دوسری کرامتوں کے مقابلے میں ان کی اس کرامت کا بہت کم لوگوں کو علم ہے۔
(جاری ہے)​
 
Top