کلام عرفان(دیوان حضرت خواجہ اجمیریؒ)

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
کلام عرفان(دیوان حضرت خواجہ اجمیریؒ)

وقت آنست کہ دلِ واقفِ اسرار شود
جائے انست کہ دل طالبِ دیدار شود
یہی اب وقت ہے دل واقفِ اسرار ہو جائے
وہ موقع آگیا دل طالبِ دیدار ہو جائے

گنج مخفی کہ ببا زار ظہور آمدہ است
عارف آں بہ کہ خلوت زسوئے بازار شود
وہ پو سیدہ خزانہ اب سرِ بازار آیا ہے
مناسب عارفوں کو ہے سوئے بازار ہو جائے

ہیچ دانی ز چہ زد خیمہ بصحرائے ظہور
تارخش زآئینہ کون نمودار شود
سمجھتے ہو کہ کیوں صحرا میں خیمہ تان رکھا ہے
کہ اس منظر سے اس کے حسن کا دیدار ہو جائے

وہ چہ دانم کہ دریں واقعہ سر گردانم
چہ عجب گر جگرم ریش ودل افگار شود
نہیں معلوم تھا یہ واقعہ مجھکو کرے حیراں
تعجب کیا نہ کیوں میرا جگر افگار ہو جائے

خلق بہر گرظہور اند چرا محجوب اند
ہیچ دیدی کہ حجب موجب اظہار شود
اُسے ظاہر جو کرنے خلق آئی ہے تو پردہ کیوں
اٹھے پردہ تو، توہی موجبِ اسرار ہو جائے

چوں حجابش منم آخر زمیاں بر خیزم
تا ہموں دیدہ وسنیدہ دیدار سود
اگر پردہ ہوں میں تو درمیاں سے اٹھ ہی جاتا ہوں
ہر اک دیدہ کو تاکہ حسن کا دیدار ہوو جائے

او در آئینہ من چہرہ خودی می بیند
خود بدیں واسطہ مطلوب وطلبگار شود
جب اپنا حسن خود دیکھے ہے میرے آئینہ جاں میں
نہ کیوں اس واسطے سے دل فدائے یار ہو جائے

حاصل آنست کہ ایں مسئلہ بیجا ہیچ ست
ویں سخن مشکل اگر راست بگفتار شود
مگر حاصل کلام اس مسئلہ بیجا میں نہاں کچھ ہے
بحث مشکل ہے ، وہ سمجھے جو دل با یار ہو جائے

اُو چوخود عارف وخود آمد وما محرو میم
بس نہاں از کہ بدو بر کہ پدیدار شود
خدا عارف ہے ، خود آیا، مگر محروم ہم سب ہیں
نہاں ہو کر جو دیکھے ،قلب میں دیدار ہو جائے

قدر جو ہر نہ شناسد مگر آں جو ہر ئیے
کہ صدف بشکند وخود درِ شہوار شود
وہی ہے جو ہری جو جانتا ہے قدر گو ہر کہ
صدف جو توڑے ہستی کی درِ شہوار ہو جائے

پردہ آب وگل ازروئے دل وجاں بر دار
تا ہمہ ظلمتِ ہستی تو انوار شود
یہ آب وگل کے پردے گر ہٹادے جاں کے چہرہ سے
سراپا ظلمتِ ہستی ترا انوار ہو جائے۔


 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
قدر جو ہر نہ شناسد مگر آں جو ہر ئیے
کہ صدف بشکند وخود درِ شہوار شود
وہی ہے جو ہری جو جانتا ہے قدر گو ہر کہ
صدف جو توڑے ہستی کی درِ شہوار ہو جائے
 
Top