نوائے تلخ

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
نوائے تلخ

یہی عورت تھی جس کو تم کبھی دیوی سمجھتے تھے
کہیں ہمشیر تھی ماں تھی،کبھی بیٹی سمجھتے تھے

یہ گھر کی چار دیواری تھی یا عورت کی عزت تھی
اسی کا حکم چلتا تھا حکومت ہی حکومت تھی

زمین پاک پر عورت کی اب عظمت نہیں باقی
وہ عزت اب نہیں بقی وہ حرمت اب نہیں باقی

ترقی کی حسیں وادی میں یہ گنگا بہی الٹی
چلی ایسی ہوا گویا بساطِ زندگی الٹی

جو گھر چھوڑا تو'' دفتر'' کی فضاؤں سے پڑا پالا
نئے اذہان نے اب اس کو کس منزل پہ لاڈالا

پھر اس پر خانہ داری فکرِشوہر فکرِ مستقبل
بلائے جاں نظر آنے لگی ہے اس کو ہر منزل

لفنگوں کے وہ فقرے وہ ہوائیں سرد آہوں کی
نگاہِ بد کے حملے بد زبانی بد نگاہوں کی

ستانے کے لئے گویا زمانہ ہے کمر بستہ
بسوں کی بھیڑ میں ہے ایک جیسے مرغ پر بستہ

جو دفتر سے وہ گھر آئے تو گھر بھی اک مصیبت ہے
کسے دیکھے کسے پر کھے مصیبت ہی مصیبت ہے

ادھر چولھا اُدھر ہانڈی ادھر بچے اُدھر شوہر
ادھر اک تن نازک اُدھر اِک ایک سے بڑھ کر

زمانے بھر کے طعنے اقربا کی بد زبانی ہے
غرض کھولے ہوئے منہ ہر بلائے نا گہانی ہے

تقاضا وقت کا یہ ہے کہ اب رنگِ کہن بدلے
(شہر بانو)
 
Top