احرام میرا پاسپورٹ،لبیک میرا طیارہ، ٹانگیں میرا کرایہ

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبر کاتہ!
معزز قارئین اکرام: یہ ایک رُلا دینے والی داستان ہے۔ اسے مفتی ذاکر حسن نعمانی نے مرتب کیا ہے۔ جو روزنامہ اسلام میں 8 اکتوبر 2015 میں قسط وار شائع ہوا۔ حاجی صاحب بغرض علاج پشاور آئے تو مفتی صاحب نے اُن سے یہ کہانی سنی اور قلم بند کیا۔ اب بندہ نا چیز وہاں سے نقل کرکے آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہے۔محمدداؤدالرحمن علی
حرمین شریفین کا انوکھا سفر، عشق و عقیدت کے عجب داستان
احرام میرا پاسپورٹ،لبیک میرا طیارہ، ٹانگیں میرا کرایہ
داستان:حاجی محمد شجاع خان (قندھار،افغانستان)
مرتب: مفتی ذاکر حسن نعمانی پشاور
تعارف؛۔
حاجی شجاع خان بھیڑ بکریاں چرانے والا ہے عمر سینتیس سال ہے۔ اور زندگی خیموں میں گزرتی ہے، حاجی صاحب انتہائی غریب ہیں ، اپنا گھر تک نہیں ہے، سردیاں قندھار جبکہ گرمیاں غزنی میں گزارتے ہیں۔لمبے مضبوط اور قابل رشک جسم کے مالک ہیں۔امیرالمومنین ملامحمد عمرؒ کی موجودگی میں کئی کُشتیاں لڑی ہوئی ہیں۔ عصری و دینی علوم سے ناواقف مگر ایک سچا اور مضبوط ایمان و یقین والا مسلمان ہے 2014 میں افغانستان سے بیت اللہ تک توکل علی اللہ حج کی نیت سے بغیر پاسپورٹ ،ویزہ، سواری، اور زادِراہ سفر کیا۔ بقول حاجی شاع خان صاحب کے کہ احرام میرا پاسپورٹ ،لبیک میرا طیارہ،ٹانگیں میرا کرایہ تھا۔
حج کا خیال:۔
پہلے میں مالدار تھا۔ پھر غربت نے گھیر لیا۔ جب کسی نئے حاجی کے ساتھ ملاقات ہوتی تو دِلی تمنا ہوتی کہ میں بھی حج کروں،جب کسی حاجی سے زَمزم کا پانی پیتا تو دِل سے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتا ہے کہ اے اللہ مجھے حج کرادے ، راتوں کو خواب میں دیکھتا کہ احرام باندھ کے طواف کر رہا ہوں اور لبیک مکمل پڑھتا۔۔۔ تلبیہ میں نے خواب میں سیکھی ورنہ مجھے تلبیہ نہیں آتا تھا۔ تین سال اس قسم کے خواب دیکھتا رہا۔ چوتھے سال پھر اس طرح کا خواب دیکھا اور دورانِ نیند چارپائی سے نیچے گر پڑا۔ بیوی نے پوچھا کیا بات ہے میں نے کہا کہ مت پوچھو، اُٹھا نماز پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے رُو رُو کر دعا کہ ’’ اے اللہ! مجھے اپنے گھر بلالے‘‘ اللہ تعالیٰ سے عہد کیا کہ حج ضرور کروں گا حالانکہ میں مقروض تھا،مال بھی نہیں تھا،اوقاف کے نمائندہ سے بات کی کہ ’’مجھے کسی بھی طرح حج کرادو،میرے پاس صرف 1200 افغانی روپے ہیں۔‘‘ اس نمائندے نے کہا’”تم پر حج فرض نہیں ،واپس چلے جاؤ ،اگر واقعی جانا ہے تو چار ہزارڈالر لاؤ۔‘‘ میرے دل سے اس نمائندے کے لیے بد دعا نکلی اور میں نے کہا’’اللہ کرے تو کسی کے ہاتھوں مارا جائے‘‘چناں چہ چار ماہ بعد اسے کسی نے قتل کر دیا۔ میں مایوس ہوکر قندھار اپنے گھر (خیمہ ) میں واپس آیا، رو رہا تھا،بلکل بے اختیار تھا،قندھار تک مجھ سے کسی نے کرایہ نہ لیا۔ میرے پاس 1200 افغانی روپے تھے، رات گھر گزاری صبح بازار گیا، کباڑ میں دو جوڑے چپل اور دو جوڑے احرام خریدے ، اب صرف سو روپے میرے پاس رہ گئے۔ ظہر کے وقت مسجد آیا،گاوں والوں سے کہا’’ مجھے معاف کرنا میں حج کے لیے جا رہا ہوں۔‘‘ گاؤں والوں نے کہا ’’تم حج پر نہیں جا رہے‘‘ صبح کے وقت گھر والوں سے اجازت لیکر گھر سے نکلا، ایک گاڑی والے نے ہرات کے اڈے تک پہنچایا، میرے پاس صرف سو روپیہ تھا اور زاروقطار رو رہا تھا، ہرات تک ایک آدمی نے کرایہ دیا اور کھانا بھی کھلایا اور اس نے ایران کے باڈر اسلام قلعہ تک پہنچایا، رات وہیں گزاری ، لوگوں نے کہا’’ نہ جاؤ، مرجاؤ گے،ایرانی تجھے گولی ماردینگے۔‘‘ صبح ناشتہ کیا، غسل کیا، سر گنجا کیا،ناخن کاٹے ، احرام باندھا،حمام والے نے کہا’’ تو پاگل تو نہیں ،احرام کس لیے باندھا۔۔۔۔؟‘‘ میں نے کہا ’’ میں پاگل نہیں ، حج کے لیے جا رہا ہوں‘‘ پھر مسجد گیا دو رکعت نماز پڑھی اور دعا مانگی ’’ اے اللہ! تُونے مجھے خواب میں تلبیہ سکھایاہے، احرام میرا پاسپورٹ، لبیک میرا طیارہ ، اور پاؤں میرا کرایہ ہے، اس کے علاوہ میرے پاس کچھ بھی نہیں۔‘‘ اور دعا کی ’’ اے اللہ! مجھے ضرور حج کرانا اور اگر حج نہیں کراتا تو مجھے راستے سے گھر واپس زندہ نہ لوٹانا۔‘‘
ایران میں داخلہ؛۔
ایران باڈر پر چھ چوکیاں ہیں، تین افغانی اور تین ایرانی ۔ بغیر پاسپورٹ اور ویزہ کے یہ چوکیاں عبور کرنا دُشوار اور ناممکن تھا۔ ایک بڑا ٹرالہ آہستہ آہستہ جارہا تھا، میں لبیک کہتا ہوا اس کے پیچھے چل پڑا، کسی نے پوچھا تک نہیں۔ ایران کے ایک تھانے کے قریب ایک پولیس والے نے پوچھا’’ کیوں رو رہے ہو۔۔۔؟‘‘میں نے کہا ’’ کوئی رنج و غم نہیں، حج کے لیے جا رہا ہوں‘‘ اس نے چائے اور بسکٹ کے ساتھ میری تواضع کی اور پاسپورٹ وغیرہ کا نہیں پوچھا اور کہا’’ میرے لیے دعا کرنا‘‘ راستے میں ایک موٹر والے نے کہا ’’ مجھے کرایہ دو‘‘ میں نے کہا’’ میرا کرایہ میرے پاؤں ہیں‘‘ چنانچہ اس نے ایک گھنٹے کی مسافت طے کرائی اور کرایہ بھی نہیں لیا اور ساتھ ساتھ میری باتوں پر ہنستا بھی رہا۔آگے مشہد تک پیدل گیارہ دِن پہاڑی سفر طے کیا، پھر پہاڑوں سے ایک سٹرک کی طرف آیا ، مشہد سے تہران تک ایک ہزار کلو میٹر ایک ماہ میں طے کیا۔ راستے میں گشت والی پولیس ملتی لیکن انہوں نے کوئی روک ٹوک نہیں کی ۔ گاؤں کی مسجد میں ٹھرتا تو لوگ کھانے پینے کا بندو بست کر دیتے۔ جب راستہ معلوم نہ ہوتا کہ کس طرف جاؤں؟تو کسی مسجد کے محراب کو دیکہ کر قبلہ کی جانب روانہ ہوجاتا۔ یعنی قبلہ رُخ سفر جاری رہتا۔ ایک جگہ ایران کی پہاڑیوں میں فوجیوں نے پکڑ لیا’’ ہم تجھے افغانستان بھیجتے ہیں، تو جاجوس ہے۔‘‘ اور مجھے تین دن تک جیل میں رکھا۔ تین دن تک میں نے نہ کھانا کھایا اور نہ ہی ایک گھونٹ تک پانی پیا۔ حالانکہ وہ مجھے کھانا دیتے تھے، میں نوافل پڑھ کر دعا مانگتا’’ اے اللہ! ان کی قیدو بند سے چھٹکارا دلا دے‘‘ جب میں نے دعا کی تو اس فوجی پر ایسا اثر ہوا کہ وہ پسینہ میں شرابور ہو گیا اور میرے پاس آخر کہنے لگا’’ آپ نے مجھ پر کوئی تسخیری عمل کیا ہے۔ کھانا کھاؤ گے تو آزاد کردوں گا ورنہ بند پڑے رہو۔‘‘ وہاں تھانے کے افسر نے کہا‘‘ اس کو غسل کراؤ‘‘ میرا احرام دھلوایا،مجھے گوشت کھلایا اور مجھ سے معافی مانگی اور رہا کردیا۔آگے چلا تو ایک پہاڑی پر سخت سردی تھی ، وہاں سخت سردی تھی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی ، اللہ تعالیٰ نے سلا دیا، جب جاگا تو دھوپ نکل آئی تھی ۔ راستہ دُشوا ر تھا، ایک پہاڑی نالے سے نیچے اُترا، پاؤں کی انگلی کا ناخن نکل گیا۔ پہاڑ کے دامن میں ایک گاؤں تھا۔ وہاں لڑکوں نے مجھے احرام کی حالت میں دیکھا تو بھاگ گئے کہ تو کوئی بلا ہے۔وہ لڑکے اپنے جانور بھی چھوڑ گئے تھے۔ چنانچہ اس گاوں سے سب لوگ نکل آئے ان کا مولوی ان کے آگے تھا۔ اس نے کہا’’ تُو افغانی نہیں تو خضر علیہ السلام ہے ، اس خطرناک پہاڑ میں سردی اور درندوں کی وجہ سے کوئی ٹہر نہیں سکتا ہمارے لیے بھی دعا کرو اور ہمیں ولایت سے حصہ عطا کرو‘‘ مجھے کھانا کھلایا اب تو سارے گاؤں والے آگئے۔ میں نے ہر ایک کے کمر پر تھپکی دی اور ساتھ کہتا رہا’’ تم کو حصہ دے دیا‘‘ وہاں سے ایک آدمی مجھے موٹر پر بٹھا کر پکی سٹرک تک لے آیا۔ اس سٹرک پر سات آٹھ دن سفر کیا اور عراق کے باڈر پر پہنچ گیا۔ رات وہاں گزاری۔
عراق میں؛۔
ایک آدمی نے کہا’’ میں تجھے باڈر سے گزار دوں گا لیکن وہاں داعش والے موجود ہیں تجھے مار دیں گے۔‘‘ اس نے مجھے راستہ دکھلایا،میں نے چلنا شروع کیا، تین چار گھنٹے سفر طے کرنے کے بعد داعش حکومت نے مجھے پکڑ لیا، مجھ سے پہلے دو بندوں کو گرفتار کر چکے تھے۔ مجھے گاڑی میں اگلی سیٹ پر بٹھایااور بقیہ دو کو پچھلی سیٹ پر۔ ایک کمرے میں لے گئے وہ عربی بولتے تھے، مجھے عربی نہیں آتی تھی ، مجھے کہتے ‘‘ تو ملا عمر ہے‘‘ کبھی کہتے ’’ تو اسامہ ہے‘‘ یا تو ان کا ’’ نمائندہ‘‘ ہے بالآخر داعش والے فارسی ترجمان لائےاس کو میں نے کہا’’ میں اپنے خواب کے مطابق حج کرنے جا رہا ہوں۔‘‘ انہوں نے جب میری باتیں سنیں تو سب مجھے چومنے لگےاور گلے لگایا اور خوب آؤ بھگت شروع کردی۔ مجھے کہنے لگے ’’ ہمارے ساتھ رہو، تمہاری شادی کرادینگے،ہم جنگ لڑیں گے،آپ ہمارے لیے صرف دعائیں مانگو۔‘‘ میں نے کہاکہ’’ میں حج کرنے جا رہا ہوں اور وہاں اہل اسلام کے لیے دعائیں مانگوں گا۔‘‘ پھر انہوں نے کہا ہم آپ کو کویت باڈر تک پہنچا دیں گے،اس لیے کہ عراقی گورنمنٹ آپ کو جانے نہیں دے گی ۔ مجھے گاڑی میں بٹھایا اور ایک دن کی مسافت طے کی اور کہا’’سامنے والے پہاڑ سے کویت کا باڈر شروع ہوتا ہے،وہاں سے میں نے دس دن تک پیدل سفر کیااور کویت باڈر پہنچا۔ وہاں رات گزاری ، صبح پہر چل پڑا ۔ اس راستے پر کچھ عورتیں کھیتوں کی طرف جا رہی تھیں، میں تلبیہ پڑھ رہا تھا۔ ایک عورت نے کھانے کو ’ جو‘ دیے۔
کویت میں:۔
کو
یت باڈر پر سب لوگوں سے ضروری کاغزات کے بارے میں تفشیش ہو رہی تھی اور میں لبیک کہتا ہوا باڈر سے گزر گیا۔بازار پہنچا تو ایک عرب سے ملاقات ہوئی ، اس نے گوشت اور چاول کھلائے ، اس طرح کویت میں دس دن سفر کرتا رہا۔ایک شہر پہنچا اس میں ایک ہی قسم کی بلڈنگیں تھیں ، میرے پاوں سوج گئے تھے اور چپل پھٹ گئے تھے۔ ایک بلڈنگ بن رہی تھی ، ایک افغانی کام کر رہا تھامیں نے اس سے پوچھا کہ ’’ تو پٹھان ہے۔۔؟‘‘ اس نے کہا’’ ہاں۔۔۔ ‘‘ ہم دونوں رو پڑے۔ پھر مجھ سے کہا’’ کیا ماجرا ہے۔۔۔؟‘‘ میں نے کہا’’ حج کرنے جا رہا ہوں۔‘‘ اس افغانی نے اپنے باقی ساتھیوں کو بلایا۔ ایک دوسرے سے ملاقات کے ساتھ سب کو بڑی خوشی ہوئی ۔ انہوں نے بلڈنگ کے مالک عرب شیخ کو اطلاع کردی ۔ وہ اپنی گاڑی لیکر آگیا، ساتھ انجینئر بھی تھا۔ وہ عرب شیخ مجھے اپنے گھر لے گیا گھر والوں نے میری بڑی خدمت کی۔ وہاں میں نے غسل کیا،انہوں نے میرے پاؤں سے کانٹے نکالے۔ پھر شیخ نے ترجمان کے ذریعے سے پوچھا،میں نے کہا’’حج کے لیے جا رہاہوں۔‘‘ اس نے مجھے کہاکہ ’’ ہمارے ہاں ٹھرو، افغانستان میں آپ کے لیے گھر بنادوں گا،قرضہ اتار دوں گا، اپنی جائیداد میں سے حصہ دے دوں گا۔‘‘ میں نے کہا’’ مجھے اگر پوری سلطنت بھی دے دے میں لینے کو تیار نہیں، میری آرزو صرف حج ہے ، مجھے سمندر سے جدہ تک پار کرادو۔‘‘ عرب شیخ نے کہا’’ اگر میرا سارا سرمایہ بھی ختم ہو جائے میں تمہیں ضرور کعبہ تک پہنچاؤں گا۔‘‘ میں نے اس کے ہاں آٹھ راتیں قیام کیا، نویں رات کو ایک آدمی کو رقم دے کر میرے ساتھ کیا اور اس کی ڈیوٹی لگادی ’’اس کو کعبہ تک پہنچانا ہے‘‘ اس ذمہ دار آدمی کے ساتھ میں نے چار راتیں گزاریں ، میری تصاویر بنائیں اور سعودیہ عرب جانے کے لیے مجید رحمن کے نام سے ایک کارڈ بنایا۔ میرے لیے مجید رحمن نام سیکھنا اور یاد رکھنا بھی مشکل تھا۔ بہر حال میں نے سمندر میں چھوٹی کشتی میں تقریباً تین گھنٹے سفر کیا۔ آگے ایک موٹر میں سوار ہوئے ، پھر ایک موٹر بدلی۔ میرا ساتھی مجھے کہتا’’ مجید رحمن یاد رکھنا۔‘‘میں نے کہا ’’ میرے لیے مجید رحمن نام سیکھنا بھی مشکل ہے ، ہاں لبیک میری موٹر ہے۔‘‘ جب چیک پوسٹ آتی تو میں تلبیہ پڑھنا شروع کردیتا۔
بیت اللہ میں :۔
اچانک صبح دس بجے ہماری گاڑی مسجدالحرام کے سامنے رُکی ۔ میں فوراً کعبہ شریف کی طرف بھاگا۔ میرا ساتھی مجھے آوازیں دے رہا تھا’’ ٹہر جاؤ، رقم لو‘‘ میرے پاؤں اور گھٹنے میں درد تھا، لیکن اس دن میرا درد کافور ہو گیا۔ میں نے اسے وہیں چھوڑ دیا اور کعبہ تک پہنچ گیا اور بیت اللہ کو اپنی بانہوں میں لیکر ایسا بغل گیر ہوا گویا کہ بیت اللہ کی کمر کی کولی بھر لی۔ پھر طواف کیا اس کے بعد سعی کی عمرہ سے فارغ ہوا تو سامان کی تلاش میں بیت اللہ کے داخلی والے دروازہ کی طرف آیا تو پتہ چلا کہ سامان والا بکس غائب ہے اب میں صرف ایک احرام میں تھاتو باقی میرے پاس کچھ نہیں تھا۔ پیسا تھا، نہ سامان۔پو رے آٹھ دن تک زم زم پیتا رہا۔ اس کے علاوہ کچھ کھایا پیا نہیں اور اپنے پاؤں کے زخموں پر زم زم ڈالتا رہا۔ آٹھ دن کے بعد کوئٹہ (پاکستان) کا ایک آدمی ملاکہنے لگا’’ تیرے پاؤں سوج گئے ہیں اور آٹھ دن سے احرام میں پہر رہے ہو۔‘‘ میں نے کہا’’ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے‘‘ وہ مجھے اپنے ساتھ لے گیا ، کپڑے دیے،موبائل دیا، چپل دی اوردو سو ریال۔ اب میں نے کچھ سُکھ کا سانس لیااور اپنی اہلیہ کو فون کیاکہ ’’ میں کعبہ میں موجود ہوں۔‘‘ گھر سے نکلے ہوئے چار ماہ بیت گئے تھے، اس کے بعد بیت اللہ میں پانچ مہینے گزارے۔ اس دوران میں نے سنتالیس عمرے کیے، روزانہ پندرہ طواف کرتا تھا، پھر آہستہ آہستہ طواف کم کر دیے کیونکہ حجاج کی تعداد بڑھ رہی تھی، یہ تمام عمرے و طواف میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور پوری امُت کے ایصال ثواب کے لیے کیے ہیں۔ دس رمضان کے بعد پاکستان و افغانستان کے لوگ آنا شروع ہوگئے، انہوں نے میری مدد کی اس کے بعد آج تک میں نے غربت نہیں دیکھی ، بڑے بڑے علماء میری عزت کرتے ہیں۔ بیت اللہ میں دسواں دن تھا ایک عرب شیخ سے ملاقات ہوگئی وہ مجھے اپنے گھر لے گیا، ایک کمرہ دے دیا، تین وقت کا کھانا دیتا تھا، گھر والے میری خدمت کرتے تھے۔ ان گھر والوں نے مجھے چند سورتیں یاد کروائیں لیکن نفس اور شیطان کے اغواء سے ڈرا اور غیرت نے گوارا نہ کیا لہذا ان کے گھر کو ترک کردیا۔
ایک واقعہ:۔
رمضان کا مہینہ تھا ایک دن میں میزاب رحمت کے نیچے حطیم میں کھڑا تھا ، بیوی کا فون آیا’’ چھوٹی بیٹی سخت بیمار ہے،مر رہی ہے اور آٹھ دن سے کچھ کھایا پیا بھی نہیں۔‘‘ میں نے کہا’’ کسی سے قرض لو اور علاج کرواؤ‘‘ اس نے کہا’’ لوگوں نے کہا کہ آپ کا خاوند ہمیں قرض واپس نہیں کرے گا۔‘‘ کسی نے قرض نہیں دیا۔ حطیم کے اندر میں نے دعا کی ’’ اللہ!میرا طبیب تُو ہے، میرے پاس بچی کے علاج کا خرچہ نہیں۔‘‘ میں نے افطار کیا، نماز پڑھی تو حاجی غفار حاجی محمد انور اور حاجی اللہ نذر(یہ تینوں ان کے جاننے والے تھے) میرے پاس آئے، حالانکہ ان کو میری مشکلات کا پتہ نہیں تھا،مجھ سے کہنے لگے’’ آپ کو گھر میں جتنی رقم کی ضرورت ہے ہم بھیج دینگے‘‘ چنانچہ چار سو پچاس ڈالر حوالہ کے ذریعے ہمارے گھر افغانستان بھیج دیے گئے، صبح کے وقت گھر سے فون آیا کہ بچی صحت یاب ہو چکی ہے ، میری بچی کو اُس وقت شفا ملی پھر آج تک ڈاکٹر کی ضرورت نہیں پڑی۔
مدینہ منورہ کی حاضری:۔
حج کے چوتھے دن رات بارہ بجے مدینہ منورہ کے لیے بس تیار کھڑی تھی ۔ میرے پاس پیسے نہیں تھے ، تھوڑا بہت سامان جو کچھ تھا اس عرب شیخ کے گھر چھوڑ دیا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں ایک پنجابی حاجی ہے اس نے مجھے سو ریال دیے، میں بس میں سوار ہو کر مدینہ منورہ پہنچ گیا ۔ظہر کے قریب روزہ اقدس پر صلوۃ وسلام پیش کرتے وقت بہیوش ہو کرگر پڑا ، کسی شخص نے مجھے اٹھایا اور کہنے لگا’’ میں دو ماہ سے آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔‘‘یہ کوئی افغانی تھا۔ اس نے مجھے کہا’’ میں نے آپ کو خواب میں دیکھا تھا‘‘ آپ کا حلیہ دیکہ کر آپ کو پہچان لیا۔ پہلے اس کے ساتھ میری کوئی جان پہچان نہیں تھی ، مجھے اپنے ساتھ اپنے گھر لے آیا۔ اپنی گاڑی میں مجھے مدینہ منورہ کے تمام متبرک آثار کی زیارت کارائی ، روزانہ عشاء کے وقت مجھے اپنے ساتھ لے جاتا،چودہ دن میں نے اس کے ساتھ گزارے۔(صاحب مؤلف مفتی ذاکرحسن نعمانی کوحاجی شجاع خان نے ایک خواب سنایا اور کہنے لگا یہ خواب میں نے آج تک کسی کو نہیں سنایا) میں جتنہ عرصہ مدینہ منورہ میں رہا ساری رات ریاض الجنتہ میں نوافل میں گزار لیتا ۔ پولیس کی طرف سے مجھ پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی بلکہ شُرطہ کہتا’’ ہمارے لیے دعا مانگو‘‘ میں دعا کرتا ’’یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اب یہاں پہنچ چکا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی مجھے واپس گھر بھیجتے ہو یہاں ٹھراتے ہو‘‘ اس دوران خواب دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک اور شخص کے ہمراہ تشریف لائے اورمجھے کہا’’ سامنے والا دامن اٹھاؤ۔‘‘ اور میری بائیں پستان کے نیچے ہاتھ رکھا اور فرمایا ’’ یا اللہ یا اللہ کہو۔‘‘ میں نے ورد شروع کردیا اور مجھ سے فرمایا’’ اپنے گھر جاؤ ، آپ کا گھر خالی ہے۔‘‘اور مجھے کہا ’’ میری طرف سے آپ کو اجازت ہے دم کی ‘‘ تین بیماریاں بت لائیں جن میں سے دو مجھے یاد ہیں یرقان اور خسرہ ۔ تیسری بیماری کا نام بھول گیا ہوں۔ چنانچہ افغانستان میں ایک جگہ خسرہ کی بیماری پھیل گئی ۔ میں نے چند گھرانوں کو دم کیا وہ خسرہ سے محفوظ رہے۔ یرقان کے ایک مریض کو دم کیا وہ بھی ٹھیک ہو گیا۔ اس کے علاوہ میں نے دم کسی پر نہیں آزمایا۔ ہمارے پوچھنے پر حاجی شجاع نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ بیان کیا’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لنگی باندھی تھی ، سر مبارک کی مانگ نکلی ہوئی تھی، دونوں بھوئیں بیچ میں ملی ہوئی تھیں ڈاڑھی مبارک بہت زیادہ لمبی نہیں تھی ، ڈاڑھی مبارک کالی تھی ، کچھ بال سفید تھے، قد درمیانہ تھا، ہاتھ ذرا لمبے تھے۔‘‘ جب خواب سے بیدار ہوا احرام باندھا اور کعبہ کی طرف روانہ ہوا ۔ کوئی ضروری کاغز اور ورقہ میرے ساتھ نہیں تھاکسی نے مجھے روکا نہیں، عمرہ کیا، عشاء کی نماز پڑھی اور اس عرب شیخ کے گھر پہنچ گیا۔ کعبہ شریف کے جوارمیں پندرہ دن قیام کیا۔
وطن واپسی:۔
جدہ سے ایک افغانی کا جس کی جدہ میں دکان تھی کا فون آیا’’ گھر جاؤ گے یا نہیں۔۔۔۔؟‘‘ حالانکہ میں اس کو نہیں جانتاتھا۔ پتا نہیں میرا فون نمبر اس کو کس نے دیا تھا۔ میں نے کہا ’’ میرے کاغزات نہیں ہیں‘‘ وہ آیا اور مجھے لے گیا۔ وہاں سے افغانستان کے سفارت خانے مجھے لے گیا۔ ان حضرات کو میرے بارے میں افغانستان کی اخباری اطلاعات سے پتہ چل چکا تھا۔ جتنی دیر میں آدمی چائے پیتا ہے اتنی دیر میں میرے ضروری کاغزات بنا کر مجھے دئے گے۔ پھر عرب جوازات کے طرف مجھے بھیج دیا گیا۔ ایک عرب میرے انتظار میں تھا،مجھے اپنی کرسی پر بٹھایا، میری تصاویر لیں، بطاقہ لیا۔ سب لوگ انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے اور میرا کام آرام اور عزت سے کردیا۔ تھوڑی دیر میں میرے کاغزات بن گئے ۔ پھر اس نے مجھے سو ریال کھانے کے لیے اکراماً دیے۔ اسناد درست کرنے کے بعد دوبارہ کعبہ آیا۔ پھر کعبہ میں طواف کرتا تھا۔ جمعرات کے دن میزاب رحمت کے نیچے بیٹھا تھا۔ بوقت اشراق ایک آدمی کا فون آیا، افغانی تھا، حاجی نعیم قوم کا نیازی تھا۔ جدہ سے فون کیا ’’ کہاں ہوِِ؟‘‘ میں نے کہا’’ میزاب رحمت کے نیچے بیٹھا ہوں۔‘‘ اس نے کہا’’ گھر کیوں نہیں جاتے‘‘ میں نے کہا’’ جہاز میں جگہ نہیں ،تین ہفتے تک‘‘اس نے کہا’’ مجھے افغان اوقاف نے فون کیا ہے اور اس نے مجھے کہا کہ جدہ ائیرپورٹ جاؤ ۔ ترازو کے ساتھ عینک لگایا ہوا آدمی ہوگا وہ آپ کی سیٹ کا بندو بست کردے گا وہ عرب جس کے پاس رہائش پزیر تھا اس نے اپنی گاڑی میں لے جاکر جدہ میں افغان کے حوالے کیا۔ افغانی نے کہا ’’ جہاز میں جگہ نہیں تین ہفتے تک‘‘ میں نے کہا’’ آپ مجھے وزن والے ترازو تک لے چلو۔‘‘ وہاں پہنچا تو ایک از بک نے پوچھا ’’ کہ آپ وہ آدمی ہیں۔؟؟‘‘ اس کے بعد اس نے ٹکٹ اوکے کرکے میرا سامان بھیج دیا پہر کہا’’ کوئی چیز کم ہے‘‘ میں نے کہا ’’زم زم کا پانی۔۔۔‘‘ اور اس نے پانی بھی دے دیا۔ ائیر پورٹ کی مسجد میں نوافل پڑھے ۔ ایک صاحب نے چائے پلائی اور بس میں بٹھا کر جہاز تک لے آیا۔ جہاز کی بزنس کلاس کی پہلی سیٹ مجھے دی گئی ۔ طیارہ روانہ ہوا ، جب کھانا لگایا گیا تو مجھے وہ کھانا دیا گیا جو جہاز کے پائلٹ کو دیاجاتا ہے۔ صبح سات بجے کابل پہنچا جب جہاز سے اُترا تو دیکھا حکومتی نمائندے استقبال کے لیے کھڑے ہیں، آوازیں شروع ہوئیں حاجی شجاع کون ہے۔۔۔؟ میں نے کہا ’’ میں ہوں‘‘ انہوں نے میرا سامان اٹھا کر سرکاری گاڑی میں رکھا اور مجھے مبارک باد دی۔ پھر کہا’’ اب چلو ٹیلی ویژن پر آپ کے یادگار حج کا پروگرام چلائیں۔‘‘ میں نے کہا’’ میں نے حج شہرت کی خاطر نہیں کیا۔بلکہ رضائے الٰہی کے لیے کیا ہے، پہلے تو آپ نے مجھے حج پر بھیجنے سے انکار کردیا تھا اور اب میری تشہیر کرتے ہو۔‘‘ پہر انہوں نے کہا ہمارے لیے دعا کرو میں نے دعا کردی پہرایک دوست حاجی عبدالمجید کی گاڑی میں بیٹھ کر گھر آیا۔ وہاں دوسرے حاجی دوست عبدالغفار بھی آگئے اور یہ مجھے اپنے ہاں ٹھرانا چاہتے تھے۔ لیکن حاجی عبدالمجید نے کہا یہ ایک باز ہے جسی میں نے پکڑا ہے اس کو کسی کے حوالے نہیں کروں گا۔ حاجی عبدالمجید نے ایک عالی شان دعوت کا انتظام کیا بڑے بڑے امراء اور علماء کو مدعو کیا۔ سب سے ملاقات ہوئی ۔ رات بارہ بجے اپنے گھر قندھار کی طرف روانہ ہوا۔ دور دور سے لوگ ملنے کے لیے آتے تھے۔ رشتہ دار حیران تھے کہ کیا ماجرا ہے اور کہنے لگے اگر آپ کو لوگوں نے حج کرتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو ہم کبھی بھی آپ کی تصدیق نہیں کرتے۔ اس کے بعد افغانستان کی اخبارات میں خبریں چھپیں۔
ختم شد
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
قربان جایئے مخبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فر مان پر" من کان للہ کان اللہ لہ"اللہ ہم سب کو حج بیت اللہ کی سعادت نصیب فرمائے۔ شکریہ داؤد صاحب ۔بڑی ایمان افروز اور اس دور کی داستان شیئر کر نے پر۔واقعی قرون اولیٰ کے روشن ضمیر عاشقین صادقین اس کہانی پر عش عش کریں۔یاد کیجئے جب اللہ نے اپنے خلیل سے فر مایا تھا" اور لوگوں میں حج ( کے فرض ہو نے کا ) اعلان کر دیجئے ( اس اعلان سے ) لوگ تمہارے پاس چلے آئیں گے پیادہ بھی اور دبلی ہو جانے والی اونٹنیوں پر بھی جو کہ دور دراز راستے سے پہنچی ہوں گی" زندہ قوم کے زندہ نبی پر نازل ہو نے والے قرآن کی صداقت کی مثال ایسی زندہ اور کہاں مل سکتی ہے۔
 

ارشاد احمد غازی

وفقہ اللہ
رکن
قربان جایئے مخبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فر مان پر" من کان للہ کان اللہ لہ"اللہ ہم سب کو حج بیت اللہ کی سعادت نصیب فرمائے۔ شکریہ داؤد صاحب ۔بڑی ایمان افروز اور اس دور کی داستان شیئر کر نے پر۔واقعی قرون اولیٰ کے روشن ضمیر عاشقین صادقین اس کہانی پر عش عش کریں۔یاد کیجئے جب اللہ نے اپنے خلیل سے فر مایا تھا" اور لوگوں میں حج ( کے فرض ہو نے کا ) اعلان کر دیجئے ( اس اعلان سے ) لوگ تمہارے پاس چلے آئیں گے پیادہ بھی اور دبلی ہو جانے والی اونٹنیوں پر بھی جو کہ دور دراز راستے سے پہنچی ہوں گی" زندہ قوم کے زندہ نبی پر نازل ہو نے والے قرآن کی صداقت کی مثال ایسی زندہ اور کہاں مل سکتی ہے۔
ھائے ھائے میرے اللہ تیرا کیا کمی ھے میرےدوستوں اور مجھے معہ اہلِ خانہ بار بار حج وعمرہ کی سعادت عطا فرما آمین
 
Top