پودے اور درخت

زوہا

وفقہ اللہ
رکن
images
پودوں کے بغیر نہ تو انسان زندہ رہ سکتا ہے اور نہ جانور۔ جانور پودے کھا کر زندہ رہتے ہیں یا گوشت، گوشت خور جانور ایسے جانوروں کو کھاتے ہیں جن کی زندگی کا انحصار پودوں پر ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پودوں کو خوراک کہاں سے ملتی ہے۔ یہ پودے سورج کی روشنی، پانی اور ہوا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مدد سے اپنی خوراک خود بناتے ہیں۔ ان کی سبز پتیاں اور ڈنڈیاں غذا تیار کرنے کی فیکٹری ہیں۔ خوراک تیار کرنے کے دوران وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو اپنے اندر جذب کرلیتے ہیں اور آکسیجن کو بیکار سمجھ کر باہر نکال دیتے ہیں۔
پھر یہ آکسیجن انسانوں اور جانوروں کے سانس لینے کے کام آتی ہے، کیوں کہ اس کے بغیر ہم زندہ نہیں رہ سکتے۔ سانس لینے کے بعد ہم اسے پھر کاربن ڈائی آکسائیڈ میں تبدیل کردیتے ہیں، بعض پودے زمین سے اپنی ضروریاتی کے وہ تمام اجزا حاصل نہیں کرپاتے جن کی انہیں ضرورت ہے،
لہٰذا وہ اپنی بھوک مٹانے کے لیے کیڑے مکوڑے پکڑتے رہتے ہیں۔ وینس فلائی ٹریپس اور پچر نامی پودے اپنے پھولوں کی خوشبو سے کیڑوں کو بلاتے ہیں اور جب وہ پھول پر بیٹھ جاتے ہیں تو اس کا منہ بند ہوجاتا ہے اور وہ کیڑوں کو ہضم کرجاتے ہیں۔
برسات کے موسم میں عموماً سانپ کی چھتری نما پودے اگتے ہیں، انہیں مشروم کہتے ہیں۔ سرائیکی میں کھمبی کہا جاتا ہے۔ چھتری کے نیچے چھوٹے چھوٹے بیج ہوتے ہیں جو ہوا سے بکھر جاتے ہیں اور پھر ان سے نئے پودے نکل آتے ہیں، لیکن مشروم ایک پھل ہے جو سبزی کے طور پر پکاکر کھایا جاتا ہے۔ مشروم میں پھول نہیں ہوتا۔ پودے کا جو حصہ زمین کے نیچے ہوتا ہے اسی سے یہ غذا حاصل کرتا ہے، کیوں کہ اس کے پتے نہیں ہوتے، اس لیے یہ خود اپنی خوراک نہیں بناسکتا۔
ٹوڈ اسٹول بھی سانپ کی چھتری کی شکل کا ہوتا ہے اور یہ بھی مشروم کی ایک قسم ہے، لیکن یہ زہریلا ہوتا ہے اور کھانے کے کام نہیں آتا، عموماً یہ دائرے کی شکل میں ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پودا دائرے کے مرکزی حصے میں موجود ساری خوراک کھالیتا ہے۔
برساتی جنگلات
برساتی جنگلات میں مختلف پودے اور جانور پائے جاتے ہیں۔ برساتی جنگل کے دس مربع کلو میٹر کے رقبے میں پندرہ سو قسم کے مختلف پھول، 750 قسم کے مختلف درخت، 400 قسم کے مختلف پرندے، 150 قسم کی مختلف تتلیاں، 125 قسم کے مختلف دودھ پلانے والے جانور اور ایک ہزار قسم کے مختلف چھوٹے بڑے رینگنے والے جانور نظر آئیں گے۔ یہ سب اتنے چھوٹے سے رقبے میں پائے جاتے ہیں جو ایک چھوٹے سے قصبے کے برابر ہوگا، پانامہ جیسے چھوٹے سے ملک میں جتنی قسم کے پودے پائے جاتے ہیں وہ پورے یورپ کے پودوں کے برابر ہیں، حالاں کہ یورپ پانامہ سے 14 گنا زیادہ بڑا ہے۔
غذا کے طور پر بہت سی چیزیں برساتی جنگلات سے حاصل کی جاتی ہیں، بہت سی دوائیں برساتی جنگلات کے پودوں سے تیار کی جاتی ہیں۔ گزشتہ تیس برسوں میں مرکزی امریکا میں واقع برساتی جنگلات کا دو تہائی حصہ کاٹا جاچکا ہے اور اس زمین کو مویشی پالنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، جہاں سے ہمیں گوشت حاصل ہوتا ہے۔
ہر سال گرم ممالک کے بیس لاکھ مربع کلو میٹر جنگلات ضائع کردیے جاتےہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ ہر ایک سیکنڈ پر فٹ بال گراونڈ کے برابر کا رقبہ تباہ کیا جارہا ہے۔
 
Top