سلام کرنا کبھی مت بھولنا

تانیہ

وفقہ اللہ
رکن
ایک لڑکا تھا جس کا نام تھا علی ۔ علی بہت اچھا لڑکا تھا ، لیکن اسکی ایک بری عادت تھی اور وہ یہ کہ وہ سلام نہیں کرتا تھا ۔

ایک دن دوپہر کو جب وہ اسکول سے واپس آرہا تھا تو اپنی گھر کے پاس ایک دکان پر گیا اور دکاندار سے بولا :احمد چچا ! مجھے ایک چپس کا پیکٹ اور غبارے چاہئے ہیں ۔

احمد چچا نے اس پر ایک نظر ڈالی اور بولے ! علی تم نے سلام کیوں نہیں کیا ؟ تم کب سے اتنے بے ادب ہو گئے ہو ؟جبکہ اب تم بڑے بھی ہو گئے ہو ! تو پھر کیوں اپنے سے بڑوں کو سلام نہیں کرتے ؟ میرے پاس تمہارے جیسے بے ادب بچوں کے لئے کچھ نہیں ہے ۔ نہ چپس ہے اور نہ ہی غبارے ۔

علی اس واقعہ سے بڑا غمگین ہو گیا۔ دکان سے باہر آگیا اور سیدھا گھر کی طرف چلا گیا ۔ شام کو جب موسم کچھ ٹھنڈا ہوا اور علی نے اپنا اسکول کا کام تمام کر لیا توگھر سے باہر آیا اور اپنے دوست ہادی کے گھر گیا۔وہاں اس نے جب دروازہ پر دستک دی تو ہادی کی والدہ نے دروازہ کھولا ۔ علی نے کہا ! ہادی سو رہا ہے یا جاگ رہا ہے ۔ اس سے کہہ دیجئے کہ فوٹبال لیتا آئے ۔ ہادی کی والدہ علی کے اس رویہ سے بہت ناراض ہو گئیں اور بولیں ! جس بچہ کو سلام کرنا نہ آتا ہو وہ میرے بیٹے کا دوست نہیں ہو سکتا اور یہ کہہ کر گھر کے دروازے کو بند کر دیا ۔

علی اس واقعہ سے ایک بار پھر کافی غمگین ہو گیااور اپنے گھر واپس آگیا ۔ علی کی والدہ نے جب اسے غمگین دیکھا تو اس سے پوچھا تم کیوں اتنا زیادہ غمگین ہو ؟ تب علی نے اپنی والدہ کو ساری بات بتائی ۔ علی کی والدہ نے اس سے کہا ۔ دیکھو بیٹا علی کبھی اپنے سے بڑوں کو سلام کرنا مت بھولنا اور اگر تم بڑوں کو سلام کر و گے تو سب کہیں گے علی کتنا اچھا بچہ ہے ۔

شام میں علی کی والدہ نے اسے پیسے دئے اور کہا : علی جاؤ روٹی کی دکان سے دو عدد روٹی لے آؤ، لیکن روٹیاں گرم اور تازہ لانا !!

جب علی گھر سے باہر روٹی لانے کے لئے نکل رہا تھا تبھی اسکی ماں نے اس سے کہا بیٹا علی دیکھو سلام کرنا مت بھولنا ۔

علی روٹی کی دکان پر گیا تبھی اسے ماں کی سلام کرنے والی بات یاد آئی اور اس نے دکاندار سے کہا ۔ شاکر چچا السلام علیکم

شاکر چچا نے علی کو پیار بھری نظروں سے دیکھا اور جواب دیا وعلیکم السلام ! بیٹے علی کیسے ہو ؟

علی خوش ہوا اور بولا : شاکر چچا مجھے روٹیاں چاہییں۔ شاکر چچا نے کہا کریم جاؤ اچہے اور با ادب بچے کے لئے دو گرما گرم روٹی لیتےآؤ۔

اور اس طرح علی نے عہد کیا کہ اب وہ سبھی کو سلام کرے گا اور اپنے بڑوں کا احترام کرے گا
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
بہت خوب!
کہانی نگار نے کتنے پیارے انداز میں ''السلام قبل الکلام ''کی تر جمانی کی اسی کو کہتے ہیں تعمیری کہانیاں۔بچے تو ایک بہانہ ہیں ؟
اس میں سبق ہے ہم سب کیلئے ۔بیان کیا گیا ۔تمام ازواج مطھرات کا متفقہ فیصلہ ہے کبھی ایسا نہیں ہوا سرکار ﷺ گھر میں تشریف لائیں ہوں اور سلام نہ کیا ہو اور سلام میں پہل اتنی تعجیل سے ساری زندگی ہم ترستے رہے کہ آقا ﷺ کو سلام کر نے میں پہل کرلیں۔
کیا خیال ہے ہمارا آپ کا ؟
'' الرجال قومون علیٰ النساء'' کے نشہ میں مخمور ،سلام بیگم کرلیں تو کرلیں ۔ہم بیگم کو سلام کیوں کریں ۔دیکھئے!
امی حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہا) ۔حضرت حفصہ (رضی اللہ عنہا) حضرت صفیہ(رضی اللہ عنہا) حضرت ام حبیبہ(رضی اللہ عنہا) حضرت زینب بنت جحش(رضی اللہ عنہا)
حضرت میمونہ (رضی اللہ عنہا) کے شوہر نامدار اور حضرت ماریہ قبطیہ (رضی اللہ عنہا) کے آقا کو ،کیا اسوہ پیش کیا امت کے سامنے۔
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانیوالا ۔۔۔۔۔ مرادیں غریبوں کی بر لانیوالا
مصیبت میں غیروں کے کام آنیوالا۔۔۔ وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ،ضعیفوں کا ماویٰ ۔۔۔۔۔۔یتیموں کا والی، غلاموں کا مولیٰ
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا ۔ ۔ ۔۔۔۔۔اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا
صلی اللہ علیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔۔صلی اللہ علیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
اللہ تعالیٰ ہم سب کو سلام کی سنت پر عمل کر نے کی توفیق عطا فرمائے۔

تانیہ جی بیحد شکریہ ،جزاک اللہ احسن الجزا
 

تانیہ

وفقہ اللہ
رکن
شکریہ قاسمی جی یہ کہانی مجھے بھی بہت پسند ہے اور میں اکثر اپنی فیملی میں بچوں کو سناتی بھی ہوں . اور بہت دلچسپ اور سبق آموز اخلاقی تحریر ہے اور سب دلچسپی سے سنتے ہیں
 
Top