ہاتھی کی سونڈ

تانیہ

وفقہ اللہ
رکن
بھئی،کبھی تم نے سوچا کہ ہاتھی کی سونڈ کیسے بنی، تم دیکھتے ہو کہ ہاتھی اپنی سونڈ سے کیسے بڑے بڑے کام لیا ہے۔ مثلاً یہ سونڈ اس کی ناک بھی ہے اور وہ اس سے چیزوں کو سونگھتا ہے،اس سے سانس لیتا ہے، سونڈ کی مدد سے وہ چیزیں پکڑ کر زمین سے اٹھاتا ہے اور جب اسے دوسرے جانوروں سے لڑائی کرنا ہو تو اس وقت وہ اپنی سونڈ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
ہزاروں سال پہلے کی بات ہے، اس زمانے میں ہاتھی کی ناک اتنی لمبی نہیں ہوتی تھی جتنی کہ آج کل ہوتی ہے۔ افریقا میں ہاتھی کا ایک بچہ رہتا تھا۔ یہ ہاتھی بچہ بے حد ذہین اور شرارتی تھا اور دوسرے ذہین اور شریر بچوں کی طرح اس کا کام دن بھر اپنے بڑوں سے مختلف چیزوں کے بارے میں سوالات کرتے رہنا تھا۔ کبھی کبھی وہ اتنے سارے اور اتنے مشکل سوال کرتا تھا کہ اس کے بزرگ جواب دیتے دیتے تنگ آجاتے تھے اور اگر وہ ان کے ڈانٹنے پر خاموش نہیں ہوتا تھا تو پھر اس کی خوب پٹائی لگتی تھی۔
ایک دن صبح صبح اس کے ذہن میں ایک نیا سوال آیا، چنانچہ وہ سب سے پہلے اپنی امی جان کے پاس گیا اور ان سے کہا۔ امی، امی یہ بتائیے کہ مگر مچھ رات کے کھانے میں کیا کھاتا ہے، اس کی امی نے اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے اسے گھورا پھر غصے میں بولی۔ منے، یہاں سے فوراً بھاگ جائو تم دیکھ نہیں رہے کہ میں تمہارے ابا کے لیے کھانا تیار کررہی ہوں، پھر امی نے اسے مارنے کے لیے اپنے اگلے پائوں اٹھائے، لیکن وہ پہلے ہی بھاگ نکلا۔ اب وہ اپنے خالو یعنی شتر مرغ کے پاس آیا، شتر مرغ اپنی دم پھلا پھلا کر جھاڑیوں کے درمیان پھدک رہا تھا، اس کے پورے جسم پر بڑے خوب صورت اور چمکیلے پر تھے لیکن دم کے پر بہت چھوٹے اور کچھ نچے ہوئے لگتے تھے۔
ہاتھی بچہ اپنا پہلا سوال بھول گیا اور بولا، خالو جان، ایک بات بتائیے۔
خالو جان دانہ چگتے چگتے رک گئے اور بولے، ہاں ہاں جلدی سے بولو، دیکھ نہیں رہے، میں کھانا کھا رہا ہوں۔
خالو جان، آپ کے جسم پر بڑے خوب صورت اور لمبے لمبے پر ہیں لیکن آپ کی دم کے پر بہت چھوٹے ہیں، کیا لڑائی میں کسی دوسرے جانور نے نوچ لیے۔
خالو شتر مرغ کو ہاتھی بچے کی بات پر بڑا غصہ آیا، انہوں نے زور سے اپنی چونچ ہاتھی بچے کے سر پر ماری اور بولے، بھاگ جائو، شریر کہیں گے، ورنہ بہت ماروں گا۔
ہاتھی بچہ مار سے بچنے کے لیے بھاگ نکلا، ایک جگہ اسے اپنے لمبے چچا زرافے درختوں کی پتیاں نوچ نوچ کر کھاتے ہوئے نظر آئے، ان کے ہلکے پیلے جسم پر سیاہ رنگ کے بڑے بڑے دھبے اور داغ تھے۔ ہاتھی بچہ فوراً رک گیا اور بولا، چچا جان، چچا جان ایک بات بتائیے۔
ہاں بیٹھا ضرور پوچھو، زرافے چچا پتیاں چباتے ہوئے بولے۔
چچا، چچا آپ کی کھال ویسے تو بڑی خوب صورت اور چمکیلی ہے، لیکن اس پر یہ کالے کالے دھبے کیسے پڑ گئے ہیں، کیا آپ کوئلے کی کان میں گھس گئے تھے۔
بھاگ جائو بدتمیز، ژرافے چچا ایک دم غصے میں آگئے اور انہوں نے اپنی لاتیں اسے مارنے کے لیے اٹھائیں، ہاتھی بچہ مار سے بچنے کے لیے وہاں سے بھاگا تو اسے ایک جگہ اس کے بال دار چچا بندر نظر آئے جو ایک درخت کے نیچے گرے پڑے ناریل اٹھا اٹھا کر پھوڑ رہے تھے اور اندر کا گودا مزے لے لے کر کھا رہے تھے۔
ہاتھی بچہ نے چچا بندر کو دیکھا تو سوچنے لگا، چچا آج درخت پر چڑھ کر ناریل کھانے کے بجائے نیچے گرے ہوئے ناریل پر کیوں گزار کررہے ہیں، پھر چچا بندر سے بولا،چچا جان، ایک بات بتائیے۔
ہاں، ہاں بولا، بیٹا، چچا خوخیاتے ہوئے بولے۔
چچا جان، آج آپ اوپر چڑھ کر تازہ ناریل کھانے کے بجائے نیچے گرے ہوئے باسی ناریل کیوں کھا رہے ہیں۔
چچا ایک دم غصے میں آگئے اور اس کے ایک زور دار پنجہ مار کر بولے۔ بدتمیز دیکھتا نہیں کہ ہمارے پیر میں موچ آگئی ہے، بھاگ یہاں سے ورنہ مادوں گا۔
ہاتھی بچہ وہاں سے بھاگا تو سیدھا اپنی امی جان کے پاس پہنچا، اس کی امی لمبی لمبی گھاس پر منہ مارنے میں مصروف تھیں، انہوں نے پیار سے اسے اپنے پاس بلایا اور تازہ تازہ گھاس پیش کی، کچھ دیر وہ گھاس کھاتا رہا، جب اس کا پیٹ بھر گیا تو اسے یاد آیا کہ اس کی کوئل خالہ دور دور کی سیر کرتی ہیں وہ یقیناً بتاسکیں گی کہ مگر مچھ رات کے کھانے میں کیا کھاتا ہے۔
کوئل خالہ جنگل میں ایک درخت پر بیٹھی کوک رہی تھیں، ہاتھی بچہ ان کے پاس پہنچا اور بولا خالہ جان خالہ جان، ایک سوال پوچھوں، ماریں گی تو نہیں۔
نہیں بیٹا، شوق سے ایک چھوڑ دس سوال پوچھو۔
خالہ جان، یہ بتائیے کہ مگر مچھ رات کے کھانے میں کیا کھاتا ہے۔
خالہ جان سوال سن کر سوچ میں پڑگئیں پھر بولیں، تم بہت شریر ہو بھئی اس سوال کا جواب تو مگر مچھ خود ہی دے سکتا ہے کہ وہ رات کے کھانے میں کیا کھانا پسند کرتا ہے۔
خالہ جان، مگر مچھ کہاں رہتا ہے۔
یہاں سے مشرق کی طرف ایک بہت بڑا دریا ہے، مگرمچھ وہاںرہتا ہے۔
ہاتھی بچہ، مگر مچھ سے ملنے کے لیے مشرق کی طرف روانہ ہوا جنگل کافی گھنا تھا۔ دھوپ چھن چھن کر بمشکل زمین تک پہنچ رہی تھی چھوٹے چھوٹے جانور ہاتھی بچے سے ڈر کر ادھر ادھر بھاگ رہے تھے اور وہ جھومتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں ہوا سیلی ہوگئی اور مچھروں کے غول کے غول نظر آنے لگے۔ تھوڑی دیر میں پانی بہنے کی آواز سنائی دینے لگی، دریا قریب آگیا تھا، دریا کے قریب اس نے جو جانور سب سے پہلے دیکھا وہ ایک آبی سانپ تھا جو ایک درخت کی شاخ سے لٹک رہا تھا، ہاتھی بچہ اس کے قریب رک گیا اور بولا، چچا جان، چچا جان، کیا آپ کا نام مگر مچھ ہے۔
بدتمیز، آبی سانپ نے دم زور سے ہاتھی بچہ کے منہ پر مارے، میں آبی سانپ ہوں اور سانپوں کا سردار ہوں بھاگ جائو۔
ہاتھی بچہ آگے بڑھا تو دریا آگیا،۔ دریا کے کنارے سے ایک جانور آدھا پانی میں ڈوبا اپنا سر پانی سے باہر نکالے بے حس و حرکت لیٹا ہوا تھا یہ مگر مچھ تھا۔
چچا جان، چچا جان، ہاتھی بچہ نے اسے آواز دی مگر نے ایک آنکھ کھول کر۔۔۔۔ دیکھا تو سامنے ایک موٹے تازے ہاتھی بچے کو دیکھ کر اس کے منہ میں پانی بھر آیا، لیکن ہاتھی بچہ اس سے کافی فاصلے پر تھا اور وہ اسے پکڑ کر شکار نہیں کرسکتا تھا، اس لیے کاہلی سے بولا، کیا بات ہے بھئی، کیوں تنگ کررہے ہو۔
چچا جان، چچا جان، کیاآپ نے مگر مچھ دیکھا ہے۔
چچا مگر مچھ نے اپنی دونوں آنکھیں کھول دیں۔ ہاتھی بچہ کو گھور کر دیکھا پھر بولا، کیوں تمہیں مگر مچھ سے کیا کام ہے۔
میں اس سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ رات کے کھانے میں کیا کھانا پسند کرتا ہے، ہاتھی بچہ نے کہا۔
رات کے کھانے کا نام سن کر مگرمچھ کے منہ میں پانی بھر آیا، وہ دل ہی دل میں بولا۔
رات کے کھانے ہاتھی بچے کا گوشت کھانے کو ملے تو مزہ آجائے، لیکن کیسے۔
پھر وہ ہاتھی بچہ سے بولا، میاں صاحب زادے، آپ میرے قریب آئیں تو میں چپکے سے آپ کے کان میں بتائوں کہ مگر مچھ رات کے کھانے میں کیا پسند کرتا ہے۔
اچھا، ہاتھی بچہ جواب سن کر خوش ہوگیا اور اس نے دریا کے کنارے پر آکر اپنا کان مگر مچھ کے بالکل قریب کردیا، مگر مچھ نے ہاتھی بچے کو اتنے قریب دیکھا تو اپنی جگہ سے اچھلا اور ہاتھی بچہ کا کان پکڑنے کی کوشش کی، ہاتھی بچہ مگر مچھ کے رات کے کھانے کے بارے میں سوال پوچھ کر بہت سارے بزرگوں سے مار کھا چکا تھا اس لیے بے حد محتاط تھا، چنانچہ اس نے فوراً اپنا کان پیچھے کرلیا۔ مگر مچھ اس کا کان تو نہ پکڑ سکا لیکن اس کی ناک کی نوک اس کے منہ میں آگئی جسے اس نے زور سے پکڑ لیا۔
ہاتھی بچہ زور سے چلایا، چچا جان، چچا جان، مجھے چھوڑئیے، میری ناک ٹوٹ جائے گی۔
مگر مچھ اس کی ناک پکڑے پکڑے بولا، میں رات کے کھانے میں ہاتھی بچہ کو کھانا پسند کرتا ہوں۔
یہ سن کر تو ہاتھی بچے کی جان نکل گئی، اس نے اپنی ناک چھڑانے کے لیے پورا زور لگایا، ادھر مگرمچھ نے اس کی ناک کو پوری طاقت سے پکڑ کر کھینچا، دونوں میں خوب زور آزمائی ہونے لگی۔ آبی سانپ بھی اس زور آزمائی کو دیکھنے کے لیے قریب آگیا۔
جنگل کے دوسرے چھوٹے بڑے جانور، خرگوش، گلہریاں اور چوہے وغیرہ بھی اس لڑائی کا منظر دیکھنے کےلیے باہر نکل آئے۔ کبھی مگر مچھہ ہاتھی بچہ کو پانی کے اندر کھینچ لیتا اور کبھی ہاتھی بچہ مگر مچھ کو باہر کھینچ لاتا، اس کھینچا تانی میں ہاتھی بچے کی ناک جو پہلے ایک جوتے سے زیادہ بڑی نہیں تھی کھینچ کر کافی لمبی ہوگئی، سب جانورخرگوش اور گلہریاں وغیرہ زور زور سے تالیاں بجانے لگے۔ ہاتھی بچہ جب اپنی ناک چھڑانے میں ناکام رہا تو مدد کے لیے چلایا، تماشا دیکھنے والے سب جانوروں کی ہمدردیاں ہاتھی بچے کے ساتھی تھیں کیوں کہ مگر مچھ ان چھوٹے چھوٹے جانوروں کو بغیر ڈکار لیے ہضم کرجاتا تھا لیکن وہ ہاتھی بچہ کی کوئی مدد نہیں کرسکتے تھے۔
جب ہاتھی بچے نے دیکھا کہ سب چھوٹے جانور مگر مچھ سے ڈرتے ہیں تو چلایا، چچا سانپ، چچا سانپ، مجھے بچائیے۔
آبی سانپ بولا۔ تم نے دیکھا، مگر مچھ کتنا خراب جانور ہے اور تم نے مجھے مگر مچھ کہا تھا۔
چچا جان، مجھے معاف کردیجئے، ہاتھی بچے نےکہا۔
آبی سانپ نے یہ سن کر اپنی دم پوری طاقت سے مگر مچھ کے ماری، مگر مچھ نے ہاتھی بچے کی ناک فوراً چھوڑی اور دریا میں غوطہ لگاگیا۔
ہاتھی بچہ فوراً دریا کے کنارے سے دور ہوگیا کہ کہیں مگر مچھ دوبارہ اس کی ناک نہ پکڑلے۔
بیٹا، آبی سانپ بولا، جائو تم اب اپنے گھر جائو۔
ہاتھی بچہ بولا، چچا جان، میں اپنے گھر نہیں جاسکتا میری ناک اتنی لمبی ہوئی ہے کہ میری امی میری پٹائی لگائیں گی، میں اپنی ناک کے سکڑنے کا انتظار کروں گا۔
بیٹا، آبی سانپ نے کہا، اللہ جو کرتا ہے اچھا ہی کرتا ہے بعض اوقات کسی کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کیا چیز اس کے لیے اچھی اور کیا چیز بری، تمہیں اپنی شکل کے بگڑ جانے پر افسوس نہیں کرنا چاہیے۔
لیکن ہاتھی بچہ مسلسل اپنی ناک لمبی ہوجانے پر افسوس کرتا رہا، اچانک کہیں سے ایک مکھی اڑتی ہوئی آئی اور اس کے سر پر بیٹھ گئی، ہاتھی بچہ نے مکھی کو اڑانے کے لیے اپنی ناک ہلائی جو اب سونڈ بن چکی تھی، مکھی سونڈ کی زد میں آکر وہیں گر پڑی۔ تم نے دیکھا، آبی سانپ نے ایک درخت پر لگے ہوئے کچھ پھلوں کی طرف اشارہ کیا، یہ پھل کافی بلندی پر لگے ہوئے تھے اور ہاتھی بچہ ان کے قریب نہیں پہنچ سکتا تھا، اچانک اس نے اپنی سونڈ اٹھائی ور کئی پھول توڑ ڈالے، اب اسے اپنی سونڈ کا اصل فائدہ معلوم ہوا، اس نے دریا کے کنارے رہنے والے چھوٹے جانوروں اور آبی سانپ کو خدا حافظ کہا اور واپس اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ارے واہ
کتنی اچھی کہانی ہے۔تانیہ یہ کہانی ضرور ابو بکر سلمہ کو سنانا
 
Top