تبلیغ کا طریقہ۔ درس قرآن

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
آج ایک ساتھی نے ایک چھوٹا سا دس منٹ کا درس تیار کرنے کی فرمائش کی اور میں نے تیار کر کے انہیں بھیجا تو خیال آیا کہ یہاں بھی شئیر کر دوں۔ شاید کسی کا بھلا ہو جائے۔

الحمد للہ رب العالمین۔ و العاقبۃ للمتقین۔ والصلاۃ و السلام علی سید الانبیاء و المرسلین۔ اما بعد۔ قال اللہ تبارک و تعالی فی کلامہ: وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا (41) إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ يَاأَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنْكَ شَيْئًا (42) يَاأَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءَنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا (43) يَاأَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلرَّحْمَنِ عَصِيًّا (44) يَاأَبَتِ إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَمَسَّكَ عَذَابٌ مِنَ الرَّحْمَنِ فَتَكُونَ لِلشَّيْطَانِ وَلِيًّا۔ صدق اللہ العظیم

میرے محترم بھائیو اور دوستو! آج کے اس درس میں جن آیات کا ذکر ہوا ہے ان میں اللہ تبارک و تعالی نے اپنے ایک عظیم الشان پیغمبر ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اپنے والد کو جو دین کی دعوت تھی اس کا ذکر کیا ہے۔ جہاں ان آیات میں ابراہیم علیہ و علی نبینا الصلاۃ و السلام کا قصہ بیان کیا ہے وہیں تبلیغ دین کے طریقہ کا بھی ذکر ہے۔ دین کی تبلیغ کرنے کو تو ہر کوئی تیار ہوتا ہے لیکن یہ تبلیغ کرنی کیسے ہے؟ کیا اس کے لیے کوئی لٹھ اٹھانا ہے یا زبان سے سمجھانا ہے؟ زبان سے سمجھانا ہے تو بھلا کیسے سمجھانا ہے؟ قرآن کریم کی ان آیات میں یہ باتیں دو طرح سے پتا چلتی ہیں۔

پہلے اس کا ترجمہ کر لیتے ہیں: اے نبی ﷺ کتاب میں ابراہیم کا ذکر کیجیے۔ بے شک وہ سچے نبی تھے۔ جب انہوں نے اپنے والد کو کہا اے میرے ابا! آپ ان کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو نہ سنتے ہیں، نہ بولتے ہیں اور نہ آپ کو کوئی فائدہ دے سکتے ہیں؟ اے میرے ابا! میرے پاس ایک ایسا علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا اس لیے میری پیروی کریں تاکہ میں آپ کو درست راستے پر لے جاؤں۔ اے میرے ابا! شیطان کی پیروی نہ کریں۔ بے شک شیطان رحمان کا نافرمان ہے۔ اے میرے ابا! مجھے ڈر لگتا ہے کہ آپ کو رحمان کا عذاب پکڑ لے اور آپ شیطان کے ساتھی ہو جائیں۔

میرے بھائیو! تبلیغ دین کا طریقہ یہ ہے کہ پیار بھی ہو اور ڈانٹ بھی، عقل بھی ہو اور جذبات بھی، خوشی بھی ہو اور ڈراوا بھی، دلیل بھی ہو اور دعوی بھی۔ تو یہ کمال تبلیغ ہے۔ آپ ان آیات میں دیکھیں یا ابت۔۔۔۔۔۔ اے میرے ابا! کیا پیار اور محبت کا اظہار ہے ان الفاظ میں اور ساتھ ہی لم تعبد مالایسمع سے ڈانٹ اور بے عقلی کی طرف اشارہ بھی ہے۔ لا یغنی عنک شیئا سے عقل بھی دلائی جا رہی ہے کہ جب وہ تمہارے کسی کام کا نہیں تو اس کے آگے جھکتے کیوں ہو؟ اور فاتبعنی سے جذبات پدری کو ابھارا بھی جا رہا ہے کہ میں آپ کا بیٹا آپ کو سیدھا راستہ دکھاؤں گا۔ صراطا سویا سے درست راستے کی خوشی بھی دی جا رہی ہے اور ساتھ ساتھ اسی وقت یمسک عذاب من الرحمان سے ڈرایا بھی جا رہا ہے۔ لا تعبد الشیطان کا دعوی بھی ہے اور ان الشیطان کان للرحمان عصیا کی دلیل بھی موجود ہے۔ تو میرے بھائیو یہ کمال تبلیغ ہے جو اللہ جل جلالہ نے ہمیں ان آیات میں سکھایا ہے۔ اگر ہمیں دعوت کا کام موثر طریقے سے کرنا ہے، دین کو پھیلانا اور پہنچانا ہے تو یہ سب پہلو بھی نظر میں رکھنے ضروری ہیں۔


یہ تو ایک بات تھی۔ یہی آیات تبلیغ کے طرز کے ایک اور پہلو اور انداز کو بھی واضح کرتی ہیں۔ ان آیات کے سب سے پہلے مخاطب مشرکین مکہ ہیں۔ اور وہ ابراہیم علیہ السلام کی ذریت میں سے تھے اور یہ دعوی کرتے تھے کہ وہ دین ابراہیمی پر ہیں۔ تو اللہ نے ان کے سامنے دین ابراہیمی کو واضح کر کے رکھ دیا۔ علامہ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں: يقول تعالى لنبيه محمد صلى الله عليه وسلم (1) : واذكر في الكتاب إبراهيم واتله على قومك، اللہ پاک اپنے نبی محمد ﷺ سے فرما رہے ہیں کہ کتاب میں ابراہیم کا ذکر کرو اور اسے اپنی قوم پر پڑھو۔ یہ بتوں کی پوجا کرتے ہیں۔ انہیں بتاؤ ابراہیم کیسے تھے؟ ان کا دین کیا تھا؟ ان کا عمل کیا تھا؟

تو تبلیغ دین کا دوسرا پہلو جو ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جسے تبلیغ کرنی ہو اسے اس چیز کے ذریعے تبلیغ کرو جسے وہ مانتا ہے۔ کسی یہودی یا عیسائی کو تبلیغ کرنی ہے تو وہ اللہ کو مانتا ہے اسے اس طریقے سے تبلیغ کرو لیکن اگر کسی دہریے کو تبلیغ کرنی ہے تو وہ اللہ کو نہیں مانتا۔ اسے پہلے کائنات کے مظاہر سے اللہ کو منواؤ پھر آگے بتاؤ۔ کسی مشرک کو تبلیغ کرنی ہے تو وہ اللہ کو تو مانتا ہے لیکن ساتھ اور بھی چار سو خداؤں کو پوجتا ہے تو اس سے پہلے ان خداؤں کی نفی کرواؤ اللہ کی بات کے ذریعے پھر تبلیغ کرو۔

تو خلاصہ کلام یہ ہے میرے بھائیو کہ تبلیغ دین کے طریقے ان آیات میں بیان ہوئے ہیں اور ان طریقوں کو اگر ہم چند الفاظ میں کہنا چاہیں تو وہ یہ ہیں کہ تبلیغ دین حکمت و دانائی کے ساتھ ضروری ہے ورنہ بسا اوقات بجائے فائدہ کے نقصان دے جاتی ہے۔

اللہ پاک ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
 

اسران غازی

وفقہ اللہ
رکن
بہت ہی
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
آج ایک ساتھی نے ایک چھوٹا سا دس منٹ کا درس تیار کرنے کی فرمائش کی اور میں نے تیار کر کے انہیں بھیجا تو خیال آیا کہ یہاں بھی شئیر کر دوں۔ شاید کسی کا بھلا ہو جائے۔

الحمد للہ رب العالمین۔ و العاقبۃ للمتقین۔ والصلاۃ و السلام علی سید الانبیاء و المرسلین۔ اما بعد۔ قال اللہ تبارک و تعالی فی کلامہ: وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا (41) إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ يَاأَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنْكَ شَيْئًا (42) يَاأَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءَنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا (43) يَاأَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلرَّحْمَنِ عَصِيًّا (44) يَاأَبَتِ إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَمَسَّكَ عَذَابٌ مِنَ الرَّحْمَنِ فَتَكُونَ لِلشَّيْطَانِ وَلِيًّا۔ صدق اللہ العظیم

میرے محترم بھائیو اور دوستو! آج کے اس درس میں جن آیات کا ذکر ہوا ہے ان میں اللہ تبارک و تعالی نے اپنے ایک عظیم الشان پیغمبر ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اپنے والد کو جو دین کی دعوت تھی اس کا ذکر کیا ہے۔ جہاں ان آیات میں ابراہیم علیہ و علی نبینا الصلاۃ و السلام کا قصہ بیان کیا ہے وہیں تبلیغ دین کے طریقہ کا بھی ذکر ہے۔ دین کی تبلیغ کرنے کو تو ہر کوئی تیار ہوتا ہے لیکن یہ تبلیغ کرنی کیسے ہے؟ کیا اس کے لیے کوئی لٹھ اٹھانا ہے یا زبان سے سمجھانا ہے؟ زبان سے سمجھانا ہے تو بھلا کیسے سمجھانا ہے؟ قرآن کریم کی ان آیات میں یہ باتیں دو طرح سے پتا چلتی ہیں۔

پہلے اس کا ترجمہ کر لیتے ہیں: اے نبی ﷺ کتاب میں ابراہیم کا ذکر کیجیے۔ بے شک وہ سچے نبی تھے۔ جب انہوں نے اپنے والد کو کہا اے میرے ابا! آپ ان کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو نہ سنتے ہیں، نہ بولتے ہیں اور نہ آپ کو کوئی فائدہ دے سکتے ہیں؟ اے میرے ابا! میرے پاس ایک ایسا علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا اس لیے میری پیروی کریں تاکہ میں آپ کو درست راستے پر لے جاؤں۔ اے میرے ابا! شیطان کی پیروی نہ کریں۔ بے شک شیطان رحمان کا نافرمان ہے۔ اے میرے ابا! مجھے ڈر لگتا ہے کہ آپ کو رحمان کا عذاب پکڑ لے اور آپ شیطان کے ساتھی ہو جائیں۔

میرے بھائیو! تبلیغ دین کا طریقہ یہ ہے کہ پیار بھی ہو اور ڈانٹ بھی، عقل بھی ہو اور جذبات بھی، خوشی بھی ہو اور ڈراوا بھی، دلیل بھی ہو اور دعوی بھی۔ تو یہ کمال تبلیغ ہے۔ آپ ان آیات میں دیکھیں یا ابت۔۔۔۔۔۔ اے میرے ابا! کیا پیار اور محبت کا اظہار ہے ان الفاظ میں اور ساتھ ہی لم تعبد مالایسمع سے ڈانٹ اور بے عقلی کی طرف اشارہ بھی ہے۔ لا یغنی عنک شیئا سے عقل بھی دلائی جا رہی ہے کہ جب وہ تمہارے کسی کام کا نہیں تو اس کے آگے جھکتے کیوں ہو؟ اور فاتبعنی سے جذبات پدری کو ابھارا بھی جا رہا ہے کہ میں آپ کا بیٹا آپ کو سیدھا راستہ دکھاؤں گا۔ صراطا سویا سے درست راستے کی خوشی بھی دی جا رہی ہے اور ساتھ ساتھ اسی وقت یمسک عذاب من الرحمان سے ڈرایا بھی جا رہا ہے۔ لا تعبد الشیطان کا دعوی بھی ہے اور ان الشیطان کان للرحمان عصیا کی دلیل بھی موجود ہے۔ تو میرے بھائیو یہ کمال تبلیغ ہے جو اللہ جل جلالہ نے ہمیں ان آیات میں سکھایا ہے۔ اگر ہمیں دعوت کا کام موثر طریقے سے کرنا ہے، دین کو پھیلانا اور پہنچانا ہے تو یہ سب پہلو بھی نظر میں رکھنے ضروری ہیں۔

یہ تو ایک بات تھی۔ یہی آیات تبلیغ کے طرز کے ایک اور پہلو اور انداز کو بھی واضح کرتی ہیں۔ ان آیات کے سب سے پہلے مخاطب مشرکین مکہ ہیں۔ اور وہ ابراہیم علیہ السلام کی ذریت میں سے تھے اور یہ دعوی کرتے تھے کہ وہ دین ابراہیمی پر ہیں۔ تو اللہ نے ان کے سامنے دین ابراہیمی کو واضح کر کے رکھ دیا۔ علامہ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں: يقول تعالى لنبيه محمد صلى الله عليه وسلم (1) : واذكر في الكتاب إبراهيم واتله على قومك، اللہ پاک اپنے نبی محمد ﷺ سے فرما رہے ہیں کہ کتاب میں ابراہیم کا ذکر کرو اور اسے اپنی قوم پر پڑھو۔ یہ بتوں کی پوجا کرتے ہیں۔ انہیں بتاؤ ابراہیم کیسے تھے؟ ان کا دین کیا تھا؟ ان کا عمل کیا تھا؟

تو تبلیغ دین کا دوسرا پہلو جو ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جسے تبلیغ کرنی ہو اسے اس چیز کے ذریعے تبلیغ کرو جسے وہ مانتا ہے۔ کسی یہودی یا عیسائی کو تبلیغ کرنی ہے تو وہ اللہ کو مانتا ہے اسے اس طریقے سے تبلیغ کرو لیکن اگر کسی دہریے کو تبلیغ کرنی ہے تو وہ اللہ کو نہیں مانتا۔ اسے پہلے کائنات کے مظاہر سے اللہ کو منواؤ پھر آگے بتاؤ۔ کسی مشرک کو تبلیغ کرنی ہے تو وہ اللہ کو تو مانتا ہے لیکن ساتھ اور بھی چار سو خداؤں کو پوجتا ہے تو اس سے پہلے ان خداؤں کی نفی کرواؤ اللہ کی بات کے ذریعے پھر تبلیغ کرو۔

تو خلاصہ کلام یہ ہے میرے بھائیو کہ تبلیغ دین کے طریقے ان آیات میں بیان ہوئے ہیں اور ان طریقوں کو اگر ہم چند الفاظ میں کہنا چاہیں تو وہ یہ ہیں کہ تبلیغ دین حکمت و دانائی کے ساتھ ضروری ہے ورنہ بسا اوقات بجائے فائدہ کے نقصان دے جاتی ہے۔

اللہ پاک ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
پیارا ہے، پیارے
 
Top